
ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان
شاہ میر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا کھانے کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا! کفگیر سے اُٹھنے والا شور اور چوڑیوں کی کھنک آپس میں
![]()

شاہ میر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا کھانے کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا! کفگیر سے اُٹھنے والا شور اور چوڑیوں کی کھنک آپس میں
![]()

تین گھنٹے قطار میں کھڑا رہنے کے بعد میری باری آنے والی تھی مگر بڑی اماں کب سے آگے کھڑی شناختی کارڈ کا فارم وصول
![]()

جیسے ہی میسج کی بیپ بجی اس نے فورا موبائل اٹھایا اور میسج پڑھنے لگی۔ چہرے پر مدھم مسکراہٹ بکھر گئی۔ الٹے ہاتھ سے بریڈآملیٹ
![]()

یہ لاہور کے جدیدپوش علاقے کا پچھلا حصہ ہے جہاں کہیں کہیں خودرو جھاڑیوں اور جنگلی گھاس کی بہتات ہے اور اسی حصے کے بیچوں
![]()

آئیے! میں آپ کو اس پری پیکر سے متعارف کرواتا ہوں۔ میری اجلی صبح کا آغاز اس نازنین کے دیدار سے ہوتا ہے۔ سورج کی
![]()

’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘وہ درخت کے موٹے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ ایک دم سے چونک کر اٹھ بیٹھا۔گھبرا کر چاروں
![]()

ہوا کی سرسراہٹ اور وحشت زدہ سناٹے کو چیرتے ہوئے گھوڑے کے قدموں کی ٹاپ دور دور تک گونج رہی تھی۔ وہ ہر شے بے
![]()

”نل میں پانی نہیں آ رہا۔ کیا مصیبت ہے؟ اب منہ کیسے دھوؤں؟” ریحان نے سنک پر کھڑے ہو کر شور مچایا تھا۔چہرے پر صابن
![]()

سات بج کر پچپن منٹپر اس کی آنکھ کھل گئی ۔ سستی سے انگڑائی لیتی وہ اٹھ بیٹھی تھی ۔ بالوں کو پونی ٹیل میں
![]()

”پیارے بچے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو
![]()