سورج کی شعائیں ظلم ڈھا رہی تھیں اور کسی بے حد ضدی بچے کی طرح سر پر سوار تھیں۔ روحی ٹیرس کی زمین تک گرتے ناریل کے لمبے لمبے پتوں کے سائے میں بیٹھی مو بائل اسکرین کی چمک بڑھائے بیٹھی تھی۔ نمی اس کے چہرے پر چمک رہی تھی مگر وہ مسلسل موبائل پر ہی نظریں جمائے ہوئے تھی۔
”وائو!”وہ سماویہ باجی کی شادی میں لی گئی اپنی تصاویر کو دیکھ کر حیران تھی۔ وہ واقعی بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔
”کیا میں اتنی حسین بھی لگ سکتی ہوں؟ یہ کیمرہ فلٹرز تو کمال کے ہیں۔” اس نے گیلری میں جا کر چند مزید تصاویر کا انتخاب کیا اور ان پر نت نئے فلٹرز لگائے۔اس کی سیاہ رنگت چھپ چکی تھی مگر اس نے خود کو مزید خوب صورت دیکھنا چا ہا۔ اس نے نیچے دیے گئے آپشنز کا استعمال کرتے ہوئے اپنی آنکھیں بڑی کیں ،پلکوں کو گھنا کیا،ہونٹ پر پنک میٹ سرخیلگائی اور اپنے ہاتھ روک کر اپنی تصویر دیکھنے لگی۔
”میں تو بالکل رانیہ جیسی لگ رہی ہوں۔”اس کی آنکھوں میں چمک، اس کی برسوں سے مانگی ہوئی دعاں کی عکا سی کر رہی تھی۔ اس نے لگے ہاتھ سب ہی تصاویر فیس بک پر اپ لوڈ کردیں۔
٭…٭…٭
”روحی! ایک بات پوچھوں ؟”چھٹی کے بعد سائرہ نے وین میں روحی کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے پوچھا۔
”پوچھو۔” اس نے کھڑکی سے باہر نظریں جمائے ہوئے کہا۔
”میں بہت دنوں سے نوٹ کر رہی ہوں تم سوشل سائٹس بہت زیادہ استعمال کرنے لگی ہو۔ ڈسپلے پر ڈسپلے چینج،اسٹیٹس پر اسٹیٹس، رات رات بھر آن لائن، آخر چکر کیا ہے ؟” سائرہ نے بھنویں اُچکاتے ہوئے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔سائرہ کے انکشا ف نے روحی کے ماتھے پر نمی بچھا دی۔
”ک…کک…کچھ نہیں! بس یوں ہی۔” اس نے بات ٹالنا چاہی مگر سائرہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
”روحی! تم اب مجھ سے بھی چھپائو گی؟ مجھ سے ؟میں تو تمہیں ہر بات بتاتی ہوں ۔”سائرہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہی تھی۔ روحی نے کچھ لمحے سوچنے کے بعد دھیمی سی آواز میں کہا۔
”ٹھیک ہے مگر تم کسی کو نہیں کو بتائوگی۔”
”نہیں بتائوں گی، وعدہ۔” روحی نے آس پاس نظر گھمائی اور دھیمی سی آواز میں بولی:
”وہ نہ کچھ مہینوں پہلے میری فیس بک کی ایک پوسٹ پر شہریار نام کے لڑکے سے لڑائی ہو گئی تھی۔ بہت ہی طویل بحث کے بعد اس نے مجھے ان باکس پر سوری کیا۔ پہلے تو میں نے اسے خوب سنائیں لیکن جب بعد میں اس سے بات کرنے لگی تو یقین کرو سائرہ مجھے معلوم ہوا وہ کوئی عام سا لڑکا نہیں تھا۔” اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔
”لیکن ہم صرف دوست ہیں۔” اس نے سائرہ کے چہرے پر واضح مسکراہٹ سمجھتے ہوئے جھٹ سے کہا۔
”لیکن مجھے اس سے بات کرنا اچھا لگتا ہے اور تمہیں پتا ہے وہ کیا کہتا ہے ؟”روحی نے اس کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے پوچھا۔
”کیا؟” سائرہ نے بھی تجسس کا اظہار کیا۔
”وہ کہتا ہے اس نے میرے جیسی سادہ اور خوب صورت لڑکی کہیں نہیں دیکھی۔ اور، اور وہ کہتا ہے کہ اسے میری بڑی بڑی آنکھوں میں معصومیت کے چھوٹے چھوٹے آب شار بہت اچھے لگتے ہیں اور اس کا دل کرتا ہے کہ وہ اِسی میں غوطے لگا لگا کر اپنی جان دے دے۔”سائرہ کو روحی کی آنکھوں میں سجا وہ ڈِزنی لینڈ صاف دکھائی دے رہا تھا مگر نہ تو وہ کوئی پری تھی اور نہ ہی اس کی زندگی پریوں کی کہانی جیسی۔
”مگر روحی! وہ سب تو کیمرہ فلٹرز ہیں۔ کیا وہ تمہاری معصومیت سے بھری اِن سیاہ حلقوں میں ڈوبی آنکھوں کو پہچان پائے گا؟ کیا وہ سیاہ پانی میں بھی غوطے لگائے گا ؟”سائرہ کے چہرے پر سنجیدگی واضح تھی۔ وہ اس کا سچائی سے سامنا کروانا چاہتی تھی مگر روحی کا ڈِزنی لینڈ یک دم ہر چیزپر بھاری ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
”میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں۔اِس سے بڑھ کر خو شی کی کیا بات ہوگی آپا ؟ ہم تو فرحاج جیسے فرماں بردار اور لائق بچے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ تو آپ ہی کا بڑکپن ہے۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھلا ؟ آپ فکر ہی نہ کریں۔ سمجھیں روحی اب آپ ہی کی ہے۔” رومیسا نے آپا کلثوم کو گلے لگا یا اور سامنے رکھے چم چم سے ان کا منہ میٹھا کیا۔
٭…٭…٭
”میں جا رہا ہوں، میں نہیں رہ سکتا اب تمہارے ساتھ۔”میسج پڑھتے ہی اس کی پلکیں بھیگنے لگیں۔ کمرے میں بے حد خاموشی اور اندھیرا تھا، جس میں چمکنے والی واحد چیز اس کی موبائل اسکرین تھی اور اس کے سائے میں چمکنے والے بہتے ہوئے وہ ننھے موتی ۔
”پلیز ایسا مت کر و، میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔” وہ کانپتی انگلیوں سے میسج ٹائپ کر رہی تھی۔
”نہیں! بس بہت ہو گیا۔ ایک سال ہو گیا ہے ہمیں بات کرتے ہوئے اور تم ایک بار بھی مجھ سے نہیں ملیں۔ میں ایسی لڑکی کے ساتھ کیسے رہوں جسے مجھ پر بھروسا ہی نہیں؟” اس نے میسج پرھتے ہی آنکھیں میچ لیں۔ وہ پھوٹ پھو ٹ کر رونا چاہتی تھی مگر پاس میں سو یا رانیہ کا وجود اسے اِس چیخ و پکا ر کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ اس نے ایک با رپھر بہ مشکل آنکھیں کھو لی اور ٹائپ کرنے لگی۔
”مجھے تم پر پو ر ا بھروسا ہے، میں آجائوں گی تم سے ملنے۔” اس نے میسج سینڈ کرتے ہی مو بائل ایک طرف رکھ کر تکیہ منہ کے اوپر رکھ لیا۔ تکیہ بھیگ چکا تھا۔ دل کہیں ڈوب چکا تھا ، دھڑکنیں رک چکی تھیں۔ کچھ دیر بعد اس کے لرزتے جسم نے سائڈ ٹیبل سے ایک گلا بی رنگ کی ڈائری نکالی اور بال پوائنٹ اٹھائی، جس پر ڈِز نی لینڈ کی باربیز جگہ جگہ بنی ہوئی تھیں۔
”پھپھو کہتی ہیں ریت زگ (ذلت) سے سیاہ ہوتی ہے لیکن انہوں نے یہ تو کبھی بتایا ہی نہیں کہ ریت سفید کیسے ہوتی ہے۔” صفحے پر شبنم گر رہی تھی اور قلم اس صفحے کا درد لادے رو رہا تھا۔
٭…٭…٭
”آئرہ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی۔” نور نے رکشے میں اپنے ساتھ سوار آئرہ سے کہا۔
”تمہیں کبھی کچھ سمجھ آتا بھی ہے؟” آئرہ نے نور کو چھیڑتے ہوئے پوچھا۔
”باقی سب کا تو نہیں پتا لیکن تم مجھے بالکل سمجھ نہیں آتیں۔” آس پاس سے آتا دھواں اس کے چہرے کو چھو رہا تھا۔
”اچھا ؟ کیا سمجھ نہیں آتا؟”اس نے ہنستے ہوئے پو چھا۔
”یہی کہ تم جیسی میچور لڑکی، جو ظاہری خوب صورتی کو کسی کھاتے میں ہی نہیں لاتی، وہ ایک ڈرما ٹو لو جسٹ بننا چاہتی ہے؟ مطلب تم کارڈیک سر جن بن سکتی ہو، نیو رو لوجسٹ بن سکتی ہو اور بھی پتا نہیں کیا کیا بن سکتی ہو، لیکن ڈرما ٹولوجسٹ ہی کیوں؟” آئرہ کے چہرے پر کئی رنگ آئے اور گزر گئے ۔
”دیکھو! نور یہ سب صرف میں اور تم سمجھتے ہیں کہ ظاہری خوب صورتی سے کچھ نہیں ہوتا لیکن یہ جو دنیا ہے نا وہ صرف ہم پر ہی ختم نہیں ہو تی۔ اور بھی لوگ ہیں یہاں جو اب بھی اس چیز کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوئے۔” وہ اب سنجیدہ تھی۔
”ہمیں تو پھر اس کی awarenessکے لیے کام کرنا چاہیے۔”
” awareness؟ مگر کیسے ؟ مختلف رسالوں میں لکھ کر یا ٹی وی پر نت نئے سیریلز اور طرح طرح کے پروگرامز کر کے ؟ یقین کرو نور کوئی فائدہ نہیں۔ لوگ تمہاری بات سن کر اس سے سہمت بھی ہوں گے اور متا ثر بھی، لیکن دوسرے صفحے پر لگے کسی نئی بیوٹی کریم کے اشتہار کو آنکھیں پھا ڑ پھاڑ کر دیکھیں گے اور اسے آزمانے کا سوچیں گے۔ چاہے اب اس سے چہرہ سدھر جائے یا مزید تین چار دانے ابھر آئیں۔ اور بتائوں ؟ تمہارے ٹی وی پروگرامز بھی سب دیکھیں گے، سراہیں گے بھی، لیکن کسی کم شکل کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ اِس معاشرے میں موجود ہرشخص دوسروں سے آس لگاتا ہے مگر خود اپنی اصلاح کا نہیں سو چتا ۔ اِن سب سے اچھا ہے ان لو گوں کو اِس اذیت سے ہی بچایا جائے جو ہماری سوسائٹی کے طعنوں سے ڈپریشن اور احساسِ کم تری کا شکار ہو رہے ہیں۔” نور آئرہ کی ان باتوں پر اب کوئی سوال نہ اٹھا سکی اور اسے دیکھتی رہی۔
٭…٭…٭