چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

یہ ایک سائیکولوجسٹ کے کلینک کا منظر ہے جہاں سوہا اور زوار آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔
خلاف معمولی آج زوار کے چہرے پر سنجیدگی کی جگہ خوشگوار مسکراہٹ تھی جوکہ بڑی حیرت انگیز کی بات تھی۔ سائیکولوجسٹ کے کلینک میں بیٹھ کر لوگ کم کم ہی مسکراتے ہیں۔ گرے شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس وہ ہمیشہ کی طرح وجیہہ اور شاندار لگ رہا تھا۔
سوہا نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ آج کے سیشن کا آغاز کیا۔
”آج تو تم بہت خوش لگ رہے ہو!!کیا بات ہے؟“
اُس نے زوار میں آئی خوشگوار تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
زوار کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”تمہاری ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔“
”اچھا واقعی!“
سوہا ذرا حیران ہوتے ہوئے مسکرائی پھر میز پر ے کاغذات پر چہکتا ہوا پیپر ویٹ رکھا۔
حالانکہ اُسے زوار کی اس بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
”مجھے وہ سب کچھ بتاؤ، جو تم اس وقت سوچ رہے ہو۔ ایک ایک بات۔۔“
وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نرم آواز میں بولی۔
وہ کچھ دیر سوچتا رہا مگر چہرے کی مسکراہٹ برقرار رہی۔
”پچھلی دفعہ تم نے مجھے بہت سے مشورے دیئے تھے کہ میں سینما جاؤں، دوستوں کے ساتھ وقت گزاروں،لوگوں کو exploreکروں۔“
زوار نے اُسی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”ہاں۔“
سوہا نے اُس کی بات غور اور توجہ سے اثبات میں سرہلایا۔
”تو میں تمہارے مشورے پر عمل کرتے ہوئے تھیٹر پلے دیکھنے گیا تھا۔“
وہ مدھم آوا زمیں بولا۔
سوہا کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”That good. …… کون سا پلے تھا؟“
اُس نے دلچسپی سے پوچھا۔ چلو زوار نے اُس کے کسی مشورے پر عمل تو کیا تھا۔
”ہیملٹ……(HAMLET)“
زوار نے جواب دیا۔
”شیکسپیئر کا ہیملٹ؟“
سوہا ایک پل کے لئے چونکی۔
”ہاں …… اُردو میں تھا۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
اُسے یوں مسکراتے دیکھ کر سوہا کو اطمینان ہوا۔
”تمہیں وہ ڈرامہ اچھا لگا؟“
اُس نے پوچھا حالانکہ اس بات کا جواب تو زوار کے چہرے پر ہی لکھا تھا۔
”ہاں بہت……“
اُس نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ اعتراف کیا۔
”اُس ڈرامے کے بارے میں کچھ بتاؤ۔“
سوہا نے بے ساختہ کہا۔
”صرف ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔“
وہ میز کے کنارے پر بازو رکھے پھر اپنی مخصوص بھاری آواز میں بولا۔
”کہو……“
سوہا بہت غور سے اُس کی بات سن رہی تھی۔
”اُس ڈرامے میں میں نے ایک لڑکی کو کوئین کے روپ میں دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔وہ ایک بہت خوبصورت ملکہ تھی۔ اتنی خوبصورت کہ اُس کے حسن نے میری نگاہوں خیرہ کردیا تھا……The enchanted beauty“
زوار کی آنکھوں میں روشنی سی چمکی تھی۔
سوہا چونکی۔
اُس کے لئے زوار کا یہ انداز بالکل نیا تھا۔ وہ صنف ِ نازک کے بارے میں اس طرح بات کرنے کا عادی نہیں تھا۔
”کون تھی وہ لڑکی؟ کیا کوئی تھیٹر آرٹسٹ ہے؟“
سوہا نے بے ساختہ پوچھا۔ اُسے بھی اس لڑکی میں دلچسپی پید اہوگئی۔
”شاید۔“
وہ کھوئے کھوئے سے انداز میں بولا۔
”وہ لڑکی تمہیں کیوں اچھی لگی؟ ڈرامے میں تو اور بھی لڑکیاں ہوں گی نا؟“
سوہا نے دلچسپی سے پوچھا۔
زوار نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
”معلوم نہیں۔“
اُس کی آواز مدھم ہوگئی۔
سوہا فائل کھول کر کچھ لکھنے لگی۔
”اس لڑکی کے بارے میں کچھ اور بتاؤ…… اُس کی پرفارمنس …… اُس کا گیٹ اپ……“
سوہا نے فائل میں لکھتے ہوئے اگلا سوال کیا۔
زوار کے ذہن میں اسٹیج کا منظر تازہ ہوگیا۔
”وہ ایک بہت حسین لڑکی تھی…… اُس نے ملکاؤں جیسا خوبصورت لباس پہنا ہوا تھا۔ اُس کے بال لمبے تھے او ر اُس کے سر پر چمکتا ہوا تاج تھا۔ اُس کی گردن میں موتیوں کا نیکلس تھا۔ میں نے ڈرامے کے باقی کرداروں اور ان کے ڈائیلاگز پر زیادہ غور نہیں کیا میں تو بس اُسی کو دیکھتا رہا……“
اُس نے سچائی سے بتایا۔
بات کرتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں جو روشنی تھی اُس نے سوہا کو چونکایا تھا۔
”تو کیا تم اُس لڑکی سے دوستی کرنا چاہتے ہو؟“
وہ اُس کے جملے پر بے اختیار ہنسا، مگر اُس نے اِس بات کا جواب نہیں دیا۔
”زوار! ڈپریشن میں مبتلا لوگوں سے کوئی دوستی نہیں کرتا!اگر تم اُس لڑکی سے دوستی کرنا چاہتے ہو تو تمہیں خود کو بدلنا ہوگا۔“
”تو پھر کیا وہ میری دوست بن جائے گی؟“
زوار کو یہ موضوع لطف دے رہا تھا۔
اس سے پہلے اس نے کبھی کسی سیشن میں اتنی دلچسپی نہیں لی تھی۔
”ہاں …… یقینا۔“
سوہا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
زوار کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
سوہا کو اس کی مسکراہٹ دیکھ کر اطمینان ہوا۔
”اگر تمہیں تھیٹر پسند ہے تو ضرور دیکھنے جایا کرو۔ دیکھو! ایک ذرا سی تفریح نے تمہاری شخصیت پر کتنا positive change ڈالا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم بہت جلدی اس Paranoid depression سے باہر آجاؤگے۔“
سوہا نے اطمینان بھرے انداز میں کہا۔
”اس کا مطلب ہے وہ لڑکی واقعی کوئی ملکہ ہے ورنہ زوار آفندی کو متاثر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔“ زوار نے مسکراتے ہوئے اعتراف کیا۔
سوہا نے شرارت سے زوار کو دیکھا۔
”کہیں تمہیں اس لڑکی سے محبت تو نہیں ہوگئی؟“
زوار اس کی بات پر بری طرح چونکا پھر اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگیا۔
اُس نے نگاہیں چرالیں اور کسی گہری سوچ میں گم ہوگیا۔
وہ سوہا کا پیشنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کا دوست بھی تھا۔ بچپن کا ساتھی تھا۔
وہ بے حد خوبرو اور شاندار مرد تھا۔ اُس کی شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش تھی۔ اُس کے پاس سب کچھ تھا۔
دولت، عزت اور وجاہت……
پھر بھی اُس کی زندگی میں ایسا کچھ تھا جو وہ ایک ماہرِ نفسیات کے کلینک میں بیٹھا تھا۔
وہ سمجھتا تھا کہ اس کی زندگی عجیب ہے…… باقی لوگوں سے بہت مختلف……
”تم نے جواب نہیں دیا زوار۔“
سوہا نے اُسے یوں سوچ میں ڈوبے دیکھ کر کہا۔
زوارکے چہرے کی مسکراہٹ برف ہوگئی تھی۔
”میں اب کسی عورت سے محبت نہیں کرنا چاہتا۔“ اُس نے سرد آواز میں کہا۔
ایک لمحہ کے لئے سوہا بھی چپ ہوگئی۔ وہ اس جملے کے پس منظر سے بخوبی واقف تھی۔
”پھراُس کا تھیٹر پلے دیکھنے نہیں جاؤگے؟“
کچھ دیر بعد اُس نے بظاہر نارمل انداز میں کہا۔
”جاؤں گا۔“
وہ بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا۔ اُس کا ذہن پڑھنا ایک مشکل کام تھا۔
سوہا نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔ ہاتھ میں تھاما پین میز پر رکھا اور کچھ دیر غور سے اُسے دیکھتی رہی۔
”زوار کچھ کردار انسان کے فیورٹ ہوتے ہیں وہ انہیں آئیڈیلائز کرتا ہے۔ پھر جب وہ کردار مجسم صورت میں سامنے نظر آجائیں تو انسان اُن سے انسپائر ہوجاتا ہے۔ بس اتنی سی بات ہے۔ انسپائریشن محبت نہیں ہوتی۔“
سوہا نے سنجیدگی سے کہا۔ زوار نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کرسٹل کا پیپر ویٹ ہاتھ میں تھامے اُسے یونہی گھماتا رہا۔
سوہا نے اپنی با ت جاری رکھی۔
”Royal charactars…… ملکہ، شہزادیاں، پریاں …… اپنے اندر ایک Magical charm رکھتے ہیں۔ اس لئے تو ان پر کئی زبانوں میں ہزاروں فلمیں اور ڈرامے بن چکے ہیں۔ ان پر ہزاروں کتابیں لکھی گئیں۔ یہ کردار لوگوں کو بہت facinate کرتے ہیں۔ صدیوں سے لوگ fairy tales پڑھتے آرہے ہیں۔ دراصل تم اُس لڑکی سے نہیں بلکہ اُس کے کردار سے متاثر ہوئے ہو۔“
سوہا نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا۔ زوار نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ سوہا کچھ دیر اُس کے بولنے کی منتظر رہی، پھر اُس کی خاموشی محسوس کرتے ہوئے کچھ دیر بعد سوہا نے اُس سے کہا۔
”ماہم کے بارے میں سوچ رہے ہو؟“
زوار کا کوئی بھی سیشن ماہم کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا۔
”کوئین کے بارے میں۔“
وہ پراسرار انداز میں مسکرایا۔
سوہا لمحہ بھر کے لئے چونکی۔ پھر اُس نے مسکراتے ہوئے سرجھٹک دیا۔
وہ سائیکولوجسٹ ہوکر بھی زوار کی بات کو نہیں سمجھی تھی۔
٭……٭……٭
فردوسی خالہ پاکستان سے کینیڈا فون کررہی تھیں اور ہمیشہ کی طرح بے حد خفا تھیں۔ انہیں اپنے بیٹے اور بہو سے ہمیشہ یہ شکایت رہتی تھی کہ وہ انہیں فون نہیں کرتے، اور انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ دوسری طرف ان کی بہو تھی جو کچن میں کھڑی کھانا بناتے ہوئے ساتھ ساتھ ان سے بات بھی کررہی تھی۔ انداز سنجیدہ اور بے زار سا تھا۔
”ارے تم لوگوں کے لئے تو مجھے ایک فون کرنا بھی مشکل ہے۔ اتنا نہیں ہوتا کہ میرا حال چال ہی پوچھ لو۔ ایسی بھی کیا بے مروتی، اب فون کرکے مجھے اولاد کو اُس کے فرائض یاد دلانے پڑتے ہیں۔ ساری زندگی ٹیچر رہی، لوگوں کو سبق پڑھاتی رہی مگر اپنی اولاد کی تربیت میں شاید کمی رہ گئی۔“
خالہ فردوسی نے خفگی سے کہا۔
اُن کی بہو انڈے پھینٹتے ہوئے بے زاری سے اُن کی بات سن رہی تھی۔
چلو اب یہ بھی اُس کی ڈیوٹی تھی کہ سارے کام دھندے چھوڑ کر روزانہ دو چار بار پاکستان اپنی ساس کو فون کیا کریں۔
”اُف یہ پاکستانی ساسیں، دور بھی ہوں تو پیچھا نہیں چھوڑتیں۔“
اُس نے چاولوں کو دم لگاتے ہوئے جھنجھلا کر سوچا۔
”اماں! آپ تو جانتی ہیں کہ یہاں زندگی کتنی مصروف ہے۔ اور پھر ہر کام وقت پر کرنا پڑتا ہے۔ یہاں نوکروں والے عیش نہیں ہیں۔“
خالہ اس وضاحت پر مزید خفا ہوگئیں۔
”ایسی بھی کیا مصروفیت کہ بوڑھی ماں کو فون ہی نہ کیا جائے۔ کہاں ہے عقیل؟ اُس سے میری بات کرواؤ۔“
انہوں نے خفا سے انداز میں ذرارعب سے کہا۔
”اماں! ابھی تک تو وہ ڈیوٹی سے واپس ہی نہیں آئے۔ آتے آتے انہیں دیر ہوجائے گی۔ آپ فکر نہ کریں۔ اس اتوار کو وہ ضرور آپ کو فون کریں گے۔“
ان کی بہو نے اپنے لہجے کی بے زاری چھپاتے ہوئے کہا۔ ”ایک تو اتنے کام، اوپر سے ساس کی باتیں ……“
”آفرین ہے بھئی! اب اپنے بیٹے سے بات کرنے کے لئے مجھے پورا ہفتہ انتظار کرنا پڑے گا۔ اماں سے دو گھڑی بات کرنے کی فرصت نہیں ہے اُس کے پاس……ا تنا نہیں ہوتا کہ ماں اور بہن کی خیریت ہی پوچھ لے۔ اچھی احساس ذمہ داری ہے بھئی۔ ماں ریٹائر ہوگئی مگر اُس نے پوچھا نہیں کہ کیسی گزر رہی ہے!“
خالہ کی آواز میں رنج بھرا غصہ تھا۔ انہیں اپنے بیٹے سے ایسی بے حسی کی اُمید نہیں تھی۔
”اماں! اب آپ سے میں کہاں بحث کروں! عقیل تک آپ کا پیغام پہنچادوں گی۔ آپ کو تو ریٹائرمنٹ کے بعد خوش ہونا چاہیے کہ کام کا بوجھ اور ذمہ داریاں کم ہوگئیں اور پھر سارے محلے اور خاندان والے تو ہیں آپ کے پاس۔ آپ کا خوب دل لگا رہتا ہوگا۔“
ان کی بہو ان کا دکھ نہیں سمجھ پائی تھی۔ خالہ نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
”ارے بوڑھے لوگ اپنا دُکھ کس سے کہیں! کہ سننے والوں کے پاس ہزار تاویلیں ہوتی ہیں۔ خیر…… یہ بتاؤ کہ عشنا کا کیا حال ہے؟ تم لوگ گھر میں اُس کے ساتھ اُردو ہی بولتے ہونا! میری عشنا سے بات کرواؤ۔“
انہوں نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
اُن کی بہو نے کچن کے کھلے دروازے سے ذرا جھانک کر لاؤنج میں بیٹھی عشنا کو دیکھا، وہ اپنی دوست سارہ کے ساتھ کمبائن اسٹڈی میں مصروف تھی۔
”اماں! عشنا کی دوست آئی ہوئی ہے۔ وہ اُس کے ساتھ بیٹھی اپنے ٹیسٹ کی تیاری کررہی ہے۔ اب اُسے کیا ڈسٹرب کروں!“
اس نے جان چھڑاتے ہوئے اندا زمیں جواب دیا۔ ان کی تو کوشش تھی کہ یہ فون جلد از جلد بند کردیں مگر ہمیشہ کی طرح ان کی یہ خواہش، خواہش ہی رہی۔
لاؤنج میں عشنا کے ساتھ سارہ بیٹھی تھی اور وہ دونوں کوئی بہت ہی اہم بات کررہی تھیں۔
سارہ اپنے گھر سے پرانی تصویروں کا البم لے کر آئی ہوئی تھی اور وہ دونوں دھیمی آواز میں باتوں میں مصروف تھیں۔
”پاکستان سے فون آیا ہے؟“
سارہ نے کچن سے آتی آوازوں کو سنتے ہوئے عشنا سے پوچھا۔
”ہاں …… اتنے لمبے لمبے فون وہیں سے آتے ہیں۔“
عشنا نے لاپرواہی سے جواب دیا پھر ذرا آگے کو جھک کر رازداری سے بولی۔
”anyways…… تم یہ بتاؤ…… کہ کیا ہم مشن ایڈونچر اسٹارٹ کردیں؟“
اُس کی آواز مدھم ہونے کے ساتھ ساتھ پرجوش بھی ہوگئی تھی۔
”ہاں ……sure…… why not…… مگر ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔“
سارہ نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”ہاں میں سمجھتی ہوں۔ تم فکر نہ کرو۔ بس ہمیں اس بات کو سکریٹ رکھنا ہوگا۔“
وہ دونوں ایک خاص پلان بنانے میں مصروف تھیں۔ وہی ٹین ایجرز والے ایڈونچرز، وہی جوش……بڑوں سے چھپ کر کام کرنے والی بے وقوفی۔
عشنا کی امی فون بند کرکے لاؤنج میں آگئیں جس کی وجہ سے اُن دونوں کی باتوں کو بریک لگ گیا۔
”ممی لنچ میں کتنی دیر ہے؟“
عشنا نے ماں کو دیکھ کر بات بدل دی۔
امی ان دونوں کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔ ان کا موڈ قدرے آف ہوچکا تھا۔ مگر پھر بھی وہ عشنا اور سارہ کو دیکھ کر مسکرا دیں۔
”بس تھوڑی دیر ہی ہے…… بیٹا سارہ! تم لوگ پاکستان سے یہاں کینیڈا کب شفٹ ہوئے؟“
انہوں نے سارہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
وہ ایک معصوم صورت والی خوش شکل لڑکی تھی اور نیلے رنگ کے اسکرٹ بلاؤز میں ملبوس تھی۔ بالوں کو ربن سے باندھا ہوا تھا۔ اُس کی کلائی میں بہت چمکتا ہوا سا بریسلیٹ تھا۔ ممی نے عشنا سے سارہ کا ذکر بہت بار سنا تھا مگر وہ آج پہلی بار ان کے گھر آئی تھی۔ وہ دونوں ہائی سکول میں ساتھ پڑھتی تھیں۔ کلاس فیلوز تھیں، پھر پاکستانی بھی…… اور بہت اچھی اردو بولتی تھیں سو دونوں میں گہری دوستی ہوگئی۔
”چند سال پہلے میں، ممی اور……“
وہ اٹک گئی۔ بولتے بولتے رُک گئی۔
پھر گہرا سانس لے کر اُس نے اپنا جملہ مکمل کیا۔
”اور پاپا پاکستان سے یہاں آئے تھے۔“
اُس کی آواز مدھم ہوگئی۔
”پھر تمہارے پاپا کہاں چلے گئے؟“
عشنا کی امی نے بے ساختہ پوچھا۔
سارہ کچھ دیر کے لئے چپ ہوگئی۔
”پاپا ہمیں چھوڑ کر چلے گئے……“
اس نے مدھم آواز میں جواب دیا۔ حالانکہ اب یہ جملہ کہنا اس کے لئے نارمل کی بات تھی۔ ایک پل کے لئے عشنا کی امی بھی چپ کرگئیں۔
”پھر تم لوگ پاکستان نہیں گئے؟“
انہوں نے سارہ سے پوچھا۔
”نہیں …… ممی اور پاپا کی لو میرج تھی۔ دونوں نے اپنی فیملیز کی مرضی کے خلاف جاکر شادی کی تھی۔ ممی کی فیملی نے انہیں معاف نہیں کیا اور ابھی تک ان سے ناراض ہے۔ اب تو وہ پاکستان جانا بھی نہیں چاہتیں۔“
سارہ نے سنجیدہ انداز میں بتایا۔
”اوہ…… جس آدمی کے لئے انہوں نے اپنی فیملی کو ناراض کیا، وہ آدمی انہیں چھوڑ کر چلاگیا…… تمہارے پاپا تم سے ملنے نہیں آتے؟“
امی نے افسوس سے ہنکار ا بھرا۔
”ممی…… چھوڑیں نا اس قصے کو…… ویسے بھی یہ سارہ کے گھر کا پرسنل میٹر ہے۔ ہم اس معاملے کو کیوں ڈسکس کریں۔“
عشنا نے امی کو نرمی سے ٹوک دیا۔ امی کو بھی سارہ کی خاموشی سے احساس ہوا کہ کسی سے ایسی باتیں کرنا مناسب نہیں ہے۔ وہ چند لمحوں کے لئے چپ ہوگئیں پھر ان کی نظر میز پر رکھی عشنا کی کتابوں کے ساتھ پڑے البم پر پڑی تو وہ چونک گئیں۔
”یہ کیا ہے؟“
انہوں نے بے ساختہ پوچھا۔
”ممی یہ سارہ کی ممی اور ان کی فیملی کی تصویروں کا البم ہے۔ سارہ مجھے دکھانے کے لئے لائی ہے۔“
جواب عشنا نے دیا۔
”اچھا……“
امی کو حیرت ہوئی، بھلا سارہ کی ممی اور ان کی فیملی کی تصویروں میں عشنا کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔
”آئیں آپ بھی ہمارے ساتھ یہ تصویریں دیکھیں۔“
عشنا نے البم کھولتے ہوئے کہا۔
”ارے تم لوگ دیکھو…… میں ذرا چاول دیکھ لوں۔ دم پر رکھے ہوئے ہیں۔“
وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولیں پھر کچن میں چلی گئیں۔
عشنا نے البم کھولا۔
”البم میں لگی پہلی تصویر ہی بہت خوبصورت تھی۔
دل چھو لینے والی اور نگاہوں کو ساکت کردینے والی…… دلکش اور دلفریب……
برف پوش پہاڑی پر چار لڑکیاں ہنستی کھلکھلاتی، ایک دوسرے کی طرف برف کے گولے اُچھالتی اٹھکیلیاں کرتے نظر آرہی تھیں۔
شاید وہ کوئی اسٹوڈنٹس تھیں تو کسی کالج ٹرپ پر کسی پہاڑی علاقے میں گئی ہوئی تھیں۔
جواں سال اور نو عمر لڑکیاں، چہروں پر بے فکری آنکھوں میں شرارت، انداز میں شوخی۔
عشنا نے بے حد دلچسپی سے اس تصویر کو البم سے نکال کر دیکھا۔
”دیکھو…… یہ ہیں ممی…… ریڈ ڈریس والی۔“ سارہ نے اشارہ کرکے بتایا۔
عشنا کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں۔
”پہچانی نہیں جارہی ہیں نا۔“
سارہ مسکرائی۔
”بالکل بھی پہچانی نہیں جارہیں کہ یہ تمہاری ممی ہیں …… اتنی ینگ، سلم سمارٹ اور خوبصورت…… اپنے کالج ٹرپ کے ساتھ گئی ہوں گی۔“
عشنا نے کہا۔
”شاید …… تم تو جانتی ہو کہ ممی اپنے ماضی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتیں۔“
سارہ نے ذرا سنجیدہ ہوکر کہا۔
”تم فکر نہ کرو سارہ…… ہم مشن ایڈونچر کے ذریعے بہت جلد ان کے ماضی تک پہنچ جائیں گے۔“
عشنا نے رازدارانہ انداز میں کہا۔
پھر اُس نے تصویر کو پلٹ کر دیکھا …… اُس پر تصویر میں موجود لڑکیوں کے نام لکھے تھے۔“
نازیہ، عامرہ، ناصرہ اور فہمیدہ۔“
عشنا نے باآواز ان ناموں کو پڑھا۔
”ممی کی فرینڈز اور کلاس فیلوز ہوں گی ان کے ساتھ۔“
سارہ نے تصویر دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا۔
”ہاں …… لڑکیوں کے یہ نام تو ذرا پرانے زمانے کے لگتے ہیں۔ اب یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ یہ کتنے سال پرانی فوٹو ہے اور کس مشن کی ہے۔“
عشنا نے سوچتے ہوئے کہا۔
امی کچن سے لاؤنج میں آئیں تو عشنا کے ہاتھ میں یہ فوٹو دیکھ کر بے ساختہ چونک گئیں۔ ایک پل کے لئے ان کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں۔ یوں جیسے انہیں اپنے گھر میں اس وقت یہ تصویر دیکھنے کی قطعاً توقع نہیں تھی۔
”یہ تصویر……“
انہوں نے تحیر سے کہا۔ حیرت اور بے یقینی سے وہ ششدر رہ گئیں۔ ایک پل کے لئے تو وہ بھول ہی گئیں کہ انہیں کیا کہنا تھا۔
”یہ سارہ کی ممی کی تصویر ہے۔“
عشنانے امی کو بتایا۔
”سارہ کی امی؟ کون سی والی ہیں؟“
انہیں یہ انکشاف سن کر شاک لگا تھا۔
برسوں پرانی اس تصویر نے ایک نئی کہانی کو کھول دیا تھا۔
”یہ سرخ کپڑوں والی لڑکی سارہ کی ممی ہیں۔“
عشنا کو امی کا ردعمل عجیب اور حیران کن لگ رہا تھا۔
امی نے اُس کے ہاتھ سے وہ تصویر لے لی۔
”ناصرہ تسکین……“
امی نے سارہ کی ممی کو اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی پہچان لیا تھا۔
سارہ کے ساتھ ساتھ عشنا بھی بری طرح چونک گئیں۔
”آپ سارہ کی ممی کو جانتی ہیں؟“
عشنا نے حیرت سے پوچھا۔
”تو تم ناصرہ تسکین کی بیٹی ہو؟“
انہوں نے غور سے سارہ کی طرف دیکھا۔ ہاں وہ ناصرہ تسکین کی ہی بیٹی تھی اور اپنی ماں سے بے حد مشابہہ تھی۔ وہی ناک نقشہ گورا رنگ، وہی سیاہ بال، مگر ناصرہ کے چہرے پر ایسی معصومیت نہیں ہوا کرتی تھی جیسے سارہ کے چہرے پر تھی۔
ان کا لہجہ کچھ عجیب ہوگیا تھا۔
”جی ہاں۔“
سارہ اُن کے اس انداز پر گڑبڑا گئی۔
”اوہ اچھا!“
انہوں نے عجیب سے انداز میں کہا۔
”آپ کیسے جانتی ہیں ممی کو؟“
سارہ نے تجسس سے پوچھا۔
”کیا وہ آپ کی کلاس فیلو تھیں؟“
عشنا نے بھی بے ساختہ پوچھا۔
”نہیں …… وہ ہم سے سینئر تھی مگر ہم ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے اور بھلا اُس زمانے میں ناصرہ تسکین کو کون نہیں جانتا تھا۔ وہ کالج کی سب سے مشہور سٹوڈنٹ تھی۔“
انہوں نے سنجیدگی سے بتایا۔
سارہ اس بات پر خوش ہوگئی۔
”آنٹی! آپ آئیں نا کسی دن ہمارے گھر…… ممی سے ملیں …… میں ان سے آپ کا ذکر کروں گی۔“
سارہ کی آواز پرجوش ہوگئی۔
”نہیں …… اُن سے میرا ذکر نہ کرنا…… ویسے بھی وہ مجھے نہیں جانتی ہوں گی۔“
امی نے فوراً ٹوک دیا۔
”مگر کیوں آنٹی؟“
سارہ نے ہلکا سا اعتراض کیا۔
”بس بیٹا…… ہر کیوں کا جواب نہیں پوچھتے۔ بڑوں کی بات مان لیا کرتے ہیں۔“
امی نے اُسے نرمی سے سمجھایا۔
سارہ چپ ہوگئی۔ ان نے عشنا کی طرف دیکھا۔
اس نے بھی یونہی کندھے اُچکادیئے۔
سارہ کی طرح وہ بھی اس انکشاف پر ایکسائیٹڈ ہوگئی تھی۔ اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جس مشن ایڈونچر کے لئے وہ معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کررہی ہے وہ معلومات تو اُسے اپنی امی سے ہی مل جائیں گی۔
”ناصرہ تسکین۔“ امی نے زیرلب دہرایا۔
ماضی کی بے شمار کہانیوں میں سے ایک کہانی ناصرہ تسکین کی بھی تھی۔
کتنے برس گزر گئے تھے۔
وہ حساب لگانے بیٹھیں تو حساب گڑبڑہوگیا۔
سالوں کے حساب لمحوں میں تو لگائے جاسکتے۔
اس تصویر کو دیکھتے ہوئے وہ ماضی میں کھوگئیں۔
بھلا انہوں نے کب سوچا تھا کہ ایک دن ناصرہ تسکین کی بیٹی یوں ان کے گھر میں بیٹھی ہوگی اور ان کی بیٹی کی سہیلی ہوگی۔
”امی! سارہ کی ممی کے بارے میں کچھ اور بھی بتائیں نا!“
عشنا نے اصرار کیا۔
انہوں نے بے اختیار نگاہیں چرالیں۔
”بس اور کیا بتاؤں! اتنا زیادہ تو میں انہیں جانتی نہیں تھی۔ بس چہرے سے پہچان لیا…… خیر تم لوگ بیٹھ کر باتیں کرو۔میں کھانا لگاتی ہوں۔“
وہ عجیب سے انداز میں کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں۔
”ناصرہ تسکین……“‘
ان کے اردگرد اس نام کی باز گشت سنائی دے رہی تھی۔
٭……٭……٭
رانیہ کا ڈرامہ تھیٹر میں پورا ہفتہ چلتا رہا۔ زوار روزانہ وہ تھیٹر پلے دیکھنے جاتا اور رانیہ کو ملکہ کے روپ میں دیکھ کر مبہوت رہ جاتا۔ وہ رانیہ کا فین بن چکا تھا اور صرف اُسے دیکھنے کے لئے روزانہ اتنی دور سے آیا کرتا اور گھنٹوں وہاں بیٹھا رہتا۔
وہ اپنی ان کیفیات پر خود حیران تھا۔ اُسے احساس ہوا کہ آہستہ آہستہ اس کی شخصیت میں تبدیلی آرہی ہے۔
ڈرامہ ختم ہوا تو وہ رانیہ سے ذرا فاصلے پر آکھڑا ہوا۔ کچھ دیر وہ یونہی کھڑا اُسے دیکھتا رہا۔
”یہ کوئی عام لڑکی نہیں ہے۔“
اُس نے اُسے دیکھتے ہوئے سوچا۔ وہ اُس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ آج رانیہ کے گرد زیادہ لوگ بھی نہیں تھے۔ وہ قدم قدم چلتے ہوئے اُس کے قریب آیا۔
”ایکسکیوزمی، کوئین۔“
اس نے بڑی نرمی سے شائستہ انداز میں اُسے مخاطب کیا۔
رانیہ نے اس طرز تخاطب پر بہت چونک کر اُسے دیکھا۔ وہ ایک دراز قد اور شاندار بندہ تھا۔ آس پاس موجود سب لوگوں میں نمایاں اور سب سے منفرد……
”آٹوگراف پلیز۔“
اس نے اپنی شرٹ کی بالائی جیب سے ایک چھوٹی سے ڈائری اور پین نکال کر رانیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
رانیہ نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ دو لائنوں کا مخصوص آٹو گراف دیا۔ وہی آٹو گراف جو وہ سب کو دیا کرتی تھی۔
”آپ بہت اچھی پرفارمر ہیں۔“
وہ اُسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکراکر بولا۔
اُس کی آنکھوں میں بہت روشنی تھی۔
”شکریہ! سب ہی اچھے پرفارمرز ہیں۔“
اُس نے لاپرواہی سے کہا۔
زوار کو محسوس ہوا کہ وہ ایک مغرور لڑکی ہے۔
”مگر آپ جیسی پرفارمنس تو کسی کی نہیں ہے۔“
زوار کے لہجے میں اس کے لئے ستائش تھی۔ مگر وہ اس قسم کے جملے بولنے والے لوگوں سے متاثر نہیں ہوتی تھی۔
”شاید! آپ نے ڈرامہ غور سے نہیں دیکھا۔“
وہ تیکھے سے انداز میں بولی۔ شاید وہ اپنی تعریف کرنے والے مردوں کو اہمیت دینے کی عادی نہیں تھی۔ زوار کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں۔“
اُس کے انداز میں بڑی معنی خیزی تھی۔
وہ اس کے اس انداز میں چونکنے پر مجبور ہوگئی۔ اس نے پہلی بار کسی شخص کو اس انداز میں بات کرتے دیکھا تھا۔
یہ بندہ کون تھا۔
ایسی شاندار شخصیت والا اور ایسی عجیب اور معنی خیزی باتیں کیوں کررہا تھا۔
رانیہ نے بلا ارادہ ایک تفصیلی نظر اس پر ڈالی۔
وہ بے حد خوبرو اور شاندار مر د تھا۔ اُس نے سیاہ پینٹ پر نیوی بلیو شرٹ پہن رکھی تھی۔ اُس کی شرٹ کے قیمتی کف لنکس چمک رہے تھے۔ چھ فٹ سے نکلتا قد، گھنے بال اور وجیہ چہرے پر گھنی مونچھوں کا رعب بھی تھا۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک تھی۔
”کون ہیں آپ؟“
رانیہ کے منہ سے بلا ارادہ نکلا۔
اپنے لباس اور شخصیت سے وہ کوئی امیر کبیر آدمی لگ رہا تھا۔
وہ اُس کے جملے پر چونکا پھر مسکرایا۔ تو وہ اُس کا تعارف چاہ رہی تھی۔ وہ مغرور لڑکی ہونے کے باوجود اُسے نظر انداز نہیں کرپائی۔
”میں آپ کا فین ہوں اور روزانہ آپ کا تھیٹر ڈرامہ دیکھنے آتا ہوں کوئین۔“
اُس نے اُسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔
رانیہ کے لئے یہ انداز، یہ لہجہ، یہ طرز تخاطب اور تعارف کا یہ انداز بہت عجیب تھا۔
انداز معنی خیز مگر شائستہ تھا۔ نظریں گہری اور مسکراہٹ میں ایک انوکھا سا رنگ تھا۔
”کوئی عجیب و غریب فین ہے۔ شاید اس نے پہلی بار کوئی تھیٹر ڈرامہ دیکھا ہے۔“
اس نے سرجھٹک کر سوچا پھر وہ مڑ گئی اور وہاں سے چلی گئی۔
وہ وہیں کھڑا رہا۔
”کوئین……“
وہ زیر لب مسکرایا۔
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

ماں کا آکاش

Read Next

چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!