
ماشکی — ہما شہزاد
”فراز اُٹھ جا! پانی ختم ہو گیا ہے جا کے بالٹی بھر لا۔” پروین نے ہاتھ میں پکڑی بالٹی زمین پر رکھی اور خود بھی
![]()

”فراز اُٹھ جا! پانی ختم ہو گیا ہے جا کے بالٹی بھر لا۔” پروین نے ہاتھ میں پکڑی بالٹی زمین پر رکھی اور خود بھی
![]()

”پتھر کا دور واپس آگیا ہے.. اور اب کی بار سب کچھ پتھر کا بنا کر دم لے گا۔” وہ کمرے میں بیٹھے ہم کلامی
![]()

یہ شاید 1988ء کے آس پاس کی بات ہے، یاد نہیں کیوں میں ان دنوں گائوں گیا ہوا تھا۔ باہر زمینوں میں ہریالی تھی، یعنی
![]()

نہ جانے اس سے پہلے کا موسم کیسا تھا۔ کسی بہار کسی خزاں کا کچھ پتہ نہیں تھا آگاہی کو صرف کچھ نقوش چھوڑے تھے۔
![]()

میں اس وقت جس جگہ پر موجود ہوں وہ میرا کمرہ ہے، جہاں فی لحال نیم تاریکی ہے۔ کمرے کا احاطہ خاصہ تنگ ہے۔ عقبی
![]()

وہ ایک ادھوری زندگی گزار رہا تھا۔ بعض لوگ ساری عمر زندہ رہنے کے باوجود مکمل زندگی نہیں گزار پاتے۔ مکمل زندگی بہت کم لوگوں
![]()

صبح کے لگ بھگ سات بج رہے تھے جب وہ جھولا جسے میں بڑے مزے سے جھول رہا تھا، اچانک سے آنے والے زلزلے سے
![]()

ربیع الاول کا مہینہ چل رہا تھا اور روز کہیں نہ کہیں محفلِ میلاد منعقد ہورہی تھی۔ کہیں صرف مرد حضرات کی محفل تو کہیں
![]()

”موٹا آلو گول گول ۔۔۔۔ کر کے کھا رول رول۔۔۔” اعتزاز جیسے ہی ناشتے کی میز پر آیاربیعہ اور فیض نے لہک لہک کر گنگنانا
![]()

حسبِ معمول کلیسا بڑی دل جمعی سے کام چوری میں مصروف تھی، لیکن ہائی وے پر تیزی سے گزرتی گاڑیوں میں بیٹھے مسافروں کے پاس
![]()