کلپٹومینیا ۔ ناولٹ

ایک سال اور تین ماہ کے علاج کے بعد اس کی تھیراپیز بند کر دی گئی تھیں ۔ اس کی ادویات کی مقدار پہلے سے تین گنا کم کر دی گئی۔ پچھلے سات ماہ میں اس نے کہیں سے کوئی چیز نہیں اٹھائی تھی اس کا اقرار وہ خود کر رہی تھی۔ یہ ڈاکٹر نیل کے مطابق اس کا آخری سیشن تھا ۔ڈاکٹر نیل مذکر سے بات کرتے ہوئے اس کی ذہنی حالت میں اس قدر جلد سدھار پر خوش ہوتے ہوئے ایزا کی قوت ِ ارادی کو بھی سراہ رہے تھے۔ ایزارائٹنگ پیڈ پر تیزی سے چلتے ان کے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔ تبھی ڈاکٹر نیل نے اسے دیکھتے اور مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
”عموماً دنیا کے سائیکاٹرسٹ اس بات پر یقین رکھتے ہیں ایزا کہ کلپٹومینیا کو سرے سے ختم کرنا ممکن نہیں ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ کسی بھی بیماری میں مریض کی قوت ِ ارادی کا بڑا دخل ہوتا ہے ۔ مریض ٹھیک نہ ہونا چاہے، تو ایک معمولی نزلہ جاتے جاتے لوٹ آتا ہے اور چاہے توبڑی سے بڑی بیماری سے لڑ سکتا ہے۔ میں ابھی تمہاری ادویات مکمل طور سے ختم نہیں کر رہا۔ مستقبل میں تمہیں ہر چھے ماہ بعد سیشن کے لیے آنا ہوگا اور بعد میں ہوسکتا ہے اس کی ضرورت بھی نہ پڑے۔ کیا تمہیں یہ بریسلٹ پسند آرہا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے؟“ وہ بات کرتے کرتے محظوظ انداز میں ایزا کی توجہ اپنے ہاتھ پر پا کر بولے تھے ۔ مذکر نے چونک کر ایزا اور پھر ڈاکٹر نیل کو دیکھا جب کہ ایزا نے محض ڈاکٹر نیل کو۔
”یہ ایک خوب صورت بریسلٹ ہے لیکن میرا اسے چرانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور میں جھوٹ نہیں بولتی ڈاکٹر نیل۔“ و ہ تینوں ایک ساتھ مسکرائے تھے ۔
٭….٭….٭



واپسی کے سارے سفر میں ایزا خلاف ِ معمول خاموش تھی۔ مذکر خوش تھا اور ضرورت سے زیادہ بول رہا تھا ۔ وہ پچھلی بہت سی باتیں یاد کرتے ہوئے ہنس رہا تھا اور ایزا کبھی کبھار کسی بات پر مسکرا دیتی تھی۔ مذکر نے ایک پھولوں کی دکان پر گاڑی روک کر اس کے لیے سرخ پھولوں کا ایک گلدستہ خریدا۔ ایزا مذکر کے برعکس نہ صرف خاموش تھی بلکہ کچھ ناخوش بھی دکھائی دے رہی تھی۔
”مذکر میں ٹھیک ہو جاو ¿ں گی نا؟“ وہ کچھ اُداسی سے پوچھ رہی تھی ۔
”تم ٹھیک ہو چکی ہو ایزا۔ تم نے سنا نہیں ڈاکٹر نیل نے کیا کہا ؟“
”لیکن ڈاکٹر نیل کے مطابق کلپٹومینیا کبھی جڑ سے ختم نہیں ہوتا۔ اسے کم کیا جا سکتا ہے، ختم نہیں۔“ اس کی آواز میں جیسے مایوسی در آ ئی تھی ۔
”اور تم نے یہ نہیں سنا کہ انسان چاہے، تو کسی بھی بڑی بیماری کو اپنی مضبوط قوتِ ارادی سے ہرا سکتا ہے۔“ وہ تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے سمجھ گیا کہ ایزا ڈاکٹر نیل کی بات پہ پریشان ہے۔ اسی لیے وہ اسے تسلی دے رہا تھا ۔
”تمہاری میڈیسنز قریب قریب بند کر دی گئی ہیں اور اب تمہیں بس کبھی کبھار چیک اپ کے لیے آنا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ تم اب ٹھیک ہو چکی ہو اور جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے وہ بھی جلد دور ہو جائے گی ۔کیا تمہیں یقین نہیں ہے؟“
”مجھے یقین ہے کہ میں جلد بالکل ٹھیک ہو جاو ¿ں گی ۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے۔ وہ بھی جلد دور ہو جائے گی کیوں کہ تم میرے ساتھ ہو، لیکن ابھی میں پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوئی ۔پر میری قوت ِ ارادی مضبوط ہے اور میں جلد اس بیماری کو ہرا دوں گی۔ میں یہ جانتی ہوں، لیکن اس سب میں وقت لگے گا۔“ وہ اس کی بات پر مسکرا دیا۔
”ابھی تم گاڑی واپس موڑو کیوں کہ مجھے ڈاکٹر نیل سے ملنا ہے ۔انھیں کچھ لوٹانا ہے ۔“
”وہ کیا ؟“ وہ حیران ہوا۔
اس نے اداسی سے مذکر کودیکھتے، مخصوص انداز میں اپناہاتھ کوٹ کی جیب سے نکالتے سامنے پھیلایا جس میں ایک قلم جگمگا رہا تھا۔
 فلورنس کے اسپتا ل کی تیسری منزل پر بیٹھے ڈاکٹر نیل نے اپنے قلم دان سے قلم اٹھانے کے لیے جونہی ہاتھ بڑھایا، تو وہ ساکت رہ گئے۔ ا نہیں قلم دان میں ہی قلم رکھنے کی عادت تھی اور اب ان کا وہ قیمتی قلم وہاں نہیں تھاجو انھوں نے چند روز قبل ہی ایک ایگزی بیشن سے خریدا تھا۔ ایزا نے سچ کہا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتی۔ اس کا بریسلٹ چرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ا سی لیے مذکر کے ساتھ گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھی ایزا کے ہاتھ میں ڈاکٹر نیل کا قلم جگمگا رہا تھا اور آنکھوں میں آنسو …. مذکر لب بھینچے اب گاڑی واپس فلورنس اسپتال کی جانب موڑ رہا تھا۔ جہاں ایزا کو اب یہ قلم خود جا کر واپس رکھنا تھا کہ اب اسے اپنی اس بیماری نما عادت کو ہرانا اور خودکو جتانا تھا۔ مصمم ارادے ، قوی قوت ِ ارادی اور سچائی کی طاقت سے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ



Loading

Read Previous

اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

Read Next

سلیم ناصر ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!