سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

اکبر کھڑکی کے پاس آیا تھا میں نے بے اختیار اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا، وہ سعادت مندی سے پیچھے ہٹ گیا تھا حدید نے گاڑی اسٹارٹ کر دی اور کچھ ہی دیر میں ہم اس گاؤں سے نکل کر مین روڈ پر آ گئے تھے۔ میں نے گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں تمام راستے حدید نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، وہ بس خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا راستے میں ایک دو بار رک کر اس نے مجھے چائے اور کھانا کھلایا تھا اور پھر اسی طرح خاموشی سے گاڑی چلا دی۔
رات کا پچھلا پہلا تھا جب ہم ایبٹ آباد اس کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے تھے، وہ مجھے اپنے بیڈ روم میں لے آیا تھا، اس کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر اس کے ساتھ میری ایک تصویر رکھی تھی، مجھے بیڈ پر بٹھا کر وہ ڈریسنگ روم میں یونیفارم بدلنے چلا گیا تھا، واپس آ کر بھی اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی بس میری گود میں سر رکھ کر بیڈ پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
میں اس کے چہرے کو دیکھنے لگی میری مار کے سارے نشان وہاں واضح تھے میں اس کے بالوں اور چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگی اس نے کوئی حرکت نہیں کی وہ سو چکا تھا پتا نہیں کب سے نہیں سویا تھا، میں اس کا سر سہلاتی رہی جیسے بچپن میں سہلاتی تھی۔
*****
”آپ کو نہیں پتا، میں آپ کو کہاں کہاں ڈھونڈتا رہا ہوں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں میں نے آپ کا پتا نہ کروایا ہو کوئی رشتہ دار ایسا نہیں جہاں میں نہ گیا ہوں اور جس جس رشتہ دار کے پاس جاتا رہا اس سے آپ، ایمن اور سعد کے بارے میں وہ سب کچھ پتہ چلتا رہا جو مجھے معلوم نہیں تھا جو آپ نے چھپایا اسے لوگوں نے عیاں کر دیا۔
مجھے اس عورت پر افسوس ہوا جس نے مجھے پیدا کیا تھا اور اس آدمی پر بھی جو میرا باپ کہلاتا ہے اور آپ پر بھی اس دور میں اتنا ایثار اتنی قربانی کس کے لیے، کیوں کیا، آپ انسان نہیں ہیں کیا آپ کے جذبات نہیں ہیں۔
ممی میں نے ٹھیک کہا تھا آپ بہت احمق ہیں، جو اپنے حق کے لیے خود نہیں لڑ سکتا کوئی دوسرا اس کے لیے کیسے لڑے گا اور آپ کو تو اپنی چیز اپنے پاس رکھنی بھی نہیں آتی آپ تو اپنی چیز کی حفاظت تک نہیں کر سکتیں، آپ نے کیا سوچا تھا کہ میں ایبٹ آباد سے واپس جا جا کر آپ کی بہن اور آپ کے شوہر کے درمیان صلح کرواتا رہا تھا اس عورت کے لیے لڑ رہا تھا جس نے مجھے پیدا کیا تھا، نہیں میں تو آپ کے لیے لڑ رہا تھا میں تو اس سب کو ہونے سے روکنا چاہتا تھا جو اب ہو گیا ہے۔
آپ جانتی ہیں آپ کے سابقہ شوہر کتنے ماہ سے آپ کی بہن کے ساتھ پھر رہے تھے وہ جو ہر ایک دو ہفتے کے بعد غائب ہو جاتے تھے وہ کوئی بزنس ٹرپ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ دونوں سیر و تفریح کے لیے مری وغیرہ آیا کرتے تھے اور میں نے بھی انھیں وہیں دیکھا تھا اس عورت کا چہرہ بہت مانوس سا لگا لیکن میں فوراً اسے پہچان نہیں پایا اور پھر جب پہچانا تو مجھے ایک شاک لگا تھا کیونکہ آپ دونوں نے مجھے یہی بتایا تھا کہ وہ مر چکی ہے اور اگر وہ مر گئی تھی تو اب زندہ کیسے ہو گئی تھی۔
میں اسی کے بارے میں پوچھنے کے لیے لاہور جاتا رہا، میں ان دونوں کے اصلی تعلقات کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، ان دونوں میں طلاق کیوں ہوئی میں یہ جاننا چاہتا تھا اور آپ کو پتا ہے کہ آپ کی بہن اور آپ کے سابقہ شوہر دونوں نے مجھ سے اس طلاق کی اصل وجوہات کے بارے میں جھوٹ بولا، انھوں نے کہا کہ آپ نے ان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں مگر مجھے یقین نہیں آیا پھر میں نے ان کے درمیان ہونے والی خلع کاریکارڈ نکلوایا، تب مجھ پر بہت سے انکشافات ہوئے تھے۔




آپ کی بہن کا دوسرا شوہر چند سال پہلے مر گیا تھا۔ لہٰذا میں اس سے تو نہیں مل سکتا تھا ہاں میں نے اس کی فیملی میں اس کے بہن اور بھائیوں سے ملاقات ضرور کی سو جو کچھ ابہام رہ گئے تھے وہ بھی دور ہو گئے۔
مجھے آپ سے حقیقت چھپانے کا گلہ تھا، اس لیے کچھ دنوں تک میں آپ سے خفا بھی رہا مگر آپ نے ایک بار بھی مجھ سے وجہ نہیں پوچھی، آپ نہیں جانتیں میں آپ کے شوہر کو آپ کی بہن سے ملنے سے روکنے کے لیے کتنا لڑتا رہا ہوں، میں جانتا تھا کہ اگر وہ اسی طرح ملتے رہے تو پھر وہ آپس میں شادی کر لیں گے اور آپ کو طلاق دیے بغیر یہ نہیں ہو سکے گا۔
اگر وہ کوئی دوسری عورت ہوتی آپ کی بہن ہوتی تو میں یہ طلاق ہونے نہیں دیتا میں آپ کو اپنے پاس لے آتا اور اس شخص کو کہتا کہ وہ آپ کو طلاق نہ دے چاہے تو دوسری شادی کر لے مگر یہاں معاملہ الٹ تھا میں اس شادی کو روکنے کے لیے آپ کی بہن کے پاس بھی گیا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اس کی منتیں کی تھیں کہ وہ اس شادی کا خیال دل سے نکال دے جو چیز جیسے ہے اسے رہنے دے میں نے اسے کہا تھا کہ اگر وہ یہ شادی نہ کرے تو میں اس سے دوبارہ ملنا شروع کر دوں گا بلکہ اگر وہ چاہے گی تو میں اسے اپنے پاس رکھ لوں گا بس وہ آپ کو اپنے شوہر کے پاس رہنے دے۔
میں جانتا تھا کہ بہت عرصے کے بعد آپ کے تعلقات اپنے شوہر کے ساتھ ٹھیک ہوئے تھے اور آپ ان کے ساتھ بہت خوش تھیں اور میں آپ کی اس خوشی کو قائم رکھنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ اگر وہ اس شادی کا خیال دل سے نہیں نکالتی تو پھر یہ سوچ لے کہ وہ شوہر کو تو پالے گی مگر بیٹے کو کھودے گی میں دوبارہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھوں گا مگر اس نے کہا تھا کہ میں پاگل ہو گیا ہوں جو اپنی ماں کا خیال کرنے کی بجائے ایک غیر عورت کے لیے اپنی ماں کا گھر آباد ہونے نہیں دے رہا۔
اس نے کہا تھا اس کی شادی کے بعد ہمارا ٹوٹا ہوا گھر پھر سے مکمل ہو جائے گا، مجھے میری ماں مل جائے گی اور اسے اس کا شوہر لیکن میں نے اسے کہا تھا کہ مجھے اس گھر کے مکمل ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے میں ہر چیز پہلے کی طرح رکھنا چاہتا ہوں، میں نے آپ کے شوہر سے بھی بہت دفعہ کہا تھا کہ وہ آپ کو طلاق نہ دے میں نے اسے کہا تھا کہ میں لوگوں کو کیا بتاؤں گا، کیا کہوں گا کہ اس نے اس عمر میں میری ماں کو طلاق کیوں دے دی ہے۔ کیا خرابی نظر آئی ہے اسے، مگر وہ بھی بار بار مجھے یہی کہتا رہا تھا کہ تمھیں اپنی اصلی ماں کا خیال نہیں ہے جو ساری عمر تمھارے لیے تڑپتی رہی ہے تمھیں بار بار اس کا خیال آ رہا ہے جس کے ساتھ تمہارا کوئی رشتہ نہیں ہے۔
آپ نہیں جانتیں ممی میں ان دونوں کے سامنے کس طرح گڑگڑاتا رہا تھا منتیں کرتا رہا تھا زندگی میں کبھی مجھے کسی کے سامنے اس طرح گھٹنے ٹیکنے نہیں پڑے تھے مگر وہ دونوں اپنی ضد پر قائم تھے دونوں کا اصرار تھا کہ یہ سب وہ میرے لیے کر رہے ہیں اورمیں سوچتا تھا کہ اگر انھیں میرا اتنا خیال ہے میری خوشی ان کے لیے اتنی اہمیت رکھتی ہے تو یہ میری بات کیوں نہیں مان لیتے اور میں سوچتا تھا کہ ان دونوں کی خود غرضی نے آپ کو کس طرح سولی چڑھایا ہوگا آپ نے کس طرح وہ سب برداشت کیا تھا کیسے آپ نے اپنے ہوش و حواس قائم رکھے ہوں گے اور سانس لیتی ہوں گی۔
وہ دونوں انسان نہیں ہیں وہ جانور بھی نہیں ہیں کیونکہ جانور اتنے خود غرض اور منافق نہیں ہوتے جتنے وہ ہیں۔
میں نے سوچا تھا کہ شاید وہ دونوں اپنی ضد سے باز آ جائیں گے شاید انھیں آپ کا نہیں تو میرا ہی لحاظ آڑے آ جائے گا مگر ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا میں جب لاہور گیا تھا اور میں نے ایمن کو اپنے گھر میں دیکھا تھا تو میرے قدموں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی، وہ دونوں مجھے دیکھ کر یوں مسکرا رہے تھے جیسے انھوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو اور میرا دل چاہ رہا تھا میں دونوں کو شوٹ کر دوں۔
آپ نے سوچا کہ میں نے ان دونوں کی شادی کروائی ہے آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے، میں کیا اتنا ذلیل اور بے غیرت ہو سکتا ہوں، آپ کے لیے میں نے اخباروں میں اشتہار چھپوائے تھے آپ نہیں جانتیں میں نے کتنی دعائیں کی تھیں اللہ تعالیٰ سے، میں ان پندرہ دنوں میں ایک دن بھی ٹھیک سے نہیں سویا اور جوں جوں دن گزرتے جا رہے تھے ہر چیز سے میرا جی اچاٹ ہوتا جا رہا تھا پھر ایک دن اکبر کا فون آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ اس تصویر سے ملتی جلتی ایک عورت اس کے پاس ہے مگر وہ اپنے بارے میں کچھ اور ہی کہتی ہے میں اس کے ساتھ چل پڑا تھا اور جب میں نے آپ کو وہاں زمین پر لیٹے دیکھا تو آپ نہیں جان سکتیں میری کیا حالت ہوئی تھی اور آپ نے تو حد کر دی مجھے اس طرح مارا کہ ابھی تک درد ہو رہا ہے کیا مائیں ایسا کرتی ہیں؟”
اگلی دوپہر وہ کھانے کی میز پر بیٹھا ساری رام کہانی سنا کر شکوہ کر رہا تھا، میں شرمندہ تھی کیا کہتی کیا جواب دیتی۔
*****
پھر دن گزرنے لگے تھے میں طلاق کا زخم بھولنے لگی تھی، حدید نے مجھے ایک لڑکی کے بارے میں بتایا تھا جو ایک کالج میں لیکچرار تھی، ایک بہت ہی باحیثیت فیملی سے تعلق رکھتی تھی، فاریہ مجھے بھی پسند آئی تھی اور میں نے حدید کے ساتھ اس کی شادی طے کر دی تھی، حدید نے فاریہ کے گھر والوں کو اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا، چونکہ فاریہ بھی اسے پسند کرتی تھی اس لیے اس کے گھر والوں نے سعد سے ملنے پراصرار نہیں کیا۔
حدید نے فاریہ کو شادی سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ شادی کے بعد جاب نہیں کرے گی اور فاریہ نے بغیر کسی اعتراض کے یہ شرط قبول کی تھی وہ ایک بہت ہی تابعدار قسم کی بیوی ثابت ہوئی تھی حدید سے کافی ڈرتی تھی اور اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرتی تھی حالانکہ اس کے میکے والے بہت امیر تھے مگر پھر بھی وہ ہمیشہ حدید کے کہنے پر چلتی تھی، حدید کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، اسامہ، ولید اور کومل وقت بڑے سکون اور امن سے گزر رہا تھا سعد نے ایک دو بار حدید سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی مگر حدید نے بہت بری طرح اسے رابطہ قائم کرنے سے منع کر دیا تھا۔
”آپ نہیں جانتیں ممی یہ شخص کتنا خود غرض ہے میں نے اسے کہہ دیا تھا کہ اگر وہ آپ کو طلاق دے کر اس عورت سے شادی کرے گا تو مجھے کھو دے گا تب اس نے پروا نہیں کی اب اسے اپنے کیے کا بدلہ وصول کرنا ہی پڑے گا، آپ مجھے مت کہیں کہ میں اس شخص سے ملنا شروع کر دوں۔”
اس نے ایک دفعہ میرے اعتراض پر کہا تھا۔
”میں اس شخص کا بیٹا ہوں اسی لیے چھوٹے دل کا ہوں، آپ کا بیٹا ہوتا تو شاید بڑے دل کا ہوتا پھر سب کچھ آپ کی طرح بھول جاتا مگر اب نہیں بھول سکتا نہ ہی انھیں معاف کر سکتا ہوں۔”
میں چپ ہو گئی تھی اور یہی بہتر تھا مگر میں بہت خوش ہوئی تھی اس بات سے کہ اب حدید سعد کے پاس نہیں جائے گا نہ ہی ایمن کے پاس۔
ساری زندگی ان دونوں کے لیے ایثار کرتے کرتے میں تھک گئی تھی اب اور ایثار نہیں کر سکتی تھی، کیا ملتا ہے اس ایثار سے اپنی ہر چیز دوسروں کو دے کر کیا حاصل ہوتا ہے کچھ بھی تو نہیں، میرے جیسے خالی دامن لوگ خالی دل بھی ہو جاتے ہیں، ہر ایک کو تو حدید نہیں ملتا نا، تو پھر ایک بار مجھے وہ مل گیا ہے تو میں اسے واپس کیوں لوٹاؤں۔
پھر اس دن ایمن نے فون کیا تھا۔
”کیسی ہو مریم؟” اس نے پوچھا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیوں فون کیا ہے۔” میں نے وقت ضائع کیے بغیر پوچھا تھا، چند لمحوں کے توقف کے بعد اس نے کہا تھا۔
”میں حدید سے بات کرنا چاہتی ہوں۔”
”مگر وہ تم سے بات کرنا نہیں چاہتا یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو۔”
”وہ میرا بیٹا ہے اس طرح کی باتیں کہہ دینے سے خونی رشتے نہیں ٹوٹتے۔” اس کی ڈھٹائی پر مجھے حیرت نہیں ہوئی تھی۔
”تمھیں حدید کی اب کیا ضرورت آن پڑی ہے۔ سب کچھ تو ہے تمھارے پاس دو شوہروں کی دولت، دو بیٹیاں، سعد جیسا شوہر پھر حدید کی کیا ضرورت ہے تمھیں۔”
میرا لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی طنزیہ ہو گیا تھا وہ چند لمحے چپ رہی تھی پھر اس نے کہا تھا۔
”وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے، ایک نہ ایک دن تو وہ میرے پاس ہی آئے گا۔”
میں نے فون بند کر دیا تھا۔
”نہیں ایمن اب وہ تمھارے پاس نہیں آئے گا، کبھی بھی نہیں آئے گا میں اسے جانے دوں گی تب نا۔” میں نے سوچا تھا۔
پھر اس نے ایک بار نہیں بار بار فون کیا تھا، بہت آہستہ آہستہ سہی مگر اس کے لہجے کا سارا طنطنہ رخصت ہو چکا تھا، وہ اپنی دونوں بیٹیاں بیاہ چکی تھی اور دونوں ہی بیرون ملک تھیں وہ دونوں اب تنہا تھے اسی لیے انھیں حدید کی یاد آتی تھی۔
ایمن نے ایک بار سعد کے ذریعے بھی مجھ سے یہی مطالبہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ میں حدید کو اور اس کے بیوی بچوں کو ان سے ملنے کے لیے مجبور کروں، میں چپ چاپ سعد کی آواز سن رہی تھی وہ اسی طرح حکمیہ لہجے میں بات کر رہا تھا جیسے وہ کرتا تھا۔ مجھے پتا نہیں چلا کب حدید آ گیا تھا اس نے فون کا ریسیور مجھ سے لے لیا تھا اور سعد کی آواز سنتے ہی وہ آپے سے باہر ہو گیا تھا، اس کے جو دل میں آیا تھا اس نے سعد کو کہہ ڈالا تھا اور پھر ریسیور پٹخ دیا تھا۔
”ممی یہ شخص میرے اور آپ کے لیے مر چکا ہے پھر آپ اس کے فرمان کیوں سنتی ہیں آج کے بعد آپ اس شخص کا فون کبھی اٹینڈ نہیں کریں گی اور میں یہ بات دوبارہ نہیں کہوں گا۔”
یہ پہلا اور آخری حکم تھا جو آج تک حدید نے مجھے دیا تھا اور میں نے اس پر عمل کیا تھا۔
*****
”آپ ابھی تک سوئی نہیں ہیں۔” حدید اندر آ گیا تھا میں مسکرائی تھی۔
”تمھارے بیٹے کی فرمائشیں ختم ہوں تب سوؤں نا۔”
”یہ بھی نہیں سویا ابھی تک، کیوں اسامہ آپ اب تک کیوں جاگ رہے ہیں سوئے کیوں نہیں۔” اس نے گھر کنے کے انداز میں اپنے بیٹے سے کہا تھا۔
”بس پاپا سونے والا ہی تھا۔” اسامہ نے باریک سی آواز میں کہا اور آنکھیں بند کر لیں، حدید کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا، اپنی کیپ اور چھڑی اس نے میرے بیڈ پر اچھال دی پھر شوز کے تسمے کھولنے لگا۔
”تھک گئے ہو چائے بنا دوں۔” میں جانتی تھی وہ اس وقت کسی ریڈ سے آیا ہوگا۔ اس نے کرسی پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا۔
”نہیں میں ملازم کو کہہ آیا ہوں، وہ چائے لا رہا ہوگا۔”
”اسامہ آپ ذرا سا آگے ہو جائیں۔” ایک دم وہ اٹھ کر بیڈ پر آ گیا اور اس نے اسامہ کو دھکیل کر آگے کر دیا۔
”اتنی محنت کرتی ہے پولیس پھر بھی پولیس کو برا بھلا کہا جاتا ہے راتوں کو جاگیں دن کو بھاگیں پھر بھی ہر کوئی پولیس میں کیڑے نکالتا ہے۔”
وہ آنکھیں بند کیے مجھ سے مخاطب تھا، پھر اچانک اس نے آنکھیں کھول دیں۔
”آپ Dentist کے پاس گئی تھیں۔” اچانک اس نے پوچھا تھا۔
”ہاں فاریہ کے ساتھ گئی تھی۔” میں نے مسکرا کر کہا تھا اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
”آپ کا کیا خیال ہے، اب کومل کو اسکول داخل کروا دینا چاہیے؟” وہ پھر آنکھیں بند کیے مجھ سے پوچھ رہا تھا۔
”نہیں بھئی ابھی تو وہ بہت چھوٹی ہے۔”
”مگر باتیں تو بہت کرتی ہے۔”
”باتوں کا کیا ہے وہ تو تم بھی بہت کرتے تھے، وہ بھی تمہاری طرح ہے۔” وہ میری بات پر بہت دلکشی سے ہنسا تھا مگر آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔
”ٹائم کیا ہوا ہے ممی؟”
”تین بجنے والے ہیں۔” میں نے اسے بتایا تھا۔
”اب میں چائے نہیں پیؤں گا بس یہیں سو جاؤں گا، آپ لائٹ آف کر دیں اور صبح مجھے مت اٹھائیے گا، میں لیٹ اٹھوں گا، کل لنچ آپ بنائیے گا فاریہ یا ملازم سے مت بنوائیے گا۔ گڈ نائٹ ممی۔”
اس نے آنکھیں بند کیے ہی اپنا طویل پروگرام مجھے بتا دیا، میں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تھا۔
”گڈ نائٹ۔” لائٹ آف کرنے سے پہلے ایک بار میں نے اس کا چہرہ دیکھا تھا وہ سو چکا تھا میں نے چادر اس کے اوپر پھیلا دی اور خود بھی سونے کے لیے لیٹ گئی۔
اور آج وہ کہہ رہی تھی کہ میں حدید سے کہوں کہ وہ اسے معاف کر دے اور آج وہ رو رہی تھی اور اب اسے حدید یاد آتا تھا وہ کہا کرتی تھی، میں چیزوں کو نہیں کھینچتی وہ خود میرے پاس آتی ہیں مجھ میں اتنی طاقت ہے اور اگر کوئی انھیں جانے سے روکنا چاہے تو روک کر دیکھ لے۔
”نہیں ایمن چیزیں تمھارے پاس اس لیے چلی جایا کرتی تھیں کیونکہ لوگ انھیں روکا نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ تم سے محبت کرتے تھے مگر یہ سب کب تک ہوتا، ایک دن تو تمہارا جادو ختم ہونا ہی تھا اور وہ دن آ چکا ہے اب تم کس کس چیز کو بلایا کرو گی، کون سا حربہ استعمال کرو گی، کون سا اسم پڑھو گی، پچھلے پچیس سال ہر چیز کے ہوتے ہوئے میں نے تنہا گزارے تھے، اگلے پچیس سال تم اور سعد تنہا گزارو گے اگر زندہ رہ پائے تو، یہی مکافات عمل ہے۔”

*****




Loading

Read Previous

محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

Read Next

کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!