کلپٹومینیا ۔ ناولٹ

اگلے ہی روز سے ایزا وقت ضائع کیے بغیر مذکر کے واقف کار کے کیفے میں بطور ویٹرس کام کررہی تھی۔ وہ ایک قصبے کا چھوٹا سا کیفے تھا جہاں گاہک بہت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے کام ’ اٹالین کوزین‘ ریستوران کے مقابلے میں خاصا کم تھا سو ایزا کا زیادہ تر وقت فراغت میں گزرتا۔ اُس کے علاوہ وہاں ایک اور ویٹرس بھی تھی جس سے اس کی سلام دعا ہونے کی حد تک واقفیت تھی۔ اس کی وجہ بھی ایزا کا لیے دیے رہنے کا انداز تھا۔ ایزا کو کا م نوعیت کے اعتبار سے آسان لگا تھا لیکن یہ اس کا مسئلہ نہیں تھا ۔ وہ کام سے بھاگنے والی لڑکی کبھی بھی نہیں رہی تھی ۔تنخواہ پہلے سے کم تھی اور آنے جانے کے لیے بھی مقامی بس استعمال کرنے کی وجہ سے اس کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ کرائے کی مد میں لگ جاتاتھا۔ اصل مسئلہ اسے یہ درپیش آ رہا تھا۔اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ جلد ہی کوئی بہتر کام ڈھونڈ کر اس نوکری سے چھٹکارا پا لے گی، لیکن تب تک اسے یہی نوکری کرنا ہو گی ۔
 مذکر کو یہ کیفے اپنی رہائش سے قدرے دور اور آفس سے قریب پڑتا تھا ۔ اب وہ لنچ کرنے آفس سے سیدھا اسی کیفے میں آنے لگا تھا۔ روزانہ برگر کھانے کے بدلے روزانہ ایزا سے ملنا کوئی اتنا برا سودا بھی نہیں تھا۔ اس کی اور ایزا کی لنچ بریک کے اوقات کار ایک سے تھے۔ اسی لیے وہ بآسانی اس سے مل لیتا تھا۔
”تم روز اتنے دور یہ برگر کھانے آتے ہو؟“ اس روز وہ کیفے میں بیٹھنے کے بجائے اپنا اپنا لنچ لیے ایک قریبی پارک میں چلے آئے تھے۔ مذکر کاآفس اس کیفے سے قریباً پندرہ منٹ کی واک پر تھا اوراس کے آفس کے قریب ہی اس سے بہت بہتر کیفے اور ریستورانس تھے یہ بات وہ جانتی تھی۔
”تم بھی تو اتنے دور سے روز اسے بیچنے آتی ہو ۔“
”یہ میری مجبوری ہے ، میرے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ۔“
”یہ میری بھی مجبوری ہے کیوں کہ میرے پاس بھی کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ۔“ ایز انے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور پھر دوسری طرف۔ دونوں اپنا اپنا لنچ کرنے لگے۔ کیفے کا مالک ایزا کو مذکر کی دوست کی وجہ سے مختلف چھوٹی موٹی مراعات بھی دیتا تھا جس میں وہ لنچ بھی شامل تھا جو وہ وہاں بیٹھی کر رہی تھی۔
”تمہیں اس جاب میں کوئی مشکل تو نہیں؟“
”تم نے میرے لیے خاصی آسانی کی ہے پھر مشکل کیسی؟“ وہ اسے کبھی بھی یہ نہیں بتانا چا ہتی تھی کہ وہ کم تنخواہ کی وجہ سے پریشان رہتی ہے۔ وہ اتنی خودد ار تو تھی کہ اب اپنی بدحالی کے رونے اس شخص کے سامنے نہ روتی۔ یہ جان کر وہ کیفے کے مالک سے بات کر کے اس کی تنخواہ میں اضافے کی درخواست کر سکتا تھا اور ایز ا اس کا مزید احسان نہیں لینا چاہتی تھی۔ اس کی بجائے اس نے اپنے بل بوتے پر اس سے بہتر نوکری اور پارٹ ٹائم جاب کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں ۔
”میں ہمیشہ تمہارے لیے آسانی کیے رکھنے کو تیار ہوں ایزا ۔ہر جگہ، ہر پل اگر تم چاہو تو….“ اس کا چلتا ہوا منہ رکا اور اس نے اپنی آنکھوں کو سکیڑتے ہوئے کچھ ناقدانہ انداز میں مذکر کی جانب دیکھا تھا ۔وہ اس کے ایسے دیکھنے پر ہنسا تھا ۔
”آل رائٹ…. میں مانتا ہوں کہ یہ کسی بھی لڑکی کو اور تم جیسی اچھی لڑکی کو شادی کی پیشکش کرنے کا ایک بھونڈا طریقہ ہے، لیکن مجھ جیسے بے ضابطہ انسان کو یہی طریقہ آتا ہے ۔ تو بتاو ¿ کہ تم جیسی باضابطہ لڑکی کا جواب کیا ہوگا؟“ یہ بہت جلدی تھا کہ وہ اس لڑکی کو جس سے دوستی کیے ہوئے اسے محض دو اور دیکھے نو ماہ ہوئے تھے شادی کی پیشکش کرتا، لیکن وہ دیر کر دینے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔



”کیا میرا ایزا ہونا تمہارے لیے قابل قبول ہے؟“ وہ کس بارے میں بات کر رہی تھی مذکر جانتا تھا ۔
”میرے لیے کچھ بھی ناقابل قبول نہیں ۔“ وہ خود کبھی بھی بہت زیادہ باعمل مسلمان نہیں رہا تھا کہ وہ ایزاکو مذہب کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتا۔ ایزا لنچ چھوڑکراب اسے دیکھ رہی تھی ۔
”میں لاوارث ہوں۔ کیا تمہیں اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے؟“
”تو میں تمہارا وارث ہی توبننا چاہتا ہوں ۔“
”میں کم پڑھی لکھی ہوں بلکہ دوسرے لفظوں میں جاہل ہوں۔“ اس کا لہجہ شکستہ اور سر جھک گیا تھا۔
”تم کسی بھی جاہل سے زیادہ علم والی ہو ، اتنا تو میں بھی علم رکھتا ہوں۔‘
”تم نہیںجانتے کہ میں کس ماضی سے اس حال میں پہنچی ہوں۔“ وہ جیسے شرمسار تھی ۔
”مجھے جاننا بھی نہیں ہے کیوں کہ میں اپنا مستقبل دیکھ رہا ہوں۔‘ ‘
”مجھ جیسی خشک مزاج اور خبطی لڑکی سے تمہیں کیا ملے گا؟“ وہ ہاتھوں کو مسل رہی تھی ۔
”وہی جو مجھے کسی زندہ دل اور شوخ و شریر لڑکی سے نہیں مل سکا۔“
وہ ایک ایک کر کے جتنی باتیں گنوا رہی تھی، وہ ان ساری باتوں کو اسی انداز میں رد کر رہا تھا۔
”مجھ میںایسا کیا ہے کہ مجھے جیون ساتھی چنا جائے؟“ اس کی آنکھوں میں اُداسی ابھر کر ڈوبی۔
”تم میں ایسا کیا نہیں ہے کہ تمہیں جیون ساتھی نہ چنا جائے ایزا؟“
اس کے نرم ہاتھو ں کو اتنی ہی نرمی سے تھام لیا گیا تھا۔ ایزاکی آنکھیں بھرا گئیں۔ کیا اور کوئی جواز تھا جوچھوڑ دیا گیا ہو۔ کوئی اور سوا ل جو ادھورا رہ گیا ہو۔ مذکر نے دوسرے ہاتھ سے اس کے آنسوصاف کیے تو وہ مسکر ا دی ۔
”میرے لئے بھی کچھ ناقابل قبول نہیں ہے۔“
٭….٭….٭



Loading

Read Previous

اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

Read Next

سلیم ناصر ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!