سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

اس نے آج پھر مجھے فون کیا تھا۔
”مریم اسے کہو مجھے معاف کر دے ایک بار صرف ایک بار مجھ سے مل لے، مجھے اپنی شکل دکھا دے۔”
اس نے التجا کی تھی۔
”ایمن یہ میرے بس میں نہیں۔”
”کیسے تمھارے بس میں نہیں۔” وہ بے اختیار چلائی تھی۔
”تم اسے کچھ کہو اور نہ مانے یہ کیسے ہو سکتا ہے، وہ تمھارے اشاروں پر چلتا ہے اور تم کہتی ہو یہ بات میرے بس میں نہیں یہ کیوں نہیں کہتیں کہ تم ایسا چاہتی ہی نہیں۔”
اس کی آواز آنسوؤں سے بھیگ رہی تھی۔ میں نے آہستگی سے فون بند کر دیا۔
اس نے ٹھیک کہا تھا میں واقعی ایسا نہیں چاہتی تھی اور اگر میں چاہتی بھی تو جو دیواریں ان دونوں کے بیچ حائل تھیں انھیں پار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی اور پھر اسے کس چیز کی کمی ہے جو وہ میری واحد خوشی کو بھی چھین لینا چاہتی ہے مگر اب میں ایسا نہیں ہونے دوں گی، وہ مریم مر چکی ہے جو اپنے گلے سے پھولوں کے ہار اتار کر اس کے گلے کے کانٹوں کے ہار پہن لیا کرتی تھی اور اس مریم کا مر جانا ہی بہتر ہے۔
آنکھیں بند کیے کرسی پر جھولتے ہوئے میں مسلسل ایمن کے بارے میں سوچ رہی تھی اس کے فون نے، اس کی آواز اس کی التجا نے اس کے آنسوؤں نے یادوں کی ساری کھڑکیاں کھول دی تھیں اور میں انھیں بند کرتے کرتے تھک گئی تھی۔
کبھی کبھی اچھا لگتا ہے۔
رات کے اس پہریوں ماضی میں جھانکنا، جب آپ کو یقین ہو کہ آپ کے پیروں کے نیچے کی زمین اب اپنی جگہ نہیں چھوڑے گی اور یہ جانتے ہوں کہ سر پر موجود آسمان آپ پر نہیں آن گرے گا۔ اب میں ماضی کو آنسوؤں کے ساتھ یاد نہیں کرتی، اتنا سکون اتنا قرار ہے میرے اندر کہ کوئی خلش مجھے بے قرار نہیں کرتی، کھلی کھڑکی سے آنے والی ہوا بہت بھلی لگ رہی ہے۔ کاش یہ یوں ہی ساری عمر مجھے سہلاتی رہے۔
”آپ نے پوری کہانی نہیں سنائی اور مجھے سلا دیا۔”




میرے کمرے میں اچانک ایک آواز ابھری تھی اسامہ نیم اندھیرے میں اپنی موٹی موٹی آنکھیں کھولے مجھے دیکھ رہا تھا پتا نہیں کس وقت اس کی آنکھ کھل گئی تھی مجھے بے اختیار اس پر پیار آیا۔ میں اٹھ کر اس کے قریب بیڈ پر آ گئی اور ٹیبل لیمپ جلا دیا۔
”تم سو گئے تھے پھر کہانی کسے سناتی۔”
اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے میں نے کہا۔
”پھر اب سنائیں۔” اس نے میرے گلے میں بانہیں ڈال دیں میں نے اس کا ماتھا چوم لیا گیٹ پر اچانک ہارن کی آواز سنائی دی تھی وہ واپس آ گیا تھا میں نے وال کلاک پر نظر ڈالی رات کے دو بج رہے تھے۔
”کہانی سنائیں نا؟” اسامہ نے مجھے خاموش دیکھ کر اصرار کیا۔
”سناتی ہوں بھئی سناتی ہوں۔”
”تمھیں یاد ہے کہاں تک سنائی تھی؟” اس نے کہانی دہرانی شروع کی میں اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ اس وقت وہ داخلی دروازہ کھول کر اندر آ گیا ہوگا، میں نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی میں روز یہی کیا کرتی تھی۔
”اب وہ لاؤنج میں آ گیا ہوگا، ملازم نے اس سے چیزیں پکڑی ہوں گی۔” سیڑھیوں پر اس کے قدموں کی آواز آ رہی تھی وہ میرے اندازے کے عین مطابق سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔
میں جانتی تھی اب تھوڑی دیر میں وہ میرے کمرے میں آنے والا تھا۔ میں نے پیار سے اسامہ کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
”شہزادی Palace کی کھڑی میں بیٹھ کر روز رویا کرتی تھی مگر کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا تھا پھر ایک دن وہاں سے ایک شہزادہ گزرا، اب آگے سنائیں۔” اسامہ نے اپنی سنی ہوئی کہانی کا اعادہ کر دیا تھا اب وہ آگے سے کہانی سننے کا منتظر تھا۔
”پھر شہزادے نے شہزادی کو دیکھا…” میں نے کہانی شروع کی قدموں کی چاپ میرے دروازے پر رک گئی تھی اس نے ہینڈل گھمایا اور دروازہ کھول دیا۔
*****
وہ خوبصورت تھی بے حد خوبصورت تھی بلکہ بعض دفعہ میں سوچتی تھی کہ کیا دنیا میں کوئی اس سے زیادہ خوبصورت بھی ہو سکتا ہے اور میرا میجک مرر مجھے ہمیشہ یہی بتاتا تھا کہ دنیا میں اس سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں ہے، ہر ایک کی آنکھوں میں اس کے لیے ستائش ہوتی تھی اور مجھے اس پر رشک آتا تھا وہ خوبصورت تھی اور اسے اپنی خوبصورتی کا استعمال آتا تھا، میرے جیسے لوگ اس کے مداح تھے، اس کے معمول تھے وہ جو چاہتی کروا لیتی، مجھ سے چھوٹی تھی اس لیے لاڈلی تھی میری اکلوتی بہن تھی اس لیے بھی مجھے پیاری تھی اور صرف مجھے ہی نہیں سب کو ہی میں امی، ابا سب اس کو آسائش دینے میں لگے رہتے۔
”ایمن کو یہ چاہیے ایمن کو وہ چاہیے، ایمن کو یہ پسند نہیں ایمن کو وہ پسند نہیں۔” یہ وہ جملے تھے جو ہر وقت گھر کے کسی نہ کسی فرد کی زبان پر رہتے اور ہم میں سے کوئی بھی اس کی مرضی کے خلاف کوئی بھی کام نہ کرتا، آہستہ آہستہ پورا گھر اس کی مرضی سے چلنے لگا، گھر میں ہر کام اس کی پسند کے مطابق ہوتا، ہر چیز اس کی پسند سے آتی اس کی مرضی کے مطابق رکھی جاتی۔ اور یہ صرف گھر پر ہی بس نہیں تھا وہ مجھے بھی اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق استعمال کرتی تھی گھر میں جو چیز آتی پہلے انتخاب کا حق ایمن کو دیا جاتا پھر میری باری آتی اور پھر پتہ بھی نہیں چلا اور میں ہمیشہ جو چیز بھی لاتی اس میں سے بہترین چیز ایمن کے لیے علیحدہ کرنے کی عادی ہو گئی، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اگر ایک جیسے جوتے یا کپڑے آتے تو ایمن اپنا سلوا کر خاص مواقع کے لیے محفوظ کر دیتی اور کسی عام سی جگہ پر جانے کے لیے بھی میرا والا سوٹ یا جوتا استعمال کرتی، مجھے کبھی اس پر اعتراض نہیں ہوا ہاں امی کو کبھی ہوتا تو وہ بڑے دھڑلے سے کہتی۔
”ہاں ایسے عام سے موقع پر اپنا سوٹ پہن کر خراب کر لوں۔”
”تو کیا مریم کا خراب نہیں ہوگا۔” امی کہتیں۔
”اس کی خیر ہے اسے کون سا اتنا باہر آنا جانا ہوتا ہے۔”
میں ہمیشہ امی کو بات بڑھانے سے روک دیتی۔
”کوئی بات نہیں امی کچھ نہیں ہوتا۔” مجھے اس سے کبھی بھی کوئی شکوہ نہیں ہوا تھا یہ تو عام سی چیزیں تھیں میں تو ضرورت پڑنے پر اس کے لیے جان بھی دینے سے گریز نہیں کرتی مگر ایسا موقع کبھی آیا ہی نہیں۔
مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ میری اس عادت نے کب اسے خود غرض بنا دیا کب اس نے میری ہر چیز ہر حق چھیننا عادت بنا لیا چونکہ مجھے اس سے کوئی حسد نہیں ہوتا تھا اس لیے تب بھی اعتراض نہیں ہوا جب میرے بچپن کے منگیتر سعد نے میری بجائے اس سے شادی پر اصرار کیا تھا۔
وہ میری خالہ کا بیٹا تھا باقاعدہ منگنی تو ہماری نہیں ہوئی تھی لیکن بچپن سے ہی ہر کوئی جانتا تھا کہ میری شادی سعد سے ہی ہوگی ہم دونوں میں آپس میں بہت ہی کم بات چیت ہوتی تھی بلکہ شادی ہی کبھی ہوئی ہو، وہ بہت کم گو تھا اور سنجیدہ بھی ہمارے گھر اس کا زیادہ آنا جانا نہیں تھا۔ شروع میں وہ پڑھائی میں مصروف رہا اور پھر بعد میں اس نے کاروبار شروع کر دیا تھا آہستہ آہستہ ان کے مالی حالات بہت اچھے ہو گئے تھے وہ ہماری طرح لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے خالو واپڈا میں سپرنٹنڈنٹ تھے وہ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ اور MBA کرنے کے بعد اس نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر امپورٹ ایکسپورٹ کا کام شروع کیا تھا وہ لیدر جیکٹس بنوایا کرتا تھا اور بہت کم عرصے میں وہ لوئر مڈل کلاس سے نکل کر اپر مڈل کلاس میں آ گئے تھے۔
جب امی نے مجھ سے سعد کی ضد کا ذکر کیا تھا تو چند لمحوں کے لیے تو میں بے یقینی کے عالم میں انھیں دیکھتی رہی پھر میں نے وہی کہا تھا جو میں ہمیشہ کہتی تھی۔
”کوئی بات نہیں امی اس میں حرج ہی کیا ہے۔”
اس بار امی نے مجھے بے یقینی سے دیکھا تھا۔
”وہ تمہارا بچپن کا منگیتر ہے۔” انھوں نے کہا تھا۔
”ہاں مگر اب وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تو اسے مجبور تو نہیں کیا جا سکتا۔”
”ہاں مجبور نہیں کیا جا سکتا تو پھر وہ کہیں اور شادی کرے تم سے نہیں تو ایمن سے بھی نہیں۔” امی نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا اور میں چپ ہو گئی تھی، شاک مجھے ضرور لگا تھا مگر میں نے ہمیشہ کی طرح خود پر قابو پا لیا میں مضبوط تھی اس لیے یہ صدمہ بھی برداشت کر گئی۔
پھر ایمن میں حیرت انگیز تبدیلی آئی تھی۔ وہ بات بات پر جھگڑتی، لڑتی اور پھر رونے بیٹھ جاتی، پھر مجھے پتا چلا کہ وہ امی سے اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ وہ سعد کا رشتہ قبول کریں امی اس بات پر تیار نہیں تھیں اور وہ اتنی ہی بضد تھی پتا نہیں یہ سب مجھے اچھا لگا یا نہیں ہاں مگر مجھے یاد ہے کہ میں نے زندگی میں پہلی بار امی سے ضد کی تھی۔ اور اپنی بات منوا لی تھی۔
ایمن کی شادی سعد سے ہو گئی تھی۔ مجھے یاد ہے میری دوست عالیہ اس بات پر بہت دیر تک مجھ سے لڑتی رہی تھی۔
”تم پاگل ہو چکی ہو مریم، تم واقعی پاگل ہو چکی ہو۔” اس نے جاتے جاتے مجھ سے کہا تھا اور میں نے جواباً کہا تھا۔
”فاطمہ اس سے کیا ہو جائے گا، میں پہلے بھی اسے اپنی چیزیں دیتی رہی ہوں اور اب بھی سہی۔”
”سعد کوئی چیز نہیں ہے سمجھیں تم، دیکھنا تم بہت پچھتاؤ گی جب لوگ یہ پوچھیں گے کہ اتنے سال منگنی رہنے کے بعد تمھارے منگیتر نے تمھیں کیوں چھوڑ دیا تو پھر کیا کہو گی، ایمن جیسے لوگوں کو خود غرض بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ تم جیسوں کا ہوتا ہے سمجھیں تم۔”
”فاطمہ ویسے سعد کے ساتھ ایمن ہی سجے گی، ان دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت لگے گی۔” میں نے بات بدلنے کی کوشش کی تھی۔
”بھاڑ میں جائے ان کی جوڑی اور تم بھی۔” وہ دروازہ پٹخ کر باہر چلی گئی تھی مگر مجھے تب بھی کوئی ملال نہیں ہوا۔
ایمن شادی پر بہت خوبصورت لگ رہی تھی یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی اور دنیا سے آئی ہو میں نے خالہ کو اس طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
”دیکھیں خالہ وہ کتنی خوبصورت لگ رہی ہے۔” انھوں نے ایک نظر اسے دیکھا پھر مجھے دیکھا اور کہا۔
”ہاں وہ صرف خوبصورت لگتی ہے۔”
میں ان کی بات نہیں سمجھی تھی اور سمجھنا بھی نہیں چاہتی تھی سعد اس شادی سے بہت خوش تھا میں نے زندگی میں پہلی بار شادی کے موقع پر اسے قہقہے لگاتے دیکھا تھا اور اسے اتنا خوش دیکھ کر مجھے عجیب سی ندامت کا احساس ہوا تھا اگر مجھے یہ پتا ہوتا کہ مجھ سے پیچھا چھوٹ جانے پر وہ اتنا خوش ہوگا تو میں بہت پہلے یہ کام کر گزرتی۔
وہ دونوں بہت خوش تھے اور میں ان کی خوشی پر خوش تھی۔
سعدشادی کے بعد میرا سامنا کرنے سے کترایا کرتا تھا اور یہی حال میرا تھا، میں ان دونوں کو کسی مشکل لمحے سے دوچار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سو کوشش کرتی کہ ان سے زیادہ سامنا نہ ہو۔
پھر زندگی اپنے معمول پر آ گئی تھی۔ میں نے بی اے کرنے کے بعد ایک اسکول جوائن کر لیا تھا امی نے میرے کئی اچھے رشتے بھی معمولی سی خامی پر ٹھکرا دیے، حالانکہ میں ان سے کہنا چاہتی تھی کہ اب اتنی چھان بین کا کوئی فائدہ نہیں جب سعد نہیں تو پھر کوئی بھی سہی اچھا ہو یا برا اس سے کیا فرق پڑتا ہے، گزارنی تو زندگی ہی تھی اور وہ بہرحال گزر جاتی مگر میں امی سے یہ نہیں کہہ پائی۔
میں 24 سال کی ہو گئی تھی۔ زندگی آہستہ آہستہ گزرتی جا رہی تھی میری عمر بڑھانے والا ہر سال امی کی پریشانی میں اضافہ کر دیتا مگر میں کیا کر سکتی تھی نہ میں وقت کے پہیے کو روک سکتی تھی نہ امی کی پریشانی ختم کر سکتی تھی ہاں اگر میں کچھ کر سکتی تھی تو وہ صبر تھا اور یہ کام میں برسوں سے کر رہی تھی۔
دن ایسے ہی گزر رہے تھے جب اچانک ہماری زندگی میں بھونچال آ گیا تھا وجہ اس بار بھی ایمن ہی تھی، وہ سعد سے طلاق چاہتی تھی اور اس کی کوئی معقول وجہ اس کے پاس نہیں تھی اس کی شادی کو چار سال گزر گئے تھے ایک بہت خوبصورت بیٹا بھی تھا اس کا، سعد کا کاروبار ترقی کر رہا تھا گھر میں اس پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی، سعد اس پرجان چھڑکتا تھا، پھر بھی وہ طلاق چاہتی تھی اور طلاق حاصل کرنے کے لیے وہ ہمارے پاس نہیں آئی بلکہ اپنی ایک دوست کے گھر اس نے رہائش اختیار کر لی وہ حدید کو بھی چھوڑ گئی تھی۔
سعد اور خالہ بے حد پریشان تھے اور ہم لوگ صرف پریشان نہیں تھے ہم پر تو جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا تھا۔
ہزار دقتوں کے بعد سعد نے اس کی رہائش گاہ کا پتہ چلایا تھا مگر اس نے سعد سے بات کرنے سے قطعی طور پر انکار کر دیا اور اسی سلوک کا سامنا ہمیں کرنا پڑا جب سعد نے ہمیں اسے سمجھانے کے لیے بھجوایا تھا، پھر ہم ایک بار نہیں بیسیوں بار اسے سمجھانے کے لیے گئے تھے مگر اس نے ہمیشہ ہم سے ملنے سے انکار کر دیا اور آخری دنوں میں تو اس کا چوکیدار ہمیں دیکھ کر گیٹ بھی نہیں کھولتا تھا۔
پھر جب سعد نے اسے طلاق دینے سے انکار کر دیا تو اس نے خلع کا کیس کر دیا۔ سعد کی حالت ان دنوں پاگلوں جیسی تھی اس کا بسا بسایا گھر اجڑ رہا تھا اور وہ اس کی تباہی دیکھنے پر مجبور تھا، وہ دن میں تین تین بار ایمن کے گھر جاتا کہ شاید وہ اس سے بات کر لے شاید وہ اپنی خفگی کی وجہ بتا دے مگر وہ اس کے سامنے نہیں آئی وہ اس کے وکیل کے سامنے گڑگڑاتا منت کرتا کہ وہ اس سے پوچھیں کہ اس سے کیا غلطی ہوئی ہے اسے کیا چیز بری لگی ہے مگر اس کا وکیل ہمیشہ کہتا۔
”وہ کہتی ہے کہ وہ آپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں وہ آپ سے طلاق چاہتی ہیں۔”
اور پھر وہی ہوا تھا جو ایمن نے چاہا تھا سعد نے بہت کوشش کی تھی کہ کیس کو لٹکا دیا جائے مگر ایسا نہیں ہوا ایمن کے وکیل بہت نامی گرامی تھے۔ اور وہ پیسہ پانی کی طرح بہا رہی تھی۔
کیس کورٹ گیا اور سعد کے کردار کے بارے میں ایمن کے وکیل نے بے شمار باتیں کہیں، انھوں نے جھوٹے گواہوں کے ساتھ کورٹ میں ثابت کر دیا کہ سعد ایک بدکردار شخص ہے جو بیوی کو مارتا پیٹتا ہے، اور اس کی کوئی ذمہ داری پوری نہیں کرتا اور اپنی بیوی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے میکے سے روپے لائے اور وہ ایمن کے کردار پر شک بھی کرتا ہے ایسے شخص کے ساتھ کوئی عورت نہیں رہ سکتی۔
میں جانتی تھی سعد ایسا نہیں ہے وہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا میرے گھر والے جانتے تھے کہ یہ سب غلط ہے مگر عدالت میں اس کے خلاف گواہ موجود تھے، ثبوت تھے اور ایمن بس ایک بار کوٹ میں آئی تھی اور اپنی لاجواب اداکاری سے اس نے سب کو ہرا دیا تھا، آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی لیے آنکھیں جھکائے بکھرے بالوں اور لرزتی آواز کے ساتھ اس نے اپنے بیان سے کیس جیت لیا تھا۔
کورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا اور اب ہمارے کرنے کو کچھ نہیں رہا تھا، سعد فیصلہ سن کر وہیں عدالت میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا مگر ایمن کسی کو دیکھے بغیر ان ہی لوگوں کے ساتھ واپس چلی گئی تھی جن کے ساتھ وہ آئی تھی تب کسی کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟
”پچھلے ایک سال سے وہ بہت عجیب ہو گئی تھی، معمولی باتوں پر سعد سے جھگڑتی اس نے سعد سے بے تحاشا فرمائشیں شروع کر دی تھیں، سعد ان سب باتوں سے پریشان تھا، مگر پھر بھی وہ اس کی ہر بات مان لیتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اس کے پارٹنر نے اپنا بزنس الگ کر لیا تھا سو اسے مالی طور پر کچھ نقصان برداشت کرنا پڑا تھا، پھر ایمن جو فرمائش کرتی اس نے بھی مالی طور پر اسے کافی نقصان پہنچایا تھا، پہلے وہ جتنا جیب خرچ اسے دیتا وہ اس پر ہی بہت خوش تھی کیونکہ وہ اس کی ضرورت سے زیادہ ہوتا تھا مگر اب وہ جتنا بھی دیتا وہ خوش نہ ہوتی بلکہ ہر دو چار دن کے بعد کسی نہ کسی بہانے وہ مزید روپوں کا مطالبہ کر دیتی۔
وہ ہر وقت گھر سے باہر رہتی تھی اور حدید پر بھی اس کی توجہ کم ہو گئی تھی مگر ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اس طرح کرے گی۔”
خالہ نے خلع کے بعد ہمیں بتایا تھا حدید بہت چھوٹا تھا اور خالہ اسے سنبھال نہیں پاتی تھیں سو وہ اسے ہمارے گھر چھوڑ گئیں ہم لوگ خالہ اور سعد سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہے تھے بلکہ ہم تو کسی کا بھی سامنا نہیں کر سکتے تھے۔ ہر آنے والا یہی تذکرہ چھیڑ کر بیٹھ جاتا اور ہماری ندامت میں اضافہ کرتا جاتا۔
ایمن نے خلع کے بدلے سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ جہیز کا سامان حق مہر حتیٰ کہ حدید کو بھی، وہ دو سال کا تھا اور ہر وقت روتا رہتا تھا مجھے اس پہ بے تحاشا ترس آتا اور میں سارا دن اسے اٹھائے پھرتی اس کی وجہ سے میں نے اسکول بھی چھوڑ دیا۔ آہستہ آہستہ وہ مجھ سے مانوس ہو گیا مجھے اس سے اس لیے محبت تھی کہ وہ ایمن اور سعد کا بیٹا تھا اور اس لیے بھی کہ اس نے ماں کے ہوتے ہوئے بھی اسے کھو دیا تھا۔
میں جب بھی اس کا چہرہ دیکھتی، مجھے ایمن یاد آ جاتی، وہ بالکل اس کی کاربن کاپی تھا صرف رنگت کا فرق تھا ایمن سرخ و سفید تھی تو حدید سعد کی طرح گندمی رنگت کا تھا۔
”ہم نے سعد سے تمھارے نکاح کا فیصلہ کیا ہے۔”
خلع کے ایک ماہ بعد ایک رات امی نے مجھ پر قیامت توڑی تھی۔
”جتنی ذلت اور رسوائی سعد کو ایمن کی صورت میں برداشت کرنی پڑی ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ میں تم سے اس کی شادی کروا کر ان داغوں کو ختم کر دوں جو ایمن نے اس کے کردار پر لگائے ہیں، لوگ سعد کے بارے میں جو شبہات رکھنے لگے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے تمھارے علاوہ حدید کی زندگی تباہ ہو جائے گی آخر شادی تو اسے کرنی ہی ہے تو پھر تم سے کیوں نہیں، پھر تمہاری خالہ اور سعد بھی یہی چاہتے ہیں۔”
”سعد بھی یہی چاہتا ہے۔” میں نے سوچا تھا اور ہاں کر دی تھی۔
”ہاں واقعی حدید کو میرے علاوہ اور کون چاہ سکتا ہے؟” میرے ذہن سے ابھرنے والی دوسری سوچ حدید کے لیے تھی۔
میں نے زندگی میں کبھی کوئی مشکل کام نہیں کیا تھا (یہ میرا خیال تھا) اور میں نے سوچا تھا کہ اب مجھے ایک مشکل کام کرنا پڑے گا۔ سعد کو یہ یقین دلانا تھا کہ میں ایمن کی طرح نہیں کروں گی میں ایمن سے بہتر ہوں مجھے اس کے دل میں اور اس کے گھر میں اپنی جگہ بنانی تھی مگر مجھے یہ مشکل کام کرنا ہی نہیں پڑا جس سعد سے میری شادی ہوئی تھی عورت پر سے اس کا اعتبار اٹھ چکا تھا اور میں بھی عورت تھی پھر ایمن کی بہن تھی یہ میری ذات کو اور بھی ناقابل یقین بناتا تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ میں اس کی وہ سابقہ منگیتر تھی جسے وہ ٹھکرا چکا تھا۔
خالہ کو ہمیشہ مجھ پر یقین تھا اور بعد میں بھی رہا سو مجھے ان کا اعتماد جیتنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرنا پڑا، سعد کو نہ پہلے مجھ پر یقین تھا نہ بعد میں ہی کبھی ہونا تھا سو اس کا اعتماد جیتنے کی میری ہر کوشش بری طرح ناکام رہی وہ مجھ سے صرف کام بات کرتا تھا اور جب کرتا بھی تو جھڑکنے یا ڈانٹنے والے انداز میں وہ مجھ سے باقاعدہ لڑتا نہیں تھا شاید میں نے کبھی اس کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔
وہ میری ذات سے ہمیشہ بے نیاز رہتا تھا جیسے میرے ہونے یا نہ ہونے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اور میں جانتی تھی کہ اسے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، اسے میری کسی ضرورت سے کوئی غرض نہیں تھی وہ ہر ماہ مجھے ایک محدود سی رقم تھما دیتا اور پھر پورا ماہ مجھے اسی رقم میں گزارا کرنا پڑتا تھا، میں اس سے کسی بات کا شکوہ اس لیے نہیں کر سکتی تھی کیونکہ یہ سب میری اپنی بہن کا کھودا ہوا گڑھا تھا جس میں مجھے گرنا پڑا تھا۔ میں سعد کو اس رویے پر حق بجانب سمجھتی تھی سو مجھے کبھی اس سے شکایت نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کی ہر زیادتی پر مجھے ایک عجیب سی تسلی ہوتی کہ میں ایمن کی زیادتیوں کی تلافی کر رہی ہوں۔




Loading

Read Previous

محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

Read Next

کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!