”اوئے کہاں پھینک دی؟” وکٹ کیپر حیرت اورکچھ غصے سے چلایا تھا۔
گیند کو چھکا مار ا گیا تھا اور اب وہ ہوا میں جارہی تھی۔ بس مشکل یہ تھی کہ اس جگہ سے بہت دور گر رہی تھی جہاں وہ کرکٹ کھیل رہے تھے۔ شاید وہ پارک کا آخری کوناتھا جہاں گیند ایک درخت پر گرتی دکھائی دی۔ ایک دوسرے کو دھکا دیتے فیلڈنگ ٹیم کے دو لڑکے گیند لینے پہنچے۔وہ واقعی اس وسیع و عریض سفاری پارک کا آخری کونا تھا۔ کچھ تلاش و بسیار کے بعد انہیں ایک برگد کے نیچے گیند پڑی مل گئی۔
”چل اب میں باؤلنگ کراؤں گا۔ دیکھ میری اسپن کیسی ہے۔” گیند اٹھانے والے لڑکے نے اپنے ساتھی کو ایک سیمپل بال کر وائی۔ اس کی پشت درخت کی طرف تھی۔
”یہ اسپن ہے؟” ساتھی لڑکے نے ایک قہقہہ مارا اور پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگا۔
”اس سے اچھی اسپن تو شعیب اختر کی بال کر…” اس کا جملہ ادھورہ ہی رہ گیا کیوں کہ اس کے دوست کے عقب ایک چیز بلند ہو رہی تھی۔ باؤلر نے بے اختیار مڑ کر دیکھا۔ درخت سے اوپر ایک بڑا سا سیاہ سایہ بلند ہو اتھا۔ دونوں لڑکوں کی گھگی بندھ گئی ۔ ایک لمحہ وہ سایہ ساکت رہا ۔چمکتے سورج کے سامنے آتی ایک دیو قامت چمگادڑ کی طرح ۔پھر اس نے ایک بھیانک چبھتی ہوئی آواز کے ساتھ ان کی طرف غوطہ لگایا۔
دونوں لڑکے بے اختیار پلٹے اور سر پر پیر رکھ کر بھاگے۔ بھاگنے سے پہلے جو آخری منظر انہوں نے دیکھا وہ ایک چڑیل نما عورت کا چہرہ تھا۔ بس چہرہ …جس کا لمبوترا منہ کھلا ہوا اور آنکھوں کی جگہ سرخ شعلے سے دہک رہے تھے۔سر سے نیچے صرف ایک پھڑپھڑاتی چادر سی تھی جس کے اندر کوئی وجود نہیں تھا۔
٭…٭…٭
سات سال…پورے سات سال لگے تھے سنی کو اس شاک سے نکلنے میں۔ وہ جلد بحال ہو بھی جاتا اگر اس کی امی اسے گھر میں قید نہ کر لیتیں۔ ماں باپ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی اولاد ہونے کے کچھ نقصانات بھی تو ہوتے ہیں نا؟ بہرحال، آج کا دن مختلف تھا۔ آج وہ چھپ چھپا کر گھر سے نکلنے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا۔آخر کب تک وہ بھائی کے مذاق کا نشانہ بنتا رہتا؟امی اجازت نہیں دیتی تو اس لیے کہ وہ اسے ابھی تک ڈرپوک اور شرمیلا سمجھتی تھی۔ جب کہ وہ اب ایک ٹین ایجر تھا۔
”آج میں پارک میں اکیلا گھوموں گا اور واپس جا کر امی کو بتاؤں گا۔ پھر انہیں یقین آجا ئے گا کہ سنی اب خوف زدہ نہیں ہوتا۔”
کئی ہفتوں کی پلاننگ کے بعد آج اس نے عمل کرنے کے لیے صبح صادق کا وقت چنا تھا۔فجر کی اذان سے کچھ پہلے کا وقت۔ اس وقت اندھیرے میں ڈوبا پارک سنسان پڑا تھا۔ کہیں کہیں لیمپ جل رہے تھے۔ یہ شہر کا سب سے بڑا پارک تھا۔ اندھیرا، تازہ تازہ ہوا، سارا پارک اسی کا تھا۔ سنی جیسے آج ہی زندہ ہوا تھا۔وہ دھیمے دھیمے گنگناتا جاگنگ ٹریک پر چلنے لگا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہوا کا ایک جھونکا آتا اورپیڑ پودے سائیں سائیں کرنے لگتے۔ وہ خوش تھا اتنا خوش کہ ہر دوسرا قدم اچھل کر لیتا اور جانے کون کون سے آدھے ادھورے گانے جوڑ جوڑ کر گاتا جاتا۔
اسی سرمستی کے عالم میں فجر بھی ہو گئی۔ وہیں پارک کے ایک کونے میں اس نے نماز ادا کی۔ پچھلے ایک سال سے اس کی امی اسے ہر نماز میں سورئہ جن کا کچھ حصہ تلاوت کرنے کو کہتی تھیں۔ آج بھی اس نے یہی سورہ پڑھی۔جب نیلا نیلا سا سویرا ہونے لگا تو وہ پارک کی بنچ پر بیٹھ کر اردگرد کے مناظر اپنے اندر اتار نے لگا۔یکا یک دائیں طرف ایک منظرپراس کی نظرپڑی۔ ایک دبلا، لمبا سا وجود، تاڑ سا لمبا، اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی چال میں عجیب سی مستی تھی۔ جیسے کسی دھن پر سر دھنتا چلا آرہا ہو۔ نیم اندھیرے میں درختوں سے گھری روش پر وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اسی طرف چلا آرہا تھا۔ نہیں…وہ چلی آرہی تھی۔
وہ آرہا تھا یا آرہی تھی، اس سے قطعِ نظر، سنی کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ بیٹھا رہوں؟ بھاگ جاؤں؟ قوتِ فیصلہ اس سے چھینی جا چکی تھی۔ اور وہ پھر نہ بیٹھا،نہ بھاگا اور وہ اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں۔ اس نے وہی کیا جو اس کی فطرت میں تھا۔ وہ غائب ہو گیا۔
٭…٭…٭
مرجان جو سامنے سے چلتی آرہی تھی، وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئی۔ یہ کیا ہوا تھا؟ ایک لمحہ پہلے ایک موٹا سا لڑکا بنچ پر بیٹھا ادھر اھر دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی مرجان پر اس کی نظر پڑی ، اس کا رنگ سفید پڑ گیا ۔ وہ شدید خوف زدہ نظر آنے لگا ۔مرجان کانوں میں ہیڈ فون لگائے واک کرتی آرہی تھی اور غیر ارادی طور سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے نوٹس بھی نہ کرتی اگر وہ وہاں بیٹھے بیٹھے غائب نہ ہو جاتا۔ ایسے ہی ، ٹھک کر کے۔ ابھی تھا، ابھی غائب۔
ٹھیک ہے اس کا دھیان کہیں اور تھا مگر وہ چھوٹے سے قد کا موٹا سا لڑکا واقعی وہاں تھا۔ کچھ تو گڑبڑ تھی اور یہ مرجان کے لیے بڑی بے عزتی کی بات تھی کہ اس کے آس پاس ہوئی کسی گڑبڑ میں اس کا حصہ نہ ہو۔ سو وہ کچھ سوچ کر پارک کے چوکیداروں کے پاس چلی آئی جو اپنے کیبن میں گھسے چائے پی رہے تھے۔ جینز اور جیکٹ پہنے ایک لڑکی کو آتا دیکھ کر وہ دونوں چونک کر کھڑے ہو گئے۔
”جی باجی؟” ان میں سے ایک نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
”مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ آپ لوگ کب سے اس پارک میں چوکیدار ہیں؟” وہ سیدھا مدعا پر آیا کرتی تھی۔
”میں آٹھ سال سے ہوں اور یہ دس سال سے۔” چوکیدار نے اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کیا۔ ”مگر ہوا کیا ہے باجی؟”
”ہمم!” مرجان نے اوپر سے نیچے تک سینئر چوکیدار کو گھورا پھر بولی۔
”آپ بتا سکتے ہیں کہ کیا اس پارک میں کچھ انہونے واقعات ہوئے ہیں؟” بڑے عام سے مگر باوثوق انداز میں اس نے پوچھا۔
”آپ کو کیسے؟ امارامطلب نئیں تو…” چوکیدار گڑبڑا گیا۔
”مجھے کیسے پتا چلا؟ یہی پوچھنا چاہتے تھے نا آپ؟” مرجان نے ایک شاطر مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”مجھے صرف چند باتیں پتا ہیں، سب نہیں، اس لیے مجھے تفصیل سے بتائیں۔”
”میڈم پارک کا انتظامیہ نے ام کو منع کیاہے۔ اگر اسی طرح لوگ باتیں سنتارہاتو یہاں کون آئے گا؟” چوکیدار منمنایا۔ مرجان نے ایک گہری سانس لی۔
”دیکھیں! میں ایک صحافی ہوں۔ یہ سب میں ذاتی مقاصد کے لیے پوچھ رہی ہوں۔ اگر آپ نے نہیں بتایا تو میں اس پارک پر فیچر چھپوا دوں گی ،آپ دونوں کے شکریے کے ساتھ۔” اس نے جیب سے ایک ببل نکال کر منہ میں ڈالی اور معصومیت سے بولی۔
”پھرآپ مشکل میں پڑ جائیں گے۔”
دونوں چوکیدار گھبرا گئے۔ جونیئرنے سینئر کو اشارہ کیا اور سینئر تھوک نگلتے ہوئے بول پڑا:
”سات سال پہلے…مگر تم وعدہ کرو باجی کہ تم کسی کو امارانہیں بتائے گا۔” اس نے تصدیق ضروری سمجھی۔
”ہر گز نہیں! یہ میرا وعدہ ہے۔” مرجان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”چھوٹا موٹا تو یہاں چلتا رہتا ہے، مگرسات سال پہلے ایک بڑا واقعہ ہوا تھا۔ اس دن کچھ بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ بیٹنگ کرنے والے نے ایک زور دار شاٹ ماری کہ گیند دور جا کر گرا۔ وہ جو باجی بالکل کونے والا جھنڈ ہے نا درختوں کا؟ اس پر۔خیر چوڑو، تم کو یاں سے نظر کیسے آئے گا۔ پھر دو بچہ لوگ گیند واپس لینے گیا اور پھر ان کو دکھی….” چوکیدار کو بھی اب اس سنسنی خیز قصہ گوئی میں مزہ آرہا تھا۔
”ایک جن…!”
”جن؟” مرجان چونک گئی۔
”ان کو کیسے پتا کہ وہ جن ہے؟” اس کا لہجہ شک سے لبریز تھا۔
”او باجی تھی نا جن! بلکہ شاید جننی تھا کوئی!”
”جن تھی یا جننی تھا؟” مرجان خوف کے بجائے مذکر مؤنث میں الجھ گئی۔
”وہ بچہ بعد میں بولا تھا کہ کوئی لیڈیز ٹائپ تھا۔” جونئیر چوکیدار مدد کو آیا۔
”ام اس وقت پرینچ پرائز (فرینچ فرائز)والے کے پاس کام کرتا تھا۔ اس کا چہرہ کالا سیاہ تھا اور آنکھیں لال لال انگارہ! بلکہ صرف شکل ہی تھا، جسم کوئی نہیں تھا اس کا۔”
مرجان کے چہرے پر یقینا بے یقینی آئی ہو گی تبھی دوسرے چوکیدارنے جلدی سے گردن ہلائی۔
”ہاں ہاں ایسا ہی تھا وہ باجی!”
”تم دونوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا؟”
”آہ! نہیں آنکھوں سے تو نہیں دیکھا۔” وہ گڑبڑایا۔
”مگر دونوں لڑکوں نے ایسا بتایا تھا۔ وہ دونوں بہت خوفزدہ تھی۔ پھر وہ بے ہوش ہو گئی۔ ”
اتنے میں ایک سولہ سترہ سالہ لڑکا اپنی ٹوپی سیدھی کرتا ہوا ان کے پاس گھس آیا۔
”اوئے محمد خانا! تم کو بولا تھا دوسری طرف جانے کو تم پھر آگیا۔” سینئر چوکیدارنے لڑکے کو گُھرکا۔ پھر مرجان سے مخاطب ہوا۔
”یہ امارا بھانجی ہے۔ امارے سر پڑ گئی ہے۔ کتابیں متابیں پڑھتا رہتا ہے۔ کام مام نئیںہوتا اس سے۔”
وہ پٹھان لڑکا خفا سا ہوتا ہوا دوسری طرف چلا گیا۔
”ماڑاوہ تو بتاؤ جو اس نے حملہ بھی کیا تھا اور تم نے اس کا آواز بھی سنا تھا۔” سینئر نے جونیئر کو ٹہوکا دیا۔
”اوہ ہاں! ام بھول گیا تھا۔” اس نے دانت نکالے۔
”جب یہ سارا کچھ ہو رہا تھا ناتوام وئیں قریب تھا۔ ام کو ایسی آواز آئی۔ ایسی منحوس آواز آئی جیسے لگا امارا دل بند ہو جائے گا۔ وہ آواز اسی چیز کا تھا۔”
”ہمم!” مرجان نے پر سوچ انداز میں ببل پھلائی۔ پھر ان دونوں کی طرف دیکھ کر بولی۔ ”بس؟” دونوں کے اثبات میں سر ہلانے پر اس نے ببل کا بلبلہ پھوڑا۔
”چھٹیاں کینسل مرجان۔” وہ زیرِ لب بڑبڑائی۔
٭…٭…٭