دھیمی رفتار سے چلتی ٹھنڈی ہوا کے دوش پر پیپل کی لچک دار شاخیں سُرور کی سی کیفیت میں جھوم رہیں تھیں جس کی وجہ سے پتے ترنم بھری سرسراہٹ پیدا کر رہے تھے ۔ اس دوران شاخوں سے جھڑتے زرد پتے خزاں رُت کی آمد کا پتا د ے رہے تھے ۔ اپنی میعاد پوری کرنے والے یہ زرد پتے ہوا کا ہلکا سا دباؤبھی برداشت نہیں کر پارہے تھے۔ وہ ٹہنیوں سے ٹوٹ کر چند سیکنڈفضا میں لڑھکنے کے بعد زمین پر گر رہے تھے ۔ یہ وہی پتے تھے جو پچھلی بہار کی آمد پر زندگی کی نوید بن کر کھلے تھے اور آج ناکارہ شے کی طرح بکھرتے چلے جارہے تھے۔ اب ان کے مقدر میں کسی کے پاؤں تلے آکر محض ایک لمحے کے لیے چرمرانا باقی رہ گیا تھا۔
’’سر! چودھری بشارت کچھ لوگوں کے ہمراہ تھانے میں آیابیٹھا ہے ،وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘ سپاہی نذیر نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ،تو میں اپنے خیالوں سے چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ میں اس وقت تھانے سے ملحق اپنے سرکاری کوارٹر کے باغیچے میں بیٹھا درختوں سے گرتے پتوں کو دیکھنے میں اس قدر محو تھا کہ نذیر کے آنے کا علم ہی نہیں ہوا۔ کوارٹر کا ایک دروازہ تھانے کے اندر کھلتا تھا۔ وہ اسی دروازے سے میرے پاس آیا تھا ۔ مجھے اس تھانے میں تعینات ہوئے کئی ہفتے گزر چکے تھے، مگر ابھی تک یہاں کسی کیس کا اندراج نہیں ہوا تھا۔ مجھے لاہور کے ایک معروف ترین اسٹیشن سے بطور سزا ٹرانسفر کر کے یہاں بھیجا گیا تھا۔ وہاں میرے آفیسر اور ماتحت عملہ میری ضرورت سے زیادہ ایمانداری کی وجہ سے حد درجہ تنگ آئے ہوئے تھے۔ آخر کب تک وہ اپنی اوپر کی آمدن میں رکاوٹ برداشت کر سکتے تھے۔ انہوں نے میرا تبادلہ سرگودھا کی ایک سرسبز تحصیل سلانوالی کے اس غیر معروف علاقے میں کروا کر ہی سکون کا سانس لیا تھا۔ مجھے نیک نیتی کے اس (نا قابلِ معافی جُرم) کی پاداش میں یہاں آنا پڑا۔ ویسے میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ مجھے تقریباً ہر چھے ماہ بعد ٹرانسفر لیٹر کی شکل دیکھنے کی عادت سی ہوگئی تھی۔ اب یہاں میرے پاس درختوں سے گرتے پتوں ،اٹکھیلیاں کرتے پرندوں اور شکلیں بدلتے بادلوں کو دیکھنے کے سوا کوئی کام نہیں تھا ۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کے اس علاقے میں جرائم نہیں ہوتے۔ میرے تھانے کی حدود میں تین درجن سے زائد گاؤں تھے۔ ان میں مرغی چوری سے لے کر ڈکیتی اور قتل جیسی خونریزوارداتیں بھی ہوتی رہتی تھیں، مگر متاثرہ لوگ تھانے کے بجائے، چودھری بشارت کے ڈیرے جانا پسند کرتے تھے ۔ اس نے غیراعلامیہ طور پر حکومت کے متوازی اپنے قانون وضع کیے ہوئے تھے جن کی بنا پر وہ فریقین کے مابین فیصلے کرتا تھا اور حیرت کی بات یہ تھی کہ کوئی شخص اس کے کیے ہوئے فیصلے کو ماننے سے انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ پورے علاقے میں چودھری کو بے تاج بادشاہ کی سی حیثیت حاصل تھی۔ ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی کا مالک ہونے کی وجہ سے اس کا دماغ ہر وقت ساتویں آسمان پر رہتا تھا ۔
رہی سہی کسر موجودہ حکومت میں وزیر کے عہدے پر براجمان اس کے بھائی نے پوری کر رکھی تھی ۔ میری اطلاع کے مطابق اس نے نجی جیل تک بنا رکھی تھی ۔ اگر وہ کسی سے ناراض ہو جاتا، تو پھر زمین اپنی تمام تر کشادگی کے باوجود اس پر تنگ کر دی جاتی تھی اور پھراس غریب کا مقدرتنگ و تاریک کوٹھڑی میں سڑنا ہی ہوتا تھا۔ طاقت کا کل توازن اس کے پلڑے میں ہونے کی وجہ سے وہ سارے علاقے کے سیاہ و سفید کا مالک تھا ۔ حد تو یہ تھی کہ میرے تھانے کے اکژ ملازم اسی کے زر خرید تھے یا یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ تھانے کی کالی بھیڑیں تنخواہ تو سرکاری خزانے سے وصول کر تی تھیں اور چاکری چودھری بشارت کی کرتیں۔ تھانے کے بکاؤ لوگ چودھری کا نام اتنے احترام اور عقیدت سے لیتے تھے کہ شاید انہوں نے اپنے والدِمحترم کو بھی کبھی اتنے احترام سے مخاطب نہیں کیا ہو گا ۔ یہاں تعیناتی کے کافی دن بعد تک میں کسی کیس کا انتظار کرتا رہا، مگر جب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، تو ایک دن میں اپنے ماتحتوں کے منع کرنے کے باوجود چودھری بشارت کے ڈیرے جا پہنچا ۔ اس وقت چودھری اپنے حواریوں میں گھرا بیٹھا تھا۔ وہاں موجود لوگوں کی اکثریت نیچے فرش پر بیٹھی تھی ۔ صرف چند لوگ ہی کرسیوں پر براجمان تھے اور وہ بھی شاید اس لیے کے سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے وہ کارآمد مہرے تھے۔ ایک ملازم چودھری کے کندھے دبا رہا تھا ۔ چھوٹی اسٹائلش ڈاڑھی کے ساتھ بڑی بڑی کنڈل مارکہ مونچھیں بلڈاگ جیسے چہرے پر عجیب سے جنگلی پن کا تاثر دے رہیں تھیں۔ پینتالیس پچاس کے پیٹے میں چودھری کے چہرے پر خباثت تو جیسے ثبت ہو کر رہ گئی تھی۔ تنگ ماتھا اور آنکھوں میں موجود تیز چمک اس کے شقی القلب ہونے کا واضح ثبوت تھی۔ وہ اس وقت رنگ دار پایوں والے انواری پلنگ پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھا اور منہ میں حقے کی نَے لیے سفید دھویں کے بادل اُڑا رہاتھا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کی باچھیں کھل گئیں، جب کہ آنکھوں کی چمک یک دم کئی گُنا بڑھ گئی۔ زہے نصیب تھانیدار خاور صاحب آج آپ کو ہماری یاد کیسے آگئی یا راستہ بھول کر ادھر آنکلے ہو۔
اس نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔ مجھے اس کے تکبرانہ انداز سے کافی سبکی محسوس ہوئی ،مگر میں کڑوا گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اس نے مجھے نام لے کر مخاطب کیا تھا ، حالاں کہ یہ ہماری پہلی ملاقا ت تھی۔ اس کا یہی مطلب تھا کہ وہ گردوپیش سے باخبر رہنے والا انسان ہے۔ جناب میں یہ کہنے کے لیے حاضر ہوا ہوں کہ اگر آپ کے کارِ سرکار میں کوئی رخنہ اندازی نہ ہو، تو کچھ کیس ہماری طرف بھی بھجوا دیا کریں تا کہ ہم بھی اپنی روزی روٹی حلال کر سکیں۔ میں نے اپنے لہجے کو حتی الوسع نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ میری بات سن کر چودھری کا بھدا قہقہہ کان پھاڑ دینے والا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی اس کے حواری بھی اپنے دانتوں کی نمائش کرنے لگے۔ یہ بھی خوب کہی تھانیدار صاحب پہلی بار کسی کو بھیک میں کیس مانگتے دیکھا ہے۔
چلو اب تم ہمارے دروازے پر آہی گئے ہو، تو ہم خیال رکھیں گے کہ سرکار کا کام بھی چلتا رہے اور تمہاری روٹی بھی حلال ہوتی رہے ۔ اس نے انتہائی نخوت بھرے لہجے میں جواب دیا۔ اس کی بات سن کر میرا بلڈ پریشر ایک دم ہائی ہو گیا جس کا ثبوت میری دھڑکن کی رفتار میں اضافہ اور کانوں سے نکلتی ہوئی تپش تھی ،مگر میں بات کو مزید آگے بڑھانے کے بجائے شکریہ کہتے ہوئے واپس پلٹ آیا۔ آج چار دن بعد سپاہی نذیر اسی چودھری بشارت کی آمد کا پتا دے رہا تھا۔ میں سپاہی کے ساتھ ہی تھانے آگیا ۔ دفتر داخل ہوا، تو چودھری بشارت کلف لگی اونچے شملے والی پگ پہنے گردن اکڑائے کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر موجود تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اسے میرا انتظار کرتے ہوئے کافی کوفت محسوس ہو رہی ہے۔ اس کے پیچھے دو گارڈز ہاتھوں میں کلاشنکوفیں لیے مستعد کھڑے تھے۔ ان سے کچھ فاصلے پر ایک ادھیڑ عمر جوڑا کھڑا تھا جو دیکھنے میں میاں بیوی لگ رہے تھے۔ عورت شاید روتی رہی تھی جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔ مرد کا چہرہ بھی حزن و ملال کی تصویر بنا ہوا تھا۔
دفتر میں اور کئی خالی کرسیاں بھی موجود تھیں، مگر وہ دونوں میاں بیوی ان پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے رہنے پر مجبور تھے۔ یقینا چودھری ان کم حیثیت لوگوں کو اپنے برابر بٹھانا اپنی توہین گردانتا ہو گا۔ زہے نصیب چودھری صاحب آج کیسے راستہ بھول گئے۔ میں نے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ کا خول چڑھاتے ہوئے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے کہا ۔ میری بات کا جواب دینے کے بجائے وہ چند لمحے میری طرف غور سے دیکھتا رہا اور پھر گویا ہوا۔ تم نے چند دن قبل ڈیرے پر آکر مجھ سے گلہ کیا تھاکہ اس علاقے کے لوگ کوئی جرم ہونے کے بعد تھانے سے رجوع نہیں کرتے، میں نے سوچا تمہاری صلاحیتوں کو بھی جانچ لیا جائے۔ میں تمہارے لیے ایک کیس لے کر آیا ہوں۔ اگر تم اسے حل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو میرے ساتھ ساتھ گاؤں کے لوگ بھی تھانے پر اعتبار کرنے لگیں گے۔
یہ ہمارے گاؤں کے ماسٹر الطاف صاحب ہیں۔ میں انہیں بچپن سے جانتا ہوں ،بلکہ جب میں چھوٹا تھا، توا ﷲجنت نصیب کرے میرے والد مرحوم نے انہیں میری تعلیم وتربیت کے لیے ملازم رکھا تھا۔ اس لیے میں انہیں ذاتی طور پر جانتا ہوں، یہ انتہائی شریف انسان ہیں۔ ان کی ایک ہی بیٹی ہے جو کل سے لا پتا ہے۔ ہر ممکنہ جگہ تلاش کر لیا گیا ہے ،مگر کہیں سے خیر کی کوئی خبر نہیں ملی ۔ اب میں انہیں یہاں لے آیا ہوں ،تم اگر ان کی بیٹی رفعت کو ڈھونڈ نکالو، تو میرا وعدہ ہے کہ ناصرف تمہاری ترقی کروادوں گا، بلکہ اگر تم چاہو گے، تو تمہاری پسند کی جگہ ٹرانسفر بھی کروا دوں گا۔ چودھری نے اپنی بارعب آواز میں لمبی تمہید باندھنے کے بعد تھانے میں قدم رنجہ فرمانے کا مقصد بیان کر دیا اور آخر میں مجھے ترقی اور پسند کی جگہ پر ٹرانسفر کر وانے کا سبز باغ بھی دکھا دیا ۔ میں نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے فوراً چوٹ کی۔
’’جناب میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا، ویسے اب تک جو تگ ودو کی گئی ہے کیا اس کے بارے مجھے بتا سکتے ہیں تاکہ میں ابتدائی تفتیش پر وقت ضائع کرنے کے بجائے لڑکی کو بازیاب کروانے کے لیے کوئی لائن آف ایکشن ترتیب دے سکوں۔‘‘ میں نے گلا کھنکھارنے کے بعد نرم لہجے میں پوچھا۔ چودھری نے بڑے رسان سے خود ساختہ تفصیل بتائی۔
’’اب تک کی بھاگ دوڑ سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ کیس اگرناقابل حل نہیں بھی تو مشکل ضرور ہے تمہیں تو معلوم ہے کہ نہر کی پٹڑی سے اتر کر جو راستہ گاؤں کی طرف آتا ہے اسی پر لڑکیوں کا اسکول ہے اور اسکول کی عمارت سے ملحق قبرستان اور متروک ہو چکا شمشان گھاٹ بھی ہے۔ اسکول میں ٹائلٹ نہ ہونے کی وجہ سے بچیاں قضائے حاجت کے لیے کھیتوں کا رخ کرتی ہیں، مگر جب کبھی ایمرجنسی میں کوئی بد نصیب لڑکی کھیتوں کے بجائے ملحق قبرستان یا شمشان گھاٹ چلی جاتی ہے، تو پھر سمجھ لو کہ اسے جلد یا بدیر اس جرم کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ اس کیس میں متاثرہ لڑکیوں کی اکثریت ذہنی توازن کھو بیٹھتی ہے اور پھر چند دن بعد خودکشی کر نا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔‘‘
’’کیا کسی نے رفعت کو قبرستان یا شمشان گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ میں نے چودھری کی بات اچکتے ہوئے پوچھا۔
’’اس کی کئی کلاس فیلو یہ گواہی دے چکی ہیں کہ انہوں نے رفعت کو شمشان گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ‘‘چودھری نے بنا کسی توقف کے ترنت جواب دیا۔
’’اور جو لڑکیاں اس مسئلے سے دوچار ہوتیں ہیں ،وہ کس طریقہ کار سے خودکشی کرتی ہیں۔‘‘ میں نے ایک سوال اور پوچھا۔
’’اب تک جتنی لڑکیوں نے بھی خودکشی کی ہے ان سب کاطریقہ کار ایک جیسا ہی رہا ہے ،ذہنی طور پر ماؤف ہونے کے بعد نہر میں کود کر اپنی جان سے گزر جاتی ہیں۔ اسی نہر پر چند کلو میٹر آگے ایک جھال ہے،جہاں پر گورنمنٹ نے جال لگوایا ہوا ہے جو لاشیں تیرتی ہوئی وہاں تک پہنچتی ہیں۔ وہ اس جال میں پھنس جاتی ہیں۔ کل سے گاؤں کے کئی نوجوان وہاں بھی پہرہ دے رہے ہیں، مگر لاش ابھی تک وہاں نہیں پہنچی، شاید رستے میں کہیں جھاڑیوں سے اٹک کر رک گئی ہو۔‘‘ چودھری نے ایک بار پھر پوری تفصیل سے اب تک کی بھاگ دوڑ کا رزلٹ مجھے سنا دیا۔
’’اﷲنہ کرے اس بچی کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہو۔‘‘چودھری کی بات سن کر میرے منہ سے بے اختیار نکلا ۔
’’تھانیدار صاحب انسان چاہے جتنی بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لے، مگر حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ہمیں کسی بھی ناگہانی صورت حال کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ اگر رفعت نے جانے انجانے میں شمشان گھاٹ میں موجود آتماوؑں کو تنگ کیا ہے، تو پھر اﷲہی اس کے حال پر رحم کرے، کیوں کہ اس سے پہلے جتنی بھی لڑکیوں نے یہ غلطی کی ان سب کو اس کی سزا بھگتنی پڑی۔‘‘ چودھری بشارت نے اپنی بات کو اصرار کے ساتھ دہرایا۔
’’چودھری صاحب اگر سارا کیس ایسے ہی ہے جیسے آپ بتارہے ہیں، تو اس میں سلجھانے والی تو کوئی بات ہی نہیں رہ گئی۔ اب جیسے ہی نہر سے رفعت کی لاش ملے گی، تو اس کے پوسٹ مارٹم کے بعد یہ کیس کلوز سمجھیں۔ لیکن مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کس حوالے سے کہہ رہے تھے کہ یہ کیس اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔‘‘ میں نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا ۔ چودھری میری بات سن کر ایک لمحے لے لیے چونک سا گیا اور پھر چند ثانیے غور سے میری طرف دیکھتا رہا۔
’’ظاہر ہے، لاش نہیں مل رہی پہلے کیسوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ یہی اس کیس کا مشکل پہلو ہے جس کی وجہ سے میں نے ایسا کہا۔‘‘ چودھری نے ہاتھ پھیلاتے ہوئے بے زاری سے جواب دیا ۔ اس کے انداز سے ایسے لگ رہا۔ جیسے اسے میرا سوال پر سوال پوچھنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔