کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

اگلے دن وہ تین بجے آئی تھی۔ آج پھر اسے نیند سے اُٹھ کر دروازے پر آنا پڑا۔ اگرچہ اسے گیٹ نہیں کھولنا پڑا تھا لیکن لاؤنج کا دروازہ اس نے ہی کھولا تھا کیونکہ ملازم اس وقت سرونٹ کوارٹر میں موجود تھا اور وہ اپنے کمرے میں جانے سے پہلے ڈور لاک کر گیا تھا۔ ملازم کو اس نے کہا تھا کہ شام تک اسے ڈسٹرب نہ کرے۔
کچی نیند سے جاگتے ہی اس کے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا تھا کہ شاید ملازم کسی کام سے دوبارہ آیا ہے۔ اسی لئے وہ شرٹ کے بٹن بند کیے بغیر ہی نیچے آگیا۔ لیکن اب دروازہ کھولنے پر اس لڑکی کو دیکھ کر نہ صرف اس کا غصہ بھاپ بن کر اڑ گیا تھا بلکہ اسے بے تحاشا شرمندگی بھی ہوئی تھی۔ اس لڑکی نے اسے دیکھتے ہی نظریں جھکالی تھیں۔
”اوہ آپ ہیں… اندر آجائیں۔ دراصل میں سو رہا تھا۔” اس نے تیزی سے اپنی شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے جیسے اپنے حلیے کی وضاحت کی تھی۔
”کل تو آپ ساڑھے گیارہ بجے آئی تھیں” اس نے پوچھا تھا۔ ”ہاں کل سنڈے تھا اس لئے ہمیں جلدی فری کر دیا گیا تھا۔ باقی دنوں میں ہمیں سات سے تین بجے تک کام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن شاید میں ٹھیک وقت پر نہیں آئی۔”
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں اگر آپ نہیں بھی آتیں تب بھی مجھے کچھ دیر بعد اٹھنا ہی تھا کیونکہ مجھے فیکٹری جانا تھا۔ سو مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔”
اس نے اس لڑکی کی شرمندگی دور کرنے کے لئے جھوٹ بولا۔
”آپ چاہیں تو کل بھی اسی وقت آجائیں کیونکہ صبح تو میں فیکٹری ہوتا ہوں کل تو میں سنگاپور سے آیا تھا اس لئے فیکٹری جانے کی بجائے سو گیا تھا۔”
وہ دادی کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اسے تفصیل بتانے لگا۔ اس نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔ سیپارہ لینے کے بعد جب وہ کمرے نکلی تو اس نے پوچھا۔
”آپ کچھ پینا پسند کریں گی۔”
”نو تھینک یو… بس مجھے یہی چاہئے تھا۔”





اس لڑکی نے ایک فقرے میں اپنی بات مکمل کی اور دروازے سے باہر نکل گئی۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ دوبارہ آئی تھی اور اس نے دادی کے کمرے میں جاکر سیپارہ رکھ دیا تھا۔ وہ لاؤنج میں بیٹھ کر ہی اس کا انتظار کرتا رہا تھا اور اس کے واپس جانے کے بعد دوبارہ اپنے کمرے میں جاکر سو گیا تھا۔
پھر یہ جیسے روز مرہ کا معمول بن گیا تھا۔ وہ آتی سیپارہ لیتی وہ اسے چائے کافی کی آفر کرتا، وہ انکار کرتی اور چلی جاتی۔ پھر کچھ دیر بعد واپس آکر سیپارہ اپنی جگہ پر رکھ دیتی۔ ان دونوں کے درمیان اس سے زیادہ کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔ لیکن پتا نہیں کیو ں اسے وہ لڑکی اچھی لگی تھی۔
ایسا بالکل نہیں تھا کہ وہ پہلی لڑکی تھی جو اسے اچھی لگی ہو۔ اس کی زندگی میں بہت سی لڑکیاں آتی رہی تھیں۔ امریکا جانے سے پہلے بھی اس کی بہت سی گرل فرینڈز رہی تھیں لیکن ان کی دوستی نے کبھی جائز حدود کو کراس نہیں کیا تھا۔ لیکن باہر جا کر ہر دوستی آخری حد پار کرتی رہی تھی اور یہ سب اس کے لئے ایک معمول کی بات بن چکا تھا کیونکہ جس طبقے سے وہ تعلق رکھتا تھا۔ وہاں ان سب باتوں کو غیر معمولی نہیں سمجھا جاتا تھا، یہ ایک عام سی بات تھی۔ پھر اس کے والدین کی طرف سے بھی اس پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی اور فطری طور پر بھی وہ لڑکیوں کی کمپنی پسند کرتا تھا۔ اس میں ایک خاص قسم کی روڈنیس تھی جس نے اس کی اپیل کو بہت بڑھا دیا تھا۔
خوبصورت تو وہ تھا ہی لیکن اپنی خوبصورتی کو استعمال کرنا بھی اچھی طرح سے جانتا تھا۔ امریکہ میں بہت سی لڑکیوں کے ساتھ اس کے تعلقات رہے تھے۔ جینیفر تو دو سال تک اسی کے فلیٹ میں رہی تھی اور اس کی فیملی یہ سب جانتی بھی تھی لیکن انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ وہ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور واحد نرینہ اولاد ہونے کی وجہ سے اسے ہمیشہ ہی بہت اہمیت دی گئی تھی اور اسی لئے وہ بے حد خود سر اور اکھڑ ہو گیا تھا۔ وہ گھر میں کسی سے خاص لگاؤ نہیں رکھتا تھا سوائے اپنے باپ کے… لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کسی کی عزت ہی نہ کرتا ہو۔ وہ اپنی ماں اور بہنوں سے ہمیشہ دھیمے لہجے میں ہی بات کرتا تھا۔ یہ اور بات تھی کہ اگر کہیں ان کی کوئی غلطی یا خامی نظر آتی تو وہ صاف صاف کہہ دیا کرتا تھا۔ اسے بناوٹ پسند نہیں تھی نہ اپنے گھر والوں کی نہ دوسروں کی… سنجیدگی اس کے مزاج کا خاصہ بن چکی تھی اور زندگی کے بارے میں وہ اپنے الگ اور واضح نظریات رکھتا تھا جو قدامت پرست لوگوں کے لئے کافی قابل اعتراض ہو سکتے تھے۔ لیکن بہر حال اس کے طبقے کے لئے نئے نہیں تھے۔
پاکستان واپس آنے کے بعد بھی لڑکیوں میں اس کی دلچسپی ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہاں بھی لڑکیوں کے ساتھ اس کی دوستی تھی اور بعض لڑکیوں کے ساتھ یہ دوستی تمام جائز حدود پار کر چکی تھی۔ اسے پاکستان واپس آنے کے بعد امریکہ اور یہاں کے ماحول میں کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا تھا۔ بس یہ تھا کہ جو کام وہاں کھلے عام کر سکتا تھا یہاں وہی کام کچھ احتیاط سے کرنا پڑتا تھا۔ لڑکیوں کے ساتھ ایسے تعلقات رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورت کی عزت اس کے دل سے یکسر ختم ہو گئی۔ اپنی کلاس کی لڑکیوں کو تو وہ بالکل قابل احترام نہیں سمجھتا تھا اور باقی لڑکیوں کے لئے بھی اس کے خیالات زیادہ مختلف نہیں تھے اور بد قسمتی سے جس لڑکی سے بھی اس کا ٹکراؤ ہوا اس نے اس کے ان خیالات کو اور مضبوط کیا تھا۔
جب مریم پہلی بار اس کے سامنے آئی تھی تو اس نے اس لئے کوئی کشش محسوس نہیں کی تھی کیونکہ وہ زیادہ خوبصورت نہیں تھی اور نہ ہی وہ عام طور پر لڑکیوں کی طرح سجی سنوری ہوئی تھی۔ لیکن پھر اس سے چند حرکتیں ایسی سرزد ہوئی تھیں کہ وہ اس میں عجیب سی کشش محسوس کرنے لگا تھا۔ اس کا دل چاہنے لگا تھا کہ وہ اسے اس چادر سے باہر بھی دیکھے جو وہ اپنے ارد گرد لپیٹے رکھتی تھی۔ ایک عجیب سا انس اسے مریم سے ہو گیا تھا لیکن بہر حال یہ محبت نہیں تھی۔
پھر ایک دن وہ نہیں آئی۔ وہ شام تک لاشعور طور پر اس کا انتظار کرتا رہا۔ ایک عجیب سی بے چینی اسے لاحق ہو گئی تھی۔ اسی بے چینی میں وہ ساتھ والی عمارت کے سامنے ایک چکر بھی لگا آیا جہاں وہ مقیم تھی اور جہاں اس وقت مکمل سکوت تھا۔
شام کو وہ حسب معمول جاگنگ کے لئے ماڈل ٹاؤن پارک چلا آیا۔ جاگنگ ٹریک پر دوسرے چکر میں اس نے کچھ دور گھاس پر بیٹھی جس لڑکی کو دیکھا تھا وہ مریم ہی تھی۔ اس کے ساتھ چند لڑکیاں اور بھی تھیں اور وہ سب کچھ کھانے میں مشغول تھیں۔ اپنے ساتھ جاگنگ کرتی سارہ کا ساتھ اسے ایک دم زہر لگنے لگا تھا اور وہ اس سے پیچھا چھڑانے کا سوچنے لگا۔ ٹریک کا دوسرا چکر لگاتے ہی اس نے سارہ سے معذرت کرلی تھی کہ اب وہ اکیلا بھاگنا چاہتا ہے اور وہ اس کے اس اچانک بدلے ہوئے رویے پر ہکا بکا رہ گئی تھی۔
تیسرے چکر میں وہ بھاگتے ہوئے جگہ کی طرف آگیا تھا جہاں اس نے مریم کو کچھ دیر پہلے بیٹھے ہوئے دیکھا تھا یہ دیکھ کر اس نے سکون کی سانس لی کہ وہ وہیں بیٹھی ہوئی تھی بلکہ اب اس کے پاس وہ لڑکیاں بھی نہیں تھیں۔ وہ ٹریک چھوڑ کر اس کی طرف چلا آیا۔
قدموں کی آہٹ پر مریم نے اس کی طرف دیکھا تھا اور شناسائی کی چمک اس کی آنکھوں میں لہرائی، پاپ کارن کھاتے ہوئے اس نے اپنی چادر کو ٹھیک کیا تھا۔
”ہیلو آج آپ کیوں نہیں آئیں” اس نے چھوٹتے ہی پوچھا تھا۔
”میں آئی تھی لیکن آپ اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ آج سنڈے تھا نا اس لئے میں صبح دس گیارہ بجے آپ کے گھر گئی تھی اس وقت ملازم وہاں پر تھا” اس نے وضاحت کی اور اس نے بے اختیار اپنا نچلا ہونٹ بھینچا تھا۔ چند لمحوں تک دونوں کے درمیان مزید کوئی بات چیت نہیں ہوئی لیکن پھر اس نے دوبارہ گفتگو کا سلسلہ جوڑنے کی کوشش کی تھی۔
”کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟”
اس کے چہرے کا اضطراب اس کی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکا۔ اس نے نظریں جھکا کر جھجکتے ہوئے کہا۔
”دیکھیں میں یہاں اپنے سکول کی ٹیچرز کے ساتھ آئی ہوں اور وہ کسی کام سے گئی ہیں بس چند لمحے تک آہی جائیں گی۔ اگر آپ یہاں بیٹھیں گے تو یہ مناسب نہیں ہو گا۔”
وہ اس کی بات پر چپ سا ہو گیا تھا۔
”آپ نے مائنڈ تو نہیں کیا”مریم نے اس کی خاموشی پر سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
”اوہ نو کوئی بات نہیں میں دراصل آپ سے یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ آپ اور کب تک یہاں ہیں۔ میرا مطلب ہے لاہور میں…؟”
”بس ایک ہفتہ اور”
”اوکے تھینک Have a nice time”
وہ کہتا ہوا دوبارہ جاگنگ ٹریک کی طرف مڑ گیا تھا۔ وہ اسے جاتا دیکھتی رہی۔ بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھا۔ اب وہ جاگنگ ٹریک پر بھاگنے لگا تھا۔ وہ غیر ارادی طور پراسے دور جاتے دیکھتی رہی۔ ہاف بازوؤں والی سفیدٹی شرٹ اور بلیک ٹراؤزر میں کھلے گریبان کے ساتھ وہ بہت دلکش لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اس کے لئے رشک تھا۔
اس شام ٹریک پر بھاگتے ہوئے اس کی سوچ کا محور وہ لڑکی ہی رہی تھی۔ وہ اسے سمجھ نہیں پایا تھا اور اسے یہ بھی پتا نہیں چل رہا تھا کہ کیا اس کی کشش میں کچھ کمی آگئی تھی کہ وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے میں یوں ناکام ہو گیا تھا۔ اسے کبھی بھی لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کوشش نہیں کرنی پڑی تھی۔ لیکن پہلی دفعہ اس کے سامنے ایک ایسی لڑکی آگئی تھی جسے وہ لاشعوری اور غیر ارادی طور پر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اگلے دن وہ پھر سہ پہر کو ہی آئی تھی۔ وہ بمشکل سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دروازہ کھولنے آیا تھا۔ دروازہ کھول کر اس نے اسے راستہ دیا اور خود لاؤنج کی ایک چیئر کھینچ کر وہیں بیٹھ گیا۔ اس دن وہ پہلے کی طرح اس کے ساتھ دادی کے کمرے میں نہیں گیا تھا۔ اسے پاؤں میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا۔ آنکھیں بند کئے کرسی پر جھولتے ہوئے اس نے اچانک مریم کی آواز سنی تھی۔
”ارے آپ کے پاؤں کو کیا ہو گیا” اس نے واپسی پر اس کے پاؤں پر بندھی ہوئی پٹی پر نظر پڑتے ہی پوچھا تھا۔ اس نے اس کی آواز پر آنکھیں کھول دیں۔ مریم نے اب غور سے اس کا چہرہ دیکھا تھا جو بہت زرد تھا شاید اسے بخار بھی تھا۔
”Nothing serious بلا وجہ ہی کل رات کو میں لان میں پھر رہا تھا کسی Insect (کیڑے) نے کاٹ لیا۔”
وہ بے اختیار اس کے قریب چلی آئی… پر تاسف نظروں سے اس کے پاؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے کہا۔
”پاؤں سوج گیا ہے نا…؟”
”ہاں کافی زیادہ… میں ایسے رد عمل کی توقع نہیں کر رہا تھا پھر اوپر سے بخار بھی ہو گیا ہے۔” وہ واقعی کافی تکلیف میں اور تھکا ہوا تھا۔
”میں آپ کو کچھ لکھ کر دیتی ہوں آپ اسے پانی میں ڈال کر اس وقت تک پانی پیتے رہیں جب تک کہ پاؤں ٹھیک نہیں ہو جاتا۔”
”What؟”
وہ اس کی پیشکش پر بری طرح حیران ہوا تھا۔
”آپ ایسا کیا لکھیں گی جسے پی کر میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔”
”آپ گھبرائیں نہیں میں آپ کو قرآنی آیات لکھ کر دوں گی اس کاغذ کو پانی میں بھگو کر پینے سے آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ بھی ایک طریقہ علاج ہے۔”
مریم نے جیسے اس کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس نے بڑی غیر دلچسپی سے اس کی بات سنی اور بڑی بے رخی سے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
”تھینک یو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں ڈاکٹر سے بینڈیج کروا چکا ہوں اور کچھ میڈیسن بھی لی ہے امید ہے شام تک ٹھیک ہو جاؤں گا۔ ویسے بھی میں اس قسم کی چیزوں پر Believe نہیں کرتا۔”
اس کے لہجے میں وہی فطری اکھڑ پن تھا لیکن اس نے برا مانے بغیر کہا:
”پتا ہے پچھلے سال میرے ہاتھ پر بھی کسی کیڑے نے کاٹ لیا تھا” اس نے اپنی کلائی اس کے آگے کی تھی جس پر ایک مدھم سا نشان تھا۔
”میرا تو پورا بازو کہنی تک سوج گیا تھا اور ٹھیک ہونے کو ہی نہیں آرہا تھا۔ میں نے بھی بہت سے ڈاکٹرز کو دکھایا تھا۔ پھر کسی نے مجھے کچھ آیات لکھ کر دی تھیں اور وہی پانی پی کر ٹھیک ہو گئی تھی۔ بعد میں تو مجھے کسی میڈیسن کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔”




Loading

Read Previous

میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

Read Next

بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Why alwaysi m unable to read whole story

  • Just waoh!
    I love the lesson and the story.
    But still I must say that you should post it in .a proper PDF
    With some effort,

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!