آشنا ۔ افسانہ

آشنا
شاہ رخ نذیر

رات کی سیاہ چادر سے نکل کر صبح کی پہلی کرن نمودار ہوئی، فجر کی نماز کے بعد وہ معمول کے مطابق لان مےں آگئی تھی۔ گھاس پر گری اوس کو محسوس کرنے کے لےے چپل لال اےنٹوں کی روش پر اتار کر ننگے پاﺅں گھاس پر چلنے لگی۔ لان مےں چہار سو خاموشی تھی مگر اس کے اندر اےک عجےب سی ہلچل مچی تھی۔ وہ خالی نظروں سے آسمان کو دےکھنے لگی۔ بھوری شربتی آنکھوں کے کٹورے گرم پانی سے بھرنے لگے اور پلک جھپکتے ہی گوہرِناےاب سےپ سے نکل کر گال پر بہ گئے۔ لفظوں کی مےخےں کانوں مےں پےوست ہونے لگےں ۔ چڑےوں کی چہچہاہٹ نے خاموشی کا طلسم توڑاتو ہاتھوں کی پشت سے آنکھےں رگڑتے ہوئے سےنے مےں قےد سانس آہ کی صورت خنک ہوا کے سپرد کی اور واپس گھر کے اندر چلی گئی۔
صبح ناشتے کی مےز پر ہاشم کے سوا سب ہی موجود تھے۔ افق ناشتا ٹےبل پر لگوانے کے بعد سےدھی ہاشم کے کمرے کی طرف آگئی۔ دروازے پر دستک دےنے کے ساتھ وہ ہاشم کو آواز بھی دے رہی تھی۔ کھٹ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلاتو سامنے کھڑے شخص کو دےکھ کر وہ تقرےباً چلّا اٹھی۔
”تم“؟
”تم کب آئے“؟ آواز مےں خوشی نماےاں تھی۔
”رات چار بجے۔“ وہ دروازے سے ہٹا اور اونگھتاہوا واپس کمرے مےں چلا گےا۔ پھر بےڈ پر گرتے ہوئے تقرےباًنےم دراز ہوگےا۔
”مےں تائی امی کو بتاتی ہوں ، تم اور ہاشم بھائی جلدی سے ناشتے کے لےے آجاﺅ“۔ وہ کہتی ہوئی دروازے ہی سے پلٹ گئی ۔ کمرے مےں ہاشم کے علاوہ حسّان بھی موجود تھا۔ وہ آج صبح ہی اسلام آباد سے آےا تھا۔ پچھلے اےک سال سے وہ بزنس کے سلسلے مےں اسلام آباد مےں مقےم تھا۔ آج ناشتے کی مےز پر خوشی کا سماں تھا، حسّان اتنے دنوں بعد جو آےا تھا۔
٭….٭….٭
فاخرہ اور افق بہت چھوٹی تھےں جب ان کے والدےن کا انتقال ہوا۔ عبےد حےدر، افق کے تاےااسے اپنے ساتھ لے آئے تھے جب کہ فاخرہ کو صائمہ پھوپھو نے پالا تھا۔ ہاشم، حسّان ردا اور وردہ عبےد حےدر کے بچے تھے۔ حسّان اور افق بہت اچھے دوست تھے۔ دونوں اےک دوسرے کی ہر بات بنا کہے ہی سمجھ جاتے ۔ بچپن مےں وہ اپنی ہر بات اےک دوسرے سے شےئر کرتے، پر جوانی کی دہلےز پر قدم رکھتے ہی بہت کچھ بدل گےا تھا۔ وہ اب بھی بہت اچھے دوست تھے مگر اب افق اپنی باتےں حسّان سے شےئر نہیں کرتی تھی۔
لان مےں بکھری سرما کی نرم دھوپ مےں وہ لوگ بےٹھے کارڈز کھےل رہے تھے۔ جب ہاشم اور ردا مےں جھگڑا شروع ہوگےا۔ ہاشم مسلسل کارڈز مےں ہےرا پھےری کر رہاتھا۔ ردا اس حرکت سے بری طرح زچ ہوگئی تو کارڈز پھےنکتے ہوئے چلی گئی۔ ہاشم نے سر جھکا کر گرے ہوئے کارڈز کی جانب دےکھا اور کسی فاتح کی سی مسکراہٹ سجائے کہنے لگا:
”واہ جی …. اب خود ہار رہی ہے تو مجھے چےٹر کہہ رہی ہے۔“
”آپ اگر اےسے ہی کرتے رہے نا تو ہاشم بھائی اگلی بار کوئی آپ کے ساتھ کھےلے گا نہےں۔“ افق نے مصنوعی رعب دکھاےا تو ہاشم کھل کر ہنس دیا۔
”کےا ہورہا ہے بھئی؟ لگتا ہے کوئی محفل جمی ہے ےہاں تو“ حسّان داخلی دروازے سے اندر آےا تو ان سب کو وہاں موجود پا کر سےدھا ان کے پا س چلا آےا۔
”کچھ نہےں ، ہاشم بھائی بھر پور طرےقے سے چےٹنگ کر رہے ہےں۔“ وردہ بھی ردا کی زبان بولی۔
”ارے ےہ کوئی نئی بات تھوڑی ہے ےہ ہاشم تو پےدائشی چےٹر ہے۔“
”افق اچھی سی کافی تو بنا دو پلےز۔“ حسّان کرسی کھےنچ کر ہاشم کے مقابل بےٹھ گےا تو وردہ اور افق اٹھ کر اندر چلی گئےں۔ ہاشم حسّان سے کتنی دےر بزنس کے بارے مےں باتےں کرتا رہا۔ پھر اچانک ہی کچھ ےاد آنے پر وہ توقف کے بعد بولا۔
”افق کے لےے رشتہ آےا تھا پچھلے دنوں۔“ حسّان جو مصروفےت سے موبائل دےکھ رہا تھا، ہاشم کی آواز پر اسکرےن پر چلتا اس کا ہاتھ رُک گےا اور وہ ذرا سےدھا ہوکر بےٹھ گےا۔
”اس بار بھی…. اس با ر بھی انکار ہوگےا۔ وجہ وہ ہی تھی۔“ ہاشم نے کچھ جھجکتے ہوئے اپنی بات مکمل کی تو حسّان کی سپاٹ پےشانی پر سلوٹےں نمودار ہوگئےں۔ افق کے لےے پچھلے اےک سال مےں کئی رشتے آئے تھے مگر ہر جگہ سے ےکے بعد دےگرے انکار سُن کر گھر مےں تقرےباً سب ہی پرےشان تھے۔ ہاشم جب بھی اسے رشتوں کے انکار کی وجہ بتاتا تو وہ اےک دم ہی بھڑک اٹھتا۔ ان سب باتوں کے درمےان اسے سب سے پہلے افق کا خےال آتا، وہ جانتا تھاکہ وہ اپنی تکلےف اور دکھ کسی سے شےئر نہےں کرے گی۔ وہ افق کی عادات سے بہت اچھی طرح واقف تھا، اسے معلوم تھا کہ وہ ان لوگوں مےں سے نہےں ہے جو اپنے دکھوں کا اشتہار لگائے گھومتے ہےں۔
٭….٭….٭
وہ کچن مےں اپنے لےے چائے بنا رہا تھا جب لاﺅنج سے آتی آوازےں اس کی سماعت سے ٹکرائیں۔ وہ قدم قدم چلتا ہوا کچن کے دروازے تک آےا تو آوازوں نے لفظوں کاسہارا لے کر مفہوم دماغ تک پہنچاےا تھا۔ باہر سلمیٰ عبےد کی دوست ان پر بگڑ رہی تھےں۔
”نہےں بھئی، مجھے معاف کرو سلمیٰ ، اس بار مےں کوئی رشتہ نہےں لانے والی۔ پچھلی بار مجھ سے باتےں چھپا کر تم نے اچھا نہےں کےا ان باتوں کی وجہ سے مےری اتنی بے عزّتی ہوئی لڑکے والوں کے سامنے۔ وہ تو اچھا ہوا پہلے ہی پتا چل گےا سب ، ورنہ بعد مےں پتاچلتا تو سارا الزام مےرے سر آتا۔ وےسے اےک بات ہے سلمیٰ جب سب کہہ رہے ہےں تو کچھ تو سچائی ہوگی ان باتوں مےں۔ تمہیں مجھ سے ےہ سب چھپانا نہےں چاہیے تھا۔“
سلمیٰ عبےد خاموشی سے سر جھکائے ان کی باتےں سُن رہی تھی۔ حسّان جو کچن کے دروازے میں کھڑا سب سن رہا تھا ، ےک لخت ہی غصّے مےں آگیا۔ تےزی سے چلتا ہوا لاﺅنج مےں آےا اور کچھ کہنے کے ارادے سے لب وا ہی کیے تھے کہ سلمیٰ نے آنکھ کے اشارے سے روک دےا۔ وہ مٹھی بھنچتے اور دانت پےستے ہوئے وہاں سے چلا گےا۔ سلمیٰ بھی اپنی دوست کے جانے کے بعد افق کے کمرے مےں آگئی۔ وہ اس وقت اسٹڈی سے چند کتابےں لا کر پڑھنے بےٹھی تھی۔سلمیٰ خاموشی سے اس کے پاس آکر بےٹھ گئےں۔
”کچھ کہنا چاہتی ہےں تائی امّی؟“ وہ سلمیٰ کے چہرے پر پرےشانی کے تاثرات بآسانی دےکھ سکتی تھی۔
”کل تم اچھے سے تےار ہو جانا اور وردہ، ردا کے ساتھ مل کر کھانے کے انتظامات بھی دےکھ لےنا۔“ وہ جانتی تھی سلمیٰ کس بارے مےں بات کر رہی ہےں۔ پھر بھی وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز مےں سلمیٰ کی طرف دےکھنے لگی۔ صحےح تو ہے، تکلےف سے بچنے کے لےے کچھ باتےں نہ ہی سمجھی جائےں تو اس مےں مضائقہ ہی کےا ہے۔ اگلے دن ساری تےارےاں مکمل کر کے تاےا ابّو اور تائی امّی لڑکے والوں کا انتظار کر رہے تھے۔ جب لڑکے والوں نے فون کر کے آنے سے انکار کردےا تو سلمیٰ تائی کے سارے خدشات ےک لخت ہی ےقےن مےں بدل گئے۔ ان کو یہی ڈر تھا کہ اس بار بھی انکار نہ ہوجائے اور پھر اےسا ہی ہوا تھا۔ لاﺅنج مےں عجےب سا سکوت طاری تھا، کبھی کبھار کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے پر لگتا ہے لفظ ہم سے روٹھ کر کہےں دور جا بےٹھے ہےں۔ اےک طوےل خاموشی کے بعد سلمیٰ عبےد نے کہنا شروع کےا۔
”آخر اور کتنی جگہ سے اےسے ہی انکار سننا پڑے گا۔ صرف افق کا ہی تو گھر نہےں بسانا ہمےں، وردہ اور ردا کا بھی تو سوچنا ہے۔ خےر اےک رشتہ آےا تھا پر مےں نے انہےں کچھ وقت سوچنے کا کہا تھا۔ اگر آپ کو ٹھےک لگے تو ان کو بلا لےں؟“سلمیٰ عبےد حےدر سے مخاطب تھیں۔
”کون سا رشتہ؟ آپ نے پہلے کےوں نہےں بتاےا؟“ عبےد حےدر نے انھےں کچھ اچنبھے سے دےکھا۔
”وہ دراصل۔ لڑکا…. مےرا مطلب …. آدمی کی پہلی بےوی کا انتقال ہوچکا ہے۔ پےنتالےس سال عمر ہے اور…. وردہ کی عُمر کی اےک بیٹی اور بےٹا ہے۔ مجھے اس وقت لگا کہ کوئی بہتر رشتہ مل جائے گا مگر اب جب سارے راستے بند لگنے لگے ہےں تو مجھے لگتا ہے ےہ ہی رشتہ ٹھےک ہے۔“ سلمیٰ عبےد نے تفصےلاً ساری بات بتائی تو عبےد حےدر کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگے۔
”ٹھےک ہے آپ ان لوگوں کو بلا لےں، پھر دےکھتے ہےں۔“
”نہےں بابا، مجھے لگتا ہے ہمےں کوئی اور اچھا رشتہ دےکھنا چاہےے۔“ حسّان نے تحمل سے کہا۔
”ےہ رشتہ بھی بہت اچھا ہے اس مےں کےا برائی ہے؟“سلمیٰ عبےد نے حسّان کو ٹوکا۔
”افق سے دُگنی عمر ہے اس آدمی کی، جوان بچے بھی ہےں اور آپ کہہ رہی ہےں….“ حسّان نے لفظوں کو چباتے ہوئے بات ادھوری چھوڑدی۔
”تو کےا ہوا، ہاشم کی منکوحہ بھی تو اس سے عمر مےں چھوٹی ہے۔“ حسّان کے لب استہزائےہ ٹےڑھے ہوئے، سلمیٰ نے کتنی کمزور دلےل دی تھی۔
”عافےہ بھابھی صرف دو سال چھوٹی ہےں ہاشم سے اور ہاشم کے جوان بچے بھی نہےں ہیں۔“
”کتنی ہی جگہ سے تو انکار ہوچکا ہے اور اب اتنی مشکل سے تو ےہ اےک رشتہ آےا ہے، اسے بھی تم لوگ ٹھکرا رہے ہو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہوکہ ہر جگہ سے انکار کےوں ہو رہا ہے۔“ سلمیٰ کچھ جھجکتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”بہت بوگس وجہ ہے لوگوں کے انکار کی۔ اگر وہ طلاق ےافتہ ہے تو اس مےں افق کی کےا غلطی ہے، اور پلےز بابا اےک بار تو آپ اس پر ظلم کر چکے ہےں اس فےضی سے شادی کروا کر خدارا اب کی بار کچھ اےسا مت کےجئے گا جس سے اس کی تکلےف مےں مزےد اضافہ ہو۔“ حسّان غصّے مےں کہتا ہوا لاﺅنج سے باہر نکل گےا اور پےچھے سب اےک دوسرے کا منہ تکتے رہے۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گھر سے مکان تک ۔ افسانہ

Read Next

شاہ ماران ۔ افسانہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!