
سائیں —- سارہ خان
سائیں! سنو تو، بہت درد ہے۔ جسم تھر کی خشک سالی سہتی ہوئی زمین کی طرح دراڑوں سے بھرا ہے سائیں۔ یہ رخنے بھی عام
سائیں! سنو تو، بہت درد ہے۔ جسم تھر کی خشک سالی سہتی ہوئی زمین کی طرح دراڑوں سے بھرا ہے سائیں۔ یہ رخنے بھی عام
اُداس موسم کی ایک سرد شام ،اُس خزاں گزیدہ شجرکا وجوداپنی پیشانی پر کئی داستانیں رقم کیے کھڑا تھا ۔موسم ِ ِبرگ ریز کا شاخسانہ
شگفتہ نازایک نرم ونازک احساس ، جس نے 1950ء میں تقسیمِ ہند کے بعد دہلی سے لاہور منتقل ہوئے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا
”امی تصویریں دیکھیں لیزا کی؟ کیسی لگیں آپ کو؟” فاخر نے اشتیاق سے پوچھا۔ ”ہاں! اچھی پیاری لڑکی ہے، مگر ہے کون؟” ”امی میری کلاس
محبت کا ستایا ہوا انسان اکثر بھٹک جاتاہے، وہ بھی اسی سفر کی ایک تھکی ماندی مسافر تھی۔ ”اماں ابھی نماز کا وقت ہے؟” اس
”محبت کی کہانی دنیا میں سب جگہ ایک جیسی ہوتی ہے۔” یہ پہلا جملہ جو میں نے اُس سے سُن کر اپنے آپ کو دنیا
”اماں تجھے میری قسم مان لے نا اس بار…” اس نے نویں بار ماں کی منت کی تھی لیکن دوسری طرف مجال ہے کہ کوئی
لڑکیوں کو منہ دکھائی میں کنگن ملتے ہیں، لاکٹ ملتے ہیں اور مجھے ملا ”جمی بے چارہ”۔ جب میں رخصت ہوکر سسرال آئی تو دروازے
” شکر ہے بھئی نکل آئے دکان سے۔ آج تو لگ رہا تھا کہ دم ہی گھٹ جائے گا۔ توبہ کتنا رش تھا۔”فائزہ نے اپنے
”سنو! مجھے تم مجھے لوریوں کا پیکٹ لا کر دے سکتی ہو؟” میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک معصوم سا بچہ میلے سے کپڑوں