”سسٹر! مجھے آپ سے ایک درخواست کرنی ہے۔”
وہ اس دن چرچ سے واپس آکر سیدھی سسٹر پیٹریشیا کے پاس گئی تھی۔ سسٹر الزبتھ بھی ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔
”میں یہاں کانونٹ میں رہنا نہیں چاہتی۔ آپ مجھے کہیں اور بھجوا دیں۔ ”سسٹر پیٹریشیا اس کے مطالبے پر حیران رہ گئی تھیں۔
”کیوں کیا ہوگیا ہے؟”
” میں یہاں خود کو آزاد محسوس نہیں کرتی۔ میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت نہیں کرسکتی۔ مجھے صرف قرآن پاک میں دلچسپی ہے۔ ان کتابوں میں نہیں جو آپ مجھے پڑھنے کے لیے دیتی ہیں۔”
سسٹر پیٹریشیا کو وہ اتنی بدلی ہوئی لگی تھی کہ انہیں چند لمحوں کے لیے یقین نہیں آیا تھا کہ یہ سب الفاظ اس کے ہیں۔
”کرسٹینا! تمہیں کیا ہوا ہے؟”
”پلیز سسٹر! میں کرسٹینانہیں ثانیہ ہوں۔ آپ مجھے میرے نام سے پکاریں۔”
سسٹر پیٹریشیا نے سسٹر الزبتھ کی طرف دیکھا تھا۔
”سسٹر! میں مسلمان ہوں اور میں مسلمان ہی رہنا چاہتی ہوں۔ میری برین واشنگ کرنے کی کوشش نہ کریں۔”
وہ خود یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اتنی طاقتور کیسے ہوگئی تھی مگر اس وقت اسے کسی چیز سے خوف نہیں آرہا تھا نہ کسی کی ناراضی سے نہ کسی کے اکیلا کردینے سے اورنہ ہی موت سے۔
”ثانیہ!تمہارا نام صرف اس لیے بدلا گیا تھا تاکہ تمہارے نام کی کسی لڑکی کے یہاں ہونے کی بات لیک آؤٹ نہ ہوسکے ورنہ اورکوئی وجہ نہیں تھی۔”
سسٹر پیٹریشیا کا لہجہ ایک دم معذرت خواہانہ ہوگیا تھا۔
”آپ یہ خبر لیک آؤٹ ہوجانے دیں مگر مجھے میرے اپنے نام سے پکاریں۔ میں اب کسی چیز سے خو فزدہ نہیں ہوں۔ میرے ساتھ جو ہونا ہے وہ ہوگا اور میں اسے روک نہیں سکتی۔ مگر آپ مجھ سے میرا تشخص چھیننے کی کوشش نہ کریں۔ مجھے یہاں سے بھجوا دیں۔”
اس کا لہجہ اتنا قطعی تھا کہ دونوں سسٹرز میں سے کسی نے مزید کچھ نہیں کہا تھا۔
”ٹھیک ہے ، تم کو یہاں سے بھجوادیا جائے گا۔”
”تھینک یو سسٹر۔” وہ کمرے سے نکل آئی تھی۔
پچھلے بہت سے دنوں میں پہلی بار اس نے بڑی بے خوفی سے لائبریری میں جا کر قرآن پاک کی بلند آواز سے تلاوت شروع کردی تھی۔
”اب مجھے اس شخص کے لیے چرچ نہیں جانا کیونکہ وہ وہاں نہیں آئے گا۔ وہ کبھی کسی چرچ میں اللہ کو ڈھونڈنے اور سکون پانے نہیں جائے گا اورمجھے کسی جھوٹ کا سہارا لے کر یہاں سے اس کے پاس نہیں جانا پڑے گا اوراب مجھے کسی سے یہ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں کون ہوں اور کیا چاہتی ہوں اورآج مجھے ڈائننگ روم میں کسی دعامیں شرکت کے ساتھ اپنا کھانانہیں کھانا۔ مجھے کھاناکھانے سے پہلے صرف بسم اللہ پڑھنی ہے اوربآواز بلند پڑھنی ہے اور کل مجھے کسی چرچ کی سروس میں شرکت نہیں کرنا۔ واحد کام جو مجھے کرنا ہے ، وہ اس قرآن پاک کی تلات ہے اور مجھے یہ تلاوت کبھی بھی چھپ کر اور ڈر کرنہیں کرنی نہ ہی نماز پڑھتے وقت مجھے دل میں کوئی خوف رکھنا ہے پھر جنہیں مجھے چھوڑنا ہوگا۔ وہ مجھے چھوڑدیں گے اور مجھے صرف اپنے اللہ سے سہارا چاہیے۔ میرا اللہ اورمیرا رسولۖ میرے لئے کافی ہے اورمیں اپنے گناہوں کے لیے اللہ سے رحمت کی طلبگار ہوں۔”
اس نے زندگی میں کبھی خود کو اتنا طاقتور محسوس نہیں کیا تھا جتنا وہ اس وقت محسوس کر رہی تھی۔
*…*…*
”تم نے کیا سوچا ہے؟” ہیومن رائٹس کمیشن کی اس نامی گرامی عہدے دار نے اس سے ایک بار پھر پوچھا تھا۔
”میں آپ کو بتا چکی ہوں، مجھے کسی کورٹ میں پیش ہونا ہے نہ ہی میڈیا کے سامنے آنا ہے۔ مجھے ایسا کچھ نہیں کرنا ہے۔” اس نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا۔
”تم انکار نہیں کر سکتیں۔ یہ دونوں کام تمہارے لیے ضروری ہیں۔ تم اس کیس میں گواہ ہو۔ تمہاری گواہی بہت ضروری ہے ۔ تمہاری گواہی کے بغیر بلال بچ جائے گا۔”
اس کے سر میں درد کی لہریں اٹھنے لگی تھیں۔
”اورمیڈیا کے سامنے آنا اس لیے ضروری ہے تاکہ تم انہیں بتا سکو کہ اس ملک میں عورتوں کو کس قسم کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے حقوق کس طرح پامال کیے جاتے ہیں ۔ اقلیتوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ کس طرح امتیاز برتا جاتا ہے۔ تمہارا میڈیا کے سامنے آنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔” وہ عورت بولتی جارہی تھی۔
”آپ کو پتا ہے، میرے اس طرح کے بیانات سے کیا ہوگا؟ مسلمانوں اور اقلیتوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے۔ میں نہیں چاہتی میری وجہ سے کسی اقلیت کو نقصان اٹھانا پڑے مگر آپ مجھ سے جو چاہ رہی ہیں ، اس کے بعد یہی ہوگا۔” وہ کچھ برہم ہوگئی تھی۔
”ہم نے اس بارے میں بہت سوچا ہے اورپچھلے ایک سال کے عرصے میں یہی سوچ کرخاموشی اختیار کیے رکھی ہے تاکہ اس مسئلے کی وجہ سے دونوں کمیونٹیز کے درمیان کوئی کشیدگی نہ ہو، مگر اب حالات کافی حد تک نارمل ہیں۔ جوئیل کی فیملی باہر منتقل ہوچکی ہے ، ان پر کسی قسم کے حملے کا خطرہ نہیں ہے۔”
”مگر باقی لوگوں پر تو ہے، ساری اقلیتیں تو باہر شفٹ نہیں ہوسکتیں۔ میری ایک غلطی سے میری اور ڈیوڈ کی فیملی کو جو نقصان پہنچ چکا ہے۔ میں نہیں چاہتی ۔ اب ویسا کوئی نقصان کسی دوسرے کو برداشت کرنا پڑے۔”
”تم نے کوئی غلطی نہیں کی۔ تم نے جو کیا، وہ اپنے حق کے لیے کیا۔ تاریخ میں تم جیسی لڑکیوں کا نام بہت اونچی جگہ لکھا جائے گا۔” وہ عورت اب ایک بار پھر اس کے سامنے جال بچھا رہی تھی۔
”مجھے کسی تاریخ میں نام نہیں لکھوانا ہے۔ مجھے کسی تاریخ کا حصہ نہیں بننا ہے۔ میں نے جو کچھ کیا۔ مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ہے۔ تاریخ میرے چہرے کو سونے سے لکھے یا چاندی سے مگر میری نظروں میں، میرا سیاہ چہرہ سیاہ ہی رہے گا۔ دنیا کا کوئی پانی اس سیاہی کو دور نہیں کرسکتا، میرے گناہ نے میرے ہاتھ پاؤں کاٹ کر مجھے محتاج بناکر آپ کے سامنے پھینک دیا ہے۔ اب میں چاہوں بھی تو اپنے پیروں پر خود کھڑی نہیں ہوسکتی، مگر میں اس سب کے لیے کسی کو ذمہ دار نہیں سمجھتی۔ یہ صرف اور صرف میری غلطی تھی۔ میری غلطی کی وجہ سے ڈیوڈ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اوربس یہ کافی ہے۔ مجھے کسی میڈیا کے سامنے آکر اپنا یہ بد صورت چہرہ لوگوں کو نہیں دکھانا ہے۔”
وہ عورت عجیب نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔
”میڈیا کے سامنے تمہیں آنا چاہیے یا نہیں مگر کورٹ میں تمہیں پیش ہونا چاہیے۔ تم مانتی ہو کہ غلطی تمہاری تھی جس کی وجہ سے ڈیوڈ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ تم انصاف کرو ڈیوڈ کے ساتھ؟ اس کی فیملی کیساتھ؟ تم کورٹ میں پیش نہ ہو کر ایک اورگناہ نہیں کرو گی کیا؟ سچ چھپا کر؟ بلال کو سزا سے بچا کر۔”
”پلیز، اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔ اس وقت میں کچھ سوچنا نہیں چاہتی۔ پلیز آپ یہاں سے چلی جائیں۔”
وہ یکدم سر پکڑ کر چلانے لگی تھی۔
ہیومن رائٹس کمیشن سے متعلق وہ تینوں عورتیں کچھ دیر خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہنے کے بعد کمرے سے نکل گئی تھیں۔
ان عورتوں کے جانے کے بعد بہت دیر تک اس کے ذہن میں ان کی باتیں گونجتی رہی تھیں۔ وہ ایک عجیب شش و پنج میں گرفتار تھی۔ اس کی گواہی سے بلال کو نقصان پہنچتا تھا اورگواہی نہ دینے سے وہ ضمیر کی خلش کا شکار تھی۔
بلال نے ڈیوڈ کو قتل کیا ہے اور میں گواہی نہ دے کر اس گناہ میں اس کی شریک کیوں بننا چاہتی ہوں۔ میں گواہی نہ دے کر ایک بار پھر اللہ کے سامنے… نہیں میں اب ایسا کوئی کام نہیں کروں گی جس سے مجھے اللہ کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے اگر میں اپنے غلط کام کی سزا بھگت رہی ہوں تو پھر بلال کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ دنیا کا کوئی قانون اسے یہ حق نہیں دیتا کہ وہ ڈیوڈ کو قتل کردے اگر بات انصاف کی ہے تو ڈیوڈ اوراس کے گھروالوں کے ساتھ بھی انصاف ہونا چاہیے۔
اس شام نماز پڑھنے کے بعد خود بخود ہی جیسے اس کے لیے ہر فیصلہ کرنا آسان ہوگیا تھا۔
*…*…*
اس نے زندگی میں کبھی اتنے لوگوں کو خود کو گھورتے نہیں دیکھا تھا ان میں ہر طرح کی نظریں تھی۔ وہ نظریں جن میں اس کے لیے نفرت تھی، وہ نظریں جن میں اس کو دیکھ کر حیرانی تھی اور وہ نظریں جن میں اس کے لیے ترس تھا۔ کورٹ کے اندر داخل ہونے تک اس نے اپنے بارے میں بہت سے جملے سن لیے تھے۔ اس کا دل ان جملوں کو سن کر زمین میں گڑنے کو نہیں چاہا تھا وہ پہلے ہی زمین میں گڑ چکی تھی۔
” وہ جسے چاہے ذلت دیتا ہے۔”
اس کے ذہن میں ایک آیت لہرائی” اور اس ذلت کا انتخاب میں نے اپنی مرضی سے کیا اورا ب مجھے صبر کرنا چاہیے۔”اس نے چادر سے چہرے کوچھپاتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو بھینچ لیا تھا۔
کورٹ روم میں بہت عرصے کے بعد اس نے چند ایسے چہروں کو دیکھا تھا جن کے بغیر رہنا کبھی اس کے لیے ناممکن تھا اوراب وہ کتنے عرصے سے ان کے بغیر ہی رہ رہی تھی اس نے یاد کرنے کی کوشش کی تھی ۔ کٹہرے میں کھڑے بلال پر اس نے دوسری نظر نہیں ڈالی تھی۔ پہلی نظر اس سے ملتے ہی بلال نے زمین پر تھوک دیا تھا۔ اور یہ بلال وہ تھا جو اس کے کہنے پر کوئی بھی کام کرنے کو تیار رہتا تھا اور آج…آج اس کی آزمائش تھی اسے پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ عدل کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے اور تب عدل کرنا جب اس سے اپنے ہی جسم کا ایک حصہ زخمی ہوتا ہو۔ اس نے اپنے وجود میں پہلی بار کپکپاہٹ محسوس کی تھی۔
جج نے اسے کٹہرے میں بلوالیا تھا۔ لوگوں سے بھرے ہوئے کورٹ روم پر نظر دوڑاتے ہوئے اس نے جج کو دیکھا تھا۔ ایک گہری سانس لے کر اس نے اپنا بیان ریکارڈ کروانا شروع کر دیا تھا۔ کورٹ روم میں سناٹا تھا۔ اور وہ جانتی تھی بلال کی زندگی کا فیصلہ اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کریں گے اوراس نے وہاں سچ کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا تھا۔
*…*…*
اگلے چند ہفتوں میں عدالت نے اس کی کسٹڈی کا فیصلہ بھی کیا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ جج پر کتنا پریشر ڈالا گیا تھا مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ اسے اس کی مرضی کے مطابق اسی ادارے کے پاس رہنے دیاگیا تھا۔ جہاںوہ ر ہی تھی وہ جانتی تھی چند دنوں کے اندر اسے اپنے ملک سے باہر بھجوادیا جائے گا اور اس کے بعد…
اس نے عدالت کو بلال کو عمر قید کی سزا دیتے ہوئے بھی سنا تھا۔ ا س نے بلال کے چہرے پر پھیلتی ہوئی تاریکی بھی دیکھی تھی۔ وہ بلال کے خوابوں سے واقف تھی اوروہ یہ بھی جانتی تھی کہ اب اس کی زندگی کہاں گزرے گی۔ وہ تیس سال کا تھا اوراگلے کئی سال اس نے…۔
” اور یہ سب صرف میری وجہ سے ہوا، صرف میری وجہ سے۔”
اس نے سوچا تھا اوراس کے اعصاب پر تھکن سوار ہونے لگی تھی۔ کوئی اپنے خاندان کے لیے اتنی رسوائی کا سبب نہیں بن سکتا۔ جتنی رسوائی میں نے اپنے خاندان کو دی ہے۔ کاش اللہ نے مجھے اس دنیا میں اتارا نہ ہوتا یا اتارا تھا تو بہت پہلے مجھے مار دیا ہوتا اتنی لمبی زندگی نہ دی ہوتی۔”
اس نے کورٹ سے باہر نکلتے ہوئے اپنی گیلی آنکھوں کو رگڑتے ہوئے کہا تھا۔
*…*…*
”مجھے اپنی زندگی کے لیے خود راستہ ڈھونڈنے دیں، میں وہ سب نہیں کرسکتی جو آپ چاہتے ہیں، مجھے کسی پریس کانفرنس میں اسلام اورپاکستان میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی مذمتی بیان نہیں دینا۔ آپ مجھے اپنے ہاتھ کا ہتھیار مت بنائیں، مجھے چھوڑ دیں۔ میری برین واشنگ کرنے کی کوشش مت کریں۔”
”تم بہت سے حقائق کو نظر انداز کر رہی ہو۔ اس وقت اگر تم اس ملک میں زندہ سلامت موجود ہو تو یہ ہماری وجہ سے ہے تم کو یاد رکھنا چاہیے کہ تمہارے لوگ اور تمہارا خاندان تمہارے ساتھ کیا کرسکتے تھے، صرف ہم لوگوں کی وجہ سے تم یہاں محفوظ بیٹھی ہو۔”
”بعض دفعہ زندگی سب کچھ نہیں ہوتی میرے پاس بھی زندگی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں۔”
”ہم تمہیں صرف ایک بار پریس کانفرنس میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد تم بے شک دوبارہ کبھی پریس کے سامنے مت آنا۔”
”مجھے ایک بار بھی پریس کے سامنے نہیں آنااگرآپ نے مجھے مجبور کیا تو میں پریس کانفرنس میں یہ کہہ دوں گی کہ مجھے آپ لوگوں نے ٹریپ کیا تھا اورمیں یہ سب کچھ آپ لوگوں کے کہنے پر کر رہی ہوں اس لیے بہتر ہے کہ آپ مجھے چھوڑ دیں۔”
امریکہ آنے کے بعد اسے مسلسل پریشرائز کیا جارہا تھا کہ وہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرے تاکہ میڈیا کے ذریعے ان ایشوز کو مزید اچھالا جائے جو پاکستان کے متعلق مغربی عوام کی رائے خراب کرتے رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کی جو مغربی تنظیم اسے پاکستان سے امریکہ لانے اوروہاں سیاسی پناہ دلوانے کی موجب بنی تھی اب وہ بدلے میں اس کو ایکسپلائٹ کرنا چاہ رہے تھے۔
امریکہ میں ہی اس کی ملاقات ڈیوڈ کی فیملی سے کروائی گئی تھی اوراس بار ڈیوڈ کی فیملی نے اسے اسی کام پر مجبور کرنے کی کوشش کی تھی جو کام اس تنظیم کے افراد کرواناچاہ رہے تھے۔ اس کا جواب ایک بار پھر انکار کی صورت میں تھا۔
”میں جانتی ہوں، میری وجہ سے آپ کو اپنے بیٹے کی جان سے ہاتھ دھونا پڑا مگر میں مجبور ہوں۔ میں آپ کی بات نہیں مان سکتی۔”
ڈیوڈ کی فیملی واپس جاتے ہوئے بہت مشتعل تھی ، اسے قائل کرنے میں ناکامی پر چند ہفتوں کے بعد اسے اس کی مرضی کے مطابق چھوڑ دیا گیا تھا۔
وہ وہاں سے نکلتے ہی طے کر چکی تھی کہ اسے کہاں جانا تھا۔ پرس میں کچھ ڈالرز اورایک بیگ لیے وہ اسلامک سینٹر چلی گئی تھی۔ وہ جانتی تھی اب اسے مدد کی ضرورت تھی اور یہ مدد اسے امریکہ میں کہیں اور سے نہیں مل سکتی تھی۔ اسے سر چھپانے کے لیے جگہ اور ایک جاب کی ضرورت تھی اور یہ چیزیں اسے اب کوئی اورنہیں دے سکتا تھا۔
اسلامک سینٹر میں اس نے چند ماہ کے سوا اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا اورپھر مدد کے لیے درخواست کی تھی۔ اسے جواب میں ایک ریفرنس لیٹر کے ساتھ ایک پاکستانی کے پاس بھجوا دیا گیا تھا۔ وہاں جا کر اسے دوبارہ اپنی داستان نہیں سنانی پڑی تھی۔ اس پاکستانی نے اپنے ایک سٹور میں اسے سیلز گرل کے طور پر ملازمت دے دی تھی۔ اسی کے توسط سے ایک جگہ پر پے انگ گیسٹ کے طور پر اس کے لیے رہائش کابندوبست بھی کردیا گیا تھا۔