ہندکو لوک کہانی(سنی سنائی)
گونگلو میاں اور سات چور
محمد احمد جواد
پرانے وقتوں کی بات ہے، رام پور گاؤں میں ”گونگلو ” نام کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کا باپ مر چکا تھا جب کہ ماں بیٹا چھوٹے سے گھر میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس کا اصل نام حمید تھا مگر گورا چٹا اور گول مٹول ہونے کی وجہ سے گاؤں والے اسے ”گونگلو میاں” پکارتے تھے۔ وہ سیدھا سادہ نوجوان تھا۔
گونگلو سارا دن گھر فارغ بیٹھا رہتا۔ ایک دن ماں نے اسے کہا: ”اتنے بڑے ہو گئے ہو، ہر وقت بے کار پڑے رہتے ہو، جاؤ اور کچھ کما کر لاؤ۔” ماں کی بات سن کر گونگلو میاںنے جوش سے انگڑائی لی اور دو روٹیاں رومال میں باندھ کر گھر سے نکل پڑا۔
گونگلو میاں کی قسمت بڑی اچھی تھی۔اس کا ہر کام قدرتی طور پر آسان ہو جاتا تھا۔ سر پر روٹیاں رکھے، وہ سڑک پر جا رہا تھا کہ اسے کچھ لوگ نظر آئے۔ وہ اپنا بیل تلاش کررہے تھے۔ انہوں نے گونگلو میاں کو دیکھا تو اس کے پاس آئے اور کہنے لگے: ”گونگلو میاں! ہمارا بیل گم ہو گیا ہے۔ آپ دعا کرو کہ بیل مل جائے۔”
گونگلو میاں نے بات سن کر جواب دیا: ”اِدھر دیکھو، اُدھر دیکھو، بیل مل جائے گا۔” انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو بیل کھیتوں سے چرتا ہوا نکل رہا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئے اورخوشی میں گونگلو میاں کو انعام دیا۔ گونگلو میاں انعام لیے گھر داخل ہوئے تو ماں اسے دیکھ کر بڑی خوش ہوئی۔ گونگلو میاں کی چہار سُو مشہوری ہو گئی کہ وہ درویش ہے اور لوگوں کی گم شدہ چیزیں انہیں ڈھونڈ دیتا ہے۔
کچھ دنوں بعد گونگلو میاں گھر سے دوبارہ نکلے۔ اس بار چلتے ہوئے اُسے ایک بوڑھا آدمی ملا۔ بوڑھے نے گونگلو میاں کو روکا اور کہا: ”گونگلو میاں! میری بیٹی کی سونے کی انگوٹھی گم ہو گئی ہے۔آپ دعا کروہمیں انگوٹھی مل جائے۔” گونگلو میاں دل میں کہنے لگے: ”میں درویش تو ہوں نہیں جو انگوٹھی ڈھونڈ نکالوں؟ چلو کچھ نہ کچھ تو کرتا ہوں۔” یہ سوچ کر گونگلو میاں نے بوڑھے آدمی سے کہا: ”بڑے میاں! لنگر پکاؤ، آپ بھی کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ، انگوٹھی مل جائے گی۔”
بوڑھے کی بیٹی لنگر کے لیے چاول نکالنے لگی تو چاولوں میں سے انگوٹھی نکل آئی۔ بوڑھا بڑا خوش ہوا۔ اس نے گونگلو میاں کو ڈھیر سارا انعام دیا۔ گونگلو کے وارے نیارے ہوگئے۔ وہ خوشی خوشی گھر لوٹ آیا۔
کچھ عرصے بعد بادشاہ کے محل میں چوری ہو گئی۔ شہزادی کا قیمتی ہار کوئی چور لے گیا تھا، بہت تلاش کے بعد بھی چوروں کا سراغ نہ ملا۔ آخر بادشاہ نے گونگلو میاں کو دربار میں بلابھیجا اور کہا: ”گونگلو میاں! شہزادی کا قیمتی ہار چوری ہو گیا ہے، ہار ڈھونڈ کر دو، نہیں تو سزا ملے گی۔” گھونگلو میاں نے وضاحت کرتے ہوئے جواب دیا: ”بادشاہ سلامت! مَیں درویش تو ہوں نہیں جو ہار ڈھونڈ لاؤں۔ میری کرامت ایسے ہی مشہور ہو گئی ہے۔” بادشاہ نے گونگلو میاں سے کہا: ”مجھے بس گم شدہ ہار چاہیے۔” گونگلو چپ ہو گیا اور بات کو ختم کرتے ہوئے کہنے لگا:”چلو! کچھ نہ کچھ تو کرتے ہیں۔ آپ مجھے سات دنوں کی مہلت دیں۔” مہلت لے کر وہ گھر آگیا۔
گونگلو اگلے روز جنگل میں نکل گیا۔ وہاں جا کر اس نے آواز لگائی: ”ایک تو آگیا، باقی رہ گئے چھے وہ بھی آجائیں گے۔” وہ اپنی مہلت ختم ہونے کے دن گننے لگا۔ گونگلو میاں کو علم نہ ہوا کہ قریب چور کھڑا اس کی باتیں سن رہا ہے۔ چور سمجھاشاید گونگلو اس کی بات کررہا ہے۔ وہ اپنے ساتھی چوروں کو بتانے کے لیے بھاگم بھاگ ان کے پاس پہنچا اور پریشان صورت بناکرکہنے لگا: ”گونگلو میاں کو پتا چل گیا ہے کہ محل سے چوری ہم نے کی ہے۔ اب ہماری خیر نہیں ہے۔” باقی چوراسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ اگلے روز اس بات کی تصدیق کے لیے دوسرا چور پہلے چور کے ساتھ گیا۔دونوں وہاں پہنچے تو حسبِ معمول گونگلو میاں کی اُونچی اُونچی آواز سنائی دے رہی تھی۔
”پہلے کے ساتھ آج دوسرا بھی چلا آیا، باقی رہ گئے چھے۔ وہ بھی جلد ہی آ رہے ہیں۔” گونگلو نے کہا تو چوروں کے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ بھاگم بھاگ اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچے اور انہیں ساری حقیقت بتائی۔ باقی چورو ں نے بھی ایک ایک کر کے یہی عمل دہرایا۔ روز جتنے چور آتے، گونگلو ان کی تعداد بول کر کہتا۔ اتنے آگئے اورباقی اتنے رہ گئے۔ وہ بھی جلد ہی آجائیں گے۔ آخر ساتویں روز چوروں کا سردار خود معاملہ دیکھنے وہاں آیا۔ باقی چور بھی اس کے ہمراہ تھے۔
وہاں پہنچ کرسارے چور درخت کی اوٹ میں چھپ گئے اور کان لگا کر سننے لگے۔ گونگلو میاں اپنی مستی میں آلتی پالتی مار کر بیٹھے تھے۔جیسے ہی سردار وہا ں آیا، گونگلو بلند آواز سے بولا: ”لوجی! آج ساتوں کے ساتوں آ گئے۔ اب جو ہو گا وہ کل دربارہی میں دیکھا جائے گا۔” گونگلو اپنی سزا کے بارے میں کہہ رہا تھا۔ اس کی مہلت کے ساتوں دن گزر گئے تھے اور اس نے ابھی تک چورنہیں ڈھونڈے تھے۔ درختوں کی اوٹ میں چھپے چوروں نے اندازہ لگایا گویا گونگلو میاں نے انہیں ڈھونڈ لیا ہے۔ اب وہ پکڑے گئے ہیں۔ یہ سوچ کر سارے چور پریشان ہوگئے۔
انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اب کیا کریں۔ طے پایا کہ گونگلو میاں کو کچھ دے دلا کرباشاہ کی سزا سے بچا جائے۔ جان ہے تو جہان ہے۔مشورہ کر کے سارے بھاگم بھاگ گونگلو میاں کے پاس آئے۔ ڈر اورخوف کے مارے چور اُس کے پاؤں میں گر پڑے اور چوری تسلیم کرتے ہوئے بولے: ”گونگلو میاں! چوری ہم نے ہی کی ہے ۔ ہم آپ کو چور ی کا ہار اور ساتھ ڈھیر سارا مال دیتے ہیں۔آپ بس ہمیں بادشاہ سے بچا لیں۔” چوروں نے ہار اور دوسرا سامان گونگلو میاں کے حوالے کیا اور خودکہیں بھاگ نکلے۔
اگلے روز ہار مل جانے پر بادشاہ بڑا خوش ہوا۔اس نے گونگلو میاں کو ڈھیر سارا انعام دیا اور اسے اپنا مصاحبِ خاص بنا لیا۔
٭…٭…٭