ہوا اور بادل
سارہ قیوم
ایک تھا بادل! نرم نرم، جیسے کہ روئی کا کوئی گالا، اس میں بہت سا پانی بھرا ہواتھا، اتنا کہ بادل بے چارے سے چلا نہ جاتا تھا۔ وہ چپ چاپ آنکھیں موندے آسمان میں کھڑا تھا۔ ہوا لہرا تے ہوئے بادل کے پاس سے گزری تو بادل کی چیخ نکل گئی۔
”اُف،ہائے…” بادل نے کراہ کر کہا ”مجھے نہ چھیڑو مجھ میں اتنی بارش بھری ہے کہ میرے پیٹ، بازو، سر، غرض ہر جگہ درد ہے۔” ہوا کو بادل پر بڑا ترس آیا۔
”تم اپنی بارش برسا دو۔” اس نے بادل کو مشورہ دیا۔
”کیسے برسائوں؟” ”دیکھو تو ذرا نیچے سمندر ہے۔ میں یہاں بارش برسائوں گا تو سمندر غصے میں آکے دوبارہ میرے اندر ڈھیر سارا پانی بھر دے گا۔” بادل اداس ہو کر بولا۔
ہوا سوچ میں پڑ گئی، آخر اسے ایک ترکیب سوجھی۔
”میں تمہیں سہارا دے کر لیے چلتی ہوں۔” اس نے بادل سے کہاپھر چہکتے ہوئے بولی:
”ہمت ِ بادل، مددِ ہوا۔ ”
”ارے نہیں یوں کہو ”ہمت مرداں، مددِ خدا۔” بادل نے کہا تو ہوا مسکرا دی ۔
آخربادل نے ہوا کی بات مان لی، تب دونوں آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوئے۔ چلتے چلتے وہ ایک ہرے بھر ے میدان کے اوپر جاپہنچے۔
”یہاں برس جائوں؟” بادل نے ہانپتے ہوئے پوچھا۔
”یہاں نہیں ذرا نیچے تو دیکھو۔” ہوا بولی۔
بادل نے نیچے نظر ڈالی تو دیکھا کہ میدان میں میلا لگاہوا ہے۔ لوگ رنگے برنگ کپڑے پہنے خوشی خوشی سیر سپاٹا کررہے ہیں۔ کھانے پینے کے اسٹال لگے ہیں۔ کہیں کھیل تماشے ہو رہے ہیں، کہیں کرتب دکھائے جا رہے ہیں۔ بچے جھولا جھول رہے ہیں۔
ہوا نے کہا: ”اگر تم نے یہاں بارش برسا دی، تو سارا میلا برباد ہو جائے گا۔ لوگوں کی خوشیوں پر پانی پھر جائے گا۔”
”اچھا تو پھر چلو آگے چلیں۔” بادل نے ٹھنڈی سانس بھری۔
کچھ دیر بعد دونوں دوسرے شہر کے اوپر پہنچے۔
”بس بھئی اب اور نہیں چلا جاتا۔ ”میرا خیال ہے مجھے یہیں برس جانا چاہیے۔” بادل نے تھک کر کہا۔
”ذرا نیچے تو دیکھو۔” ہوا نے کہا۔
بادل نے دیکھا ایک شہر ہے جہاں بہت سڑکیں اور عمارتیں بن رہی ہیں اور جگہ جگہ زمین کھدی ہوئی ہے۔ بادل سوچ میں پڑ گیا۔
”میں یہاں نہیں برسوں گا۔” آخر اس نے فیصلہ کیا ”میری بارش سے گڑھوں میں پانی بھر جائے گا اور کیچڑ سے لوگ پھسل کر گریں گے۔”
ہوا یہ سُن کر بہت خوش ہوئی اور دوبارہ بادل کو سہارا دے کر آگے لے گئی۔ تھوڑی دیر بعد دونوں ایک گائوں کے اوپر پہنچے۔ بادل نے دیکھا کہ کھیت سوکھے پڑے ہیں۔ ندی میں پانی ختم ہے لوگ اور جانور پیاسے ہیں۔ جب بادل کا سایہ گائوں پر پڑا تو بچے، مرد اور عورتیں سب گھروںسے نکل آئے، سر اُٹھا کر بادل کی طرف دیکھنے اور بارش کی دعائیں کرنے لگے۔
”آہا” بادل خوش ہو کر بولا۔ ”یہاں میری ضرورت ہے۔” پھر اس نے خوش ہوتے ہوئے ہوا کی طرف دیکھا، تو وہ بھی مُسکرا کر بولی : ” چل میرے بادل …بسم اللہ…”
ہوا کا اشارہ پاکر بادل سے پانی کا پہلا قطرہ ٹپکایا، پھر دوسرا، تیسرا اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش ہونے لگی۔
لوگ خوشی سے ناچنے لگے۔ پودے ہرے بھرے ہو گئے۔ ندی پانی سے بھر گئی۔ ہوا کے ٹھنڈے جھونکے چلنے لگے۔ درخت جھوم اُٹھے اور پتے تالیاں بجانے لگے۔ ہر طرف خوشیاں بکھر گئیں۔
بادل ہلکا پھلکا ہو کر اِدھر اُدھر اُڑنے لگا اور ہوا کے ساتھ کھیلنے لگا۔
”اب تم سمجھے میرے پیارے بادل! دنیا کی سب سے بڑی خوشی دوسروں کے کام آنے میں ہے۔” ہوا نے اسے اچھالتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭