ٹرانسفر لیٹر — افتخار چوہدری

’’اس سے زیادہ دباوؑ مناسب نہیں ہے، اب ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے میرے قریب سے گزرتے ہوئے سرگوشی کی اور صوفے پر پڑی ہوئی چیزوں کر الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔ یہ وہ سامان تھا جو چودھری کی جیبوں سے برآمد ہوا تھا۔ ایس پی صاحب سامان میں موجود ایک اینڈرائیڈ سیل فون اٹھاکر چیک کرنے لگے۔ جس وقت انہوں نے سیل فون اٹھایا، مجھے چودھری کے جسم میں بے چینی سی پھیلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ابھی میں اس کی اس حرکت کو نوٹ کر ہی رہا تھا کہ سیل فون سے کسی لڑکی کی آواز ابھرنے لگی۔
’’چودھری صاحب آپ کو آپ کے بچوں کا واسطہ ہے مجھے یہاں سے نکال لیں۔‘‘
’’تم میں بہت نخرہ ہے نا اب تھوڑا مزہ چکھو نخرے کرنے کا، سوچتاہوں کچھ تمہارے بارے میں۔‘‘ چودھری کی نشے میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی، اس کے ساتھ ہی کال ختم ہو گئی۔ یہ ریکارڈ شدہ کال تھی اور بھی ہیں، ایس پی صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے وضاحت کی اور دوسری کالیں سننے لگے، سب میں تقریباًایک جیسی گفتگو تھی۔ لڑکی منتیں ترلے کر رہی تھی، مگر چودھری فرعون بنا اسے نخرہ کرنے کی مزید سزا دینے پر مصر تھا۔ لڑکی والے نمبر پر بیک کال کی تو نمبر بند مل رہا تھا ۔ باری باری سب کمانڈوز واپس آگئے، وہ کسی خفیہ کمرے کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔
’’اب تمہارے پاس انکار کی کوئی گنجائش ہے۔‘‘ ایس پی صاحب نے زہریلے لہجے میں پوچھا۔ ان کاچہر ہ غصے کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا۔ چودھری پچھلے دو گھنٹوں سے بہترین تربیت یافتہ لوگوں کو اپنی زبان کی تیزی سے بے وقوف بنا رہا تھا۔ اگر اتفاقاًریکارڈ شدہ کالیں سامنے نہ آتیں تو، ہم تو بس واپس جا ہی رہے تھے۔
’’تم سے جو ہوتا ہے کر لو میں نہیں بتاوؑں گا کہ وہ کہاں ہے۔‘‘ اس نے میرے منہ پر تھوکا تھا۔
’’میں اسے بدلہ لیے بغیر نہیں چھوڑوں گا اور تم لوگوں کو تو میں پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔ اگر تم لوگ ابھی یہاں سے چلے جاوؑتو ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں معاف کردوں۔‘‘ چودھری نے نخوت بھرے لہجے میں جواب دیا ،اس کے جواب سے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ بندھا ہوا بے بس پڑا ہے۔
’’تم لوگ چاہے اس کے جسم کا ایک ایک ریشہ الگ کر دو یا تمام ہڈیاں تو ڑ دو، مجھے بس لڑکی چاہیے۔‘‘ ایس پی صاحب نے کمانڈوز سے مخاطب ہو کر کہا، تو وہ ایک بار پھر ا س پر پل پڑے۔ میں قریب ہی کھڑا اسے پٹتا دیکھ رہا تھا کہ اچانک میرے ذہن میں شیرو کا خیال آیا، تو میں باہر کی طرف دوڑا جیسے ہی میں سکیورٹی کیبن میں داخل ہوا ایک سایہ مجھ پر جھپٹا اور اس نے میرے پیٹ میں جاندار مکا رسید کر دیا ۔ شیرو نہ صرف ہوش میں آچکا تھا، بلکہ اس نے اپنے ہاتھ پاوؑں بھی آزاد کروالیے تھے ۔ اس کے ہتھوڑے جیسے پنچ سے میر اسانس رک گیا اور آنکھوں کے سامنے نیلے پیلے تارے گردش کرنے لگے، جب کہ اندھیرا بار بار میرے ذہن پر جھپٹ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے لگا کہ میں بے ہوش ہو جاوؑں گا۔ میں نے سر جھٹک کر خود کو ہوش میں رکھنے کی کو شش کی، اس جدوجہد میں میرا سانس بحال ہو گیا ۔ مجھے زیر کرنے کے لیے شیرو کے پاس یہ بہترین موقع تھا، نہ جانے کیا وجہ تھی کہ اس نے مجھ پر دوبارہ حملہ نہیں کیا بلکہ وہ دروازے کی طرف بھاگا، وہ شاید فرار ہونا چاہتا تھا۔ جیسے ہی وہ میرے قریب سے گزرنے لگا، میں نے ٹانگ آگے کر دی جس سے الجھ کر وہ بری طرح گر ا۔ اس کے سنبھلنے تک میری حالت میں کافی بہتری آگئی تھی۔ جیسے ہی وہ اٹھ کر کھڑ اہوا، میں ہوا میں اچھلا او رمیری جاندار جمپ بیک کک اس کی چھاتی پر لگی، تو وہ عجیب سی آواز نکالتا کیبن کی دیوار سے جا ٹکرایا۔ اس کا سر بھی دیوار سے لگا تھا، اب وہ فرش پر پڑا بار بار سر کو جھٹک رہا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کی ٹانگ پکڑی اور اسے گھسیٹتے ہوئے کرسی کے قریب لے آیا اور پھر اس کی ٹانگ کو کرسی پر رکھ دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سمجھ پاتا کہ میں کیا کرنے والا ہوں ،میں ہوا میں اچھلا اور پوری طاقت سے پریشر کک اس کے گھٹنے پر دے ماری۔ گھٹنے کی ہڈی ٹوٹنے کی آوازاور اس کی تکلیف میں ڈوبی ہوئی چیخ بیک وقت بلند ہوئی۔ وہ بلا مبالغہ ایسے تڑپا ،جیسے مچھلی پانی سے باہر تڑپتی ہے۔
’’میں نے کہا تھا نا میرے ساتھ جھوٹ بولنے کی کوشش بھی مت کرنا۔‘‘ میں نے اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو ایک طرف کیا اوراس کی دوسری ٹانگ پکڑ کر کرسی پر رکھتے ہوئے کہا، تو خوف اور دہشت سے اس کا رنگ گہرا زرد ہو گیا۔
’’م م میں مر جاوؑں گا، خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو، میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔‘‘اس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر گھگیاتے ہوئے کہا۔ اس کا جسم جاڑے کے بخار میں مبتلا مریض کی طرح کانپ رہا تھا۔
’’میں تمہیں آخری موقع دے رہا ہوں ،بتاوؑ لڑکی کہا ں ہے ،ورنہ دوسری ٹانگ بھی توڑ دوں گا۔ پھر ساری عمر گندی نالی کے کیڑے کی طرح رینگتے پھرو گے۔‘‘ میں نے زہریلے لہجے میں وارننگ دی۔
’’خدا کی قسم مجھے جو کچھ بھی معلوم تھا، میں نے سب تمہیں بتا دیا تھا، مجھ پر رحم کرو۔‘‘ اس نے ایک بار پھر اپنی بات پر اصرار کیا، تو مجھے لگا کہ اسے واقعی اس سے زیادہ اور معلوم نہیں۔
’’یہاں کوئی ایسی بات ہوئی ہو جو معمول سے ہٹ کر ہو۔‘‘ میں نے ایک اور زاویے سے پوچھا۔ تکلیف سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔وہ ہاتھ باندھے ترحم آمیز نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میری بات سن کر وہ چونک سا گیا، جیسے اسے کوئی بات اچانک یاد آگئی ہو۔
’’ہاں یاد آیا آج دن میں چودھری صاحب نے فارم ہاوؑس کی عقبی جانب گلابوں کے باغیچے میں مجھ سے ایک گڑھا کھدوایا تھا اور یہ کام وہ ہر پانچ چھے ماہ بعد ایک بار ضرور مجھ سے کرواتے ہیں اور مجھے سختی سے منع بھی کیا ہے کہ اس بارے میں کسی سے کوئی بات نہیں کرنی ۔ اس کی بات سن کر میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی ۔
’’کیا ہر بار ایک ہی جگہ گڑھا نکالتے ہو یا ہر بار مختلف جگہ ہوتی ہے اور جو گڑھے تم کھودتے ہو کیا اُنہیں بند بھی تم ہی کرتے ہو؟‘‘ میں نے تیزی سے پوچھا۔
’’نہیں ہر بار جگہ مختلف ہوتی ہے اور چودھری صاحب مجھ سے صرف گڑھا کھودتے ہیں، بند کبھی نہیں کروایا اور نہ ہی مجھے علم ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ بس یہ بات روٹین سے ہٹ کر تھی، اسی لیے میرے ذہن میں آگئی۔‘‘ ابھی شیرو نے اپنی بات مکمل کی ہی تھی جب میرا ہاتھ گھوما اور اس کی کنپٹی پر پٹاخہ چھوڑ گیا۔ اس کی آنکھیں ایسے بند ہوئیں جیسے کیمرے کا شٹر ڈاوؑن ہو گیا ہو۔ میں واپس بھاگتا ہوا سٹنگ روم میں داخل ہوا، تو اس وقت چودھری بے ہوش پڑا تھا جب کہ ایک کمانڈو اس پر جھکا ہوا اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’کیا ہوا ،کہاں گئے تھے؟‘‘ایس پی صاحب نے مجھ سے پوچھا۔
’’اسے ابھی بے ہوش رہنے دو شاید مجھے پتا چل گیا ہے کہ رفعت کہا ں ہے، میرے ساتھ آئیں وقت بہت کم ہے۔‘‘میں نے جلدی سے جواب دیا اور عمارت کی عقبی جانب دوڑ لگا دی۔ کچھ ہی دیر میں ہم گلابوں کے باغیچے میں کھڑے تھے۔ عمارت پر لگی سرچ لائٹس کی روشنی میں ہر چیز واضح نظر آرہی تھی۔ یہاں ایک جگہ مٹی نرم تھی، جیسے گڑھا کھود کر دوبارہ بند کیا گیا ہو اور حیرت کی بات یہ تھی کہ مٹی میں سے ایک پائپ کا سرا باہر نکلا ہوا تھا ، قریب ہی بیلچہ اور کسی پڑی تھی۔
’’اس پائپ کو بچاتے ہو ئے مٹی باہر نکالو۔‘‘ میں نے کمانڈوز کو کہا، تو وہ فوراًاس کام میں جت گئے۔ اس دوران میں نے شیرو سے ہو نے والی ساری گفتگو ایس پی صاحب کو بتا دی۔ کمانڈوز نے چند منٹوں میں ہی گڑھے میں سے ساری مٹی نکال لی ۔پانچ فٹ گہرائی میں ایک تابوت دفن تھا، تابوت پر ایک آکسیجن سلنڈر رکھ کر ایک پائپ کے ذریعے اس کا کنکشن تابوت میں دیا گیا تھا جب کہ ایک اور بڑے قطر کے لمبے پائپ کو تابوت سے منسلک کر کے باہر فضا میں نکالا گیا تھا۔ یہ سارا انتظام تابوت میں موجود انسان کو زندہ رکھنے کے لیے کیا گیاتھا۔ شاید قیدی کو ڈرانے دھمکانے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا گیا تھا۔ یہ سارا سسٹم دیکھ کر میرے ذہن میں چودھری کے موبائل سے ٹریس ہونے والی کالز ریکاڈنگ گونجنے لگیں۔ تابوت میں یقینارفعت ہی تھی ۔ جیسے ہی کمانڈوز نے تابوت باہر نکال کر اس کا ڈھکن کھولا، تو میرا دل کانوں میں آکر دھڑکنے لگا ۔ پولیس میں ہونے کی وجہ سے آئے روز نت نئے مظالم دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں ،مگر خدا کی پناہ یہ تو ظلم کی انتہا تھی ایک جیتے جاگتے انسان کو دفنا دیا جائے۔ میں رفعت کی تصویر دیکھ چکا تھا ،یہ بد نصیب وہی تھی۔ اس کے چہرے پر موت کی سی زردی پھیلی ہوئی تھی غیر فطری انداز میں کھلی ہوئی آنکھیں اور ہونٹوں پر سفیدی کوئی اور ہی کہانی سنا رہی تھی۔ میں نے جلدی سے اس کی نبض ٹٹولی مگر وہ ساکت تھی۔یہ نہیں ہو سکتا جب مسلسل آکسیجن مل رہی تھی تو اسے مرنا نہیں چاہیے تھا میں نے خود کلامی کی۔
’’سر یہ آکسیجن سلنڈر خالی ہو چکا ہے، لڑکی کی موت کی یہی وجہ بنی۔‘‘ ایک کمانڈو نے سلنڈر چیک کرتے ہوئے مسئلہ سلجھا دیا۔ ایس پی صاحب رفعت کی لاش پر جھکے ہوئے باربار اس کی پیشانی چوم رہے تھے ،میں نے اپنی زندگی میں ان سے زیادہ بااصول اور نرم دل انسان نہیں دیکھا تھا ،اس وقت ان کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ جیسے یہ حادثہ خود ان کی بیٹی کے ساتھ پیش آیا ہو۔
’’میری بیٹی کو اس منحوس تا بوت سے نکال کر باہر گھاس پر لٹاوؑ اور ان دونوں درندوں کو یہاں لے کر آوؑ ۔ ان وحشی درندوں کو عدالت کے حوالے کرنے کا مطلب انہیں مزید موقع دینے کے مترادف ہے۔‘‘ انہوں نے گلو گیر مگر چٹانوں جیسے اٹل لہجے میں کہا۔ کمانڈوز ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دونوں کو وہاں لے آئے۔ وہ ہوش میں آچکے تھے، مگر تشدد زیادہ ہونے کی وجہ سے ہلنے کے قابل نہیں تھے ۔ رفعت کی لاش پر نظر پڑتے ہی چودھری کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا۔
’’ان دونوں درندوں کو اٹھا کر تابوت میں ٹھونس دو اور واپس اسی جگہ دفن کرو جہاں انہوں نے میری بیٹی کو دفن کیا تھا۔‘‘ ایس پی صاحب نے آخری حکم دیا جسے سن کر میرا پورا وجود سنسنا اٹھا۔
پلیز ایسا نہ کرو تمہیں جو چاہیے مجھے بتاوؑ میں چند منٹوں میں تمہیں کروڑوں اربوں پتی بنا سکتا ہوں۔ میں یہ فارم ہاوؑس اپنی حویلی زمین سب کچھ دینے کے لیے تیار ہوں، مگر خدا کے لیے ایسے نہ کرو۔‘‘ میں چودھری کے لہجے میں پہلی بار بے پناہ خوف محسوس کر رہا تھا۔ وہ ہذیانی انداز میں آفر پر آفر کر رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس وقت پوری دنیا دے کر اپنی زندگی کی بھیک مانگ لیتا۔
’’قوم کی اس معصوم بیٹی نے بھی زندہ رہنے کے لیے بہت منتیں کی تھیں،مگر تم اس کی جان لیے بغیر نہیں ٹلے۔‘‘ ایس پی صاحب نے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا۔
’’م م مجھے اندازہ نہیں تھا کہ سلنڈر اتنی جلدی ختم ہو جائے گا اور پھر میں اسے نکالنے ہی والاتھا، مگر نشے کی زیادتی کی وجہ سے مجھ سے سستی ہو گئی، پلیز مجھے معاف کر دیں۔
’’معاف کرنا یا نہ کرنا رفعت کے ہاتھ میں ہے اور وہ اب ا س دنیا میں نہیں ہے۔ تم دونوں اس کے پاس جاوؑ اگر وہ تمہیں معاف کر دے، تو ضرور واپس آجانا، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘‘ ایس پی صاحب نے کمانڈوز کو اشارہ کرتے ہو ئے چودھری کو جواب دیا۔ کمانڈوز نے ان دونوں کو الٹا سیدھا تابوت میں ٹھونس کر ڈھکن بند کر دیا اور پھر تابوت کو گڑھے میں دھکیلنے کے بعد سلنڈراور پائپ بھی اُس میں گرا دیے۔ دونوں کی رو رو کر معافیاں مانگنے کی دھیمی دھیمی آوازیں آرہی تھیں جب کمانڈوز نے گڑھے میں مٹی ڈالنی شروع کی، تو ان کا رونا بے ڈھنگی چیخوں میں بدل گیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہوں۔ چند منٹ میں ہی گڑھے میں مٹی ڈال کر اسے ہموار کر دیا گیا اور قریب موجود گلابوں کی کئی شاخیں کا ٹ کر گڑھے والی جگہ لگا دی گئیں۔ وہ جگہ پہلے ہی گلابوں کی کیا ری کے درمیان تھی، اب اس جگہ نئی قلمیں لگانے سے ساری کیاری ایک جیسی ہو گئی۔
’’نمبر ون تم گیراج میں موجود لینڈ کروزر کو کسی دوسرے شہر میں چھوڑ آوؑ اور نمبر فور اور فائیو تم یہاں پر ہماری موجودگی کا ہر نشان مٹا دو۔‘‘ ایس پی نے باری باری حکم دیا، تو وہ فوراًکام پرلگ گئے۔
’’نہر پر موجود جھال یہاں سے کتنی دور ہے۔‘‘ انہوں نے مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا۔
’’سر زیادہ دور نہیں ہے، چند فرلانگ کا فاصلہ ہے بس۔‘‘ میں نے مستعدی سے جواب دیا۔
’’میری بیٹی مجھے معاف کر دینا،ابھی تمہیں تھوڑی سی تکلیف اور برداشت کرنا ہو گی۔‘‘
’’نمبر ٹو اور تھری میری بچی کو بہت احترام اور پیار سے لے جا کر نہر میں بہا دو۔ امید ہے صبح تک جھال پر موجود جال تک پہنچ ہی جائے گی اور جب یہ دریافت ہو جائے تو اس کا پوسٹ مارٹم مت ہو نے دینا اور جلدی تدفین کروا دینا۔‘‘ ہم سب رفعت کی لا ش کے ساتھ نہر تک آئے اور اسے پانی کے حوالے کر دیا۔ پھر ایک کمانڈو جا کر فصلوں میں چھپی ہوئی فور بائے فور جیپ لے آیا۔
’’سر میرے لیے کیا حکم ہے۔‘‘ میں نے مؤدبانہ لہجے میں پوچھا۔
’’تمہیں آج دن میں ہی سپیشل ڈاک سے ٹرانسفر لیٹر مل جائے گا اور ساتھ ہی کچھ چھٹیاں بھی اور کل تک یہاں نیا انسپکٹر بھی تعینات کر دیا جائے گا۔‘‘ ایس پی صاحب نے اچھل کر جیپ کی پسنجر سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا۔ اگلے ہی لمحے تیز رفتار جیپ دھول کے بادل میں گم ہو گئی ۔ میرے ذہن میں باربار ٹرانسفر لیٹر کے الفاظ گونج رہے تھے ۔شاید میرے نصیب میں کسی ایک جگہ ٹک کر ڈیوٹی کرنا لکھا ہی نہیں تھا۔ آج مجھے ایک اور ٹرانسفر لیٹر ملنے والا تھا،میں نے مایوسی سے مشرق کی طرف دیکھا، تو صبح کی پھوٹتی سحر میں سے ایک اور امید افزا منظر ابھرتا ہوا نظر آرہا تھا۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

دوسرا رخ — عبدالباسط ذوالفقار

Read Next

آسیب — دلشاد نسیم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!