سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

”میری بات غور سے سننا مریم، صبر سے اور حوصلے سے۔” پھر اس نے مجھے دیکھے بغیر ایک لفافہ میرے پاس بیڈ پر رکھ دیا تھا۔
”تم اچھی ہو بہت اچھی ہو مگر میں ایمن سے محبت کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہوں، اس کے بغیر میں نے جتنے سال گزارے ہیں جہنم میں گزارے ہیں اور میں اب اس جہنم سے تنگ آ گیا ہوں تھک گیا ہوں، میں تمھیں طلاق نہیں دینا چاہتا تھا مگر اس کے بغیر میں ایمن سے شادی نہیں کر سکتا، اس لیے میں نے تمھیں طلاق دے دی ہے۔ تین دن پہلے میں نے ایمن سے شادی کر لی ہے۔”
اس لفافے میں طلاق کے کاغذات ہیں ایک فلیٹ کے کاغذات بھی ہیں اور کچھ چیکس بھی، تمھیں کوئی مالی مسئلہ نہیں ہوگا، اس گھر سے تم جو لے جانا چاہتی ہو لے جاؤ، جتنا لے جانا چاہتی ہو لے جاؤ تمھیں اجازت ہے۔”
میں بے یقینی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی وہ میرے قریب بیڈ پر بیٹھا تھا اس کے اور میرے درمیان بس وہ لفافہ تھا اور یہ فاصلہ کتنا طویل تھا۔
”تم نے تو اس سے دھوکا کھایا تھا۔” مجھے اپنی آواز کسی اندھے کنوئیں سے آتی سنائی دی تھی۔
”میں نے اسے معاف کر دیا ہے، وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے اور پھر غلطی تو ہر ایک سے ہو جاتی ہے۔” وہ کتنا پرُسکون تھا کتنا عظیم تھا، وہ سب کی غلطیاں معاف کر دیتا تھا، ایمن سب کی غلطیاں معاف کر دیتی تھی، حدید سب کی غلطیاں معاف کر دیتا تھا اور اللہ سب کی غلطیاں معاف کر دیتا تھا، بس ایک میں تھی جسے کوئی بھی بخشنے پر تیار نہیں تھا۔
”اور حدید۔” میں نے نظریں چراتے ہوئے کہا تھا۔
”وہ بھی یہی چاہتا ہے۔” کوئی چیز میرے گالوں کو بھگونے لگی۔
”وہ بھی یہی چاہتا ہے۔” میں نے زیر لب دہرایا تھا پھرمیں اٹھ کھڑی ہوئی تھی کسی معمول کی طرح چلتی ہوئی میں کمرے سے باہر آ گئی۔
”مریم یہ پیپرز لے لو۔” اپنے پیچھے مجھے سعد کی آواز سنائی دی تھی مگر میں چلتی رہی۔
”مریم میں کہہ رہا ہوں یہ لے لو۔” وہ میرا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا تھا۔
”میں انھیں کیا کروں یہ مجھے کیا دیں گے۔” میں نے اسے کہا۔
”میں نہیں جانتا تم تماشا نہ کرو بس یہ لے لو۔” اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تھا میں نہیں جانتی پھر مجھے کیا ہوا تھا بس میں پاگلوں کی طرح چلاتے ہوئے اسے بددعائیں دینے لگی تھی۔
”اللہ کرے سعد تم مر جاؤ سب مر جاؤ ایمن، تم، حدید سب یہ گھر برباد ہو جائے۔ میں کیا کروں اس لفافے کو لے کر بتاؤ، میں کیا کروں، تم نے اس عمر میں میرے سر سے چادر کھینچ لی ہے، میرا بیٹا چھین لیا ہے، مجھے گھر سے محروم کر دیا ہے اور تم کہتے ہو میں یہ لفافہ لے لوں کیا یہ ان سب چیزوں کی کمی پوری کر دے گا لاؤ، لاؤ میں لے لیتی ہوں اسے لے لیتی ہوں۔”
میں نے بات کرتے کرتے لفافہ اس سے جھپٹ لیا تھا اور پھر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سیڑھیوں میں پھینک دیے، سعد وہیں سیڑھیوں میں ہی کھڑا رہا تھا وہ میرے پیچھے نہیں آیا میں بلند آواز سے روتی باتیں کرتی ہوئی نیچے اتر آئی گھر کے سب نوکر ہکا بکا مجھے دیکھ رہے تھے، شاید وہ جان گئے ہوں گے کہ اب میری اوقات اس گھر میں ان کے برابر بھی نہیں رہی تھی میرے مالک میرے آقا نے مجھے نکال دیا تھا اور وہ بھی تب جب مجھے ایک چھت کی سب سے زیادہ ضرورت تھی کوئی اس عمر میں کسی کو اس طرح بے عزت کرتا ہے جیسے اس نے مجھے کیا۔
میں لوگوں کے سامنے کیسے جاؤں گی؟ میں کیا جھوٹ بولوں گی؟ میں کیا بتاؤں گی؟ سوالوں کی ایک آگ میرے وجود کو جلا رہی تھی میں نے کون سی نیکی کون سا ایثار نہیں کیا مجھے اس کا کیا اجر ملا؟




”میں نے تمھارے لیے کون سی قربانی نہیں دی، تمہاری کون سی اذیت برداشت نہیں کی، پچھلے پچیس سالوں سے تمھارے ساتھ رہی ہوں، یہ ایمپائر تم نے میری وجہ سے کھڑی کی ہے۔ یہ گھر یہ گاڑیاں یہ دولت تمھارے جسم پر موجود کپڑے تک میری بدولت ہیں۔ میری قربانی، میرے ایثار، میرے صبر کی بدولت ورنہ تم تھے کیا، میں نے حدید کو راتوں کو جاگ جاگ کر پالا ہے، میں نے اسے چلنا اسے ہنسنا اسے بولنا سکھایا ہے، میں نے اسے اس قابل بنایا ہے جو وہ آج ہے، تم نے نہیں ایمن نے نہیں ،تم لوگوں نے تو بس اسے پیدا کیا ہے، مگر وہ نمک حرام، احسان فراموش تھا، آخر تم لوگوں کا خون تھا اسے یہ سب تو کرنا ہی تھا، میں ہی بھول گئی کہ وہ بھی سانپ ہے تمھارے جیسا ایمن جیسا۔”
میں بلند آواز سے چلاتی ہوئی الٹے قدموں لاؤنج سے نکل گئی تھی وہ میرے پیچھے نہیں آیا کوئی بھی میرے پیچھے نہیں آیا، میں پاگلوں کی طرح دوڑتی ہوئی گیٹ سے باہر نکل گئی۔
پچیس سال کے جمع کیے ہوئے آنسو آج ابل پڑے تھے پھر انھیں روکنا ان پر بند باندھنا میرے بس سے باہر تھا، اپنا خون اپنا ہی ہوتا ہے، مجھے یقین نہیں آتا تھا اس بات پر مگر حدید نے اسے ثابت کر دیا تھا، پتا نہیں میرا دوپٹہ اور جوتا کہاں رہ گئے تھے مجھے بس یہ یاد ہے کہ میں کسی سڑک پر بے تحاشا بھاگ رہی تھی۔ گاڑیاں مجھے سامنے دیکھ کر بریک لگاتیں ان کے ڈرائیو اونچی آواز سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے اور میں بس بھاگتی جا رہی تھی۔
پتا نہیں میں کب تک اس طرح بھاگتی رہی، ہاں مجھے یاد ہے کہ اس وقت اندھیرا تھا اور میں شہر سے باہر جانے والے کسی راستے پر سڑک کے کنارے گر کر رونے لگی تھی، مجھے حدید یاد آ رہا تھا، اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ میں نے اس سے کتنی محبت کی ہے۔ ساری ساری رات میں اسے گود میں لے کر بیٹھی رہا کرتی تھی۔ اسے خراش آتی تو مجھے لگتا تھا جیسے کسی نے مجھے زخمی کر دیا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آتے تو مجھے لگتا دنیا ڈوب رہی ہے وہ ایک وقت کھانا نہ کھاتا تو مجھے سارا دن بھوک نہ لگتی۔
”وہ بھی یہی چاہتا ہے۔” سعد کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ میں اوندھے منہ کچی زمین پر پڑی بلک رہی تھی۔
”تم بھی ایمن کے ہو، سعد بھی ایمن کا ہے تو میرا کیا ہے، میرا کیا ہے، اب تمہاری ساری محبت ساری توجہ ایمن کے لیے ہوگی، وہ تمہاری شادی کرے گی، تمھارے بال بچے پالے گی اور پھر جب بوڑھی ہو گی تو تم اس کو ہتھیلیوں پر اٹھا کر رکھو گے اور میں یونہی رلتی پھروں گی۔”
میں خود سے باتیں کر رہی تھی اور ہر بات میرے دل پر ایک اور خراش لگا رہی تھی۔
”اماں! اماں! کون ہو تم؟ یہاں اس طرح کیوں رو رہی ہو؟ آئی کیسے ہو یہاں۔” ایک آواز نے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تھی۔ میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا، ایک لمبا سا آدمی میرے سر پر کھڑا تھا۔
سڑک پر کھڑی اس کی ٹرالی کی لائٹس روشن تھیں اور اس روشنی میں اس کی صورت بہت واضح تھی۔
”میرا شوہر فوت ہو گیا ہے آج میرے بیٹے نے مجھے گھرسے نکال دیا۔” پتا نہیں میں نے کیا سوچا تھا اور یہ کہا تھا۔ پتا نہیں میں نے کیوں کہا مگر مجھے یاد ہے میں نے بہت بلند آواز سے جیسے کوئی گلہ اس سے کیا تھا اس نے مجھے کہا تھا۔
”دفع کرو اماں ایسی اولاد کو، اولادنہ ہوئی کتا ہو گیا۔ تم میرے ساتھ چلو میں تمھیں اپنے پاس رکھوں گا۔”
”پتا نہیں مجھے کیا ہوا تھا مگر میں ایک دم اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئی اس نے اپنی چپل مجھے پہنا دی اور پھر ٹرالی میں بٹھا کر ایک چادر نکال کر مجھے اوڑھا دی سارے راستے ٹرالی چلاتے ہوئے وہ مجھے پتا نہیں کیا بتاتا رہا۔ مجھے کچھ سنائی نہیں دیا تھا پھر وہ مجھے اپنے گھر لے آیا تھا۔ گھر میں اس کی اپنی ماں بھی تھی، مجھے دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی مگر میرے تعارف نے اس کے چہرے پر نرمی بکھیر دی تھی اس نے مجھے لپٹا لیا تھا۔
”تینوں رون دی کی لوڑ اے گھروں کڈیا اے دنیا وچوں تے نہیں، توں ساڈے نال رہے جو روٹی ٹکر اسی کھانے آں تو وی کھا لئی۔” (تمھیں رونے کی کیا ضرورت ہے گھر سے نکالا ہے ناں، دنیا سے تو نہیں، تم ہمارے ساتھ رہو جو دال روٹی ہم کھاتے ہیں تم بھی کھا لینا۔) میں سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کی بات کا جواب دیے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
”اپنی اولاد ایسی ہی ہوتی ہے اور اس پر ایسا ہی مان ہوتا ہے۔ جیسا اسے ہے کتنے آرام سے کہہ رہی ہے کہ میں اس کے پاس رہ جاؤں اور ایک میں ہوں کہ…” میری سوچوں کا سلسلہ اس کی آواز نے توڑ دیا تھا۔
”توں اندر آ میں تینوں کپڑے دینی آں او بدل لے تے نالے روٹی وی کھا لے۔”
(تم اندر آ جاؤ میں تمھیں کپڑے دیتی ہوں وہ بدل لو اور کھانا بھی کھا لو۔)
پھر اس نے میرے کپڑے بدلوائے تھے اور زبردستی چند لقمے مجھے کھلا دیے تھے پھر اپنے پاس ہی اس نے میری چارپائی بچھا دی، میری آنکھوں میں نیند نہیں تھی کچھ بھی نہیں تھا نہ خواب نہ امیدیں اور نہ ہی آنسو سب کچھ ختم ہو گیا بس میں آنکھیں بند کیے لیٹی رہی۔
اس کے بیٹے کا نام اکبر تھا وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا، اکبر سے چھوٹی دو بہنیں تھیں اور وہ تینوں شادی شدہ تھے اکبر کے تین بچے تھے دو بیٹے اور ایک بیٹی اور اس کی بیوی اس دن بچوں کے ساتھ میکے گئی ہوئی تھی، اکبر کے باپ کا کافی سال پہلے انتقال ہو گیا تھا اور اس کی وفات کے بعد اکبر ہی اس کی زمینوں پر کاشت کاری کرتا تھا، وہ کوئی بہت بڑا زمیندار نہیں تھا بس اوسط حیثیت کا مالک تھا لیکن وہ سب خوش تھے اس سے بھی جو ان کے پاس تھا اور اس پر بھی جو ان کے پاس نہیں تھا۔
پتا نہیں میں وہاں کتنے دن رہی، وقت یک دم میرے لیے اپنے معنی کھو چکا تھا بلکہ ہر چیز ہی اپنی اہمیت کھو چکی تھی، بس مجھے یہ پتا تھا کہ میں زندہ ہوں اس سے آگے کیا تھا کچھ معلوم نہیں، میں روتی نہیں تھی میں ہنستی بھی نہیں تھی بس میں خاموش رہتی تھی سارا دن کمرے کے ایک کونے میں پڑی رہتی کوئی زبردستی کھانا کھلاتا تو چند لقمے زہر مار کر لیتی، کوئی کپڑے بدلواتا تو بدل لیتی اور بس۔
اکبر مجھے کہتا کہ میں اسے اپنا بیٹا سمجھوں مگر میں ایسا کیسے کرتی جسے بیٹا سمجھا تھا اس نے کیا کیا، اسے بیٹا سمجھتی تو وہ بھی کچھ ویسا ہی کرتا اس کی بیوی اور بچے بھی میرا بہت خیال کرتے تھے۔ بار بار میرے پاس آتے میرا دل بہلانے کی کوشش کرتے تھے مجھے اپنے ساتھ باتیں کرنے پر اکساتے مگر مجھے یہ سب نہیں آتا تھا، میری آنکھوں کے سامنے تو ہر وقت حدید کا چہرہ رہتا تھا۔
میں سوچتی تھی اس وقت وہ سب کیا کر رہے ہوں گے یقینا بہت خوش ہوں گے۔ سعد، ایمن، حدید ان کا خاندان تو مکمل ہو گیا تھا، جو بچھڑا تھا مل گیا تھا وہ سب خوب ہنستے ہوں گے، ایمن اور سعد کو حدید پر فخر ہو گا کہ اس نے اپنے ماں باپ کو ملا دیا اور حدید خوش ہوگا کہ اسے اس کی ماں مل گئی تھی پھر میری اسے ضرورت ہی کیا رہ گئی تھی واقعی ماں تو ماں ہی ہوتی ہے اور میں تو بس آیا تھی پالنے والی کا احسان ہی کیا ہوتا ہے جو میںجتاتی۔
سوچیں سانپوں کی طرح میرے ذہن کو ڈستی رہتی تھیں اور میں تاریک کمرے کے ایک کونے میں آنکھیں بند کیے پڑی رہتی۔
نہ جانے کتنے دن گزر گئے تھے مجھے اس اندھیرے تاریک کمرے میں کچھ اندازہ ہی نہیں تھا پھر ایک دن دل چاہا وہاں سے نکلنے کو، سورج کی روشنی دیکھنے کو، اس کی حدت محسوس کرنے کو اور میں اٹھ کر باہر آ گئی تھی چند لمحوں کے لیے روشنی نے میری آنکھوں کو چندھیا دیا تھا پھر آہستہ آہستہ آنکھوں کو کھولتے ہوئے میں نے اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔
دور ایک کونے میں اکبر کی بیوی تندور میں روٹیاں لگا رہی تھی اور اس سے کچھ فاصلے پر اس کے بچے چوزوں کے ساتھ کھیل رہے تھے میں آہستہ آہستہ اور باہر آ گئی کچی زمین کو مٹی سے لیپا گیا تھا بہت اچھا لگا تھا مجھے اس نیم گرم زمین پر ننگے پاؤں چلنا صحن کے وسط میں آ کر میں زمین کو ٹٹولتی رہی پھر میں ٹانگیں سکیڑ کر کروٹ کے بل زمین پر لیٹ گئی۔
نیم گرم زمین نے میرے جسم کو عجیب سا سکون دیا تھا، میں اس طرح ٹانگیں سکیڑے آنکھیں بند کیے زمین پر پڑی رہی۔
”ماں چارپائی بچھا دیتی ہوں یہاں زمین پر کیوں لیٹ گئیں؟” اکبر کی بیوی کی آواز اچانک میرے قریب ابھری تھی۔
”نہیں ٹھیک ہے۔” میں نے نامکمل سا جواب دیا تھا کچھ دیر تک وہ اصرار کرتی رہی مگر میرے خاموش رہنے پر وہ چلی گئی تھی۔ جان گئی تھی کہ میں وہی کروں گی جو چاہتی ہوں تھوڑی دیر بعد کسی نے ایک گرم چادر مجھ پر اوڑھائی تھی میں جانتی تھی یہ اکبر کی بیوی ہوگی، میں نے چادر سے اپنے چہرے اور کندھوں کو اچھی طرح ڈھانپ لیا۔
ایک عجیب سی خاموشی اور سکوت تھی ہر طرف کبھی کبھی اس خاموشی کو اکبر کے بچوں کی آوازیں توڑ دیتی تھیں مگر پھر ان کی ماں ڈانٹ کر انھیں خاموش کرا دیتی تھی۔
کیا میں نے کبھی سوچا تھا کہ میری منزل یہ ہوگی، ماربل کے فرش پر چلتے چلتے میں خاک کی زمین پر سونے لگی تھی، اگر میری زمین کا حاصل یہی ہوتا تو پھر یہ پچھلے پچیس سال کی محنت کس لیے، میں نے ان سے کیا پایا اور جو یوں ہونا تھا تو یوں ہی سہی آخر اس میں بھی برا کیا ہے کس کس کا ماتم میں کتنی دیر مناؤں گی۔ سعد کا، ایمن کا، گھر کا یا پھر حدید کا، مجھے پھر حدید یاد آ گیا تھا، ہر بات کا سلسلہ وہیں جا کر رکتا تھا، ہر تان وہیں ٹوٹتی تھی، نہ جانے وہ کیا کر رہا ہوگا پتا نہیں اسے میرا خیال بھی آتا ہوگا کہ نہیں کبھی کبھی تو مجھے یاد کرتا ہوگا۔
میں نے ایک خوش فہمی سے خود کو بہلانا چاہا، کتنا خوش ہوگا وہ ایمن کے ساتھ، اس کی یہ کمی بھی پوری ہو گئی تھی، میں واقعی احمق تھی جو یہ سمجھتی رہی کہ میں نے اس کی ہر کمی پوری کر دی ہے اب وہ میرے علاوہ کسی کے بارے میں سوچتا ہی نہیں ہوگا، مگر ایسا نہیں تھا میں نے چہرے پر سے چادر ہٹائی۔
”ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔” کسی کی آواز میرے پاس گونجی تھی میں نے پھر چادر سے چہرے کو ڈھانپ لیا، کوئی میرے قریب آیا تھا پھر کسی نے میرے پیروں پر ہاتھ رکھا تھا، میں نے سوچا یہ اکبر کا چھوٹا بیٹا ہوگا وہ اکثر پیروں سے ہی کھیلتا تھا، میں نے اسے روکا نہیں بس اسی طرح لیٹی رہی پھر کسی نے اچانک میرے پیروں کو چومنا شروع کر دیا، میں ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔
میرے پیروں میں گھٹنوں کے بل جھکا ہوا شخص حدید تھا صرف ایک لمحے کے لیے میں ساکت ہوئی تھی، پھر تیزی سے میں نے اپنے پیر کھینچ لیے وہ سیدھا ہو گیا، میری اور اس کی نظریں ٹکرائیں تھیں، بہت عجیب سی کیفیت تھی اس کی آنکھوں میں۔
”آپ کہاں چلی گئی تھیں مجھے اس طرح چھوڑ کر۔”
میں نے اس کی بات کا جواب دیے بغیر اٹھنے کی کوشش کی اس نے مجھے روکنے کے لیے میرے گھٹنوں پر ہاتھ رکھا مگر میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”مجھے ہاتھ نہ لگاؤ تم میرے لگتے کیا ہو۔” میں غرائی اور وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہو گیا تھا بہت بے یقینی کے عالم میں اس نے مجھے دیکھا، میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”آپ کو ہوا کیا ہے؟” وہ میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
”میں پاگل ہو گئی ہوں۔” میں نے یہ کہتے ہوئے اندر جانے کی کوشش کی تھی۔
”ممی۔” میں اس کی بات پر بھڑک اٹھی تھی۔
”مجھے ممی مت کہو، تمہاری ماں نہیں ہوں، تم سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے تمہاری ماں وہ ہے جس کے لیے تم نے مجھے طلاق دلوا دی۔”
”آپ کیا کہہ رہی ہیں مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔”
میں نے جواب دیے بغیر اندر جانے کی کوشش کی مگر اس نے میرے بازو پکڑ لیے۔
”آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہیں کیا غلط فہمی ہو گئی ہے آپ کو میرے خلاف۔” وہ میرے بازو پکڑے گڑگڑا رہا تھا مگر میں اس کی کوئی بات سننا نہیں چاہتی تھی نہ اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔ میں خود کو اس کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرتی رہی مگر اس نے مجھے بہت مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا میں کسی طرح بھی اس سے خود کو نہیں چھڑا پا رہی تھی۔
ایک عجیب سی ہیجانی کیفیت مجھ پر سوار ہو گئی تھی پتا نہیں کیا ہوا کہ میں نے خود کو چھڑانا بند کر دیا اور پھر پتا نہیں کیسے میں اسے مارنے لگی تھی میں نے اس کے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر دی۔ بے یقینی کی ایک عجیب سی کیفیت تھی اس کے چہرے پر مگر اس نے مجھے چھوڑا نہیں نہ ہی مجھے روکنے کی کوشش کی بس خاموشی سے مار کھاتا رہا۔
میرا دل چاہ رہا تھا میں اس کی خوبصورت شکل بگاڑ دوں وہ چہرہ جو ہمیشہ مجھے ایمن کی یاد دلاتا تھا میں اس چہرے کو مٹا دینا چاہتی تھی اس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا، ناک میں سے خون نکلنے لگا تھا چہرے پر جا بجا میرے ناخنوں سے پڑنے والی خراشیں نظر آ رہی تھیں قمیص کے بٹن ٹوٹ گئے تھے مگر وہ بڑی ثابت قدمی سے اسی طرح مجھے پکڑے ہوئے مار کھاتا رہا۔
صحن میں اکبر سمیت اس کا پورا خاندان کھڑا تھا، دیوار پر ہمسایوں کی کچھ عورتیں جھانک رہی تھیں وہ سب بے حس و حرکت یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ میں نے اسے بہت مارا تھا، بہت گالیاں دی تھیں وہ سب جو پچھلے پچیس سال سے میرے اندر جمع ہو گیا تھا وہ میں اس دن نکال رہی تھی وہ سب جو میں دوسروں سے کہنا چاہتی تھی وہ میں نے اسے کہہ دیا تھا۔
اسے مارتے مارتے میرے ہاتھ دکھنے لگے تھے۔ میری ساری ہمت جواب دے گئی تھی اس کا چہرہ دیکھنے کی ہمت مجھ میں نہیں رہی تھی میں نے پوری زندگی اسے سخت ہاتھ نہیں لگایا تھا اب میں اسے مار رہی تھی، آخر میرے ہاتھ رک گئے، میں بلک بلک کر رونے لگی۔ اس نے میرے بازو چھوڑ دیے اور میں جیسے زمین پر ڈھے گئی تھی اس نے اپنا جوتا اتار کر میرے ہاتھوں میں تھمانے کی کوشش کی تھی۔
”اور مارنا چاہیں تو اس سے ماریں۔” اس نے کہا تھا میں نے جوتے کو پرے دھکیل دیا اور چیخیں مار مار کر رونے لگی تھی، اس نے مجھے چپ کروانے کی کوشش نہیں کی پتا نہیں میں کتنی دیر تک روتی رہی تھی۔ جب آنسو نکلنا ختم ہو گئے اور میں نے آنکھیں کھول کر اٹھنے کی کوشش کی تھی تو اسے اپنے پاس پایا تھا، اس نے سہارا دے کر مجھے اٹھایا تھا میں نے اسے روکا نہیں صحن میں اب کوئی بھی نہیں تھا، نہ ہی دیواروں پر عورتیں تھی پتا نہیں سب کہاں چلے گئے تھے۔
حدید اٹھ کر نل کے پاس چلا گیا تھا پھر ایک گلاس میں وہ پانی لایا تھا، مجھے گلاس تھمانے کے بجائے اس نے گلاس میرے ہونٹوں سے لگا دیا۔ میں نے گھونٹ گھونٹ کر کے پانی پیا تھا۔
”بس۔” میں نے گلاس کو ہاتھ سے پرے کیا تھا اس نے باقی پانی خود پی لیا تھا، پھر اس نے میرے بکھرے ہوئے بالوں کو سمیٹ کر لپیٹ دیا تھا اور کچھ فاصلے پر پڑی ہوئی چادر لا کر مجھے اوڑھا دی میں بغیر کسی مزاحمت کے ایک مجسّمے کی طرح بیٹھی رہی۔
وہ دوبارہ نل کے پاس آ گیا تھا اور اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا تھا پھر گیلے ہاتھوں سے اس نے اپنے بال سلجھائے، جیب سے رومال نکال کر اس نے اپنا چہرہ اور ہاتھ صاف کیے، کچھ دیر تک وہ اپنی شرٹ کے اوپر والے ٹوٹے ہوئے بٹنوںوالی جگہ کو کسی طرح ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتا رہا تھا پھر اس نے انھیں کھلا چھوڑ دیا اور گلے میں باندھا ہوا رومال نکال دیا۔
میں خاموشی سے دور بیٹھی اسے تکتی رہی پھر وہ میرے پاس آنے کی بجائے اندر چلا گیا تھا اور کچھ دیر بعد میرے لیے ایک چپل کے ساتھ برآمد ہوا تھا اس کے پیچھے اب کی بار اکبر کے گھر والے بھی تھے، اس نے چپل میرے پاس رکھ دی اور پھر ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا ہونے میں مدد دی تھی، میں نے اس کے کہنے سے پہلے ہی چپل پہن لی۔
”کنا سونا پتر اے تیرا جے تیرے بندے نے گھروں کڈ دتا ہے، تے کاغذ دے دتا اے توفیر وی توں فکر نہ کری، تیرے کول تیرا پتر اے اللہ عمر دے۔” (کتنا خوبصورت بیٹا ہے تمہارا، اگر شوہر نے گھر سے نکال کر طلاق دے دی ہے تب بھی فکر مت کرنا، تمھارے پاس تمہارا بیٹا ہے۔ اللہ اس کو زندگی دے۔)
اکبر کی ماں نے مجھ سے لپٹ کر کہا تھا، میں چپ رہی تھی، تو آخر ان کو حقیقت کا پتا چل ہی گیا میں نے اس کی بات پر سوچا تھا۔
”تسی میرے اتے بڑا احسان کیتا ہے، میں ایس احسان دا بدلہ نہیں دے سکدا، فیر وی اگر کدی توانوں میری ضرورت پوے تو آ جائیوں میرے کولوں جو ہووے گا میں کراں گا۔”
حدید بڑی رواں پنجابی میں اکبر سے مخاطب تھا اور میں چونک اٹھی تھی، اسے تو پنجابی نہیں آتی تھی، بچپن سے لے کر اب تک میں نے کبھی اس سے پنجابی میں بات نہیں کی تھی اور نہ ہی اسے کبھی پنجابی بولتے سنا تھا اور آج وہ بڑے آرام سے پنجابی میں مخاطب تھا۔ مجھے واقعی حدید کے بارے میں کم معلومات تھیں میں نے مایوسی سے سوچا تھا، وہ اکبر اور اس کی ماں سے باتوں میں مصروف تھا اور میں سوچوں میں۔
”آخر مجھے اس کے ساتھ جانے کی کیا ضرورت ہے اور آخر میں جا کیوں رہی ہوں، یہ مجھے لینے آیا کیوں ہے اور یہ مجھے اپنے پاس لے جا کر کیا کرے گا۔” سوالوں کا ایک ڈھیر میرے پاس جمع تھا۔ اس نے اکبر کے بچوں کو کچھ روپے تھمائے تھے اور پھر میرا ہاتھ تھام کر وہ اپنی جیپ کے پاس لے آیا تھا، کچھ عورتیں اور بچے باہر گلی میں نکل آئے تھے۔ وہ انھیں نظر انداز کرتا ہوا میرا ہاتھ تھامے مجھے گاڑی میں بٹھانے لگا۔




Loading

Read Previous

محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

Read Next

کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!