سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

ایمن نے سعد سے خلع کیوں لی تھی یہ بات زیادہ عرصہ راز نہیں رہی تھی، اس نے اپنی عدت پوری ہونے کے اگلے ہی دن سعد کے اس دوست سے شادی کر لی تھی جو اس کا بزنس پارٹنر تھا اور جس نے کچھ عرصہ پہلے سعد سے اپنا بزنس ختم کر لیا تھا یہ اس اقدام کے لیے تیاری تھی جو ایمن کرنے والی تھی۔
اظہر، سعد کا بہت گہرا دوست تھا عمر میں سعد سے کافی بڑا تھا مگر پھر بھی سعد سے اس کی بہت دوستی تھی اور وہ سعد کے گھر بہت آیا کرتا تھا۔ پتا نہیں ان دونوں کو ایک دوسرے میں کیا چیز اچھی لگی۔ شاید اظہر کو ایمن کی خوبصورتی نے گھائل کیا ہوگا اور ایمن اس کی دولت سے متاثر ہوئی ہوگی وہ بہت امیر تھا سعد شکل میں اس سے اچھا سہی مگر دولت میں وہ کسی طور بھی اس کے برابر نہیں تھا اظہر شادی شدہ تھا اور اس کے چار بچے تھے مگر اس نے بھی ایمن سے شادی کرتے ہی اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔
اور جب سعد کو اس شادی کی خبر ملی تھی تو اس پر جیسے جنون سوار ہو گیا تھا اس دن وہ بغیر کسی وجہ کے مجھ سے لڑ پڑا تھا اور پھر گھر کی جو چیز اس کے ہاتھ لگی اس نے توڑ ڈالی، برتن گملے، ڈیکوریشن پیسز، دیوار پر لگی ہوئی تصویریں ہر چیز، میں دم سادھے حدید کو گود میں لیے غم زدہ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی پھر وہ گھر سے چلا گیا خالہ اس کے جانے کے بعد بازار سے آئی تھیں میں اس وقت چیزیں سمیٹ رہی تھی۔
”کچھ نہیں بس سعد کو غصہ آ گیا تھا۔” میں نے ان کے استفسار پر بغیر ان کی طرف دیکھے جواب دیا تھا، میرے دل میں تب بھی سعد کے خلاف غصہ پیدا نہیں ہوا، میں جانتی تھی وہ صدمے کے عالم میں تھا اظہر اس کے لیے آستین کا سانپ ثابت ہوا تھا، یہ چیز اسے برداشت نہیں ہو رہی ہوگی کہ اس کے اعتماد کا خون کیا گیا تھا، اور یہ سب اس کی ناک کے نیچے ہوا تھا اور اسے پتا نہیں چلا۔
پہلے عورت سے اس کا اعتماد اٹھا تھا پھر دوستی سے بھی اٹھ گیا میرے لیے زندگی پہلے بھی آسان نہیں تھی۔ ایمن کی شادی کے بعد اور بھی مشکل ہو گئی، سعد کا کاروبار کافی خراب حالت میں تھا،اس لیے اس نے کاروبار میں سرمایہ لگانے کے لیے گھر بیچ دیا۔ ہم تین کمروں کے ایک کرائے کے فلیٹ میں شفٹ ہو گئے سعد نے اپنی گاڑی بھی بیچ دی، مجھے اپنا زیور بھی بیچنا پڑا، بہت سے اخراجات میں ہمیں کمی کرنی پڑی مگر مجھے سعد سے کبھی کوئی شکوہ یا شکایت نہیں ہوئی، جو ہو رہا تھا وہ میری تقدیر میں تھا یہ میں سوچتی تھی۔




سعد کو کسی چیز پر اعتبار نہیں رہا تھا سارے رشتے اس کے لیے بے معنی ہو چکے تھے۔ میری ذات میں اسے پہلے ہی کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر ایمن کی شادی کے بعد وہ خالہ اور حدید سے بھی بے نیاز ہو گیا تھا اسے خالہ سے یہ شکایت تھی کہ انھوں نے ایمن پر نظر کیوں نہیں رکھی مگر خالہ اسے یہ سمجھانے سے قاصر تھیں کہ اس نے خود انھیں ایمن پر کوئی پابندی لگانے سے منع کر دیا تھا، اور اب وہ انھیں ہی قصوروار ٹھہراتا تھا۔ اسے حدید میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ پہلے وہ کبھی اسے اٹھا لیا کرتا تھا اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا مگر ایمن کی شادی کے بعد جیسے اس کی پوری زندگی بدل گئی تھی۔ وہ رات دیر گئے گھر واپس آتا اور صبح سویرے چلا جاتا اور بعض اوقات تو وہ دو دو دن گھر نہ آتا، میں جانتی تھی کہ وہ اپنا سارا وقت اپنے کاروبار کو دیتا ہے اس لیے مجھے اس کے ان معمولات پر اعتراض نہیں ہوتا تھا اور اگر ہوتا بھی تو اس کا کیا فائدہ ہوتا، میں کسی بھی طرح اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی۔
وقت ایسے ہی گزر رہا تھا میری توجہ اور دلچسپی کا واحد مرکز حدید تھا اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں تھا نہ ہی آئندہ کچھ آ سکتا تھا شادی کے فوراً بعد ہی سعد نے مجھ پر واضح کر دیا تھا کہ وہ اب کوئی اولاد نہیں چاہتا اس کے لیے حدید ہی کافی ہے۔
زندگی میں پہلی بار میں نے اس بات پر اعتراض کیا تھا لیکن اس نے اتنی بری طرح مجھے جھڑکا تھا کہ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ میرے آنسوؤں نے اسے مزید بھڑکا دیا تھا اس نے کہا تھا۔
”یہ حربے مجھ پر استعمال نہ کرو یہ ڈراما بند کرو۔”
وہ نہیں جانتا تھا کہ میں حربے استعمال کرنے والوں میں سے نہیں ہوں یہ ہنر آتا ہوتا تو میری زندگی اتنی ناکام نہ ہوتی مگر خیر میں اسے کیا سمجھا سکتی تھی صرف خود کو سمجھا سکتی تھی سو میں نے خود کو سمجھا لیا۔
میں نے حدید کو کسی انتقامی جذبے کا نشانہ نہیں بنایا۔ اس کا فائدہ ہی کیا ہوتا جیسے میں کسی اور کی غلطی کی سزا کاٹ رہی تھی وہ کیوں کاٹتا۔
پھر آہستہ آہستہ زندگی قدرے بہتر ہو گئی تھی۔ سعد کا کاروبار بہتر ہونا شروع ہو گیا تھا اب وہ زیادہ باہر نہیں رہتا تھا، حدید کے ساتھ بھی اس کا رویہ ٹھیک ہو گیا تھا اور خالہ سے بھی اس کے گلے ختم ہو گئے تھے۔ مگر اگر کسی سے بے التفاتی کم نہیں ہوئی تھی تو وہ میں تھی اور مجھے اس سے کوئی توقع نہیں تھی میری ذات کا محور تو حدید تھا وہ میرا سب کچھ تھا، میرا دوست، میرا بیٹا، میرا ساتھی، میرا ہم راز، میرا غمگسار، میرا ہمدرد سب کچھ وہی تھا میں اپنی ہر بات اسے بتاتی جب اسے سلا رہی ہوتی یا اس کے ساتھ کھیل رہی ہوتی، اسے میری کسی بات کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ مگر مجھے لگتا جیسے وہ سب سمجھ رہا ہے۔
وہ واحد شخص تھا جو مجھ سے واقعی محبت کرتا تھا مجھے دیکھ کر جس کی آنکھوں میں چمک آتی تھی جو میرا لمس پا کر چلا آتا تھا اسے ہر کام میں میرا سہارا چاہیے ہوتا تھا میرے بغیر وہ کھانا تک نہیں کھاتا تھا، اور جب تک سب کچھ ایسا تھا مجھے کسی اور چیز کی تمنا نہیں تھی۔
خالہ اس سے میرا پیار دیکھ کر کہا کرتی تھیں۔
”اس سے ایسے ہی محبت کرتی رہنا دیکھنا تمھیں اس سے کتنا سکھ ملے گا یہ تمھیں رانیوں کی طرح رکھے گا۔”
میں ان کی بات پر گیلی آنکھوں سے ہنس دیتی۔
جب تک خالہ زندہ تھیں وہ میرے لیے بہت بڑا سہارا تھیں سعد مجھے ہمیشہ میری ضرورت سے کم روپے دیتا اور میں کبھی اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرتی جب اس کا کاروبار بہت اچھا ہو گیا تھا تب بھی وہ مجھے پہلے جتنی رقم ہی دیتا تھا اور میرے لیے اس لگی بندھی رقم میں گھر چلانا کافی مشکل ہو جاتا تھا، تب خالہ میرے کام آتی تھیں سعد انھیں کافی روپے دیتا رہتا تھا اور وہ یہ سارے روپے مجھے دیتی رہتیں۔ پھر وہ کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد وفات پا گئیں گھر ایک دم سونا سونا لگنے لگا تھا۔
وہ مرنے سے پہلے سعد کو بہت نصیحتیں کرتی رہی تھیں، اور ان سب نصیحتوں کا اثر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو مگر یہ ضرور ہوا کہ اس نے مجھے میری ضرورت کے مطابق روپے دینے شروع کر دیے اور اکثر بغیر مانگے بھی وہ مجھے روپے دیتا رہا۔
کچھ عرصہ کے بعد میری امی کا بھی انتقال ہو گیا تھا باقی سب رشتہ داروں سے میں سعد کی وجہ سے پہلے ہی کٹ چکی تھی۔ سو اب بس حدید تھا جو میرا اکلوتا اثاثہ تھا وہ اسکول جانے لگا تھا اور جب تک وہ اسکول میں رہتا میں پورے گھر میں بولائی پھرتی، جب اس کے آنے کا وقت ہوتا تو میں گیٹ کے پاس چکر لگاتی رہتی اور جب وہ آ جاتا تو مجھے لگتا جیسے سب کچھ واپس آ گیا ہے۔جیسے ہر چیز اپنی جگہ پر آ گئی ہے وہ میرا تھا صرف میرا اس کی زبان پر اگر کسی کا نام آتا تو وہ میں تھی چہرے پر کسی کے لیے مسکراہٹ ابھرتی تو وہ میرا وجود تھا اردگرد کہیں بھی کوئی ایمن نہیں تھی۔ سعد بھی نہیں تھا بس میں تھی۔
حدید سعد سے زیادہ مانوس نہیں تھا ایسا کیوں تھا یہ میں نہیں جانتی حالانکہ وہ اس سے بہت محبت کرتا تھا، میرے ساتھ اس کا سلوک جیسا بھی تھا مگر حدید سے وہ واقعی محبت کرتا تھا صرف ایمن کی شادی کے کچھ عرصے بعد اس نے حدید سے بے اعتنائی برتی تھی مگر بعد میں وہ بے اعتنائی ختم ہو گئی تھی مگر حدید پھر بھی اس سے کچھ الگ ہی رہنا پسند کرتا تھا، اور یہ احساس کہ حدید کے لیے سب سے اہم میں ہوں میرے لیے بہت تسکین بخش تھا۔
ایمن کے بارے میں اس پورے عرصے میں مجھے کوئی خبر نہیں ملی تھی سوائے اس کے کہ وہ امریکا اپنے شوہر کے ساتھ چلی گئی تھی اور اس خبر نے مجھے بہت سکون دیا تھا اس نے کبھی حدید کے ساتھ کوئی رابطہ رکھنے کی کوشش نہیں کی اور مجھے کبھی کبھار اس بات پر حیرت ہوتی تھی مگر میرے لیے یہ بات سکون کا باعث بھی تھی کیونکہ اس سے رابطہ رکھنے کی صورت میں حدید مجھ سے اتنی محبت بھی نہ کرتا سو اچھا ہوا اس نے حدید کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھا۔
حدید ماشاء اللہ بڑا ہو گیا تھا اس کا قد میرے برابر آ گیا تھا تب وہ نویں میں تھا اور وہ واضح طور پر ایمن سے مشابہت رکھتا تھا بس اس کی رنگت ایمن جیسی نہیں تھی۔ مگر اس کا مزاج ایمن جیسا ہی تھا وہ کافی بے صبرا تھا ہمیشہ یہی چاہتا تھا کہ میں ہر کام اس کی خواہش اور مرضی کے مطابق کروں اور میں… میں ویسے ہی کرتی۔
وقت گزرنے کے ساتھ سعد کا کاروبار ترقی کرتا جا رہا تھا روپیہ جیسے اب اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا وہ جس کام کو ہاتھ لگاتا وہ اس کے لیے سونے کی کان بن جاتا اب ہم اس تین کمروں کے کرائے کے فلیٹ میں نہیں رہتے تھے بلکہ گلبرگ میں چھ کنال کے ایک بنگلے میں رہتے تھے۔ اب گھر میں تین تین گاڑیاں کھڑی رہتی تھیں گھر میںہر کام کے لیے نوکر تھے۔
میں ان سب چیزوں ان سب آسائشوں کو دیکھ کر سوچا کرتی تھی کہ یہ سب ایمن کا مقدر تھا اگر وہ کچھ انتظار کر لیتی تھوڑا صبر کر لیتی پھر کچھ بھی نہ بگڑتا اس کے غلط فیصلوں نے پہلے مجھے برباد کیا تھا پھر سعد کو بھی تباہ کر دیا، یہ آسائشیں میری تمنا نہیں تھیں یہ مجھے خوش نہیں کر سکتی تھیں، ایمن کی خواہش یہی چیزیں تھیں اور وہ یقینا انھیں پا کر خوش ہوتی، مجھے محبت کی چاہ تھی اور سعد کی بجائے کسی اور مرد سے شادی کرنے کی صورت میں وہ مجھے مل جاتی سعد کو ایمن کی ضرورت تھی اور اس کمی کو دنیا کی کوئی چیز پر نہیں کر سکتی تھی۔حدید جانتا تھا کہ میں اس کی ماں نہیں ہوں، میں نے اس بارے میں اس سے جھوٹ نہیں بولا تھا، ہاں مگر میں نے ایمن کے بارے میں اس سے کہا تھا کہ وہ مر چکی ہے کیونکہ سعد یہی چاہتا تھا، پتا نہیں کیوں مگر حدید نے کبھی اپنی ماں کے بارے میں مجھ سے زیادہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی۔
اس کی اپنی زندگی تھی اپنی سرگرمیاں تھیں اور وہ ان ہی میں مصروف رہتا تھا۔وہ بہت Brilliant اسٹوڈنٹ تھا، اور جتنا قابل تھا اتنا ہی محنتی تھا۔
مجھے بچپن میں اسٹڈیز کے معاملے میں اس پر کافی توجہ دینی پڑتی تھی۔ مگر جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا وہ خود ہی اسٹڈیز کو بہت سنجیدگی سے لینے لگا میں چاہتی تھی وہ سول سروسز میں جائے مگر سعد یہ نہیں چاہتا تھا وہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھیجنا چاہتا تھا، اور چاہتا تھا کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کا بزنس سنبھالے مگر حدید نے اپنی راہ خود چن لی تھی وہ پاکستان میں ہی اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتا تھا اور پھر سول سروس جوائن کرنا چاہتا تھا۔
”ماما میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور ویسے بھی جب بعد میں یہیں رہنا ہے تو اب کیوں باہر جاؤں۔” اس کا جواب بڑا دو ٹوک تھا اور پھر سعد کے لاکھ کہنے اور چیخنے چلانے کے باوجود وہ باہر نہیں گیا۔
اس نے ایم بی اے کیا تھا اور پھر مقابلے کا امتحان پاس کر کے اس نے پولیس سروس جوائن کر لی تھی میں اس کے اس فیصلے سے بہت پریشان ہوئی تھی پولیس کی جاب میں ہمیشہ جان کا خطرہ رہتا تھا اور میں حدید کو کسی صورت گنوانے پر تیار نہیں تھی۔ میرے پاس اس کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں، مگر حدید میری بات ماننے پر تیار نہیں ہوا۔
مقابلے کے امتحان میں ٹاپ کرنے کے باوجود اس نے پولیس سروس ہی جوائن کی ان دنوں میں بہت خوش رہتی تھی وہ ٹریننگ کے لیے سہالہ میں تھا اور میں اپنے آپ کو ساتویں آسمان پر بیٹھے محسوس کرتی تھی۔ اب میں کوئی بے سہارا عورت نہیں رہی تھی اب میں سعد کی محتاج نہیں رہی تھی۔ میرا اپنا بیٹا میرا بوجھ سنبھال سکتا تھا میرے پاس میرا حدید تھا۔
اور پھر جیسے کوئی معجزہ ہو گیا تھا، بہت آہستہ آہستہ مگر آخر سعد کے وجود پر جمی ہوئی، برف پگھلنے لگی تھی۔ وہ پہلے کی طرح مجھے نظر انداز نہیں کرتا تھا مجھ سے گاہے بگاہے بات کرتا رہتا وہ خاموشی جو اتنے سالوں سے اس پر چھائی ہوئی تھی یک دم ٹوٹ گئی تھی وہ ہر بات میں تو نہیں مگر زیادہ تر باتوں میں میری رائے لینے لگا تھا میں یہ سوچنے لگی تھی کہ آخر میری محنت رنگ لے آئی تھی، میرا صبر رائیگاں نہیں گیا دیر سے سہی مگر میں اس کا دل جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
وہ ڈیڑھ سال بہت اچھا گزرا تھا یوں لگتا تھا جیسے ہر چیز اپنے ٹھکانے پر آ گئی ہو جیسے دنیا ایک دم روشن ہو گئی، میں، سعد اور حدید، کیا دنیا میں اس سے بڑھ کر کچھ تھا، کم از کم میرے لیے نہیں تھا، کیا تھا اگر عمر کے اتنے سال ضائع ہوئے تھے کیا تھا اگر سب کچھ گنوایا تھا زندگی اتنی سی محبت کے سہارے بھی بڑے آرام سے گزاری جا سکتی تھی۔ جو مجھے ملی تھی۔
میں ان دنوں حدید کے لیے رشتے دیکھنے میں مگن تھی۔ وہ چھبیس سال کا ہو گیا تھا اور میں چاہتی تھی کہ اب اس کا گھر بس جائے۔ شادی کے معاملے میں اس کی اپنی کوئی پسند نہیں تھی یہ کام اس نے مجھ پر چھوڑ دیا تھا سعد ان دنوں ایک بزنس ٹرپ کے سلسلے میں امریکا گیا تھا اور وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ بہت مصروف ہو گیا تھا ان ہی دنوں حدید کی اے ایس پی کے طور پر پہلی پوسٹنگ ہوئی تھی اور وہ ایبٹ آباد چلا گیا گھر ایک دم بہت سونا ہو گیا تھا۔
سعد اپنے کاموں میں مصروف تھا اور رات دیر گئے واپس آتا اور بعض اوقات تو اسے دو تین ہفتوں کے لیے باہر جانا پڑ جاتا تین چار ماہ اسی طرح گزر گئے تھے حدید ایک بار بھی گھر نہیں آ سکا وہ اپنی جاب میں اس قدر مصروف تھا کہ اسے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ فون وہ مجھے اکثر کیا کرتا تھا اور ہر دفعہ جب میں اسے بلانے پر اصرار کرتی تو وہ مجھے اپنے مسائل بتاتا اور میں قائل ہو جاتی۔
پھر ایک دن اس نے مجھے فون کیا اور زیادہ تر سعد کے بارے میں ہی پوچھتا رہا، اس کا لہجہ بہت عجیب، بہت الجھاہوا تھا، مجھے لگا جیسے وہ کچھ پریشان ہے، مگر پریشان کیوں تھا یہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے سوچا شاید گھر سے دوری اس کا باعث ہے اس لیے میں نے اسے جلد از جلد گھر آنے کو کہا۔
”آؤں گا ممی آؤں گا آپ فکر نہ کریں۔”
اس نے کہا تھا اور دو دن بعد وہ اچانک صبح سویرے گھر آ گیا تھا وہ بغیر ہمیں بتائے اپنے کمرے میں جا کر سو گیا تھا۔
میں اس وقت سعد کو آفس کے لیے تیار کروا رہی تھی جب ملازم نے مجھے اس کے بارے میں بتایا تھا۔
میں فوراً اسے دیکھنا چاہ رہی تھی مگر پھر یہ سوچ کر دل پر قابو پا لیا کہ وہ اتنا لمبا سفر کر کے آیا ہے تھکا ہوا ہوگا۔ ہم لوگ اس وقت ناشتہ کر رہے تھے جب سفید کرتے اور بلیک جینز میں ملبوس وہ نیچے آ گیا تھا وہ بہت خاموش تھا مجھے اور سعد کو بہت گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ہمارے ساتھ اس نے ناشتہ کیا تھا پھر سعد جب آفس جانے لگا تو اس نے کہا۔
”مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ آپ ابھی آفس نہ جائیں۔”
اس نے سعد سے کہا تھا اور پھر وہ دونوں مجھ سے کچھ کہے بغیر اسٹڈی میں چلے گئے میں کچھ دیر تک ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی رہی مگر پھر بے اختیار سی ہو کر میں ان کے پیچھے گئی تھی۔ اسٹڈی کا دروازہ پوری طرح بند نہیں تھا شاید حدید کوئی رازداری برتنا نہیں چاہتا تھا، اندر سے آنے والی آوازیں واضح تھیں۔
”تو آپ نے میری ماں کو طلاق کیوں دی؟”
مجھے لگا تھا چند لمحوں کے لیے زمین کی گردش تھم گئی تھی۔ میں نے زندگی میں بس ایک ہی جھوٹ بولا تھا اور وہ کہاں آ کر آشکار ہوا تھا، حدید کی آواز میں بہت برہمی تھی۔
”ہم دونوں میں انڈر اسٹینڈنگ نہیں تھی۔” کچھ لمحوں کے بعد سعد نے جواب دیا تھا۔
”کس انڈر اسٹینڈنگ کی بات کر رہے ہیں آپ، جنھیں اب آپ نے بیوی بنا کر رکھا ہے کیا ان کے ساتھ انڈر اسٹینڈنگ ہے آپ کی؟” حدید کی آواز میں تمسخر تھا میں نے دیوار سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔
”کیا تم ایمن سے ملے ہو۔” سعد نے بہت ہلکی آواز میں سوال کیا تھا۔
”ابھی تک تو نہیں مگر ملوں گا ضرور۔” حدید نے بلند آواز میں کہا تھا اور میرے دماغ میں بہت سالوں پہلے ایمن کی کہی بات گونجی تھی۔
”میں چیزوں کو چھینتی نہیں ہوں وہ خود میری طرف آ جاتی ہیں۔”
میں مزید کچھ سنے بغیر نیچے آ گئی تھی۔
”تو کیا میں حدیدکو بھی کھو دوں گی۔” میں نے ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھ کر سوچا تھا۔
”تو پھر باقی رہے گا کیا؟” بہت دیر تک میں خالی الذہنی کے عالم میں وہاں بیٹھی رہی عالیہ نے ایک بار مجھ سے کہا تھا۔
”جتنا خود کو اس سے بہلا لو جب اسے ماں کی یاد آئے گی تو تمہاری کوئی یاد باقی نہیں رہے گی۔”
”کیا واقعی ایسا ہی ہوگا؟” میں نے خود سے پوچھا تھا، کافی دیر بعد سعد نیچے آیا تھا اور مجھ سے کچھ کہے بغیر اپنا بریف کیس اٹھا کر چلا گیا میں اسے چھوڑنے دروازے تک نہیں گئی، بس اپنی اس مشکل کا حل سوچتی رہی، میں اس پر کیا پڑھ کر پھونکوں کہ وہ ایمن کو بھول جائے اس کے بارے میں بات تک نہ کرے، وہ بس وہی حدید بن جائے میری انگلی پکڑ کر چلنے والا۔
”نہیں میں اس پر ظاہر نہیں کروں گی کہ میں نے کچھ سنا ہے جب تک پردہ ہے پردہ ہی رہنا چاہیے۔” میں نے بالآخر طے کیا تھا اس دوپہر میں نے اپنے ہاتھ سے حدید کے سارے پسندیدہ کھانے پکائے تھے مگر اس سے پہلے کہ میں اسے جگانے جاتی وہ خود لاؤنج میں آ گیا تھا، وہ یونیفارم میں ملبوس تھا اور جب میں نے اسے کھانا کھانے کے لیے کہا تو ایک بے تاثر چہرے کے ساتھ اس نے کہا تھا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے ایک ضروری کام ہے اس کے لیے مجھے جانا ہے۔” میں نے بہت اصرار کیا تھا مگر وہ اپنا بیگ لے کر گیرج میں چلا گیا میں اس کے ساتھ ہی باہر آ گئی تھی۔
”اب کب آؤ گے؟” میں نے اس سے پوچھا تھا۔
”پتا نہیں۔” اس کا لہجہ بہت سپاٹ تھا۔ وہ کار کے کھلے دروازے پر ہاتھ جمائے مجھے دیکھتا رہا مجھے یوں لگا جیسے وہ جانے سے پہلے مجھے کچھ کہنا چاہ رہا تھا میں کٹہرے میں کھڑے مجرم کی طرح سزا سننے کے انتظار میں اسے دیکھتی رہی مگر اس نے کچھ نہیں کہا وہ گاڑی میں بیٹھ کر پہلی بار مجھے خدا حافظ کہے بغیر چلا گیا اور میں بہت دیر تک کھلے گیٹ کو دیکھتی رہی۔ مجھے لگا جیسے وہ اب کبھی نہیں آئے گا۔
”نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے، میں نے اتنی محبت دی ہے اسے، اس کے لیے اپنی زندگی اپنی خوشیاں قربان کر دیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ مجھے چھوڑ دے۔” میں نے خود کو تسلی دی تھی اور اندر آ گئی تھی۔
دن پھر گزرنے لگے تھے۔ میں ہر روز حدید کوفون کرتی ہنس ہنس کر اس سے باتیں کرتی بالکل اس ڈوبنے والے کی طرح جو ڈوبنے سے پہلے ایک گہرا سانس ضرور لیتا ہے پتا نہیں میں کس کو دھوکا دے رہی تھی خود کو یا حدید کو میں نہیں جانتی بس میں یہ چاہتی تھی کہ کوئی ایمن میرے اور حدید کے درمیان نہ آئے مگر… ایسا ہوا نہیں۔
حدید ایمن سے ملنے گیا تھا اس نے مجھے بتایا نہیں پھر بھی میں جان گئی۔ اب مجھے حدید کے آنے کی خوشی نہیں ہوتی تھی میں اسے دیکھتی اور ایک عجیب سا خوف مجھے اپنے حصار میں لے لیتا میں اسے دیکھتی رہتی مجھے لگتا ابھی وہ مجھ سے لاتعلقی کا اظہار کر دے گا ابھی وہ کہے گا کہ اسے مجھ سے نفرت ہے کیونکہ میں اس کی ماں نہیں ہوں مگر ایسا ہوا نہیں اس کا انداز بہت عجیب تھا، وہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ جاتا تھا بالکل اپنی ماں کی طرح۔
وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتا تھا، پتا نہیں کیا ہوتا تھا اس کی آنکھوں میں، میرا دل چاہتا تھا میں چیخ چیخ کر روؤں، اسے کہوں کہ میں نے اس پر کوئی ظلم نہیں کیا میں نے اس کی ماںسے کوئی زیادتی نہیں کی ہے مگر وہ کچھ پوچھتا ہی نہیں تھا، اس کی ماں زبان سے سب کچھ کہہ دیتی تھی وہ آنکھوں سے سب کچھ بیان کر دیتا تھا ایمن کی بات چبھتی نہیں تھی اس کی ان کہی مجھے خنجر کی طرح کاٹ دیتی تھی۔
ان ہی دنوں سعد مجھ سے اکھڑا اکھڑا رہنے لگا تھا، وجہ کیا تھی میں نہیں جانتی تھی، نہیں شاید میں جانتی تھی بس یقین نہیں کرنا چاہتی تھی حدید جب بھی آتا وہ سعد کے ساتھ تنہائی میں لمبی لمبی گفتگو کیا کرتا تھا اور بعض دفعہ وہ لڑ بھی پڑتا تھا۔ اس کی آواز اسٹڈی سے باہر تک آتی اور میرا دل دہل جاتا۔
میں نے کبھی دوبارہ ان کی باتیں سننے کی کوشش نہیں کی اتنا حوصلہ ہی کہاں تھا، اس عمر میں جب بڑے سے بڑے شخص کو بھی کچھ آرام مل جاتا تھا میں سکون سے محروم ہو گئی تھی، حدید نے ایک دن مجھے کہا تھا۔
”آپ… آپ بہت احمق ہیں۔”
پھر وہ برہم انداز میں باہر چلا گیا تھا، یہ واحد جملہ تھا جس نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی ورنہ مجھے اس سے کبھی بھی کوئی شکایت نہیں ہوئی تھی میں نے اس دن کچھ نہیں کھایا تھا۔
”ہاں میں واقعی احمق ہوں۔” اپنے چہرے کی جھریاں گنتے ہوئے میں نے اس دن اپنے آپ سے کہا تھا۔
”حدید نے کہا ہے تو ٹھیک ہی ہوگا وہ غلط کہاں کہتا ہے۔”
اس دن سعد آفس نہیں گیا تھا، میں بہت حیران تھی سعد تو بیمار ہونے کی صورت میں بھی آفس کا ایک چکر ضرور لگاتا تھا مگر اس دن تو اس نے بغیر کسی وجہ کے چھٹی کر لی تھی، وہ صبح دیر تک سوتا رہا پھر دوپہر کے قریب وہ کھانا کھانے کے لیے نیچے آیا تھا۔بہت بے ڈھنگے انداز میں اس نے کھانا کھایا، یوں لگتا تھا جیسے وہ ذہنی طور پر کہیں اور ہے۔ کھانا کھانے کے بعد اس نے مجھے کہا تھا۔
”تم اوپر آؤ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”
میرا سانس رک گیا تھا۔
”اب اسے مجھ سے کیا باتیں کرنی ہیں؟” مگر میں اس کی بات سننے کے لیے چلی گئی تھی اس نے مجھے کہا تھا۔




Loading

Read Previous

محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

Read Next

کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!