کلپٹومینیا ۔ ناولٹ

”مجھے لوگوں سے ملنے اور شاپنگ کر نے کا شوق نہیں ہے مذکر۔ “ اس شام وہ مذکر کے ایک دوست کے ہاں مدعو تھے۔ جب ایزا نے جانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔یہ دعوت ان دونوں کی شادی کے اعزاز میں ہی رکھی گئی تھی۔ اس لیے ان کا جانا بے حد ضروری تھا ۔
”مسز میری کی طرح تم ان کے ہاں بور نہیں ہوگی۔ تیمور کی بیوی ایک باتونی خاتون ہیں۔ وہ تمہارے بولنے کا انتظار نہیں کریں گی بلکہ خود بولتی چلی جائیں گی۔“
”میں پھر بھی جانے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ “ اس کا انداز دوٹوک تھا۔
 ” یہ دعوت تیمور نے ہمارے لیے رکھی ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ہی نہ جائیں؟“ اس کا موڈ آف ہونے لگا تھا۔
”اس نے یہ دعوت ہم سے پوچھ کر نہیں رکھی۔ دعوت رکھنے کے بعد بتایا ہے ۔ پوچھ لیتا تو اتنی زحمت نہ اٹھاتا ۔“
”کیا اب ہم ساری زندگی کسی سے نہیں ملیں گے؟ “
”ہم نہیں، میں …. میں ساری زندگی کسی سے نہیں ملنا چاہتی کیوں کہ میں ساری زندگی کسی سے نہیں ملی۔“ مذکر کو اس کی بات اور انداز دونوں ہی ناپسند آئے تھے ۔
”لوگ مجھ سے میری بیوی کے بارے میں سوال کریں گے اگر تم نہیں جاو ¿ گی۔“
”لوگ تم سے تب بھی تمہاری بیوی کے بارے میں سوال کریں گے اگر میں جاو ¿ں گی تو۔“
”تم کیوں نہیں سمجھ رہی بات کو ایزا؟“ وہ چڑ چکا تھا۔
”سمجھ تم نہیں رہے مذکر کیوں کہ میں تمہیں سمجھا نہیں سکتی ۔“ وہ بجائے اٹھ کر تیار ہونے کے منہ لحاف میں دے کر لیٹ گئی۔ اس شام مذکر کو اکیلے ہی تیمور کے ہاں جانا پڑا ۔اس نے ایزا کی ناسازی طبیعت کا بہانہ بنا تے معذرت کر لی تھی، لیکن اس شام کے بعد مذکر اس کی اس بات سے اتنا اور اس حد تک ناراض ہواتھا کہ اس نے اسے کہیں بھی ساتھ چلنے کے لیے کہنا ترک کر دیا تھا۔ وہ اس دن کے بعد سے گھر دیر سے آنے لگ گیا تھا۔ اس نے ایزا سے بات کرنا چھوڑ دی تھی اور وہ کھانا بھی باہر سے کھا کر آتا تھا ۔ ایزا نے اس سارے عرصے کے دوران اسے منانے یا اس سے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، لیکن مذکر کی خاموشی اسے اندر سے کاٹ رہی تھی ۔
”تم کب تک مجھ سے ایسے ہی خفا رہو گے؟“ وہ اتنے دن سے اس کی خاموشی کے بعد ایک رات اس کے سامنے بیٹھی پوچھ رہی تھی۔



”جب تک تم مجھے مناو ¿ گی نہیں۔“
”اگر تمہیں منانا میرے ساتھ جانے سے مشروط ہے تو میں تمہیں منانے سے باز آئی۔ تم اور جو بھی کہو میں مان لوں گی لیکن بس میری یہ بات مان جاو ¿ ۔۔۔“
”تمہارے اس غیرمعمولی برتاو ¿ کی وجہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ انسان کو اتنا آدم بیزار بھی نہیں ہونا چاہیے جتنا کہ تم ہو۔“ وہ خفا خفا سا اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔
”ہر برتاو ¿ کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ جیسے تم بلی سے ڈرتے ہو کیوں کہ اس نے ایک بار بچپن میں تمہیں زخمی کیا تھا۔ تم اونچائی سے خوف کھاتے ہوکیوں کہ جب تم سات سال کے تھے تو تم اونچائی سے گرے اور تمہاری ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ ایسے ہی میں بھی لوگوں کے ہاں آنے جانے، ملنے ملانے سے جھجکتی ہوں۔“
”اور اس جھجک کے پیچھے کیا وجہ ہے وہ نہیں بتاتی۔“
وہ بہت دیر تک خاموش رہی اور پھراس کی سسکیاں بلند ہونا شروع ہوئی تھیں۔ مذکر کو زبردست حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ایزا کو خود سے لگا لیا۔ وہ کسی نوازئیدہ بچے کے مانند اس سے لپٹی رو رہی تھی۔ وہ ایزا جیسی مضبوط اعصاب کی لڑکی سے ایسی بچوں جیسی حماقت کی امید نہیں کرسکتا تھا۔ مذکر نے اسے چپ کرانے کی کسی قسم کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اس کے رونے سے پریشان ہوا تھا، اسے خود سے لگائے ہوئے لیکن خاموش تھا۔ وہ اسی طرح روتے روتے چند ثانیے بعد ہی اس سے لپٹے لپٹے خراٹے لینے لگی۔مذکر اسے وہیں لٹا کر اُٹھ گیا تھا ۔
”یہ میری غلطی ہے کہ میں نے کبھی ایز اکے اندر کی الجھی گرہوں کو کھوجنے اور سلجھانے کی کوشش نہیں کی۔“ اس رات وہ اپنے کمرے میں جلتی انگیٹھی کے سامنے بیٹھا یہ سوچ رہا تھا۔
اس دن کے بعد سے ایزاغیر معمولی طور پر خاموش رہنے لگی تھی۔ مذکر اسے کبھی پیار اور کبھی زبردستی اپنے ساتھ باہر گھمانے اور شاپنگ پر لے جاتا تھا۔ وہ باہر اس کے ساتھ چلتے ہوئے کبھی ٹھٹک کر کہیں نہ کہیں رک جایا کرتی تھی۔ رک کر چیزوں کو دیکھنے لگتی، چھونے لگتی۔ مذکر کے پوچھنے پر کہ وہ وہاں کیوں ٹھہر گئی ہے ؟ بتانے کی بجائے وہ آگے بڑھ جاتی۔ ہر بار جب وہ دونوں باہر وقت گزارنے کے بعد گھر آتے تو ایزا کھوئی کھوئی سی رہنے لگتی۔ گھرمیںاندر باہر بے چین سی پھرتی رہتی۔ الماریاں کھولتی بند کرتی رہتی ، چیزیں اٹھا اٹھا کر جیسے کچھ چھپاتی تلاش کرتی رہتی۔ مذکر کے بارہا پوچھنے پر بھی وہ کچھ بتانے کو تیار نہیں تھی۔ اس کا ایک سا جواب ہوتا۔
”میں تم سے کہتی جو ہوں مجھے کہیں مت لے کر جایا کرو ۔“
مذکر اس کی ذہنی کیفیت کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے اس سے کہیں زیادہ شدومد سے نوکری ڈھونڈنے لگ گیا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ گھر رہ رہ کر وہ ذہنی ابتری کا شکار ہو چلی ہے۔ باہر نکل کر نوکری کی صورت لوگوں سے ملنے جلنے سے وہ بہتر ہو جائے گی ۔ وہ اسی برگر کیفے میں ایزا کو پھر سے لگوا سکتا تھا اگرایزا اس بات پر آمادہ ہو جاتی۔وہ کہیں بھی نوکری کرلیتی سوائے اس برگر کیفے کے جہاں میگراتھ نے اس سے متعلق کچھ اُلٹی سیدھی باتیںمذکر سے کی تھیں۔
 ” میںاب کبھی اس جگہ دوبارہ نہیں جاو ¿ں گی جہا ں میری ذات کو لے کر ایسی باتیں کی گئی ہوں۔“ مذکر نے دوبارہ اسے برگر کیفے جانے کی صلاح نہیں دی تھی ۔
٭….٭….٭



Loading

Read Previous

اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

Read Next

سلیم ناصر ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!