گھر سے مکان تک ۔ افسانہ

تین ماہ گزر چکے تھے۔ امی نے ہر ممکن کوشش کرلی۔ مگر وہ واپسی کے لیے نہیں مانی۔
منال نے کچھ دن پہلے ایک سکول میں ٹیچنگ شروع کردی تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ جب واپس نہیں جانا تو نوکری کر کے کسی پر بوجھ نہیں بنے گی۔
پرنسپل نے اُسے اچھا پیکیج دیا تھا۔ سکول وین پر پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی تھی۔ آج بھی اسے سر نے اپنے آفس میں بلایا تھا۔
”مس منال! یہاں کوئی مسئلہ تو نہیں آپ کو۔“ انہوں نے حریص نگاہیں اس پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں سر! every thing is perfect“ وہ آہستگی سے چلتے ہوئے اس کے قریب آکر بیٹھ گئے۔
”آپ سکول آورز کے دوران اپنی چادر مت لیا کیجیے۔“ انہوں نے عجیب لہجے سے قریب ہوتے ہوئے کہا۔
”جی!“ وہ سہم کر پیچھے ہوتے ہوئے بولی۔
”میرا مطلب relaxرہا کریں۔“ وہ اٹھ کر اپنی سیٹ پر چلے گئے۔
”سر میں جاؤں؟“ منال نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
”جی!“ چہرے پر خبیث مسکراہٹ تھی۔ منال کا دل خوف زدہ ہوگیا، مگر اپنا وہم سمجھ کر وہ کام میں مصروف ہوگئی۔
مگر سر کا رویہ اگلے کچھ دن بھی عجیب سے عجیب تر ہوتا جارہا تھا۔
آج بھی اسے کلاس کے پوسٹر کے میٹنگ کے لیے بلا لیا۔ حالانکہ ایسی کوئی ضروری بات بھی نہ تھی جو ان کو یوں اکیلے میں اسے بلانا پڑا۔
”سر! میں چلتی ہوں۔“ وہ کھڑی کھڑی پوسٹر سمجھا کر جانے لگی۔
”جی بس ایک منٹ بیٹھیں پلیز! یہ فائل آپ کو دکھانی تھی۔“ وہ ایک فائل لے کر اس کے بہت قریب ہوکر میز پر بیٹھ گئے اور اس کے چہرے پر آئے ہوئے بال ہٹانے لگے۔ منال کو جیسے کوئی کرنٹ لگا اور وہ بھاگتی ہوئی آفس سے باہر آگئی۔ اسے اب یہاں ایک منٹ نہیں رکنا تھا۔ وہ گھر واپس آکر بھی کمرے میں بند رہی۔
”گھر کی چاردیواری میں ایک مرد سے ذلیل ہونا بہتر ہے۔“
امی کے یہ الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ اسجد جیسا بھی تھا، مگر اسے یقین تھا وہ بدکردار نہیں تھا۔ اپنی بلڈنگ میں گزرتے ہوئے نظریں جھکا کر گزرتا تھا۔ آس پڑوس کی عورتوں کی عزت کرتا تھا۔ ہاں وہ بدمزاج تھا۔ خود غرض تھا۔ اس کی ہربات میں نقص نکالتا تھا مگر بدکردار نہیں تھا اور اس کی یہ خوبی اسے اس کی ہر خامی پر معتبر کررہی تھی۔
رات کے تین بج رہے تھے۔ منال نے اپنا فون پکڑا۔ اسجد کا نمبر ڈائل کیا۔ فون بند جارہا تھا۔ منال کو پریشانی ہوئی۔ وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس نے لینڈ لائن پر فون کیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے گھر والے سیٹ پر CLIنہیں تھی۔ اسجد نے پہلی ہی رنگ پر فون اٹھا لیا مگر اس کے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔
”ہیلو نرمین! میں جانتا ہوں یہ تم ہو۔ دیکھو پلیز پلیز فون بند نہیں کرنا۔ میرے سیل کی بیٹری ختم ہوگئی تھی۔ دیکھو مجھے معاف کردو مجھ سے غلطی ہوگئی۔ میں جانتا ہوں تم ایسی ویسی لڑکی نہیں ہو۔ مجھے اس طرح رات کے اس پہر تمہیں اپنے گھر انوائٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔“
منال کو لگا تکلیف سے اس کا دل پھٹ جائے گا۔ ایک مان تھا جو ٹوٹ گیا تھا۔ اسے تھا کہ اسجد سب کچھ ہوسکتا تھا مگر بدکردار نہیں اور وہ اس کے جاتے ہی یا اس کے ہوتے ہوئے ہی نہ جانے کب سے…… وہ فون بند کرچکی تھی۔ ایک قیامت تھی جو آئی تھی اور ٹھہر گئی تھی اور اُسے اب ساری زندگی پلِ صراط پر چلنا تھا۔
وہ مکان جسے اس نے بہت ارمانوں سے گھر بنایا تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں پھر سے مکان بن گیا تھا اور وہ اس مکان میں پڑی ہوئی کوئی بے وقعت سی چیز۔ امی کی ہر بات ٹھیک تھی۔ عورت کے لیے زمانہ آج بھی نہیں بدلا۔ کل بھی وہی کِل کِل تھی اور آج بھی۔ مگر اب اس نے بازی اپنے انداز سے جیتنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اسی لیے وہ صبح ہونے تک واپسی کا فیصلہ کرچکی تھی۔
وہ اپنے مکان میں واپس آچکی تھی۔ اسجد آفس تھا۔ آتے ہی گھر سنبھالنے پر لگ گئی۔ ہر چیز گرد سے اٹی ہوئی تھی۔ کچن کا بھی کوئی حال نہ تھا۔ صبح سے شام تک وہ کاموں میں مصروف رہی۔ آج اس نے اسجد کے لیے اس کی پسند کا چائنیز بنایا۔ دل تو چاہ رہا تھا تھوڑا زہر بھی ڈال دیتی۔ مگر اب اسے اسجد کو اس کے حساب سے سیدھا کرنا تھا۔ اسجد کے گھر واپسی کے وقت  تک وہ سب کچھ تیار کرچکی تھی۔
اب باری خود کو تیار کرنے کی تھی۔ صبح اپنے مکان کی طرف آنے سے پہلے اس نے اپنے لیے نئے کپڑے لیے۔ ان میں ایک سٹائلش سی ٹاپ پہنی۔ ساتھ فٹڈ جینز اور ہائی ہیلز بھی پہنے۔ بہت اچھے سے میک اپ کیا۔ بالوں کو بلو ڈرائے کیا۔
اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا تو سے خیال آیا کہ اسے اسجد کے لیے اس طرح تیار ہوئے شاید مدت گزر گئی تھی۔ اس نے گھر کے کاموں میں خود کو ایسے مصروف کرلیا تھا کہ خود کو کبھی دیکھا ہی نہیں اور اسجد جیسا مرد تو ہر چیز میں پرفیکشن چاہتا تھا۔
اسے بیوی کے روپ میں کُک بھی چاہیے تھی اور ماڈل جیسی سٹائلش عورت بھی۔ اسجد گھر میں داخل ہوا۔ ایک لمحے کو اُسے جھٹکا لگا۔ کیوں کہ جب سے منال گئی تھی گھر بالکل الٹا پڑا تھا۔ صفائی والی بھی بس ویک اینڈ پر آتی تھی۔ آج گھر چمک رہا تھا۔ ہیلز کی ٹک ٹک سے وہ اپنے سامنے سے آتی ہوئی منال کی طرف متوجہ ہوا۔ پہلے تو چہرے پر حیرت نظر آئی۔ مگر اس کے بعد ازلی ناگواری سے وہ ٹائی ڈھیلی  کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا۔ موبائل اور لیپ ٹاپ میز پر رکھا۔
منال چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔ کچھ لمحے خاموشی سے گزر گئے۔
منال نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر اجنبیت دیکھ کر منال کو بہت تکلیف ہوئی۔ یہ وہی مرد تھا جو رات کسی اور عورت کے سامنے منتیں کررہا تھا اور وہ جس پر اس کو سارے حق تھے، اس سے یوں بے اعتنائی برتے ہوئے تھا۔ دل تو چاہا کہ رکھ کر اس کے منہ پر طمانچہ لگائے اور دوبارہ اس کی شکل بھی نہ دیکھے۔ مگر اب دل بڑا کرنا تھا۔ غلطی اسجد سے ہوئی تھی مگر ازالہ منال کو کرنا تھا۔ شاید معاف کرنے میں بہت وقت لگ جاتا۔ ہاں مگر پھر سے دماغ سے چلنے کا وقت تھا۔ باہر کی گندگی اور ذلالت سے بہت بہتر تھا کہ دل میں چھپی تکلیف کو ایک طرف رکھ کر اُس سنگ دل اور بے وفا سے نبھا کر لے۔ آج نہ سہی، کبھی کسی روز وہ شاید اسجد کے دل میں جگہ بنا لے اور اسجد اس کے دل میں!
منال نے اس کے کاندھے پر اپنا سر رکھتے ہوئے کہا:
”اسجد! مجھے لگتا ہے محبت میں کبھی کبھی شکوہ اور شکایت بے حد ضروری ہوتی ہے۔ ایک مان ہوتا ہے کہ اگلا آئندہ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہ دے گا۔ مگر میں نے آپ سے کبھی کوئی گلہ نہیں کیا جو آپ کو ٹھیک لگا وہ مانا۔ اپنی بھرپور کوشش کی کہ آپ کو خوش رکھوں۔ مگر آپ نے کبھی مجھے نہیں سراہا۔ ہمیشہ تنقید کی۔ شاید میرا گھر چھوڑ کر جانا اُس خاموشی کا ردِعمل تھا۔“
”جو بھی تھا جو عورت گھر چھوڑ کر جاتی ہے وہ کبھی مرد کے دل میں عزت نہیں بناتی۔ یہ بھی اس کی خوش فہمی ہوتی ہے کہ مرد کو اس کی قدر ہو جائے گی۔“ وہ رعب اور غصے سے بولا تھا۔
منال کا دل چاہا کہ چیخ چیخ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کرے۔ اسے بتائے کہ وہ بھی غلط ہوسکتا ہے، مگر نہیں۔ خود پر قابو رکھنا ضروری تھا۔
”آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اسجد۔ آپ کو میرے جانے سے میری قدر ہوئی یا نہیں مگر مجھے آپ سے دور جا کر آپ کی قدر ہوگئی۔“ آنکھ سے آنسو نکل رہے تھے، مگر اس نے اپنی آواز کو مضبوط رکھا۔
”اسجد! شاید میں کبھی واپس نہ آتی مگر……“ وہ بلک بلک کر رونے لگی مگر وہ اسی سرد رویے سے اسے دیکھتا رہا جیسے ہمیشہ سے تھا۔ وہ خود ہی اپنے آپ کو سمیٹ کر بولی:
”میں نے ایک سکول میں جاب سٹارٹ کی۔ پہلے تو مجھے اپنا وہم لگا کہ پرنسپل مجھ پر دوسری ٹیچرز کی نسبت زیادہ مہربان ہے۔ مگر کچھ دن بعد…… اس نے مجھ سے بدتمیزی کی کوشش کی اور میں وہاں سے بھاگتی ہوئی……“ ہچکی پھر سے بندھ چکی تھی۔ اب اسجد پھٹی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ اس کا ردِعمل ابھی سمجھ نہیں پائی تھی۔ اس لیے اب بات کو اصل مقصد کی طرف لے آئی۔
”اسجد! اُس لمحے مجھے محسوس ہوا کہ میرے لیے اس جہان میں آپ سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ آپ کا غصہ، آپ کی مجھ سے بے اعتنائی، ہر بات ایک طرف، مگر آپ کے کردار کی پاکیزگی ایک طرف۔ اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے آپ کے پاس واپس آنا ہے۔ مجھے معاف کردیں۔ مجھے گھر چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا۔“ منال اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔
اسجد کسی بت کی طرح ساکت تھا اور منال جانتی تھی کہ وہ کیا سوچ رہا تھا۔ وہ خود جیسا بھی سہی، اپنی بیوی اسے باکردار ہی چاہیے تھی۔ کوئی غیرمرد اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے یہ اُسے گوارا نہ تھا۔
کچھ لمحے خاموشی سے گزر گئے۔
”جو ہوا اسے بھول جاؤ۔ گھر میں میرے لیے اسی طرح تیار ہوا کرو۔ مجھے اچھا لگے گا۔ مگر باہر نکلتے ہوئے مجھے وہی منال چاہیے جو خود کو چادر میں ڈھانپ کر رکھتی ہے۔ اگر تمہیں میرے کردار کی پاکیزگی پر بھروسہ ہے تو میرے لیے بھی اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ میری بیوی باکردار ہے۔“ اسجد کہہ رہا تھا اور منال کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ 
وہ آج دماغ سے کھیلی ہوئی بازی جیت چکی تھی۔
___________________________________________________________________________

Loading

Read Previous

صبح سویرے آئے چڑیا

Read Next

آشنا ۔ افسانہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!