ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

واقعے کے کئی دن گذر جانے کے بعد خاندان کی ایک بزرگ خاتون جنہیں سب پیار سے خالہ بی پکارا کرتے تھے گھر آئیں۔ سجل کی والدہ سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے اپنا جی ہلکا کرنے کے لئے تمام واقعات خالہ بی کے سامنے کھول کر رکھ دئیے۔ خالہ بی بڑے دھیان سے والدہ کی بات سنتی رہیں۔ تمام قصہ کہہ لینے کے بعد سجل کی والدہ نے دُکھی لہجے میں کہا:
” خالہ بی! جوان جہان لڑکی ہے، ہم نے تو جیسے تیسے اپنی گذار لی پر اب دل میں ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ آسیب سجل کو نقصان نہ پہنچا دے”۔۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
“اے ہٹو دُلہن تم بھی کیا غم لے کر بیٹھ گئی۔ اب اگر تو اپنی سجو کے سامنے روئے گی تو اسے کیا خاک ہمت آئے گی۔ ارے میں تو کہوں۔۔۔ باپ اگر سر کا سایہ ہے تو ماں دل کی ڈھارس ہوئے اور ایک تو ہے، جو اپنی بچی کے سامنے بلک بلک کر رو رہی ہے۔ دیکھ بٹیا! جس طرح انسانوں میں نیک و بد ہوویں۔ وِسی طرح جناتوں میں بھی نیک اور شریر ہوویں۔ میں تو کہوں کہ فکر سے جی بھاری نہ کر۔ اگر تو کوئی ناس پیٹا شریر جن ہوتا تو کب کا ہماری چاند سی گڑیا کو نقصان پہنچا جاتا اور ان بھوت پریتوں سے ڈرنا کیسا۔ بس نماز اور پاکی کا خیال رکھ اور ہاں جمعرات کے جمعرات عصر کے وقت تھوڑی سے مٹھائی منگا کر محلے کے بچوں میں بانٹ دیا کر۔ اس سے گھر میں برکت ہوئے۔”
خالہ بی چلنے کے لئے صوفے سے اٹھیں اور سجل کو دیکھ کر ہوا میں ہاتھ لہراتے ہوئے کہا: “بال وال کھول کر مت پھرا کر۔ اب باز آجا اس فیشن ویشن سے۔ بالوں میں روز سرسوں کا تیل لگا یا کر اور انہیں باندھ کر رکھ۔ جس دن مولبی صاب ترا نکاح پڑھا دے۔ اس دن شوق سے بال کھول کر گھوما پھرا کر۔ پھر ترا خصم خود نمٹتا پھرے گا جن بھوتوں سے۔ ابھی اپنے ماں باپ کا جی کیوں ہلکان کرتی ہے۔ اللہ بخشے میری ساس کو جب وہ مجھے کُھلے بال لے کر چھت پر جانے سے روکتیں تو تمھارے خالو میاں دالان میں بیٹھے بیٹھے چلّا کر کہتے: ’’اے بی اماں! یہ تو میرا جگر ہے جو تمھاری بہو کو جھیل رہا ہوں۔ جن کوئی اشفرالمخلوقات تھوڑی ہے، جو یہ بھاری بوجھ لے کر عمر بھر ڈھوئے گا۔”
خالہ بی نے ‘اشرف المخلوقات’ کے تلفظ کو ایسے توڑ مڑوڑ کر ادا کیا کہ سجل اور اس کی والدہ کی ہنسی نکل گئی۔ جب خالہ بی نے سجل کو ہنستے ہوئے دیکھا تو ان کے جی کو قرار آیا لیکن مصنوعی غصے کا اظہار کرتی ہوئی بولیں: “ہنس لو! تم ماں بیٹی اپنی خالہ بی پر، اڑا لو جی بھر کر مذاق اس بڑھیا کا۔مانا کہ ان پڑھ ہوں لیکن زمانے کی عقل رکھوں۔ بس اب نہ آوں گی تمھارے گھر۔” یہ کہہ کر خالہ بی جیسے ہی دروازے کی طرف پلٹیں توسجل کی والدہ دوڑتی ہوئی آگے بڑھیں اور ان کو گلے لگالیا۔
” سجو تو فکر نہ کیجو۔۔۔۔ انڈیا میں جس حویلی بیاہ کر گئی تھی، وِدھربھوتوں کا ڈیرہ تھا ۔۔میں نے اپنی جوانی تمہارے خالو میاں اور بھوتوں کے درمیان گذاری ہے ۔ تمھارے خالو میاں نے شادی کے پہلے دن ہی سمجھا دیا تھا۔ بھوتوں کی اصل طاقت دل میں بیٹھا خوف ہوئے اور کچھ بھی نہیں۔ میں بولوں تو اچھا ہوا کہ پاکستان بن گیا۔ ہندوستان کے بٹوارے میں جناح صاب آدھے سے زیادہ جن گاندھی جی کی جھولی میں ڈال آئے۔ بس تو اب دل میں خوف کو مت پالیو۔ جے خوف بھی سانپ جیسا ہوئے ناس پیٹا۔ دودھ پلانے والے کو ہی ڈس لے۔ میں کہے دے رہی ہوں ، تجھے جن مارے نہ مارے لیکن جے خوف تجھے دیمک کی طرح چاٹ کھائے گا۔ گانٹھ میں باندھ لے میری بات کو۔”
یہ کہہ کر خالہ بی نے آنکھیں بند کیں اور دروازے پر کھڑے کھڑے زیر لب کسی قرآنی آیت کا ورد کرتے ہوئے ہوا میں شہادت کی انگلی گھماتی رہیں۔ جب آیت ختم ہوئی تو تین دفعہ زور سے تالی بجائی اور سجل کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتی ہوئی گھر سے باہر چلی گئیں۔





سجل اپنے بیڈ پر بیٹھی خالہ بی کی باتیں یاد کررہی تھی۔ نیکوکار جنات کا سوچ کر وہ بیتے ہوئے چند دنوں کا موازانہ کرنے لگی۔ اسے یاد آیا کہ سونے کے وہ جھمکے جو اس کی دادی نے اسے سالگرہ میں تحفے میں دئیے تھے، چند مہینوں پہلے وہ انہیں کہیں رکھ کر بھول گئی ۔ لاکھ ڈھونڈنے پر بھی نہ ملے۔ اپنی والدہ کی ڈانٹ کا ڈر تو اس کے دل میں تھاہی لیکن دادی کے دیئے ہوئے تحفے کے کھو جانے کا افسوس اس سے کہیں زیادہ تھا۔ لیکن پھراچانک چھت والے واقعے سے چند روز بعد وہ سونے کے جھمکے ڈریسنگ ٹیبل پر موجود تھے۔ سجل کو یہ بھی یاد آیا کہ پچھلے جمعے جب وہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی تو پریشر ککر کاڈھکن درست بند نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔ ککر سے قریب ہونے کے باوجود وہ معجزاتی طور پر محفوظ رہی۔ یہاں تک کے اس کے پورے جسم پر گرم سالن کی ایک چھینٹ تک نہ آئی۔ فلیش بیک کی طرح سارے واقعات اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگے۔ لیٹے لیٹے اس کے دل میں خیال آیا کہ خالہ بی سچ ہی کہتی ہیں، یہ کوئی نیک جن ہی ہے، جواسے کوئی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اب تک اسے حادثات سے بچاتا رہا ہے۔ یہ سب باتیں سوچ کر سجل کے دل سے ان دیکھے سائے کا خوف کچھ کم ہوا اور وہ اس کی موجودگی میں خود کو محفوظ تصور کرنے لگی۔ پھر ایک دن سجل نے اپنے ڈر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ اپنے خوف کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھی ۔۔۔۔۔
اس روزسجل شدت کے ساتھ اس آسیبِ جاں کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔۔ شام ڈھلتے ہی کمرے میں وہی مانوس سی خوشبو پھیلی تو سجل نے بلند آواز میں کہا:
“کیا تم موجود ہو۔۔۔؟”
یہ کہتے ہوئے سجل کی روح اندر تک کانپ اٹھی۔ وہ کسی انسان سے نہیں بلکہ ایک جن سے مخاطب تھی۔لیکن اس نے دوبارہ ہمت کی اور پھر پوچھا:
“سنو! کیا تم اس وقت کمرے میں موجود ہو۔۔۔۔؟” میں تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔
سجل کی کے بیڈ کے عین سامنے رکھی ہوئی کرسی سے ہلکی سی چرچراہٹ کی آواز آئی جیسے اس پر کوئی آکربیٹھا ہو۔۔ یا وہ اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتا ہو۔۔۔ سجل کے اعصاب تن گئے اس نے خود کو سنبھالا اور کرسی کی جانب دیکھتے ہوئے بولی:
“کون ہو تم ۔۔ اورتم مجھے کیوں پریشان کر رہے ہو۔؟ ”
“میں امروز ہوں۔۔۔” ایک گرج دار مگر خوب صورت آواز کمرے میں گونج اٹھی۔۔۔
اس آواز نے گویا سجل پر جادو سا کردیا، وہ ان دیکھا سایہ اس کی سماعتوں سے گذرتا ہوا رگ و پے میں سرایت کرگیا۔
خوف کا پرندہ سجل کے سینے سے چھلانگ مار کر دیوار سے جا لگا۔ سجل اب پہلے سے زیادہ سنبھلی ہوئی تھی۔ اسے یقین ہو چلا تھا یہ ان دیکھا سایہ بھلے جو بھی ہو، اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔
“میں تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔”
” کیوں ؟”
امروز سجل کی نظروں سے اوجھل تھا۔لیکن اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے “کیوں” کہتے ہوئے امروز زیرِ لب ضرور مسکرایا ہوگا۔۔۔
“میں اس عفریت کو دیکھنا چاہتی ہوں کہ جس نے میری زندگی کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ مجھے آسیب زدہ اور پاگل سمجھنے لگے ہیں۔ میری سہیلیاں اب مجھ سے اس لئے نہیں ملتیں کہ انہیں لگتا ہے کہ کہیں جناتی اثرات ان پر بھی نہ ہوجائیں۔ میرا دم گھٹنے لگا ہے اس مسلسل تنہا ئی میں۔۔۔ ہاں میں دیکھنا چاہتی ہوں اس خود غرض سائے کو کہ جس نے اپنی خوشی کے لئے میری زندگی میں غم ہی غم بھر دئیے۔”
یہ کہہ کر سجل کا چہرہ غصے اور خوف کی ملی جلی کیفیت سے سرخ ہوگیا۔ اس کی آنکھ سے آنسو بہتے ہوئے اس کے رخسار تک پھیل گئے۔ وہ ہچکیاں لے کر گھٹی ہوئی آواز میں رونے لگی۔ شاید یہ سب دیکھ کر امروز سے بھی برداشت نہ ہوا ۔ سامنے رکھی کرسی کے گرد دھوئیں نے چکر دار ہالہ بنا لیا اور پھر دھیرے دھیرے دھواں ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ دھواں جوں جوں غائب ہورہا تھا ۔ اس ان دیکھے سائے کا ایک ایک رنگ سجل پر کُھلتا چلا گیا۔۔۔۔۔ سجل حیرت کا بت بنی اپنے اس پجاری کو دیکھنے لگی جو اس کے عشق میں مبتلا تھا۔۔ کسرتی بدن، پُرکشش جسمانی خط وخال ، کاندھے تک لہراتے گھنگریالے بال، مضبوط بازو، گرج دار آواز۔۔۔ وہ بلاشبہ مردانہ وجاہت کا لازوال پیکر تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی یونانی دیوتا سجل کے سامنے بیٹھا ہو۔ وہ ٹکٹکی باندھے امروز کو دیکھتی رہی۔ امروز سجل کو یوں حیرت میں ڈوبا دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔ اپنے سامنے کسی اجنبی کی موجودگی کے احساس نے سجل کو نروس کردیا۔ اس نے مشینی انداز میں اپنے پیر کھینچ کر کمبل سے اندر کرلئے اور ان کے گرد ہاتھ کا حلقہ بنا کر مضبوطی سے بھینچا۔
خوف کا وہ دیو ہیکل جو ا ب سے کچھ دیر پہلے سجل کے سینے پر سوار تھا۔ اب وہ کمرے کے کونے میں بیٹھا اپنی نوکیلی چونچ سے اپنے ہی پر نوچ رہا تھا۔ گفت گو لفظوں کی محتاج نہ رہی۔ مسہری کے سرہانے رکھے تکیوں پر اپنی پشت ٹکا کر سجل نے اپنی آنکھیں بند کیں اور ان جادوئی لمحات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے لاشعور میں قید کرلیا۔
٭٭٭٭
سجل کی والدہ توہم پرست نہ تھیں لیکن خالہ بی سے ملاقات کے بعد کسی آسیب کا وہم ان کے دل میں جڑ پکڑنے لگا۔ سجل کی دن بدن بگڑتی صحت نے انہیں کسی پل چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ جب دوائیں سجل کی گرتی ہوئی حالت کو سنبھالنے میں ناکام رہیں، تو وہ اپنی بیٹی کی محبت میں پیروں فقیروں کے در کھٹکھٹانے لگیں۔ نا جانے خدا نے سجل کی قسمت میں ایسا کیا لکھ دیا تھا کہ جس پر تعویذ پر لکھا بھی بے اثر ہوجاتا۔ ہر نماز میں کی جانے والی دعائیں شرفِ قبولیت کی منزل تک پہنچنے سے پہلے واپس پھیر دی جاتیں۔ وقت بوجھل قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا۔ پھر اچانک دھیرے دھیرے سجل کے مزاج میں مثبت بدلاؤ آنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے ڈرغائب ہوگیا۔ وہ ایک بار پھر روز مرّہ کے کاموں میں دلچسپی لینے لگی اور اس کی زندگی واپس اپنی پرانی ڈگر پر چل پڑی۔ معمولات زندگی میں یہ خاطر خواہ مثبت بدلاؤ سجل کی والدہ کے لئے اچھی خبر تھی۔ لیکن افسوس یہ خوشی زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکی۔۔۔۔ ماں کی نظروں سے کچھ اوجھل نہیں رہتا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اب سجل کے کمرے سے رات رات بھر باتوں کی آوازیں آنے لگیں ہیں۔ اس نئے موڑ نے انہیں اور بھی پریشان کردیا۔ جب سجل کی والدہ اس سے پوچھا کرتیں کہ تم رات رات بھر کس سے باتیں کرتی ہو تو سجل اپنی والدہ کے کاندھے پر سر رکھ کر شرارت بھرے انداز میں کہتی ۔۔۔۔۔۔
“آپ کے ہونے والے داماد سے۔” اور یہ کہہ کر وہ زور زور سے ہنسنے لگتی۔۔
٭٭٭٭
اگلی صبح سجل تازہ دم اٹھی۔ کھڑکی سے دبیز پردہ ہٹا کر جب اس نے کھڑکی کے پٹ کھولے تو ٹھنڈی ہواؤں اور سورج نے اس کا مسکرا کر استقبال کیا۔ کھڑکی سے باہر نئے دن کا منظر اب ویسا ہی تھا کہ جیسے آج سے کچھ مہینے پہلے ہوا کرتا تھا۔ کثافت سے پاک لطیف اور رعنائیوں سے بھر پور دن۔ کمرے میں بکھرا ہوا سامان، شیلف میں رکھے بے ترتیب شو پیس اور کتابیں اس کے گئے دنوں کی اتھل پتھل کی کہانی بیان کر رہے تھے۔ سجل نے اپنے بال سمیٹ کر انہیں باندھا اور کمرہ درست کرنے لگی۔ مسہری پر نئی چادر بچھائی۔ دیواروں پر لگے جالے صاف کئے ، سنگھار میز پر رکھے پرفیومز اور میک اپ کا سامان ایک ترتیب سے سجایا۔ جب وہ پورا کمرہ صاف کرچکی تو اس کا دھیان بیڈ کے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر گیا۔ اب سے چند گھنٹے پہلے اس کرسی کی چرچراہٹ نے اس کے بدن کا سارا لہو خشک کردیا تھا۔ لیکن اب اس کی موجودگی حیا کی سُرخی بن کر اس کے گالوں پر دمک رہی تھی۔ سجل آگے بڑھی اور اپنے دوپٹے کے پلو سے کرسی صاف کرنے لگی۔ کرسی کی پشت صاف کرتے ہوئے سجل کو ایسا لگا کہ جیسے وہ امروز کی پشت کو سہلا رہی ہو۔ شیشم کی لکڑی سے بنی کرسی میں امروز کے جسم سے پھوٹتی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرا کر اس کے اعصاب کو مسحور کررہی تھی۔ جب سجل سارے کمرے کی صفائی کرچکی اور آخر میں سنگھار میز کا آئینہ صاف کرتے ہوئے خود پر نگاہ کی تو اپنے گرد سے اٹے بال اور سلوٹ زدہ کپڑوں کو دیکھ کر بڑبڑاتے ہوئے بولی:
” سجل اگر اس وقت تجھے وہ بھوت دوبارہ دیکھ لے تو چیخ مار کر ایسا بھاگے کہ پھر کبھی پلٹ کر واپس نہ آئے۔” ذہن میں یہ خیال آتے ہی کمرہ سجل کی مترنم ہنسی سے گونج اٹھا۔ سجل نے الماری سے سوٹ نکالا اور باتھ روم کا رُخ کیا۔ وہ بہت دیر تک شاور کے نیچے کھڑی رہی۔ نیم گرم پانی اس کے بدن سے ماضی کی اذیت ناک تھکن کو اتار کر نالی میں بہا لے گیا۔ اب وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!