کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

وہ بڑے رسان سے اسے بتا رہی تھی اور وہ اتنا اکتایا ہوا بیٹھا تھا۔ اس لئے فوراً بول اٹھا۔
”آپ نے کسی کوالیفائیڈ ڈاکٹر کو نہیں دکھایا ہو گا اسی لئے ٹھیک ہونے میں اتنی دیر لگی۔” ایک لمحہ کے لئے وہ چپ رہی تھی اور پھر اس کے چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں ہو گئے تھے۔
”جی نہیں… میں نے کوالفائیڈ ڈاکٹروں کو ہی دکھایا تھا۔ دنیا میں یہ سہولت صرف آپ ہی کو میسر نہیں ہے اور بھی بہت سے لوگ ہیں۔” یک دم وہ اسی پرانے تکلف کے ماحول میں سمٹ گئی تھی۔ مزید کچھ کہے بغیر اس نے بیرونی دروازے کی طرف قدم بڑھا دیا اور اسے عجیب سا پچھتاوا ہوا تھا۔ اس کی خفگی اسے بے حد عجیب اور بے حد اچھی لگی تھی۔
”آپ تو ناراض ہو گئیں… میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا۔ بہت سے ڈاکٹرز ٹھیک طرح سے ایسی چیزوں کو ٹریٹ نہیں کرپاتے You know یہ کوئی اتنی کامن چیز نہیں ہے۔”
مریم نے چند لمحوں کے لئے رک رک اسے دیکھا اور پھر دروازے کی طرف قدم بڑھا دئیے۔ صاف لگ رہا تھا کہ اس نے اس کی وضاحت تسلیم نہیں کی تھی۔
”دیکھیں آپ کیا مجھے وہ Verses (آیات) لکھ کر نہیں دیں گی” اس بار وہ بے اختیار رک گئی تھی اور اس کی طرف مڑکر اس نے پوچھا:
”لیکن آپ تو ایسی چیزوں پر یقین ہی نہیں کرتے۔”
”ہاں کرتا تو نہیں But let’s try ہو سکتا ہے آپ ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ آخر آپ نے اسے پرسنلی آزمایا ہے۔”
اس نے یہ بات صرف اسے خوش کرنے کے لئے کہی تھی ورنہ وہ مکمل طور پر غیر سنجیدہ تھا اور حسب توقع وہ خوش ہو گئی تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے میں لکھ دیتی ہوں… میں اس سیپارے کو کہاں رکھوں؟”
اس نے بک شیلف کی طرف اشارہ کیا۔
”اسے وہاں رکھ دو۔”
”پیپر اور پین کہاں ملے گا؟” یہ اس کا اگلا سوال تھا۔
”فون کے پاس جو کٹ ہے اس میں دیکھ لو۔” اس نے اسی طرح چیئر پر بیٹھے بیٹھے ہدایات دیں۔ وہ وہاں سے پیپر اور پین لے کر اس کے پاس چلی گئی اور لاؤنج کے ٹیبل کے قریب کارپٹ پر بیٹھ گئی۔
”آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں، وہاں صوفہ پر بیٹھ جائیں۔” اس نے مریم کو کارپٹ پر بیٹھتے دیکھ کر کہا۔ اب اسے اس ساری مصروفیات میں دلچسپی محسوس ہو رہی تھی۔
”نہیں… میں یہاں ٹھیک ہوں” اس نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دے کر ڈائری ٹیبل پر رکھ دی اور اور پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ایک ہاتھ ڈائری پر جمائے اور ٹیبل پر جھک کر بڑی احتیاط سے کچھ لکھنے لگی۔ اسے یہ پوز بہت دلچسپ لگا تھا۔ اس وقت وہ ایک ایسے سٹوڈنٹ کی طرح لگ رہی تھی جو سالانہ امتحان میں پرچہ سوالات دیکھ کر بڑی سنجیدگی سے اسے حل کرنے کی فکر میں ہوتا ہے۔ وہ لکھنے کے ساتھ کچھ پڑھ بھی رہی تھی اور وہ بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ چند منٹ پہلے کا ناقابل برداشت درد اب جیسے ختم ہو گیا تھا۔ پھر اچانک اس نے اس کی خاموشی توڑنے کے لئے پوچھا۔
”آپ لکھ کیا رہی ہیں…” جواب میں اسنے سر اٹھا کر اسی طرح منہ میں کچھ پڑھتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا اور دوبارہ کاغذ کی طرف متوجہ ہو گئی۔ وہ جیسے دھک سے رہ گیا تھا۔ اس کے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔ کچھ عجیب سی بات تھی اس لڑکی میں جسے وہ سمجھ نہیں پایا تھا۔ اسے اس وقت وہ بہت عجیب سی چیز لگی تھی۔ بے اختیار کا اس دل چاہا تھا کہ وہ ہمیشہ یونہی اس کے سامنے رہے۔ ایسا کب ہوا تھا کہ اس نے کسی کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کی ہو۔ ایسا کب ہوا تھا کہ اس نے کسی سے اتنی نرمی برتی ہو۔ لیکن اس وقت وہ بے اختیار یہ سب کر رہا تھا۔ شاید وہ وقت ہی کچھ انہونیوں کا تھا۔
چند منٹوں کے بعد اس نے اپنا کام ختم کردیا۔ پھر کاغذ پر پھونک مارتے ہوئے اسے تہ کرنے لگی۔ پھر وہ کارپٹ سے اٹھ کر اس کی طرف آئی تھی۔
”آپ وضو کرکے اسے پانی کی بوتل میں ڈال لیں اور جب بھی پیاس لگے وہی پانی پئیں جب پانی ختم ہو جائے تو بوتل میں اور پانی بھر لیں۔”
”دیکھیں میں نے اس وقت وضو نہیں کیا اور نہ ہی مجھے وضو کرنا آتا ہے۔” بڑے اسٹریٹ فارورڈ سے انداز میں اس نے مریم سے کہا تھا۔ اس نے اس کی بات پر کاغذ والا ہاتھ واپس کھینچ لیا تھا۔





”دوسری بات یہ کہ میں یہاں کا پانی نہیں پیتا ہوں کیونکہ وہ مجھے سوٹ نہیں کرتا۔ میں یا تو ڈسٹلڈ واٹر پیتا ہوں یا منرل، اب آپ بتا دیں کہ اسے کون سے پانی میں ڈال کر پیوں۔ بلکہ آپ ایسا کریں کہ کچن میں چلیں وہاں پانی کی باٹلز ہیں آپ خود ہی ان میں ڈال دیں۔”
وہ اٹھتے ہوئے بولا تھا۔ مریم خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ آہستہ آہستہ لنگڑاتے ہوئے وہ اسے کچن میں لے آیا۔ وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چل رہی تھی۔ کچن کی لائٹ جلا کر اس نے ریفریجریٹر کھولا اور اس میں سے منرل واٹر کی ایک بوتل نکال کر اس کی طرف بڑھادی۔ مریم نے بوتل لے کر اس کی سیل توڑی اور اسے کھول کر وہ کاغذ اس میں ڈال دیا پھر بوتل بند کرکے ایک دفعہ اسے ہلایا اور واپس اس کی طرف بڑھادی۔ وہ اتنی دیر میں ریفریجریٹر سے جوس کے دو پیک برآمد کر چکا تھا۔
”آپ نے میرے لئے اتنا وقت ضائع کیا ہے تو پلیز تھوڑی دیر اور بیٹھ جائیں اور جوس پی کر جائیں۔”
”نہیں تھینک یو مجھے اب جانا ہے بہت دیر ہو گئی ہے۔” اس نے کچن سے قدم باہر بڑھا دئیے۔ وہ بھی اس کے پیچھے باہر نکل آیا۔ بوتل کو کھول کر وہ پانی کے چند گھونٹ لے رہا تھا جب اس کے آگے آگے چلتی ہوئی مریم کچھ کہنے کے لئے مڑی تھی اور اسے یوں پانی پیتے دیکھ کر ناگواری کی ایک لہر سی اس کے چہرے پر نمودار ہوئی تھی۔
”اس کو اس طرح تو نہیں پیتے” کافی خفگی سے اسے ٹوکا گیا۔ وہ بوتل بند کرتے کرے رک گیا۔
”تو کیسے پیتے ہیں؟” چند لمحے اور اس کے سوال پر اسے گھورتی رہی پھر مڑ کر کچن میں چلی گئی وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔ گلاس اسٹینڈ سے اس نے ایک گلاس لیا اور اس کے قریب چلی آئی۔
”یہ باٹل مجھے دیں” اس نے خاموشی سے بوتل اس کی طرف بڑھا دی۔ اس نے ڈائننگ ٹیبل پر گلاس رکھ کر اس میں پانی انڈیلا۔ گلاس کو آدھا بھرنے کے بعد اس نے ایک کرسی کھینچی اور اسے مخاطب کیا۔
”اب آپ یہاں بیٹھ کر بسم اللہ پڑھ کر یہ دعا کریں کہ اللہ مجھے اس تکلیف اور آزمائش سے نجات دے اور پھر یہ پانی تین گھونٹ میں پی لیں۔” وہ اس کے کہنے پر چیئر پر بیٹھ گیا لیکن بسم اللہ نہیں پڑھ سکا۔ وہ شاید سمجھ گئی تھی اس لیے اس نے اسے بسم اللہ پڑھ کر سنائی تھی۔ جھجکتے ہوئے اس نے بھی بسم اللہ پڑھ لی تھی اور اچانک اسے پتا چلا تھا کہ وہ بسم اللہ بھی بھول چکا تھا۔ پھر اسی کے ساتھ ساتھ وہ دعا دہرائی تھی۔
”اب آپ دائیں ہاتھ سے گلاس پکڑ کر آہستہ آہستہ پانی پی لیں۔” وہ اس کے پاس کھڑی اسے انسٹرکشنز دے رہی تھی اور وہ کسی معمول کی طرح ان پر عمل کر رہا تھا۔
”یہ کوئی عام پانی یا مشروب نہیں ہے جسے آپ چلتے پھرتے ایسے ہی پیتے رہیں۔ اسے پینے کے کچھ آداب ہیں… اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ واقعی ٹھیک ہو جائیں تو اسے اس طرح پیا کریں جیسے میں نے بتایا ہے ورنہ آپ کا پاؤں ٹھیک نہیں ہو گا۔”
اس نے جیسے اسے ڈرایا تھا۔ پھر وہ لاؤنج میں چلی آئی اور اپنا سیپارہ لے کر چلی گئی۔ وہ واپس کمرے میں جانے کی بجائے وہیں لاؤنج میں چلا آیا۔ واپس کمرے میں جاتا تو تھوڑی دیر بعد جب وہ سیپارہ واپس کرنے آتی تو اسے دوبارہ نیچے آنا پڑتا اور وہ اس ڈرل کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اسی لئے اس کے انتظار میں وہیں بیٹھ گیا۔
وہ تقریباً ایک گھنٹے بعد واپس آئی تھی اور اسے دیکھتے ہی اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا:
”اب آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟”
”ویل… مجھے تو کوئی فرق محسوس نہیں ہوا… ابھی تک ویسے ہی درد ہے۔”
بڑی صاف گوئی سے اس نے جواب دیا تھا۔
”اچھا…” وہ جیسے بجھ گئی تھی پھر شاید اس نے اس سے زیادہ خود کو تسلی دی تھی۔
”کوئی بات نہیں اتنی جلدی درد ٹھیک نہیں ہو سکتا نا… ابھی تو تھوڑا سا وقت ہی گزرا ہے۔”
پھر وہ سیپارہ اندر رکھ کر واپس چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد اس نے لاؤنج کا دروازہ لاک کیا اور اوپر کے کمرے میں جانے سے پہلے پتا نہیں کیا سوچ کر وہ بوتل بھی اپنے کمرے میں لے آیا تھا۔ بوتل کو روم ریفریجریٹر میں رکھنے کے بعد وہ بیڈ پر لیٹ گیا۔ مریم کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔
دوبارہ جب وہ بیدار ہوا تھا تو اس وقت کافی شام ہو چکی تھی۔ کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ اس نے رسٹ واچ اٹھا کر ٹائم دیکھا شام کے ساڑھے سات بجے تھے اور وہ پچھلے چار گھنٹوں سے بے خبر سو رہا تھا۔ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھتے ہی پہلا خیال اسے پاؤں کا آیا تھا جسے اس نے ہلایا تھا تو درد کی ایک لہر سی محسوس ہوئی تھی۔ لیکن بہر حال اب اسے پہلے کی طرح پاؤں میں مسلسل درد نہیں ہو رہا تھا۔ اسے صرف اس وقت درد محسوس ہوتا جب وہ پاؤں کو تیزی سے حرکت دیتا۔ یہ چیز اس کے لئے کافی خوش آئند تھی۔ ورنہ پچھلی پوری رات پیر کو حرکت نہ دینے کے باوجود وہ درد سے بے قرار تھا اور اسی وجہ سے وہ سلیپنگ پلز لینے کے باوجود بھی ٹھیک طرح سے نہیں سو سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صبح اسے ہلکا ہلکا بخار ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن اس وقت اس بخار کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا۔
اس نے لائٹ آن کی اور اپنے پیر کا معائنہ کرنے لگا۔ اسے ایسا لگا تھاجیسے پاؤں کی سوجن بھی کچھ کم ہو گئی تھی… اور یہ چیز بڑی مسرت آمیز تھی۔ پاؤں پر پلاسٹک بیگ چڑھا کر اس نے باتھ لیا تھا اور بہت پر سکون حالت میں نیچے آگیا۔ ڈیڈی اس وقت گھر آچکے تہے۔ اسے دیکھتے ہی انہوں نے اس سے پاؤں کے بارے میں دریافت کیا تھا اور اس نے انہیں مطمئن کردیا تھا۔ وہ اس وقت اپنے ڈیڈی کے ساتھ ڈنر کر رہا تھا جب ڈاکٹر اسے دیکھنے کے لئے آیا تھا۔ اس کے پاؤں کا معائنہ کرنے کے بعد وہ کافی مطمئن ہو گیا تھا اور اسے ایک انجکشن اور چند مزید میڈیسنز دے کر چلا گیا۔
ڈنر کے بعد وہ کچھ دیر تک باپ کے ساتھ کاروباری معاملات پر گفتگو کرنے کے بعد دوبارہ اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ دادی دوسرے چچا کے پاس رہنے گئی ہوئی تھی اور اس کی ممی اس کی بہنوں کے ساتھ امریکہ اپنے میکے گئی ہوئی تھیں۔ اس لئے گھر میں بالکل سکوت تھا۔ لیکن جب وہ گھر میں موجود ہوتی تھیں تب بھی وہ اپنا زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارنے کی بجائے اپنے کمرے میں گزارنا بہتر سمجھتا تھا۔
اس وقت بھی اس نے کمرے میں آکر ٹی وی آن کر لیا تھا۔ بیڈ پر لیٹنے سے پہلے اس نے جب میڈیسن لینے کے لئے گلاس میں پانی ڈالا تو اسے اس پانی کا خیال آیا تھا لیکن اس نے لاپرواہی سے اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ اسے قطعاً بھی یقین نہیں تھا کہ اسے وقتی طور پر جو آرام آیا ہے اس میں اس پانی کا کوئی ہاتھ ہو سکتا ہے بلکہ اسے یقین تھا کہ یہ ڈاکٹر کے ٹریٹمنٹ کا نتیجہ ہے۔ اب وہ دوپہر کے واقعات کے بارے میں بھی نہیں سوچ رہا تھا۔ اس نے اپنی چند گرل فرینڈز سے فون پر بات کی اور پھر اپنے سب سے کلوز فرینڈ کوکال کرکے اس سے باتیں کرنے لگا۔ کافی دیر اس سے باتیں کرتے رہنے کے بعد وہ مووی چینل پر آنے والی فلم دیکھنے میں مصروف ہو گیا تھا۔
فلم دیکھتے ہوئے اسے ابھی آدھ گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ اچانک اسے اپنے پاؤں میں درد کی لہریں سی اٹھتی محسوس ہوئی تھیں۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور پاؤں کو غور سے دیکھنے لگا جس کی ظاہری حالت میں اسے کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی تھی لیکن درد میں بے حد اضافہ ہو گیا تھا۔ کچھ دیر گزرنے پر درد کی شدت میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ اٹھ کر دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے درد کم کرنے کے لئے ایک پین کلر لی لیکن درد میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا گیا تھا۔ اس نے کچھ دیر بعد ڈاکٹر کو کال کیا اور اس کی انسٹرکشنز کے مطابق اور ٹیبلٹس لیں لیکن نتیجہ اب بھی وہی تھا۔ کل رات کی نسبت آج اسے زیادہ درد محسوس ہو رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اس نے اپنا پاؤں دیکھا اور جیسے دھک سے رہ گیا تھا۔ پاؤں میں کہیں کہیں سرخی مائل نیلے دھبے نظر آرہے تھے۔ اسی بے چینی میں اسے اس پانی کی بوتل کا خیال آیا تھا اور جانے کیا سوچ کر وہ بمشکل پاؤں گھسیٹتا ہوا فریج کے پاس گیا اور اس لڑکی کی ہدایات کے مطابق اس نے پانی نکال کر پی لیا۔ پھر وہ واپس بیڈ پر آکر لیٹ گیا۔ درد ضبط کرتے ہوئے وہ تقریباً آدھ گھنٹہ تک اسی طرح پاؤں کو حرکت دئیے بغیر لیٹا رہا۔ پھر اچانک اسے محسوس ہونے لگا کہ درد کم ہوتا جارہا ہے۔ اس نے ایک بار پھر اٹھ کر اپنے پاؤں کا جائزہ لیا۔ اس پر ابھی بھی دھبے نظر آرہے تھے لیکن اب پہلے کی طرح درد نہیں ہو رہا تھا۔ ایک بار پھر اس نے ریفریجریٹر سے پانی نکال کر پیا اور پھر بیڈ پر سونے کے لئے لیٹ گیا۔ اس بار درد اتنا کم ہو چکا تھا کہ اسے بستر پر لیٹے ہی کچھ دیر بعد نیند آنے لگی۔




Loading

Read Previous

میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

Read Next

بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Why alwaysi m unable to read whole story

  • Just waoh!
    I love the lesson and the story.
    But still I must say that you should post it in .a proper PDF
    With some effort,

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!