”چنبیلی کے پھول“
تحریر:مدیحہ شاہد
قسط نمبر1
اسٹیج کا منظر تھا جہاں شیکسپیئر کا ڈرامہ “Hamlet” پرفارم کیا جارہا تھا۔ جسے اردو زبان میں ٹرانسلیٹ کیا گیا تھا۔ اسٹیج کو کلاسیکل انداز میں وکٹورین سٹائل کے سیٹ سے سجایا گیا تھا۔ یقینا یہ کسی ماہر آرٹ ڈائریکٹر کا کمال تھا۔
مختلف کالجز اور یونیورسٹیز سے لوگ یہ تھیٹر پلے دیکھنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ اس ڈرامے کو ”فنکار تھیٹر گروپ“ کے ساتھ ”ایشین لٹریچر سوسائٹی“ نے آرگنائز کیا تھا۔ ہال میں بیٹھے لوگوں میں زیادہ تعداد لٹریچر کے اسٹوڈنٹس کی تھی۔
ہال میں زوار آفندی بھی اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ آج پہلی بار اپنے دوستوں کے اصرار پر کوئی تھیٹر ڈرامہ دیکھنے آیا تھا، وہ بھی اس لئے کیونکہ شیکسپیئر اُس کاپسندیدہ ڈرامہ نگار تھا۔
خوبصورتی سے سجا اسٹیج رومی سلطنت کے محل کا منظر پیش کررہا تھا۔
تخت پر ملکہ Gertrudeبڑی شان سے بیٹھی تھی۔
وہ موتیوں سے بھری ہلکے سنہری رنگ کی میکسی میں ملبوس تھی اور لمبے بالوں پر قیمتی نگینوں سے مسزین جگمگاتا ہوا تاج پہنا ہوا تھا۔
اُ س کی گردن میں چمکتا موتیوں کا ہار دور سے ہی نگاہوں کا خیرہ کررہا تھا۔ اُس کے چہرے پر گہرا مگر خوبصور ت میک اپ تھا۔
اُس کے ساتھ تخت پر بادشاہ claudius براجمان تھا۔ وہ کوئی دیکھا بھالا سا اداکار تھا۔ جو رومن بادشاہ کے لباس میں ملبوس سر پرتاج پہنے بیٹھا تھا۔
اُس کے سامنے شہزادہ ہیملٹ کھڑا تھا۔ وہ ایک جواں سال شہزادہ تھا جس کے سر پر تاج نہیں تھا مگر وہ اپنی وجاہت کے باعث نمایاں نظر آرہا تھا۔
زوار کی دلچسپی ڈرامے سے زیادہ تخت پر بیٹھی ملکہ میں تھی، اور وہ مبہوت انداز میں پلکیں جھپکائے بغیر اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
وہ ایک بہت خوبصورت لڑکی تھی۔
یاشاید اس وقت ملکہ کے اِس روپ میں اِتنی حسین لگ رہی تھی کہ وہ اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پارہا تھا۔
وہ ملکہ کے کردار کو بڑی خوبی سے نبھارہی تھی۔ یہ صرف اُس کے حسن کا کمال ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک بہت اچھی اداکارہ بھی تھی۔
باقی سب کردار جیسے پس منظر میں چلے گئے۔ وہ تو صرف ملکہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔
ایسا حسن اور ایسی تمکنت کہ وہ پہلی نظر میں ہی متاثر ہوگیا ورنہ وہ لوگوں سے اتنی جلدی متاثر ہوجانے والوں میں سے نہیں تھا۔
پتا نہیں وہ لڑکی کون تھی!
وہ تو اُسے پہلی بار دیکھ رہاتھا……
سنہری رنگت، خوبصورت آنکھوں اور خوبصورت بالوں والی لڑکی…… شاید وہ کوئی تھیٹر آرٹسٹ تھی یا اُسے اداکاری کا شوق تھا۔
اسٹیج کی روشنیوں میں اُس کے چہرے کا نقش دمک رہا تھا۔
مگر وہ جو بھی تھی زوار کو پہلی نظرمیں ہی متاثر کرچکی تھی۔ وہ اُسے دیکھتے ہوئے مسلسل اُس کے بارے میں ہی سوچے جارہا تھا۔
یہ ایک کامیاب تھیٹر پلے تھا۔ ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور وقفے وقفے بعد تالیوں سے گونج اُٹھتا۔
اسٹیج پر مختلف کردار آتے رہے اور اپنا رول ادا کرتے رہے۔
Claudius, Queen Gertrude, Hamlet, Laertes, Horatio, Ophelia, Polonius وغیرہ۔
یہ سارے اِس ڈرامے کے کردار تھے۔
کرداروں کے خوبصورت اور شاہی لباس، شاندار اداکاری، شیکسپیئر کے دل کو چھو جانے والے ڈائیلاگز، اسٹیج کی کلاسک سجاوٹ اور دلچسپ کہانی نے دیکھنے والوں کو مسمرائز کردیا تھا۔
ایک کے بعد دوسرا سین آتا رہا۔ فنکاروں کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر، آرٹ ڈائریکٹر اور پورے crew نے بہت محنت کی تھی۔
زوار ملکہ کے حسن میں ایسا گم ہوا کہ اُسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
ڈرامہ ختم ہوا۔ اسٹیج کے پردے گرگئے۔ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔
وہ بھی جیسے کسی ٹرانس سے باہر آیا۔
رانیہ اسٹیج سے اُتری تو اُس کے گرد ایک ہجوم اکٹھا ہوگیا۔
لوگ اُس کے پاس آکر اُسے مبارکباد دے رہے تھے۔ کوئی اُس کی اداکاری کو سراہ رہا تھا، کوئی اُس کے لباس کی تعریف کررہا تھا۔ وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ لوگوں کی تعریفیں سن رہی تھی۔
اُس کے گھر والوں کو تھیٹر سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے باوجود وہ لوگ تھیٹر پلے دیکھنے آئے ہوئے تھے اور بہت خوش تھے۔ اُس کے ساتھ کھڑے تھے۔ تصویریں بنوا رہے تھے۔ لوگوں سے باتیں کررہے تھے۔
امی، جیموماموں، عنایا، ثمن اور ٹیپو…… یہی اُس کی فیملی تھی۔
Bloggers اور میگزین سے منسلک لوگ بھی وہاں موجود تھے اور Reviews لکھنے کے لئے سب اداکاروں سے بات چیت کررہے تھے۔
رانیہ آج بہت خوش تھی۔ اُسے لوگوں کی تعریفیں بہت اچھی لگ رہی تھیں۔
یوں تو اُس نے بہت سارے کردار ادا کئے تھے مگر Queen Gertrude کا کردار اُس کی زندگی کا یادگار کردار تھا۔ تخت پر بیٹھے ہوئے اُس نے خود کو ایک ملکہ ہی تصور کیا تھا۔
اُسے احساس ہوا کہ دراصل ہر لڑکی زندگی میں ملکہ بننا چاہتی ہے اور وہ ملکہ بننے کے خواب دیکھتی ہے۔ اُسے سر پرتاج سجانے کا شوق ہوتا ہے اور وہ ایک ملکہ کی سی زندگی جینا چاہتی ہے۔ یہ ہر لڑکی کی فطری خواہش ہوتی ہے۔
مگر وہ خوش تھی کہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی وہ ملکہ تو بنی تھی۔ اُس نے لوگوں کی آنکھوں میں اپنے لئے رشک دیکھا تھا۔
وہ ایک بہت باصلاحیت پرفارمر تھی۔ لوگ اُسے جاننے اور پہچاننے لگے تھے۔ اُسے اپنے کیرئیر کے شروع ہی میں عروج ملا تھا۔ اُس نے اپنی پرفارمنس کے ساتھ ساتھ اپنے گیٹ اپ اور سٹائل پر بھی محنت کی تھی۔
زوار اُس سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔
وہ اُس سے کچھ فاصلے پر اُس کے سامنے شاہانہ انداز میں کھڑی تھی۔
پیروں کو چھوتی موتیوں سے بھری انگلش اسٹائل کی میکسی اور جگمگاتے نگینوں سے سجا تاج پہنے وہ کسی سلطنت کی ملکہ لگ رہی تھی۔
حسین…… دلکش اور دل کو چھو لینے والی……
وہ اُس کے پاس جاکر اُس سے کوئی بات کرنا چاہتا تھا مگر ساکت کھڑا رہا۔
اُسے آج معلوم ہوا تھا کہ لوگ کسی ملکہ کے رعب حسن کے سامنے کس طرح ہپناٹائز ہوجایا کرتے ہیں۔
وہ بڑی شان سے اپنے اردگرد کھڑے لوگوں سے بات کررہی تھی۔
وہ مبہوت ہوکر رُک گیا۔
ٹھہر گیا……
رعب حسن تھا یا کوئی اور بات، و ہ سمجھ نہیں پایا۔
وہ اُسے دیکھتے ہوئے جیسے کسی ٹرانس میں چلا گیا۔ ایسا اُس کے ساتھ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
وہ اُس کے سامنے سے چلی گئی۔ اُس نے تو زوار پر ایک نظر بھی نہیں ڈالی تھی۔
وہ وہیں کھڑا رہا……
مبہوت اور کرزدہ……
آج زندگی میں پہلی بار اُس نے کسی ملکہ کو دیکھا تھا۔