کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

صبح دیر سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔ اس وقت دس بجے تھے اور پاؤں کو دیکھتے ہی ایک اطمینان کا سانس اس نے لیا تھا۔ جو دھبے رات کو اس کے پاؤں پر نظر آئے تھے اب وہ کہیں بھی نہیں تھے۔ یہ دیکھ کر تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی کہ وہ پاؤں پر وزن ڈال کر کھڑا ہونے کے قابل ہو گیا تھا۔ ورنہ پہلے وہ صرف پاؤں کو زمین پر ہلکا سا ٹکا کر ہی کھڑا ہو سکتا تھا۔ تکلیف سے چھٹکارا پا کر اسے یقینا خوشی ہو رہی تھی لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ درد سے نجات دلانے میں کس کا ہاتھ تھا… پانی کا یا میڈیسنز کا۔ رات کو پانی پینے کے باوجود بھی اسے یہ یقین نہیں ہو رہا تھا کہ واقعی اس پانی کو پینے سے ہی اسے درد سے نجات حاصل ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ آئی تھی اور اس نے پاؤں کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہہ دیا۔
”بہت حد تک ٹھیک ہے بٹ ٹو بی ویری فرینک مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کے دئیے ہوئے پانی کا کمال ہے یا پھر ڈاکٹر کی میڈیسنز کا۔”
”اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ آپ میڈیسن لینا چھوڑ دیں آپ کو خود ہی پتا چل جائے گا کہ یہ پانی کا اثر ہے یا میڈیسن کا…” وہ اس کی بات پر مسکرانے لگا۔
”اچھا چلو یہ بھی کرکے دیکھ لیتا ہوں” پھر اس نے اگلے دو دن میڈیسن نہیں لی اور صرف پانی ہی پیتا رہا اور نتیجہ حیران کن تھا۔ چوتھے دن اس کا پاؤں بالکل ٹھیک ہو چکا تھا۔ اب اسے چلنے پھرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوتا تھا اور زخم کو صرف دبانے پر ہی اس میں ہلکا سا درد محسوس ہوتا تھا ورنہ پاؤں بالکل ٹھیک تھا۔ لیکن بہر حال اسے یہ یقین اب بھی نہیں آیا تھا کہ وہ صرف پانی کی وجہ سے صحت مند ہو گیا ہے۔ اسے لگتا تھا کہ شروع میں اس نے جو میڈیسن لی تھی شاید یہ سب اس کا اثر ہے لیکن بہر حال یہ بات اس نے مریم کے سامنے نہیں کی اور اس کے سامنے یہی ظاہر کیا کہ جیسے اسے بھی اس پانی کی کرامت پر یقین آگیا تھا۔ پاؤں ٹھیک ہوتے ہی وہ پھر اپنی سرگرمیوں کی طرف لوٹ آیا تھا۔
ہفتہ کا دن تھا اور رات کو سونے کے لئے لیٹتے ہوئے اس کو اچھی طرح یاد تھا کہ صبح اتوار ہے اور وہ جلدی آئے گی اس لئے اس نے آفس دیر سے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ صبح جب وہ آئی تھی تو بہت خوش نظر آرہی تھی۔ اس نے حسب معمول اسے چائے کافی کی آفر کی تھی اور حسب معمول مریم نے آفر ٹھکرا دی تھی۔ جب وہ سیپارہ واپس کرنے آئی تو وہ لاؤنج میں ٹی وی آن کئے بیٹھا تھا۔ سیپارہ اندر رکھ کر وہ واپس آئی تھی اور اس نے کہا تھا۔
”میں نے آپ کو بہت ڈسٹرب کیا لیکن بس آج آخری دن تھا… کل ہم لوگ واپس چلے جائیں گے۔”
اس کے چہرے کی مسکراہٹ ختم ہو گئی تھی۔





”آپ لوگ کل جارہے ہیں…؟” اس کے سوال پر اس نے اثبات میں سرہلایا۔
”کیا آپ مجھے اپنا فون نمبر یا ایڈریس دیں گی” وہ اس کی بات پر حیران ہو گئی تھی۔
”وہ کیوں…؟” وہ اس کی بات کا مناسب جواب نہیں دے پایا بس کندھے اچکاتے ہوئے اس نے کہا:
”نہیں ایسے ہی۔”
”میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔” اسے بڑی سختی سے جواب دیا گیا تھا وہ بس اس کا منہ دیکھ کر رہ گیا۔
”اچھا ایک منٹ ٹھہر جائیں” وہ یہ کہہ کر تیزی سے اندر چلا گیا اور وہ حیرانگی سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔ پھر جتنی تیزی سے وہ اوپر گیا تھا اتنی ہی تیزی سے واپس آگیا۔
”یہ آپ کے لئے ہے” اس نے ایک پیکٹ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ وہ بوکھلا کر پیچھے ہٹ گئی۔
”کیوں؟”
”اس لئے کہ آپ نے میرا پاؤں ٹھیک کیا تھا اور اس لئے بھی کہ میں آپ سے فرینڈ شپ کرنا چاہتا ہوں اور اس لئے بھی کہ مجھے آپ اچھی لگی ہیں۔”
وہ اس کے تاثرات سے بے خبر کہتا جارہا تھا اور وہ جیسے غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔ اس نے یک دم پیکٹ اس کے ہاتھ سے کھینچ کر زور سے دیوار پر دے مارا تھا۔
”آپ نے مجھے بہت غلط سمجھا ہے۔ میں تو صرف قرآن پاک لینے کے لئے آپ کے گھر آتی تھی اور آپ…”
وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر غصے میں دروازے کی طرف چل پڑی۔
”مریم آپ بھی مجھے غلط سمجھ رہی ہیں” وہ ایک دم اس کے سامنے آگیا تھا۔
”آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں… یہ تو صرف ایک گڈوِل گفٹ تھا اور کچھ نہیں، بلکہ میں پھر بھی ایکسکیوز کرتا ہوں۔ آپ مجھے غلط نہ سمجھیں۔ بہت عرصے کے بعد کسی نے میرے سامنے اس طرح مذہب پر یقین ظاہر کیا ہے جو نیچرلی مجھے اچھا لگا ورنہ اور کوئی بات نہیں ہے۔”
وہ وضاحتیں پیش کر رہا تھا اور اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ رہا تھا۔ اب اسے افسوس ہو رہا تھا کہ شاید اس نے اس کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ اسے اب یاد آرہا تھا کہ پچھلے پندرہ دن سے وہ اس سے کتنے مہذبانہ انداز میں پیش آتا رہا تھا۔
”مجھے بھی افسوس ہے کہ میں نے آپ کو غلط سمجھا۔ بس مجھے ایسے ہی غصہ آگیا تھا۔ آپ نے تو واقعی ہمیشہ اسی طرح میری عزت اور مدد کی ہے۔”
مریم نے کھلے دل سے اس سے معذرت کی تھی، شرمندگی کے تاثرات اس کے چہرے پر نمایاں تھے۔ وہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔ بڑی عجیب نظروں سے اسے دیکھنے کے بعد اس نے مریم سے کہا۔
”اِٹس آل رائٹ… آئیں میں آپ کو باہر تک چھوڑ آؤں۔” وہ اس کے ساتھ چل پڑی تھی لیکن اب بھی اپنی حرکت پر پشیمان تھا۔ گیٹ کی طرف جاتے ہوئے اچانک وہ اس سے کہنے لگا۔
”ویسے آئندہ کے لئے ایک مفید مشورہ میں آپ کو دیتا ہوں۔ قرآن پاک سے عقیدت اور محبت اچھی چیز ہے لیکن آئندہ کبھی اس طرح اکیلے کسی کے گھر مت جائیں۔” وہ یک دم رک گئی وہ بھی ٹھہر گیا۔
”کیا مطلب…؟” وہ واقعی اس کی بات نہیں سمجھی۔
”ہاں کبھی بھی اکیلے کسی کے گھر مت جائیں اور کسی تنہا مرد کے پاس تو بالکل بھی نہیں چاہے وہ سولہ سال کا بچہ ہو یا سو سال کا بوڑھا۔”
”کیا مطلب…؟” اب کی بار وہ ہکا بکا رہ گئی تھی۔
”میرا مطلب وہی ہے جو آپ سمجھ رہی ہیں۔ آپ اتنے دنوں سے یہاں آرہی ہیں کیا آپ نے میرے علاوہ یہاں کسی کو دیکھا ہے۔”
اس نے بڑی سنجیدگی سے دریافت کیا۔
”ملازم تھے تو سہی۔” مریم نے جیسے خود کو خوش فہمی سے بہلانے کی کوشش کی تھی۔ وہ اس کی بات پر تمسخرانہ انداز میں ہنس دیا۔
”اچھا ملازم تھے مگر کب، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب آپ پہلے دن آئی تھیں تو گیٹ پر واچ مین تک نہیں تھا اور ملازم اپنے کوارٹرز میں تھے۔
”گھر میں کوئی نہیں تھا؟” اس نے بمشکل سوال کیا تھا۔
”نہیں گھر میں کوئی نہیں تھا۔ اتنے دنوں میں کیا آپ نے میرے کسی فیملی ممبر کو دیکھا ہے۔ نہیں دیکھا نا، آپ دیکھ بھی کیسے سکتی ہیں کیونکہ وہ تو یہاں ہیں ہی نہیں… وہ امریکہ گئے ہوئے ہیں۔ صرف فادر یہاں ہوتے ہیں لیکن وہ بھی صبح نو بجے چلے جاتے ہیں اور پھر رات کو واپس آتے ہیں اور پھر کئی دفعہ ایسا ہوا کہ گیٹ پر واچ مین کے علاوہ میرے گھر میں کوئی نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً اس دن جب آپ مجھے وہ پانی وانی بنا کر دے رہی تھیں۔”
وہ اطمینان سے کہتا جارہا تھا اور وہ ہونق بنی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی۔
”پر میں تو صرف چند منٹ کے لئے آتی تھی اور فوراً چلی جاتی تھی۔” اس نے جیسے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی۔
”ہاں آپ جلدی چلی جاتی تھیں لیکن وہ صرف اس لئے کہ میں آپ کو جانے دیتا تھا۔ ورنہ چاہتا تو آپ کا قیام طویل بھی ہو سکتا تھا۔”
”پر میں قرآن پاک لینے آتی تھی۔”
اس کا لہجہ کمزور اور معذرت خواہانہ ہوتا جارہا تھا۔
”اس سے کیا فرق پڑتا تھا کہ آپ کس لئے آتی ہیں۔”
”لیکن آپ تو مسلم ہیں… میں نہیں مانتی کہ آپ میرے ساتھ کوئی بدتمیزی کر سکتے تھے۔”
اب کی بار وہ کھکھلا کر بڑے دلکش انداز میں ہنسا تھا۔
”آپ کیا سوچتی ہیں یہا ں سارے کرائمز نان مسلمز کرتے ہیں؟”
”آپ ایسے تو نہیں لگتے۔”
ایک بار پھر وہ ہنس پڑا تھا۔
”میرے بارے میں آپ کا یہ اندازہ بھی غلط ہے۔ اگر آپ مجھے جانتیں تو یہاں آنے سے پہلے کم از کم ایک ہزار بار ضرور سوچتیں اور اکیلے آتے ہوئے تو شاید لاکھ بار” وہ اس کی متغیر ہوتی ہوئی رنگت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”آپ نے تو اتنے دنوں سے میرا نام تک پوچھنا گوارا نہیں کیا۔ کسی مہذب آدمی کو بھڑکانے کے لئے تو اتنی بے رخی ہی کافی ہوتی ہے پھر آج بھی آپ نے بڑا کارنامہ کیا۔ میرا گفٹ اٹھا کر پھینک دیا۔ کمال کیا۔ لیکن آپ دیکھ لیں واچ مین آج بھی گیٹ پر نہیں ہے اور اکثر اس وقت نہیں ہوتا۔ آپ نے جارحیت اس جگہ دکھائی تھی جہاں صرف میں تھا اور کوئی نہیں۔ آپ خود سوچیں اگر مجھے آپ کی اس حرکت پر غصہ آجاتا تو کیا ہوتا۔”
وہ اس کی بات پر پیروں کی طرف دیکھتے ہوئے ہونٹ کاٹنے لگی تھی۔ وہ جان گیا کہ اب اگر اس نے کچھ اور کہا تو وہ شاید پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دے گی۔
”آئیں اب میں آپ کو گیٹ تک چھوڑ آؤں۔”
وہ سر جھکائے اس کے ساتھ چلنے لگی۔
”ویسے آپ کس کلاس کو پڑھاتی ہیں۔”
چلتے چلے اس نے اس سے پوچھا۔
”ون کو۔” اس نے اتنی ہلکی آواز میں جواب دیا کہ وہ بمشکل سن پایا۔
”آپ کو پڑھانا بھی اسی کلاس کو چاہئے۔ ویسے جو کچھ ابھی میں نے آپ سے کہا ہے وہ اپنے سٹوڈنٹس کو ضرور سکھانا۔” وہ اس کے طنز کو سمجھنے کے باوجود بھی چپ ہی رہی۔ گیٹ کی چین اتارتے ہوئے اس نے کہا۔
”اگر آپ نہ رونے کا وعدہ کریں تو ایک بات اور بتاتا ہوں۔” وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”آپ پہلے دن یہاں آئی تھیں اس دن…” وہ بولتے ہوئے یک دم رک گیا پھر دھیمی آواز میں اس نے کہا۔
”اس دن میں ڈرنک کر رہا تھا” مریم کا رنگ فق ہو گیا تھا۔
”اور جس دن آپ مجھے وہ پانی کی ترکیب بتا رہی تھیں اس دن آپ کے آنے سے پہلے میں ڈرنک کر رہا تھا اور میں نے آپ کے بارے میں وہی سوچا تھا جو کوئی مرد کسی عورت کے بارے میں سوچ سکتا ہے اور آج آپ نے کتنی آسانی سے میری ایکسکیوز کو مان لیا حالانکہ میں نے وہ گفٹ آپ کو اسی نیت سے دیا تھا جو آپ پہلے سمجھی ہیں اور آپ پتا نہیں اسٹوپڈ ہیں یا کیا ہیں کہ ان میں سے کچھ بھی جان نہیں پائیں تو پھر خود کو اتنے رسک میں کیوں ڈالتی ہیں۔ یار عقل کی ضرورت ہوتی ہے جب دوسرے لوگوں سے ملنا ہوتا ہے کہ ان کے بارے میں کچھ جان پائیں۔ آپ تو شاید…”
وہ اس کی آنکھوں میں ابھرنے والی نمی دیکھ کر یک دم چپ ہو گیا۔ اسے پہلی بار اپنے تجزئیے کی بے رحمی کا احساس ہوا تھا But inspite of everything I must admit کہ آپ مجھے بہت اچھی لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں کوئی بد تمیزی نہیں کر سکا۔ شاید میں…”
وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔ آنسوؤں سے بھیگے ہوئے چہرے کے ساتھ اس نے سر اٹھا کر آخری بار اسے دیکھا جو بہت گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ کچھ کہے بغیر گیٹ کراس کر گئی تھی۔
ایک ہفتہ کے بعد اسے اسکول کے ایڈرس پر ایک پارسل ملا تھا۔ اسے بہت حیرت ہوئی تھی کہ اسے اسکول کے ایڈریس پر پارسل کون بھیج سکتا ہے۔ پارسل کھولتے ہی کرسنچن ڈی اور کی ایک بہت خوبصورت اور قیمتی گھڑی نے اسے چونکا دیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اتنا قیمتی تحفہ اسے کون بھیج سکتا تھا۔ بڑے تجسس سے اس نے پیکٹ میں سے نکلنے والے کارڈ کو کھولا تھا۔ کارڈ پر تحریر لفظوں نے اسے چونکا دیا۔
An ordinary gift for an extraordinary girl who restored my faith in God and the chastity of woman.
Your humble admirer
Walid Haider
چند لمحوں کے لئے اس کا سانس جیسے حلق میں اٹک گیا۔ وہ جان گئی تھی کہ وہ کس کا بھیجا ہوا تحفہ تھا۔ لیکن پھر وہ اس تحریر کو دوبارہ پڑھنے لگی۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ اس نے وہ کام کیسے کیا ہے جس کا وہ ذکر کر رہا تھا۔ ہاں البتہ اس نے اسے ضرور کچھ سکھایا جسے وہ باقی ساری زندگی فراموش نہیں کر سکتی تھی۔
”کبھی کسی مرد کے پاس اکیلے مت جانا چاہے وہ سولہ سال کا بچہ ہو یا سو سال کا بوڑھا۔”
اس نے کیس میں سے گھڑی نکال لی۔
”آپ مجھے بہت اچھی لگی ہیں اس لئے میں آپ سے کوئی بدتمیزی نہیں کر سکا شاید میں آپ سے…” کوئی کہہ رہا تھا۔ گھڑی کو گال سے چھوتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

…****…




Loading

Read Previous

میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

Read Next

بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Why alwaysi m unable to read whole story

  • Just waoh!
    I love the lesson and the story.
    But still I must say that you should post it in .a proper PDF
    With some effort,

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!