”ایسے کرتے ہیں شادی اور بزنس۔ ٹو ان ون۔” ڈینیئل نے ہنستے ہوئے کہا۔
جوزف تم اتنے فنی ہو پھر تم نے یہ سائیکولوجی کیوں ؟” عیشلے نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
”ایکچوئیلی میں لوگوں کے دلوں کو پڑھنا چاہتا تھا تمہیں پتا ہے آج کے دور میں ہر انسان کے چہرے پر کئی ماسک ہوتے ہیں، اس لیے یہ جاننے کے لیے کہ وہ حقیقت میں کتنے بھیانک ہوتے ہیں اس کے لیے میرے نزدیک سائیکولوجی پڑھنا بہت ضروری ہے۔”
”اچھا تو پھر تمہیں کوئی ایسا چہرا ملا جو بالکل آئینے کی طرح ہو، جیسا باہر سے دکھتا ہو ویسا ہی اندر سے بھی ہو؟” کیتھرین نے تجسس سے پوچھا۔
”ہاں بالکل!” وہ تھوڑی دیر تجسس پیدا کرنے کے لیے رکا پھر کہا۔
”شارلٹ بالکل سلیٹ کی طرح تھا جس پر جو لکھو گے، جیسا لکھو گے اچھا یا برا وہ ویسا ہی دکھتا تھا۔”
جوزف کے ساتھ والی کرسی پر حسام تھا ۔ ڈینیئل نے سوال اس کی طرف اچھال دیا۔
”نہیں یار! یہ پرسنل ہے میں نہیں بتا سکتا۔” اس نے بے رخی سے کہا تھا وہ یہ نہیں بتانا چاہتا تھا کہ اس نے یہ سبجیکٹ کیوں چنا۔ ان لوگوں کے اصرار پر بالآخر اس نے بات گول مول کرتے ہوئے کہا:
”میں نے اکثر ایسے کپلز کو دیکھا ہے جن کی لو میرج ہوتی ہے لیکن وہ پھر بھی بہت لڑتے ہیں، میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ شادی سے پہلے جو لڑکی گرل فرینڈ کی صورت میں بیسٹ ہو سکتی ہے تو پھر بیوی کے روپ میں وہ پیار نفرت میں کیوں بدل جاتا ہے۔” اس نے اپنے والدین کے لڑائی جھگڑے والی بات چھپائی تھی۔
”اچھا عائلہ اب تم بتاؤ؟”
”پہلے آپ سب وعدہ کرو میرا مذاق نہیں اڑاؤ گے۔” اس نے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے کہا۔
سب کے یقین دلانے پر اس نے اپنے ہینڈ بیگ سے دو کاغذ نکال کر سامنے ٹیبل پر رکھے۔
”یہ کاغذ اس لڑکے کے ہیں جس کی وجہ سے میں نے اس سبجیکٹ کا انتخاب کیا ہے۔ وہ بہت سائیکوقسم کا لڑکا تھا اور اسی نے مجھے یہ سبجیکٹ امپریس بھی کیا تھا۔”اس نے ہچکچاتے ہوئے بتایا۔
حسام نے سامنے پڑے کاغذوں کو اٹھالیا۔ وہ اپنی لکھائی کیسے بھول سکتا تھا!
یہ اس وقت کی بات ہے جب عائلہ 9th کلاس میں تھی ۔اس کے ابو کا ٹرانسفر لاہور سے اسلام آباد ہوا تھا وہ بھی اپنے ابو کے ساتھ اسلام آباد آگئی تھی۔ یہاں اس نے جس سکول میں ایڈمیشن لیا تھا وہاں حسام بھی پڑھتا تھا۔
حسام اکیلا رہنے والا لڑکا تھا۔ کوئی اس سے روابط بڑھانے کی کوشش کرتا تو وہ اسے جھڑک دیتا۔ کلاس میں اس کی کسی سے دوستی نہیں تھی۔ دراصل وہ اپنے گھر کے ماحول کی وجہ سے بہت چڑ چڑا ہوگیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے ماں باپ بھی دوسرے والدین کی طرح پیار محبت سے رہیں لیکن ان کی آپس میں بالکل نہ بنتی تھی۔ اس کا کوئی بہن بھائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہت اکیلا محسوس کرتا اور پھر یہی چیز اس کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔
عائلہ پہلے دن سکول آئی تو حسام کے بینچ پر بیٹھ گئی۔ حسام اس وقت کلاس میں موجود نہیں تھا۔ عائلہ اس کی کتابیں اٹھا کر پڑھنے لگی۔ اتنے میں حسام کلاس میں داخل ہوا اور عائلہ کو اپنی کتابیں پڑھتا دیکھ کر غصے سے لال ہوگیا۔ اس نے عائلہ کو کھری کھری سنا ڈالیں۔ عائلہ اس سے معافی مانگتی رہی لیکن حسام کا غصہ کسی طور کم نہ ہوا۔ اپنی کتاب اس کے ہاتھ سے چھیننے کے چکر میں عائلہ کو ٹھوکر لگی اور وہ زمین پر گر گئی۔ گرنے کی وجہ سے حسام کی کتاب کے دو صفحے پھٹ گئے۔ بات اتنی معمولی نہ تھی کہ مینجمنٹ کو خبر نہ ہوتی۔ پرنسپل نے دونوں کو اپنے آفس میں بلایا اور تمام روداد سننے کے بعد حسام کو عائلہ سے معافی مانگنے کو کہا۔ حسام پہلے ہی غصے سے بھرا بیٹھا تھا۔ اس نے بہ جائے معافی مانگنے کے الٹا الزام عائلہ پر لگایا کہ وہ میری اجازت کے بغیر میری جگہ پر بیٹھی تھی اور میری کتابیں چھیڑ رہی تھی۔
حسام اپنی ہٹ دھرمی سے پیچھے نہ ہٹا تو پرنسپل کو اسے مجبوراً سکول سے نکالنا پڑا۔ عائلہ کے والد نے بھی اسے اسکول سے ہٹا کر کسی دوسرے سکول داخل کرادیا۔
اس واقعہ کے کافی دنوں کے بعد عائلہ کو یاد آیا کہ اس نے حسام کی کتاب کے وہ دو صفحے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ اس نے وہ صفحے نکالے اور پڑھنا شروع کردیئے۔ ان پر حسام نے خود کچھ لکھا ہوا تھا۔
پہلے صفحے پر میگنٹ کا ٹوپک تھا، اس کے سامنے لکھا تھا:
”اچھا دوست مقناطیس کی طرح ہوتا ہے جو خود بہ خود آپ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جب آپ اس کو بھول جائیں تو وہ خود آپ کی طرف آجاتا ہے۔”
اگلا ٹوپک ”ورک” تھا۔
”کبھی کسی کو متاثر کرنے کے لیے کام نہ کرو بلکہ اپنے اندر کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اور اظہار کے لیے کام کرو۔ کسی کو آئیڈیل بنانے کی بہ جائے خود اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ سب آپ کو آئیڈیل مانیں۔”
انسان کی زندگی میں لوگ دن اور رات کی طرح ہوتے ہیں۔ نہ جانے کتنے دن اور رات ہماری زندگی میں آئے اور چلے گئے لیکن کچھ دن اور رات بہت خاص ہوتے ہیں جن سے ہماری کھٹی میٹھی یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔ وہ لمحات ہمارے دل و دماغ پر مہر کی طرح ثبت ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہم کچھ لوگوں کو بھول جانا چاہیں پھر بھی بھول نہیں پاتے۔ عائلہ کی زندگی میں وہ خاص شخص حسام تھا۔ وہ نہ تو اس کا نام جانتی تھی اور نہ ہی ان چند لمحات کے بعد زندگی میں دوبارہ کبھی اس سے ملی تھی اور نہ ہی ملنے کی امید تھی لیکن حسام کی ذات اس کے لیے پہیلی بن گئی تھی، وہ اس کو ذرا ہٹ کے اور بہت عجیب و غریب لگا تھا۔
اس دن حسام اور عائلہ کی ریسٹورنٹ میں بہت لڑائی ہوئی تھی۔ حسام کو بہت بُرا لگا ہے کہ عائلہ نے اسے سائیکو کیوں کہا؟ اور عائلہ تو اس حیرت سے باہر نہیں نکل پائی کہ وہ لڑکا حسام ہی ہے۔ اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اس مل پائے گی اور اگر ملے گی بھی تو اس طرح۔
آج اس بات کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ عائلہ نے کئی بار اس سے معافی مانگی تھی مگر وہ اس سے ناراض ہی تھا۔عائلہ نے بھی کئی بار معافی مانگنے کے بعد اس سے بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اگر دونوں کا کلاس میں آمنا سامنا ہو بھی جاتا تو وہ اجنبیوں کی طرح گزر جاتے۔ حسام کو دکھ اس بات کا تھا کہ وہ جس چیز سے بچتا تھا، جس خامی کو وہ اپنی ذات کا حصہ نہیں بننے دینا چاہتا تھا، جس لڑائی جھگڑے سے وہ بھاگتا تھا، وہ ہی اس کی پہچان بن جائے گا۔
ایک دن حسام نے کلاس سے نکلتے ہوئے عائلہ سے کہا:
”چلو آؤ! مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔” عائلہ کوخاموش دیکھ کر وہ اتنا کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ عائلہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے کیفے ٹیریا آگئی۔
اس کی آواز میں دکھ تھا۔ وہ تھوڑی دیر کو رکا اور پھر کہا:
”تم یہاں میری وجہ سے آئی ہو اور کوئی تمہاری وجہ سے یہاں آئے گا۔” یہ بات اس نے مسکراتے ہوئے کہی تھی۔
”ہاں یار! ہو سکتا ہے۔ پلیز بُرا مت ماننا۔”اس نے کندھے اچکا کر کہا۔
”یار اس دنیا میں سب ایک روش پر چل رہے ہیں۔ سب کی اپنی اپنی کہانی ہے۔ سب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ اگر ہم سب کا تجزیہ کرنا شروع کریں تو ہمیں یہاں انسان کم، فرشتے زیادہ ملیں گے۔” اس نے بھی مسکراتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
”ویسے ناں میں سوچ رہا تھا کہ میں نے جس وجہ سے سائیکولوجی چوز کیا ہے؟ اس پر پریکٹس کروں۔ دیکھوں پھر دیکھتا ہوں کہ کیا نتیجہ آتا ہے۔” اس نے مُسکراتے ہوئے کہا۔ ”کیا تم میری ہیلپ کر سکتی ہو؟”
”کیا مطلب؟” اس نے کندھے اچکا کر پوچھا۔
”اُف خدایا! ان لڑکیوں کا حافظہ اتنا کمزور کیوں بنایا ہے کہ سیدھی بات بھی ان کو سمجھ نہیں آتی۔” اس نے سر پکڑ کر کہا۔
”ایکسکیوز می! اگر وہ بات جلیبی کی طرح سیدھی ہو تو پھر کم ہی سمجھ آتی ہے۔” وہ گھورتے بولی:
”میں سوچ رہا ہوں کہ جو لڑکی میرے دو پیجز کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتی ہے تو اس پر اتنی نظر عنایت تو بنتی ہے۔” حسام نے شوخی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ کچھ پل دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی پھر حسام نے کہا:
”کیسا میم آپ اس سائیکو کو اس کے دردِ دل کی دوا بن سکتی ہیں؟ کیسا آپ مجھ سے شادی کرنا پسند کریں گی؟”
عائلہ اس بات پر واقعیگھبرا گئی ۔اس کے دل میں ہل چل مچ چکی تھی مگر چہرہ بے تاثر تھا۔ خود حیران کم اور خوش زیادہ تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھا کہ وہ کیا جواب دے تو وہ تھوڑی دیر سوچتی رہی پھر مسکراہٹ چھپانے کے لیے کیفے میں بیٹھے دوسرے گروپ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی:
”ویسے تم اتنے بُرے بھی نہیںہو۔ سوچا جا سکتا ہے اس بارے میں۔”اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو حسام بھی مسکرا دیا۔
٭…٭…٭