ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

شاہ میر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا کھانے کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا!
کفگیر سے اُٹھنے والا شور اور چوڑیوں کی کھنک آپس میں مدغم ہو کر فضا میں جلترنگ بجا رہے تھے۔ شاہ میرکن انکھیوں سے ایک آدھ بار لائونج سے متصل باورچی خانے کی جانب دیکھتا۔ جہاں دانیہ مشینی انداز میں ہنڈیا میں کفگیر چلا کر روٹی بیلتی، اسے جلتے توے پر ڈال کر دوپٹے کے پلو سے اپنے ماتھے کا پسینہ خشک کرتی جلدی جلدی ہاتھ چلا رہی تھی۔
شاہ میر پیشے کے اعتبار سے ایک نفسیاتی معالج ہے۔ وہ کچھ عرصہ قبل ہی اس نئے شہر میں آکرآباد ہوا۔ شہر کے پوش علاقے میں اس کا کلینک انتہائی قلیل عرصہ میں اپنی ساکھ قائم کرچکا تھا۔ شاہ میر اپنے والدین کا اکلوتی اولاد تھی۔ شومئی قسمت کے شاہ میر کے والدین اس کے بچپن ہی میں چل بسے۔ دانیہ سے اس کی شادی کو ابھی چند ماہ ہی گذرے تھے۔ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر ایک لمحہ گزارنا محال تھا۔ جب شاہ میر کلینک میں ہوتا تو ہر ایک گھنٹے بعد دانیہ مختلف حیلے بہانوں سے اسے فون کرتی اور اس کے جلد گھر آنے کی تاکید کرتی۔ شاہ میر آج کلینک سے جلد واپس آگیا تھا۔ اس نے لباس تبدیل کیا اور فریش ہونے کے بعد کھانے کی میز پر آکر بیٹھ گیا۔ دانیہ نے جلدی جلدی کھانا ٹرے میں رکھا اور اسے بڑے سلیقے سے میز پر سجا دیا۔ دانیہ ٹیبل کی دوسری جانب بیٹھ کر شاہ میر کا پہلا لقمہ لئے جانے کا انتظار کرنے لگی۔ دانیہ نے شاہ میر کی پسند و ناپسند جانچنے کا ایک انوکھا پیمانہ کھوج لیا تھا۔ ایک روز دانیہ نے شاہ میر سے کہا:
“جب آپ ڈیڑھ روٹی سے زیادہ کھاتے ہیں تو میں سمجھ جاتی ہوں کہ آج کھانا بہت اچھا پکا ہے۔” یہ بات شاہ میر کے علم میں آجانے کے بعد اس نے کبھی ڈیڑھ روٹی سے کم کھانا نہیں کھایا۔ خواہ کھانا اس کی پسند کا بنا ہو یا نہیں۔
دانیہ نے پانی کا گلاس شاہ میر کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا: “شاہ میر آپ کا کام بھی کتنا صبر آزما ہے نا۔ دن بھر طرح طرح کے مریضوں سے ملنا اور گھنٹوں بیٹھ کر ان کے مسائل سننا۔ اف خدایا کتنا بورنگ کام ہے۔ اگر کوئی میرے قدموں میں دنیا کی ساری دولت بھی رکھ دے تو میں یہ کام نہ کروں۔ سچ کہوں شاہ میرمجھے تو کبھی کبھی آپ پر رحم آنے لگتا ہے۔ قسم سے آپ کی ہمت کو بھی داد دینا ہوگی۔ آپ کا پورا دن کلینک میں مریضوں کی عجیب و غریب باتیں سُنتے ہوئے گذرجاتا ہے اور رات میں میری بکواس۔”
یہ کہہ کر دانیہ ہنسنے لگی شاہ میر بھی مُسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ اپنے پروفیشن پر دانیہ کا تبصرہ سننا اسے اچھا لگ رہا تھا۔ دانیہ کی باتوں سے شاہ میر کی سماعت اس کی معصومیت کا لُطف کشید کر رہی تھی۔ دانیہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
“شاہ میر آپ نے اب تک سینکڑوں مریضوں کا علاج کیا ہوگا۔ کیا کبھی کوئی ایسا مریض بھی آیا کہ جسے آپ کبھی بھلا نہ سکے ہوں۔”





شاہ میر نے دوسری روٹی کا آخری لقمہ لیتے ہوئے سر ہلا کر ہاں کہنے پر ہی اکتفا کیا۔ اس کے ہاں کہنے کی دیر تھی کہ دانیہ نے شاہ میر کا بازو اپنے ہاتھوں میں جکڑ لیا اور کسی چھوٹے بچے کی طرح ضد کرنے لگی۔۔۔۔۔۔ “پلیز شاہ میر مجھے بھی اس مریض کے بارے میں کچھ بتائیے نا۔۔ پلیز۔” شاہ میر نے خالی پلیٹ ٹرے میں واپس رکھی اور ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا:” ہاں کیوں نہیں! بھلا میں تمھاری کوئی بات ٹال سکتا ہوں لیکن ایک شرط ہے ۔ پہلے ایک گرما گرم چائے ہوجائے۔۔۔”
اتنا کہہ کر شاہ میر ٹیبل سے اٹھ کھڑا ہوا۔ دانیہ نے جلدی جلدی برتن سمیٹتے ہوئے کہا: “بس اتنی سی بات، یہ تو بڑا سستا سوادا کیا آپ نے۔ ٹھیک ہے پھر آپ ہاتھ دھو لیجئے میں کمرے میں آپ کے لئے چائے لے کر آتی ہوں۔۔” دانیہ کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔
شاہ میر کمرے میں آکر ریلیکسنگ چئیر پر بیٹھا چائے کا انتظار کررہا تھا۔ چند ہی منٹوں بعد دانیہ شاہ میر کے لئے چائے اور اپنے لئے کافی بنا کر لے آئی۔ دانیہ نے چائے کا کپ شاہ میر کوتھمایا اور اپنا کافی کا مگ لئے وہیں نیچے قالین پر شاہ میر کے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔ شاہ میر نے دانیہ کے دمکتے چہرے کو نگاہ بھر کر دیکھا۔ دانیہ کی آنکھوں میں بے چینی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ وہ کسی بچے کی طرح شاہ میر کے قدموں میں بیٹھی کہانی سُننے کا انتظار کرنے لگی۔ شاہ میر نے چائے کا کپ اٹھایا اور پھر اپنے سامنے لگی پینٹنگ پر نظریں گاڑ دیں۔۔ شاہ میر کی آنکھوں میں وہ بیتے دن روشنی کے چھوٹے چھوٹے نقطوں کی صورت بڑھتے بڑھتے ایک جگہ مرکوز ہوکر ہیبت ناک روشنی کے گولوں میں بدل گئے۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں وہ روشنی کا گولہ اس کی پیشانی سے ٹکرا گیا۔ کرب میں ڈوبی آوز کے ساتھ جو نام فضا میں گونجا وہ تھا۔۔۔۔
سجل۔۔۔۔
“کون سجل؟” دانیہ کے سوال نے رنگ و نور کے آتش فشاں کے دہانے پر جیسے پتھر رکھ دیا۔۔۔۔ کہانی ندی کی طرح ڈھلوان کی جانب بہنے لگی۔۔۔۔۔ شاہ میر نے اپنی توجہ سامنے لگی پینٹنگ پر ہی مرکوز رکھی اور کہا۔
“میری پیشنٹ”
“تو وہ پیشنٹ ایک لڑکی تھی؟”
“ہاں۔۔۔”
“دانیہ وہ عام لڑکیوں سے بالکل مختلف تھی۔ خدا نے سجل کی مٹی کو پانی سے نہیں بلکہ خلد بریں میں بہتی کسی دودھ کی نہر سے گوندھا تھا۔ دن کو رات کرتے ہوئے خوب صورت بال خدوخال میں وہ پاکیزگی اور لطافت تھی کہ حوریں شرما جائیں—”
“کیا وہ واقعی اتنی خوبصورت تھی۔ کیا مجھ سے بھی زیادہ ؟ ” دانیہ کا اپنے شوہر کے منہ سے کسی اور لڑکی کی تعریف سُن کر یہ سوال پوچھنا ایک فطری رد عمل تھا، جسے شاہ میر نے سنی ان سنی کرکے اپنی کہانی جاری رکھی:” ہاں دانیہ وہ واقعی بہت خوبصورت تھی۔ سجل کے سہانے مکھڑے پر ہمیشہ موہنی اور دل نواز اُداس سی مسکراہٹ کھیلتی رہتی، بس یوں سمجھو کہ وہ حسن کی ایک بہتی ندی تھی۔”
“تو جناب کا دل آگیا تھا اپنی مریضہ پر۔ اچھا ذرا یہ تو بتائیے کہ اگر وہ اتنی ہی خوبصورت تھی تو آپ نے اس سے شادی کیوں نہیں کی۔”۔۔۔۔
“سچ کہوں دانیہ پہلی بار اسے دیکھ کرتو میرا دل بھی بہت زور سے دھڑکا تھا لیکن پریوں کو شہزادے چُرا لے جاتے ہیں یا پھر دیو اُن پر اپنا حق جماتے ہیں اور مجھے تلاش تھی ایک مٹی سے بنی گڑیا کی۔ جو تمھارے مل جانے سے ختم ہوئی۔”
“اچھا ڈاکٹر صاحب اب زیادہ باتیں نہ بنائیں۔ مجھے کچھ اور بتائیں اپنی اس خوبصورت مریضہ سجل کے بارے میں”۔۔۔
“سجل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ بی اے کا امتحان دینے کے بعد وہ گھر میں فراغت کے دن گذار رہی تھی۔ سجل شام میں اپنا وقت مکان کی چھت پرایک کپ کافی کے ساتھ گذرا کرتی وہ کافی ایڈیکٹیڈ تھی۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ اپنے گھونسلوں کی جانب واپس پلٹتے ہوئے پرندوں کو دیکھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا لیکن پھر ایک روز شام کے گہرے سائے اس کی ساری خوشیاں نگل گئے۔ مدھم پڑتا سورج اس کے چہرے کی بشاشت اور موہنی مسکراہٹ اپنے ساتھ لے کر ڈوب گیا۔” اتنا کہہ کر شاہ میر خاموش۔ دانیہ نے کافی کے مگ سے ایک گھونٹ لیا اور شاہ میر سے تجسس بھرے انداز میں پوچھا۔۔۔۔
“کیا ہوا تھا اس شام کو ؟” شا ہ میر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: “وہ ایک سرد شام تھی۔ اس روز ہوا بھی معمول سے ذرا کچھ زیادہ ہی تیز چل رہی تھی۔ سرد ہوائیں دائروں میں گھومتی ہوئی زمین پر اٹھکھیلیاں کر رہیں تھی۔ ہر روز کی طرح سجل اپنا کافی کا کپ لے کر چھت پر آئی اور بید سے بنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ دوسری کرسی کو خود سے قریب کیا اور اپنی کمر کو تھوڑا نیچے سرکا کر اپنے پیر دوسری کرسی پر رکھ لیے۔ سجل کے لمبے سیاہ بال ہوا کے جھونکوں سے اُڑ کر اس کے چہرے پر بار بار بکھر نے لگے۔ اس نے کافی کا مگ بید کی لکڑیوں سے بنی میز پر رکھا اور بڑی نفاست سے اپنے بالوں کا جوڑا گوندھ لیا۔ آسمان پر اُڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھتے دیکھتے کب سجل کی آنکھ لگ گئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔ سارے پرندے اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹ چکے تھے۔ سورج کب کا اپنی روشنیاں سمیٹ کر آسمان سے غائب ہوگیا تھا۔ جب سجل نیند سے جاگی تو اپنے چاروں جانب اندھیرا دیکھ کر سٹپٹا گئی۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا ہے۔ وہ سمجھی کہ اس کی والدہ اس کی پشت پر کھڑی ہیں لیکن جب سجل نے پلٹ کر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پا کر گھبرا گئی۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصّے میں اس کے ذہن میں کئی خیال آئے اورگئے۔ بدحواس ہو کر وہ کرسی سے اٹھی اور سیڑھی سے نیچے کی جانب دوڑ لگادی۔ سجل تیزی سے اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور کمرے کا دروازہ بند کرلیا۔۔۔۔
اس دن کے بعد وہ سارا سارا دن اپنے کمرے میں بند رہا کرتی یا پھر اپنی والدہ کی گود میں سر رکھے روتی رہتی۔ اپنی چاند سی بیٹی کو یوں گہن لگتا دیکھ کر سجل کی والدہ کا دل دُکھ سے بھر جاتا۔۔۔۔ اس کی والدہ کے دل میں سو طرح کے وسوسے جنم لے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
“کیا ہوا تھا سجل کو۔۔۔؟ وہ اس طرح کیوں behave کر رہی تھی؟۔۔۔۔ “دانیہ اپنی بے چینی پر قابو نہ رکھ سکی اور جھٹ سے سوال کر ڈالا۔۔۔۔۔
“اس شام جب سجل نے کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کیا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ ان دیکھا سایہ بھی اس کا تعاقب کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوگیا۔ سجل دُبک کر اپنے بستر پر لیٹ گئی اور خود کو کمبل سے ڈھانپ لیا۔ سجل نے محسوس کیا کہ پورے کمرے میں ایک پُر اسرار سی خوشبو پھیل گئی ہے۔ وہ خوفِ کی شدت سے کانپ رہی تھی۔ دسمبر کی سرد ہوائوں کے باوجود اس کا پورا بدن پسینے سے بھیگ رہا تھا۔ ڈر اور خوف سے اس کا حلق خشک ہوگیا ۔ وہ چلّا کر اپنی والدہ کو بلانا چاہتی تھی لیکن پھر اسے خیال آیا کہ گھر میں اس وقت کوئی اور موجود نہیں۔ والد دکان سے رات دس بجے کے بعد آئیں گے اور والدہ پڑوس میں کسی کی مزاج پرسی کے لئے گئی ہوئی ہیں۔ اسے اپنے اکیلے پن کا شدت سے احساس ہونے لگا۔ چند منٹوں بعد کمرے سے وہ پُراسرار خوشبو غائب ہوگئی۔ سجل کو ایسا محسوس ہوا کہ اب سے کچھ دیر پہلے جو کوئی بھی کمرے میں تھا وہ اب موجود نہیں۔ اس نے ہمت کرکے کمبل کا کونا اپنے چہرے سے ہٹایا اور کمرے میں چاروں جانب دیکھنے لگی۔ اسی لمحے ڈور بیل بجی ۔ اس نے اپنے بیڈ سے چھلانگ لگائی اور سیدھا دروازے کی جانب دوڑی۔ گھر کا دروازہ کھولا تو سامنے اپنی والدہ کو کھڑا پاکر ان سے لپٹ کر زور زور سے رونے لگی۔ سجل کی والدہ اس اچانک افتاد سے گھبرا گئیں۔ بیٹی کی یہ حالت دیکھ وہ گھبرا گئیں۔ انھوں نے دروازے پر کھڑے رہ کر ہی گھر کے اندر جھانکا اور کسی چور کے موجود نہ ہونے کی تسلی ہوجانے پر سجل کو اپنے ساتھ لے کر گھر میں داخل ہوگئیں۔ سجل نے روتے روتے سارا ماجرا اپنی والدہ کو کہہ سنایا۔ رات کو جب سجل کے والد دکان سے گھر آئے تو اس کی والدہ نے پورا قصہ دسترخوان پر ہی ان کے سامنے دُہرا دیا۔ سجل کے والد کُھلے ذہن کے مالک تھے اور دقیانوسی خیالات سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ انہوں نے سجل کا ماتھا چوما اور اسے سجل کا وہم قرار دیا لیکن سجل کے دل میں خوف اب بھی ڈیرہ جمائے بیٹھا تھا۔ اس واقعہ کے بعد سجل دن میں کئی بار اس پراسرار خوشبو کو اپنے آس پاس محسوس کرتی۔۔۔۔ وہ پُراسرار خوشبو سجل کی آنکھیں بن چکی تھیں۔۔۔۔۔۔ وہ سایہ جب سجل کے نزدیک آتا تو خوشبو اور تیز ہوجاتی۔ یہاں تک کہ اس کی گرم سانسیں بھی سجل اپنے چہرے پر محسوس کرسکتی تھی۔ سجل اس ان دیکھے سائے کو اپنے اتنا قریب پاکر خوف زدہ ہوجایا کرتی اور پاگلوں کی طرح چیختی چلاتی۔۔۔۔۔۔ ہر رات خوف کا بھیانک پرندہ سجل کے وجود کو اپنے بڑے بڑے پنجوں سے دیوانہ وار کُھرچتا اور اپنی بدصورت چونچ سے سجل کی روح تک نوچ لیتا تھا۔۔۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!