کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

ڈور بیل تیسری بار بجی تھی جب اس نے جھنجھلا کر بالآخر اٹھنے کا ارادہ کر ہی لیا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے اس نے رسٹ واچ اٹھا کر ادھ کھلی آنکھوں سے وقت دیکھا صبح کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔
اس نے بیڈ سے اٹھ کر سلیپرز پہنے اور پھر شرٹ پہن لی۔ شرٹ پہنتے ہوئے بیل ایک بار پھر بجی تھی اور وہ بری طرح جھنجھلایا ہوا تھا۔
گیٹ پر جو کوئی بھی تھا وہ بڑے تواتر سے بیل بجا رہا تھا اور کافی مستقل مزاج بھی لگتا تھا۔
واچ مین اس وقت اپنے کوارٹر میں ہوتا تھا اور وہ جانتا تھا کہ دروازہ اسے ہی کھولنا پڑے گا کیونکہ گھر میں اس وقت کوئی نہیں تھا بالوں کو ہاتھوں سے سنوارتے ہوئے وہ اندر سے نکل آیا۔
پورچ سے گیٹ تک کا فاصلہ طے کرنے کے دوران بیل پھر بجی تھی اور اس بار اس نے عقبی لان سے جیک کو بھونکتے ہوئے بھاگتے دیکھا۔ اس کے گیٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی جیک گیٹ پر پہنچ گیا تھا اور اپنے اگلے پنجوں سے گیٹ کو بجاتے ہوئے وہ بڑے زور و شور سے بھونک رہا تھا۔
گیٹ کے نچلے حصے میں لگی ہوئی سلاخوں سے اس نے کسی لڑکی کی ٹانگیں دیکھی تھیں جو کتے کے بھونکنے پر گیٹ سے کافی دور چلی گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ بیل دوبارہ بجتی اس نے ایک جھٹکے سے دروازہ کی چین اتار کر اسے کھول دیا۔
سامنے موجود چہرہ اس کا شناسا نہ تھا۔ وہ انیس بیس سال کی ایک لڑکی تھی جو چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ دھوپ میں کھڑے رہنے کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا وہ بول اٹھی تھی:
”سوری جی میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔”
شاید اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ جھنجھلایا ہوا تھا۔ وہ ا سکی معذرت پر کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا ورنہ وہ اسے بار بار بیل کرنے پر جھڑکنا چاہتا تھا۔
”میں ٹیچر ہوں، ہم لوگ فیصل آباد سے یہاں ایک شارٹ کورس کرنے کے لئے آئے ہیں۔ ہم یہ ساتھ والی عمارت میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ وہاں سارے کرسچینز ہوتے ہیں لیکن میں مسلم ہوں۔ مجھے دراصل آٹھواں سیپارہ چاہئے اگر آپ مجھے دے دیں تو میں پڑھ کر آپ کو واپس کر جاؤں گی۔”
اس نے اس لڑکی کی بات کافی حیرت سے سنی تھی کیونکہ اسے ایسی کسی فرمائش کی توقع ہی نہیں تھی۔ چند لمحوں کے لئے وہ شش و پنج میں پڑا رہا۔
”اوکے میں دیکھتا ہوں۔” وہ بالآخر کہہ کر واپس مڑ گیا۔
”پلیز ایک منٹ” وہ دو قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ اس لڑکی نے اسے آواز دی۔ وہ واپس مڑ آیا۔
”دیکھیں یا تو آپ اس گیٹ کو اندر سے بند کرکے جائیں یا اس کتے کو یہا ں سے لے جائیں۔” اس نے جیک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا جو بڑے اطمینان سے زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔





”ایک تیسرا راستہ اور بھی ہو سکتا ہے میں آپ کو اندر کیوں نہ لے جاؤں۔” وہ بے اختیار بولتے بولتے رکا تھا۔
”یہ کچھ نہیں کہتا” اس نے مسکرا کر اسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”کر تو بہت کچھ سکتا ہے۔” جواب بہت برجستہ تھا۔ اگرچہ اس لڑکی کی نگاہ ابھی تک کتے پر ہی مرکوز تھی۔
”یہ کرتا بھی کچھ نہیں۔” اس نے ایک بار پھر مسکرا کر کہا۔
”پھر بھی آپ گیٹ بند کرکے جائیں۔” وہ ابھی بھی اپنے مطالبے پر قائم تھی۔
”آپ اندر آجائیں۔” اس نے بالآخر اسے پیشکش کر ہی دی۔
”نہیں شکریہ آپ بس مجھے سیپارہ لا دیں۔”
اس نے اس لڑکی کے انکار پر کندھے اچکائے اور بنا کچھ کہے گیٹ بند کرکے اندر کی طرف چل دیا۔
وہ اندر آکر سوچ میں پڑ گیا کہ سیپارہ اسے مل کہاں سکتا ہے۔ بچپن میں بلاشبہ اسنے قرآن پاک پڑھا تھا لیکن اب بہت عرصے سے اس نے کبھی قرآن پاک کی تلاوت ہی نہیں کی تھی۔ غلطی اس کی نہیں تھی وہ پچھلے چھ سات سال سے امریکا میں تھا اور اس سے پہلے جب وہ پاکستان میں تھا تب بھی اس پر والدین کی طرف سے اس قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی اور فطری طور پر بھی وہ مذہب سے کچھ دور ہی تھا۔ پھر باہر رہنے سے تو وہ جو سال میں دو بار جیسے تیسے عید کی نماز پڑھ لیتا تھا اس سے بھی گیا تھا۔ اس لئے اب اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سیپارے یا قرآن پاک کہاں تلاش کرے۔
چند لمحے وہ ایسے ہی پریشانی کے عالم میں کھڑا رہا۔ پھر ایک خیال آنے پر اپنی دادی کے کمرے کی طرف چل دیا۔ اسے یاد آگیا تھا کہ دادی باقاعدگی سے نماز پڑھتی تھیں اور ان کے کمرے میں یقینا قرآن پاک بھی ہو گا۔ کمرے میں داخل ہونے کے چند لمحوں تک متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا رہا پھر تخت پوش کے ساتھ والی الماری کی طرف بڑھ گیا اور الماری کھولتے ہی اس کے سامنے بڑے سلیقے اور نفاست سے رکھے گئے بہت سے سیپارے اور قرآن پاک آگئے تھے۔ وہ سیپاروں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے یک دم ٹھٹک گیا۔ بے وضو ہونے کا خیال آنے پر اس نے واش روم جا کر ہاتھ دھوئے۔ پھر واپس آکر وہ آٹھواں سیپارہ تلاش کرنے لگا۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ سیپاروں کے اوپر عربی اور اردو میں گنتی کے نمبر تھے اور دونوں ہی گنتیاں اس کی سمجھ سے باہر تھیں۔ اس نے کچھ اندازہ کرنے کی کوشش کی آٹھواں سیپارہ کون سا ہو سکتا ہے۔ لیکن جس مقدس کتاب کو اس نے پچھلے پندرہ سولہ سال سے کھول کر نہیں دیکھا تھا اب اس کے بارے میں کچھ یاد کیسے آجاتا۔ اس نے ان پاروں کو ویسے ہی رکھ دیا۔
واپس لاؤنج میں آکر اس نے فریج سے سپرائٹ کاٹن نکالا اور اسے کھول کر پیتے ہوئے باہر آگیا۔ جب اس نے گیٹ کھولا تو وہ لڑکی اس کے ہاتھ میں اپنی مطلوبہ چیز کی بجائے سپرائٹ کا ٹن دیکھ کر بہت حیران ہوئی تھی۔
”دیکھیں میں نے سیپارہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مجھے وہ نہیں ملا کیونکہ مجھے عربی یا اردو کی گنتی نہیں آتی۔ آپ ایسا کریں کہ خود ہی اندر آکر مطلوبہ سیپارہ لے لیں۔” اسے لگا کہ اس کی بات پر لڑکی نے ملامت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ لیکن وہ نظریں چرا کر ایک طرف ہٹ گیا۔
چند لمحے سوچنے کے بعد لڑکی نے اندر قدم رکھ دیا۔اس نے جیک کو پاؤں سے چھوتے ہوئے اسے جانے کا اشارہ کیا تھا اور وہ اس کے اشارے پر بھاگتا ہوا پھر عقبی لان کی طرف چلا گیا۔ کتے کے جانے پر وہ کافی مطمئن نظر آرہی تھی۔
وہ اسے اپنی دادی کے کمرے میں لے آیا اور پھر وہیں دروازے پر کھڑا ہو گیا۔
”سامنے والی الماری میں ہیں۔” اس نے اشارے سے لڑکی کو بتایا تھا اور خود اطمینان سے ٹن کو دوبارہ منہ سے لگالیا۔ وہ لڑکی الماری کھول کر بڑی احتیاط سے سیپاروں کو دیکھنے لگی تھی۔ وہ دروازے سے ٹیک لگائے سپرائٹ کے سپ لیتا ہوا اس کی کارروائی دیکھتا رہا۔ اسے جلد ہی سیپارہ مل گیا تھا اور باقی سیپاروں کو اسی احتیاط کے ساتھ اس نے واپس رکھ دیا۔ پھر الماری بند کرکے وہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔ ایک لمحے کے لئے اس نے اس کے قریب رک کر سیپارے کو سیدھا کیا اور اس کی طرف دیکھے بغیر اس نے اردو میں لکھے ہوئے آٹھ پر انگشت شہادت پھیرتے ہوئے کہا:
”یہ اردو کا آٹھ اور انگلش کا Eight ہے۔”
اس نے بے اختیار اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ اب اس کی طرف ایسے دیکھ رہی تھی جیسے جاننا چاہ رہی ہو کہ وہ اس کی بات سمجھا ہے یا نہیں اس نے بغیر سوچے سمجھے سرہلا دیا۔
پھر وہ کچھ کہے بغیر بیرونی دروازے کی طرف چلنے لگی۔ دروازہ سے نکلتے ہوئے اس نے اچانک مڑ کر کہا۔
”میں پڑھنے کے بعد اسے واپس کر جاؤں گی۔” وہ صرف سرہلا کر رہ گیا۔
گیٹ بند کرکے جب وہ واپس لوٹا تو وہ مسلسل اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ بہت عجیب سا تاثر چھوڑا تھا اس نے اس پر، لیکن جلد ہی وہ اس کے ذہن سے نکل گئی تھی۔
…****…
وہ فیکٹری جانے کے لئے تیار ہو کر پورچ میں کھڑی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا جب بیل ایک بار پھر بجی تھی۔ اسے یک دم اس لڑکی کا خیال آیا تھا اور وہ گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے رک گیا تھا۔ واچ مین اس وقت دروازے پر موجود تھا اس لئے اب کی بار اسے دروازہ کھولنے کے لئے نہیں جانا پڑا۔ وہ وہیں گاڑی کے کھلے دروازے سے بازو ٹکائے گلاسز ہاتھ میں لئے اسے دور سے آتا دیکھتا رہا۔ وہ سیدھی اس کے پاس آئی تھی۔ سیپارہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے شکریہ ادا کیا تھا۔ پھر جب اس نے سیپارہ پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اس نے اچانک پوچھا۔
”آپ نے وضو کیا ہوا ہے؟” اس کے سوال کے جواب میں اس نے نفی میں سرہلا دیا اور اس لڑکی نے سیپارہ پکڑاتے ہوئے یک دم ہاتھ واپس کھینچ لئے تھے۔ اسے بے ساختہ شرمندگی کا احساس ہوا تھا۔
”تو پھر آپ سیپارہ کیوں لے رہے ہیں؟”
اسے لگا کہ اس لڑکی کے لہجے میں ہلکی سی تلخی تھی۔ وہ اس کی بات کا جواب نہیں دے سکا لیکن اس نے بڑی ناگواری سے اسے کہا تھا۔
”آپ ایسا کریں کہ اندر رکھ آئیں ملازم اندر ہے۔” وہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا جب اس نے دوبارہ اسے آواز دی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رُک گیا ورنہ اس کا موڈ بری طرح بگڑ چکا تھا۔
”مجھے ایک درخواست کرنی ہے، کیا جتنے دن میں یہاں ہوں کیا آپ کے گھر سے قرآن پاک لے کر پڑھ سکتی ہوں۔” وہ اسے بس دیکھ کر رہ گیا۔ اس کے لہجے میں چند لمحے پہلے کی ترشی کی بجائے عجیب سی التجا تھی۔
”Why not (کیوں نہیں) لیکن آپ ایسا کریں کہ ایک قرآن پاک لے جائیں اور جب آپ کو واپس جانا ہو تب آپ واپس کر جائیں۔” اس نے اس کے سامنے ایک تجویز پیش کی تھی۔
”میں نے یہ سوچا تھا لیکن پھر میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اسے کہاں رکھوں گی۔ وہاں زیادہ تر غیر مسلم ٹھہرتے ہیں اور وہ ہے بھی ان کا مذہبی مرکز وہاں الماریاں تو ہیں لیکن میں وہاں قرآن پاک رکھنا نہیں چاہتی کیونکہ پتا نہیں پہلے وہا ں کیا رکھا گیا ہو۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کو تکلیف ہو گی لیکن صرف چند دنوں کی تو بات ہے۔ کم از کم مجھے یہ تسلی تو رہے گی کہ قرآن پاک، پاک جگہ پر رکھا گیا ہے۔”
”میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ… میں تو صرف آپ کی آسانی کے لئے کہہ رہا تھا۔ اگر آپ کو آنے میں کوئی پرابلم نہیں تو ٹھیک ہے… آپ جب چاہیں آسکتی ہیں۔”
اس نے بڑے کھلے دل سے اسے آفر کی تھی۔ اس لڑکی نے بڑی ممنونیت سے اسے دیکھا۔ پھر وہ اس کا شکریہ ادا کرکے اندر چلی گئی۔ وہ اسے اندر جاتا دیکھتا رہا۔ چند لمحوں کے بعد وہ اندر سے نکل آئی اور گیٹ کی طرف چل دی۔
”ایکسکیوزمی! آپ کا نام کیا ہے؟” اس نے اسے روکا تھا وہ اس سوال پر کچھ ہچکچائی تھی جیسے وہ جواب نہ دینا چاہ رہی ہو۔
”میرا نام مریم ہے” بالآخر اس نے کہہ دیا۔
”تھینک یو بس یہی پوچھنا تھا” وہ دوبارہ گیٹ کی طرف چل دی۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے اسے جاتے دیکھتا رہا۔
…****…




Loading

Read Previous

میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

Read Next

بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Why alwaysi m unable to read whole story

  • Just waoh!
    I love the lesson and the story.
    But still I must say that you should post it in .a proper PDF
    With some effort,

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!