میرے پیارے اللہ!
آپ کیسے ہیں؟
میرا نام قلبِ مومن ہے۔ میری عمر آٹھ سال ہے اور میں اپنی ممی کے ساتھ رہتا ہوں۔
آپ مجھے جانتے ہیں نا ؟کیوں کہ آپ نے مجھے پیدا کیا۔ لیکن میں پھر بھی آپ کو اپنی ایک تصویر بھیج رہا ہوں تاکہ میں آپ کو یاد آجائوں۔
آپ نے اتنے بہت سارے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ مجھے بھول گئے ہوں حالانکہ ممی کہتی ہیں۔ ہم تو اللہ کو بھول سکتے ہیں، لیکن اللہ ہمیں کبھی نہیں بھولتا۔
آپ کو بہت سارے لوگ خط لکھتے ہوں گے۔ میں سوچتا ہوں آپ اتنے سارے خط کیسے پڑھتے ہوں گے۔۔ پر ممی کہتی ہیں آپ اپنا ہر خط پڑھتے ہیں۔۔ وہ بھی خود۔۔۔
مجھے یہ نہیں پتا کہ آپ کہاں رہتے ہیں لیکن ممی کہتی ہیں آپ وہاں رہتے ہیں جہاں کوئی نہیں رہتا۔۔آسمان پر۔۔ میں تو آسمان تک نہیں جا سکتا لیکن آپ کو خط یہاں سے بھیج رہا ہوں کیونکہ آپ تو اپنی ڈاک ہر جگہ سے لے لیتے ہیں۔۔ یہ بھی مجھے ممی نے ہی بتایا۔
میرا خط جلدی سے پڑھ لیں اور پھر مجھے خط کا جواب ھیجیں۔ مجھے آپ سے ایک کام ہے۔۔ اور یہ کام کوئی اور نہیں کرسکتا۔ آپ میرے خط کا جواب بھیجیں گے تو پھر اگلے خط میں آپ کو وہ کام بتائوںگا۔
میں نے خط پرurgent بھی لکھا ہے تاکہ آپ خط جلدی سے پڑھ لیں لیکن ممی کہتی ہیں، ہر کام صبر سے کرنا چاہیے کیونکہ صبر کرنا نیکی ہے، میں بھی صبر سے آپ کے خط کا انتظار کروں گا، تاکہ ایک نیکی بھی کرلوں کیونکہ ممی نے مجھے بتایا ہے، آپ کو نیکیاں اچھی لگتی ہیں، مجھے بھی اچھی لگتی ہیں۔
میرے پاس ایک ڈائری ہے جس میں، میں ہر روز اپنی ہر نیکی لکھتا ہوں۔۔۔ اور اُسی ڈائری میں اپنے گناہ بھی لکھتا ہوں۔
ممی کہتی ہیں۔ اس طرح کرنے سے مجھے یاد رہے گا کہ میں ہر روز اچھے کام زیادہ کرتا ہوں کہ بُرے کام۔
میں روز رات کو اپنی ڈائری چیک کرتا ہوں اور اگر بُرے کام زیادہ کیے ہوں تو پریشان ہوتا ہوں۔
ممی کہتی ہیں اگر میں توبہ کرلیا کروں تو میرے بُرے کام اور گناہ غائب ہو جائیں گے۔
میں ہر روز ایسا ہی کرتا ہوں۔ توبہ کرکے سوتا ہوں تو صبح میری ڈائری خالی ہوتی ہے۔ ممی کہتی ہیں وہ آپ کے کہنے پر ربر سے میرے سارے گناہ مٹا دیتی ہیں۔
Thank you for that.
آپ بہت اچھے ہیں۔ اب آپ تھک گئے ہوں گے۔ میں بھی تھک گیا ہوں۔ آپ آرام کریں، میں بھی سونے جارہاہوں۔
آپ کا قلبِ مومن!
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
دروازے کے باہر جو شخص کھڑا تھا، اُسے مومن نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اگر کبھی دیکھا بھی تھا تو اپنے باپ کی دکھائی ہوئی کسی تصویر میں اُس کا چہرہ اور اس کے سر داڑھی کے بال ایک جیسے سفید تھے۔ بہت ہلکی داڑھی، بہت گھنے سر کے بال اور بڑھاپے میں بھی ہیرے کی کنی جیسی چمکتی خوب صورت شہد رنگ آنکھیں جو قلبِ مومن پر جمی تھیں۔ کسی مقناطیس کی طرح۔
”قلبِ مومن؟” قلبِ مومن نے اُس دراز قد بوڑھے آدمی کی زبان سے اپنا نام سُنا، ایک اشتیاق بھرے لہجے میں۔۔۔ لیکن اُس نے جواب دینے کے بجائے اُس بوڑھے آدمی کے عقب میں اپنے باپ کے وجود کو کھوجنے کی کوشش کی۔
وہاں کوئی نہیں تھا۔ صرف وہی بوڑھا شخص تھا اور اُس کا ایک بیگ۔ قلبِ مومن نے بے اختیار پلٹ کر اپنی ماں کو دیکھا۔ اُس کے چہرے پر آنکھوں میں اُسے وہی مایوسی نظر آئی جو اُس کے اپنے چہرے اور آنکھوں میں تھی۔
”مومن! تمہارے دادا۔۔” اُس نے ماں کو بالآخر کچھ بولتے سُنا۔
وہ اب اُس کا ہاتھ پکڑے اُس شخص کی طرف بڑھا رہی تھی۔ مومن نے سر اُٹھا کر ماں کو دیکھا پھر سامنے کھڑے اُس شخص کو جو اب پنجوں کے بل اُس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔ اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے، اُسے دیکھتے ہوئے۔
”میرے بابا کہاں ہیں؟” اُس نے اُس شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھا تھا۔
”وہ میرے پاس نہیں ہے۔” مومن کے سوال کا جواب اُس نے مومن کو نہیں دیا۔ اُس کے عقب میں کھڑی حسنِ جہاں کودیا تھا۔
”وہ میرے پاس کبھی نہیں آیا۔۔” اُس نے اس بار وہ جملہ قلبِ مومن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ قلبِ مومن کو لگا اُس کے پیچھے کھڑی حسنِ جہاں پیچھے ہٹی ہے، بے اختیار گردن موڑ کر اُس نے ماں کو دیکھا۔ وہ واقعی اب اُس کے پیچھے نہیں تھی۔ وہ دروازے کی چوکھٹ سے پشت لگائے کھڑی تھی، یوں جیسے اپنے آپ کو سہارا دے رہی ہو۔ مومن نے پلٹ کر اُس بوڑھے شخص کی آنکھوں میں بھر آنے والے پانی کو حیرت سے دیکھا۔ وہ کیوں رو رہا تھا اُسے خود سے لپٹا کر۔۔۔ کیوں۔۔۔
اُس کے سینے سے لگے، اُس کی آنکھوں سے گرتے آنسوئوں کی نمی کو اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہوئے بھی مومن کو بے تاب کرنے والا واحد خیال اور احساس ماں کا تھا۔ عبدالعلی سے ملنے والا پہلا لمس اُس نے ”محسوس” ہی نہیں کیا تھا۔
”ڈیڑھ سال ہونے والا ہے اُسے مجھے اور مومن کو چھوڑ کر گئے ۔۔۔آپ کہتے ہیں، وہ آپ کے پاس نہیں آیا۔۔۔ پھر وہ کہاں گیا؟”
اُس نے عبدالعلی کے ساتھ اندر کمرے میں آنے کے بعد حسنِ جہاں کے منہ سے یہ پہلا جملہ سُنا۔ اُس نے یہ جملہ عبدالعلی سے کہا تھا پھر اچانک اُسے مومن کا خیال آیا اور اُس نے مومن کو وہاں سے جانے کے لیے کہا۔
”مومن! تم اپنے کمرے میں جائو۔” اس نے ماں کی تحکمانہ آواز سُنی اور ایک لفظ کہے بغیر وہ وہاں سے اندر کمرے میں آگیا، مگر دروازے کی جھری کو بند کیے بغیر وہ اُس کمرے میں جھانکتا رہا۔ جہاں عبدالعلی اور حسنِ جہاں کھڑے تھے۔ وہ دونوں اس وقت اُسے ایک راز کی طرح لگ رہے تھے۔۔۔ ایک معمہ۔۔۔ جسے وہ حل کرکے اپنے باپ تک پہنچنا چاہتا تھا مگر ہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے چُپ تھے۔
”آپ بیٹھیں۔” اُس نے حسنِ جہاں کو کہتے سُنا اور عبدالعلی کو ایک کُرسی پر بیٹھتے دیکھا، وہ دیواروں پر لگی طہٰ کی بنائی ہوئی خطاطی دیکھ رہا تھا۔
”آپ کہتے ہیں، وہ آپ کے پاس نہیں آیا پھر وہ کہاں گیا؟” اُس نے بالآخر حسنِ جہاں کو بولتے دیکھا۔ وہ آگے آئی اور عبدالعلی کے قدموں میں بیٹھ گئی تھی۔ اُس نے عبدالعلی کے پائوں کو چھو کر روتے ہوئے کہا۔
”اب بس۔۔۔ جو بھی سزا ہے۔۔ کاٹ لی میں نے۔۔اُس سے کہیں، معاف کر دے مجھے۔۔”
دروازے کی جھری سے اندر جھانکتے قلبِ مومن کا وجود پتے کی طرح لرزنے لگا۔ اُسے ماں کا کسی کے سامنے جُھکنا اچھا نہیں لگا، کسی کے سامنے بھی۔
عبدالعلی بے اختیار اپنی جگہ سے اُٹھے تھے۔ انہوں نے حسنِ جہاں کے سر پر ہاتھ رکھا پھر روتی ہوئی حسنِ جہاں کو بازوئوں سے پکڑ کر اُٹھایا۔
”تم میرا یقین کرو بیٹا، وہ میرے پاس نہیں آیا۔۔۔ ڈیڑھ سال وہ میرے پاس رہتا اور میں اُسے تم دونوں کے بغیر رہنا دیتا۔۔۔ میں بے رحم نہیں ہوں۔۔۔ اتنا تو نہیں ہوں۔۔۔” اُس نے عبدالعلی کو عجیب بے چارگی کے عالم میں کہتے سُنا۔
”پھر کہاں گیا ہے وہ۔۔۔؟ میرے پاس نہیں۔۔۔ آپ کے پاس نہیں تو کہاں ہے وہ۔۔۔” حسنِ جہاں اب عجیب ہذیانی انداز میں کہہ رہی تھی۔
قلبِ مومن نے دروازے کی جھری کو بند کردیا۔ اُس سے اپنی ماں کو اس حالت میں دیکھا نہیں جارہا تھا۔ وہ اتنے دن نہیں روئی اور آج رو رہی تھی تو۔۔۔ آخری جملہ جو اُس نے عبدالعلی کو کہتے سُنا تھا وہ ایک ہی تھا۔
”میں اس کو ڈھونڈوں گا۔۔۔ شاید وہ قونیہ چلا گیا ہو۔۔۔ اپنے درویش ساتھیوں کے پاس۔” یہ وہ آخری جملہ تھا جو مومن نے اُن دونوں کی گفتگو کا سُنا تھا۔ وہ اُس وقت بے حد رنجیدہ تھا۔ بے حد ناراض، بہت اُداس۔۔۔۔ اور وہ کسی بھی کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔ اُسے بس رونا آرہا تھا بالکل اُسی طرح جیسے اُس نے حسنِ جہاں کو روتے دیکھا تھا۔۔۔۔ ہچکیوں کے ساتھ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});