کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

”ریت زک سے سیاہ ہوتی ہے اور اعمال سے رو سیاہ یا بلند۔” وہ اپنے اندر کی بہتی ندی کی ذرا سی بوچھاڑ اپنی بے نور آنکھوں میں لادے اس کی گود میں اپنا سر رکھے ہوئے تھی ۔”مطلب ؟” وہ بے تاثر سی اسی طرح سر رکھے بولی ۔
”مطلب ریت صرف ذلت اور بے عزتی سے ہی سیاہ ہوتی ہے رنگت سے نہیں اور اعمال سے گنہگار یا بلند۔اصل زینت رنگت سے نہیں عزت اور اچھے اعمال سے ہو تی ہے۔” اس نے وہی دلا سہ روحی کو دلایا تھا جس سے کبھی وہ اپنا دل بہلایا کرتی تھی۔
”مجھے یہ نصیحتیں نہیں سننی پھپھو۔”وہ جھلا کر اُٹھی۔
”یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ لوگ آپ کو تب تک منہ نہیں لگا تے جب تک آپ مر نہ جا ئیں بلا کے حسین نہ ہوں۔” اس کی آنکھیں بھر آئیں وہ اپنے آنسو سنبھالتے ہوئے وہاں سے اُٹھ کر چلے گئی اور وہ اسے یونہی جاتے دیکھتی رہی ۔
٭…٭…٭




اسکول میں ہر طرف ہلا گلا مچا ہوا تھا۔ کلاس کے باہر کاریڈور میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لڑکیاں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اپنی ٹیچر کے ہم راہ اپنے اپنے ٹیبلو پریکٹس کر رہی تھیں ۔روحی کلاس میں پہلی سیٹ پر بہ ظاہر ٹیچر پر نظریں جمائے بیٹھی تھی مگر اس کے کھڑے کان باہر سے آتی آوازوں کی سُن گُن لینے میں مصروف تھے۔ مو قع ملتے ہی آنکھیں بھی گستا خی سے باز نہ آتیں۔
”ٹن، ٹن، ٹن۔”
”چلیں! باقی کل یہاں سے ہی شروع کریں گے۔ اب آپ سب اپنا اپنا ایکٹ پریکٹس کرنے باہر جا سکتے ہیں۔ مس نوشین جلد ہی آپ سب کو جوائن کریں گی۔” مس شمائلہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ کلاس سے باہر چل دیں۔ دوسری طرف یہ سنتے ہی روحی کی آنکھوں میں چمک ابھر آئی۔ اس نے جلدی جلدی کتابیں بیگ میں ڈالیں اور سائرہ کے ہم راہ اس قطار سے جا ملی جہاں سب ہی بچے ایک ایک کر کے باہر کی طرف جا رہے تھے۔ کاریڈور میں پہنچ کر سب ہی لڑکیاں یہاں وہاں ٹہلتی کھلکھلا رہی تھیں۔ کچھ منٹ مزید گزر جانے کے بعد بھی جب مس نوشین کی کچھ خبر نہ ہوئی تو سب ہی نے ان کے انتظار کرتے کرتے غل غپاڑہ کرنے لگیں۔
”روحی! کل سر شہیر نے پروفائل پکچر اپ لوڈ کی تھی، تم نے دیکھیں جس میں مس نوشین بھی تھیں؟”
”نہیں! کیوں ؟۔”
”ہائے !کیا حسین لگ رہے تھے وہ۔” اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
”لیکن ان کی بیوی پتا نہیں کیا دیکھا انہوں نے؟”اس کے چہرے کے تاثرات یک دم بدل گئے۔سائرہ آج سر شہیر کی بیوی پر چٹ پٹے تبصرے کرنے کے موڈ میں تھی۔
”اچھا میں ذرا پانی کی بوتل لے کر آتی ہوں۔” اس نے مسکراہتے ہو ئے کہا۔ روحی نے شاید بات ٹالنا چاہی تھی کیوں کہ کلاس تک کا پو را سفر اس نے ذہن میں سر شہیر کی سانولی بیوی کو اپنے سر پر سوار کیے کیا اور اپنی میز پر پہنچتے ہی پانی کی بوتل کا ڈھکن کھول کر ہو نٹوں کے قریب لے آئی کہ اچانک کھڑکی سے آتی آواز نے اس کا ہاتھ روک لیا۔
”ٹیچر! روحی اِس پلے کے لیے بالکل بھی فٹ نہیں ہیں۔ مطلب وہ تھوڑی موٹی سی ہیں۔ ذرا سا چلتے ہی ہانپنے لگتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہمارا ایکٹ بھی خراب ہوسکتا ہے۔
”ہمم! چلیں میں دیکھتی ہوں۔”اس نے مس نوشین کو وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا، پھر دو ہنستے ہو ئے سائے دیکھے اور بوتل پھر سے بیگ کی سائڈ زپ میں رکھ دی۔اس کا گلا اب بھی خشک تھا۔ البتہ پانی میں کچھ اضافہ ہوا، جو اس کی آنکھوں سے ٹپکنے لگا تھا۔
اسکول کی چھٹی ہوتے ہی لڑکیوں کا ہجوم دروازے کی سمت تیزی سے بڑھ رہا تھا جو یقینا دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور جس سے پتا لگا نا مشکل تھا کہ آیا یہ وہی بچے ہیں جو کچھ دیر پہلے اسکول میں موجود تھے یا کوئی قیدی قبیلہ تھا جو قید سے بھاگ نکلا ہو۔ مگر روحی ان لڑکیوں کی رفتار کا اندازہ لگائے بغیر دھیمے قدم اٹھا تی آگے بڑھ رہی تھی کہ پیچھے سے آتے زوردار دھکے نے اسے بنچ کے پاس رکھے کھردرے پتھر پر لا پھینکا۔یک دم ہی اس جھنڈ میں ہلچل سی مچ گئی اور روحی کے گرتے ہی سب ہی اس سے پانچ قدم دور دائرے کی صورت میں کھڑے ہو گئے ۔سب ہی لڑکیاں آپس میں نظروں کا تبادلہ کرتی اسے دیکھ رہی تھیں۔ روحی خود کو سنبھالتی ہوئی کھڑی ہوئی ،اپنے یونی فارم اور ہاتھ پر لگی دھول جھاڑی اور ایک نظر اپنی کہنی کو دیکھا جہاں سے چمڑی چھل جانے کے باعث خون نکل رہا تھا۔ دوسری نظر اس نے اپنے پیچھے ڈالی جہاں سے اسے دھکا دیا گیاتھا۔ اس کے مڑتے ہی وہاں کھڑی لڑکیوں میں لرزش ہوئی جن میں سے ایک کافی گھبرائی ہوئی تھی۔ ”دیکھو میں نے کچھ نہیں کیا، مجھے پیچھے سے دھکا آیا تھا۔” وہ ماتھے پر بل لیے اب روحی سے التجا کر رہی تھی ۔ روحی نے زمین پر گرا اپنا بستہ اٹھا یا اور بنا کچھ کہے باہر کی طرف چل دی۔
گھر میں داخل ہوتے ہی پاس والے کمرے سے آتی قہقہوں کی آواز اس کے کان سے ٹکرائی۔ اس نے اس طرف کان نہ دھرتے ہو ئے اپنے کمرے کا رخ کیا کہ سماویہ باجی کی پکار نے اس کے قدم روک لیے۔
”دیکھو روحی! نمرہ با جی کی منگنی کی تیاری کتنی زوروشور سے چل رہی ہے۔ میں تم سب کے لیے شاپنگ بھی کر کے آئی ہوں، آئو دیکھو۔” روحی مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کمرے میں داخل ہو گئی۔
”یہ تین ڈریسز لیے ہیں میں نے ، اب تم دونوں بہنیں اور نتاشا پسند کرلو کس کو کون سا چاہیے۔” سماویہ باجی کے کہتے ہی نتاشا نے جھپٹا مار کر پاس ہی رکھی نیوی بلیو فراک اٹھالی۔
”یہ تو میری ہے۔”اس نے گویا حتمی فیصلہ سنایا ۔ روحی کی آنکھیں تو اسی لا ل جو ڑے پر جمی ہوئی تھیں جو امی کے پیروں کے پاس پڑا ہوا تھا۔
”تو پھر اِس میں سے یہ لا ل والا رانیہ کا اور یہ گلابی والا روحی کا ۔ روحی پر لال رنگ نہیں جچے گا۔” امی نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ سماویہ باجی سے کہا اور پھر دوسری چیزوں میں مصروف ہوگئیں۔ روحی نے ایک نظر امی کے بغل میں بیٹھی گوری رنگت سے پر نور رانیہ کو دیکھا اور پھر اپنی سیاہ کہنی کو جہاں اب بھی خون تا زہ تھا ۔ وہ کچھ لمحے یونہی اپنی کہنی دیکھتی رہی ۔
”ہاں ! لال رنگ مجھ پر نہیں جچتا۔”اس نے سر جھٹکا اور اپنے کمرے کی طرف چل دی ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Read Next

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!