کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے گھنگھریالے بالوں میں بے مقصدکنگھا پھیرتے ہوئے بنا پلک جھپکے خود کو شیشے کی آنکھ سے دیکھ رہی تھی۔ وہ شاید اب بھی ان فلٹرز کے انتظار میں تھی کہ کوئی ایسا فلٹر ہو جو اس کے موبائل فون سے نکل کرحقیقتاً اسے گورا اور خوب صورت بنا دے اور اس کی ان حسرت بھری آنکھوں سے وہ سسکیاں چھین کر اس کی زندگی آسان کردے۔
”روحی کیا کر رہی ہو ؟گڑیا کب سے رو رہی ہے اور تم آئینے کے سامنے کھڑی ہو۔” فر حا ج کی نا راضی ظاہر تھی۔
”سوری!وہ مجھے پتا نہیں چلا۔ لائیں مجھے دے دیں۔” روحی نے اس کے ہاتھوں سے گڑیا کو لیتے ہو ئے کہا۔
”پتا تو مجھے نہیں ہے کہ میں نے کون سے گناہ کئے ہیں۔” وہ بڑبڑا تا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ روحی کی آنکھ سے ایک قطرہ ٹپک کر اس ننھی گڑیا کے گال پر جا گرا۔ روحی ابھی فرحاج کے ان الفاظ سے ہی نہ نکلی تھی کہ اس کا موبائل پھر سے آواز کرنے لگا۔ اس کی دھڑکن یک دم تیز ہو گئی۔ اس کے ہاتھوں کی لرزش اور آنکھوں کا خوف اس لمحے کو مزید پراسرار بنا رہا تھا۔ اس نے بڑی ہمت مجتمع کرکے موبائل ہاتھ میں لیا۔
”آخری بار بول رہا ہوں، پیسے نہ ملے تو تمہارے شوہر کو شادی سے پہلے کیے گئے تمہارے سارے کارنامے مع تصاویر پہنچادیے جائیں گے۔” اسکرین پر ابھر ے الفاظ نے اس کا خون رگوں میں ہی جما دیا۔
٭…٭…٭
”تمہاری یہ کتاب اب کس صدی میں ختم ہو گی ؟” نور نے اکتاتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے قلم چھین لیا۔
”بس یار! اب تھوڑی ہی باقی ہے۔” اس نے بالوں کو کلپ میں بندھ کرتے ہوئے کہا۔
”جب بھی آتی ہوں یہی سنتی ہوں۔ ایسا کیا لکھ رہی ہو جو ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہا۔” وہ اب بھی اکتائی ہوئی تھی۔
”بس نور کچھ ایسا لکھ رہی ہوں جس کے لیے الفاظ کی تلاش میں نکلنا پڑتا ہے۔ کچھ چیزیں سو چنا واقعی مشکل ہوتی ہیں۔” اس نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
”اچھا میں تمہا ری یہ بورنگ باتیں سننے نہیں آئی، تمہیں لینے آئی ہوں۔ مجھے شاپنگ پر جانا ہے۔” نور نے سائرہ کو بازو سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
”اچھا تم رکو، میں چینج کر کے آتی ہوں۔”
٭…٭…٭




وہ اندھیرے کمرے میں اپنے ننھے وجود کو گود میں لیے تھپکی دیتی اپنی سوچوں میں الجھی ہوئی تھی کہ یک دم کسی خیال نے اس کا تھپکی دیتا ہاتھ روک لیا۔
”تمہیں پتا ہے پھپھو نے ریت کی سفیدی کا تو راز نہیں بتایا مگر ایک راز ضرور بتایا تھا۔” وہ اپنی ننھی گڑیا سے کچھ سر گوشی کر رہی تھی۔
”انہوں نے کہا تھا ریت زگ سے سیاہ ہو تی ہے۔ تمہیں پتا ہے وہ صحیح کہتی تھیں، ذلت ایک سیاہ ریت کو بھی مزید سیاہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ میری جان مجھے اب یہ ذلت مزید سیاہ کرنے کو ہے۔” اس نے ان معصوم رخساروں پر ہاتھ پھیرا۔
”تمہیں پتا ہے میری یہ سیاہی تمہیں بھی مزید سیاہ کردے گی ۔ کیا تمہیں پتاہے تم بھی میری طرح ہر طرف سفیدی اور خو ب صورتی کے نسخے ڈھونڈتی پھرو گی۔ نہیں۔ تم تو عزت کے لیے بھی نسخوں کو تر سوں گی اور اس کے لیے تو کوئی فلٹر بھی نہیں ہو گا۔” شبنم اس ننھی کلی پر گر نے لگی تھی۔
”میں نہیں چاہتی میری سیاہی تم تک پہنچے۔ میں ایسا نہیں چاہتی میری جان! میری پری میں ایسا نہیں چاہتی۔ مجھے معا ف کردینا ۔ میں تمہیں اِن سب سے بچانا چاہتی ہوں۔” اس نے برستی شبنم کے ساتھ اس کلی کے ماتھے پر بوسا دیااور پھر پے درپے بو سے دیتی رہی۔ اس کے کل وجود کو کسی مقدس چیز کی طرح چومتی رہی۔ کچھ لمحے یوں ہی دل بھر کے چوم لینے کے بعد اسے پلنگ کے ایک طرف لٹایا اور پاس میں رکھی بلیڈ کو ہاتھ میں لے لیا۔ بلیڈ کو ہاتھ کے قریب لاتے ہی اس نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔ جب آنکھیں کھولیں تو ایک نظر پاس لیٹے اس ننھے وجود کو دیکھا اور پھر سارا خوف پگھل کر اس کے وجود سے الگ ہو گیا اور وہ بلیڈ اس کی رگوں سے جا لگا۔
٭…٭…٭
”مبارک ہو تمہیں۔”اس نے نور سے مسکراہتے ہوئے کہا۔
”کیوں بھئی ؟خیریت؟”
”ہاں! خیریت تو ہے مگر تمہاری بہت بڑی خواہش آج پوری ہونے جا رہی ہے۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اچھا؟ وہ کیا؟”
”وہ یہ کہ آج میں اپنی کتاب کی اختتامی سطور لکھنے والی ہو ں۔”
”واقعی؟”نور کی آنکھیں خوشی سے بڑی ہو گئیں۔
”ہاں! آج یو نیورسٹی سے جاتے ہی پہلے یہ کروں گی۔”
”پھر تو بھئی آج تم جلدی ہی چلی جانا۔ آج دو سال بعد تو تمہاری رام کتھا ختم ہونے کو آئی ہے۔” دونوں ہنسنے لگیں۔
کھڑکی سے آتے ہوا کے جھونکے اس کے بالوں کو پیچھے کی سمت دھکیل رہے تھے۔ وہ پورا دن لکھنے کی کوشش کرتی رہی تھی مگر الفاظ اس کا ساتھ دینے پر تیار نہ تھے۔ اب پھر سے اس ٹھنڈ ی تاریکی میں وہ سرد جسم، اندرونی حرارت کے سبب بغیر کسی اوڑھنی اور موٹے کپڑے کے، قلم پکڑے اپنے خیالوں ہی میں گم تھا کہ دماغ میں کچھ آنے پر بالآخراس قلم میں سے کچھ بوند سیاہی کے اس کے احسا سات کو خود پر سوار کیے نکلنے لگے۔
”ریت کو سفید ہونے کی ضرورت ہی نہیں۔ کیوں کہ ریت کو تو روزِاول سے صرف بلندی ہی عطا کی گئی ہے، رنگت نہیں۔ اسے رنگ تو ہم دیتے ہیں۔ اسے سیاہ اور روسیاہ تو ہم کرتے ہیں مگر ان سب میں سفیدی کا کہیں کوئی ذکر نہیں، کیوں کہ بلندی سفیدی سے اور مقام حسن سے بہتر ہے ۔ کاش یہ بات ہمارے معاشرے کو سمجھ آجا تی تو آج میری واحد محرومی بھی نہ رہتی اور میری ماں زندہ ہوتی۔” اس نے صفحے پر فل اسٹاپ لگا یا، مگر اس کے اشکوں نے نہیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Read Next

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!