کلپٹومینیا ۔ ناولٹ

اسے لگتا تھا کہ میرا یہ منصوبہ کوئی خاص کارگر ثابت نہیں ہونے والا، لیکن میں اوّل روز کی طرح پر امید تھی۔
اگلے ماہ کے آغاز میں ہی ڈاکیا مسٹر ایڈم کی ڈاک لایا تھا۔ اس کا سامنا براہ راست مجھ سے ہوا کیوں کہ میں باہر باغیچے میں ہی کام کر رہی تھی ۔ میں نے سب کی نظروں سے چھپ کر اسے خط نکال کر دیتے ہوئے تاکید کی تھی کہ وہ اسے کسی قریبی پولیس اسٹیشن تک پہنچا دے۔ شروع میں اس نے انکار کیا تھا کہ اس طرح ڈاک لے کر جانا اس کے پیشے کے منافی تھا، لیکن میرے بہت واسطے دینے اور منتیں کرنے پر وہ کچھ سوچتے ہوئے اس کام کے لیے مان گیا تھا۔ میں نے اس سے خصوصی درخواست کی تھی کہ وہ اس بات کا تذکرہ کسی سے بھی مت کرے۔ اس روز کے بعد سے میں اور نیتی دن رات پولیس کا انتظار کرنے لگے تھے۔ نیتی بے یقین سی یہی کہے جاتی:
© ©”نجانے اس ڈاکیے نے وہ خط پہنچایا بھی ہو گا یانہیں۔ کیا خبر اس نے پھاڑ کر پھینک دیا ہو۔“ لیکن میں سارا دن الجھے ذہن کے ساتھ وہاں سے رہائی کے خواب دیکھتی رہتی۔ پورا مہینہ گزر گیا اور کوئی ہماری مدد کو نہ آیا۔ پھر ایک دن ایک شخص ڈاکیے کا لباس پہنے ہوئے مسٹر ایڈم کی ڈاک لے کر آیا۔ مسٹر ایڈم کو ڈاک دینے کے ساتھ اس نے بتایا کہ وہ ابھی اس نوکری پر تعینات ہوا ہے اور اب سے وہی ڈاک لایا کرے گا۔ اس سے مل کر مسٹر ایڈم مطمئن اور میں سخت مایوس ہو چلی تھی۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ اس علاقے میں ڈاک کی ترسیل کا کام اب اس نئے ڈاکیے کے حوالے تھا۔
”نجانے اس ڈاکیے نے میری چٹھی کہاں کی ہو گی؟“ میں نے بددل ہوکر پرانے ڈاکیے کے متعلق سوچا تھا ۔
”تم ہی اس باغیچے کا کام کرنے والی بچی ہو جس نے ایک خط پچھلے ماہ پولیس اسٹیشن پہنچایا تھا؟“ نئے ڈاکیے نے جاتے سمے مجھ سے کان میں پوچھا۔ میں چونکنے کے ساتھ ڈر گئی تھی۔ بہ مشکل میں نے سر اثبات میں ہلایا تھا ۔
”یہ بات اپنے تک رکھنا۔ جلد ہی تمہیں اس خط کا جواب مل جائے گا۔“
اور اس ڈاکیے کے وہاں سے جانے کے کوئی تیسرے روز پولیس کی بھاری نفری نے رات کی تاریکی میں اس گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے ہم سب کو بازیاب کرواتے، مسٹر اور مسز ایڈم کو گرفتار کیا تھا ۔ اس نفری میں وہ نیا آنے والا ڈاکیا جو اصل میں ایک آفیسر تھا، سب سے آگے تھا جو محض وہاں کا جائزہ لینے تین روز پہلے وہاں آیا تھا۔ وہ دونوں وہاں سے کہاں لے جائے گئے ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا، لیکن آٹھ برس کی قید کاٹنے کے بعد بالآخر میں کھلی اور آزاد فضا میں سانس لینے کے قابل ہوئی تھی۔ تمام بچوں کو وہا ں سے ایک این جی او کے سپرد کیا گیا جس نے ہمارے رہنے کے ساتھ ساتھ ہماری تعلیم کا بندوبست بھی کیا تھا۔ ہم تمام بچے جو ایک مدت تک حبسِ بے جا میں رکھے گئے تھے مختلف ذہنی اور جسمانی امراض کا شکار ہو چکے تھے جن کا علاج کروایا جانا ضروری تھا۔ وہیں رہتے ہوئے مجھ پر اپنی اس بری عادت کا ادراک ہوا تھا جو نجانے مجھ میں کب پرورش پا گئی میں خود بھی نہیں جانتی تھی ۔میں نے این جی او کے چائلڈ ہوم میں رہتے ہوئے وہاں کی بچیوں کی بہت سی چیزیں چرائی تھیں اور پکڑے جانے کی صورت میں مجھ سے وہ تما م چیزیں لے کر خالی ہاتھ مجھے نکال باہر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد میں نے جہاں جہاں بھی نوکری کی ، رہائش اختیار کی، اپنی اس روش سے باز نہیں آئی اور میں نے ایک مدت کے بعد خود ان جگہوں سے چلے جانا مناسب سمجھا کہ اس سے پہلے میں بے عزت ہو کر نکالی جاتی ، عزت سے چلے جانا بہتر تھا ۔“ اس نے گہرا سانس لیتے آنکھیں موند لی تھیں۔ جیسے اب وہ کھلی آنکھوں سے کچھ دیکھنا نہ چاہتی ہو ۔
”بعض اوقات اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ممکن نہیں ہوتا ، لیکن اس پر خاصی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔“ وہ ڈاکٹر نیل کے سامنے ہی بیٹھا ہوا تھاجو ایزا کو سکون آور انجکشن دے کر آ رہے تھے اور اب اسے کچھ وقت اس کے زیرِاثر رہنا تھا۔
مذکر اگلے روز ہی ایز اکو ایک معروف سائیکاٹرسٹ کے پاس فلورنس لے کر آیا تھا۔ اپوائنٹمٹ اس نے فون پر ہی لے لی تھی اوراس وقت وہ اور ایزا ڈاکٹر نیل کے اسپتال میں موجود تھے۔ ایزا کلپٹومینیاکا شکار تھی۔ چوری کی بیماری۔ ڈاکٹر نیل نے اس کے لیے کچھ سیشنز کی تاریخیں اور تھیراپیز تجویز کی تھیں۔ کچھ ادویات تھیں جو اسے باقاعدگی سے لیناتھیں ۔اس سب سے بڑھ کر انھیں ایزا کا تعاون درکار تھا کیوں کہ جب تک وہ خود کوشش نہیں کر تی تب تک اس بیماری پر قابو پانا قریب قریب ناممکنات میں سے تھا۔
”ایزا جن حالات کا شکا ر رہی ہے اس میں کسی بچے کی ذہنی کیفیت پر اس سے کئی گنا زیادہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جتنے ایزا پر ہوئے ہیں۔ اپنے بچپن کے حالات کی بدولت وہ کسی سے ملنے، بات کرنے سے کتراتی ہے، تنہائی پسند اورماضی میں جینے کی عادی ہے۔ اپنی تمام خواہشات کو بچپن سے دباتے اور ایک ابتر زندگی گزارتے ہوئے ایزا لڑکپن ہی سے اس بیماری میں مبتلا ہو چکی تھی جب وہ اس گھر سے بازیاب کرائی گئی تھی۔ پہلے پہل شاید اسے احسا س نہیں ہوسکا کہ وہ کیا کر رہی ہے، لیکن احساس ہونے پہ بھی وہ خود کو اس سے روک نہیں سکی، نہ ہی اب روک پا رہی ہے، لیکن مثبت پہلو یہ ہے کہ اسے نہ صرف اپنی شخصیت کے تمام کمزورپہلوو ¿ں کا ادراک ہے بلکہ وہ ان سے نکلنا بھی چاہتی ہے اور یہی دماغی امراض میں پہلی کامیابی سمجھی جاتی ہے کہ مریض اپنا علاج کروانے پہ آمادہ ہو۔ بس آپ کو تعاون کرنا ہوگا۔“ مذکر نے نہ صرف ڈاکٹر نیل کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی بلکہ ایزا کاہر طرح سے خیال رکھتے ہوئے ایک اچھا شوہر ہونے کا ثبوت دیا۔ اس نے ایزا سے اس کے ماضی کے متعلق کسی قسم کا تذکرہ نہیں کیا نہ ہی اسے کچھ یاد کروانے کی کوشش کی تھی ۔



”میں ٹھیک ہو جاو ¿ں گی نا؟“ مذکر کے ہاتھ سے دوا کی خوراک لیتے وہ ہر دوسرے روز یہی سوال کرتی تھی ۔
”اگر تم ٹھیک ہونا چاہو گی تو۔“
”میں ماضی سے نکل نہیں پاتی۔ “ وہ بے بسی سے مذکر کی جانب دیکھ رہی تھی۔
”تم حال میں رہنا سیکھو گی تو ماضی سے بھی نکل آو ¿ گی۔“ وہ اسی نرمی سے اسے سمجھاتا جس کی وہ عادی تھی۔
”تمہیں اب بھی لگتا ہے کہ تمہارا مجھ سے شادی کا فیصلہ درست تھا ؟“ یہ وہ دوسرا سوال تھا جسے وہ کثرت سے دہراتی تھی ۔
”تم میرے لیے آج بھی پہلی سی ایز ا ہو اور مجھے زندگی میں جتنے مواقع ملیں گے میں تمہیں ہی بیوی کے طور پر دیکھنا پسند کروں گا ۔“ پہلے پہل وہ یہ بات اسے برے دل سے کہتا تھا، لیکن اب دل سے کہہ رہا تھا اور اس کا یہ جواب سن کر ایزا یک دم جیسے پرسکون سی ہو جایا کرتی تھی۔
 شروع میں ڈاکٹرنیل کی تمام ہدایات اور ایزا کا ماضی جان لینے کے باوجود اس کے اندر کہیں نہ کہیں ایزا کے حوالے سے بہت سی بدگمانیاں تھیں جنھیں وہ چاہ کر بھی دور نہیں کر پا رہا تھا۔بظاہر سب ٹھیک ہونے کے باوجود وہ اندر سے ایک کشمکش کا شکار رہتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے ایزا کی بیماری اور کیفیت کو قبول کرتے ہوئے اس کا پہلے سے بڑ ھ کر خیال رکھنا شروع کر دیا۔ وہ خود اسے وقت سے دوا دیتا، اس کی غذا کا خیال رکھتا، زبردستی چہل قدمی کے لیے لے کر جاتا، اس کی سنائی ساری ماضی کی داستانیں بہ غور سنتا تھا، اپنی ہر طرح کی مصروفیت کو ایک طرف رکھ کر وہ اسے ڈاکٹر نیل کے ساتھ ہونے والے سیشنز پر لے کر جاتا تھا۔
چند ماہ کی ادویات اور تھراپیز سے اس کی ذہنی کیفیت پر خاصا مثبت اثر پڑا تھا۔ وہ اب پھر سے قریبی اسٹور پر سیلز گرل کی نوکری کرنے لگی، اس کے ساتھ باہر جانے لگی تھی، اس کے واقف کاروں سے ملنے لگی اور ایسی تمام جگہوں سے لوٹ کر وہ بڑی خوشی خوشی مذکر کو بتاتی کہ اس نے کہیں سے کسی کی کوئی شے نہیں اٹھائی ۔
”میں ٹھیک ہو رہی ہوں مذکر…. آج میں نے مسز وحید کی ریسٹ واچ پسند آنے کے باوجود غائب نہیں کی۔“ گھر لوٹ کر وہ بچوں کی طرح خوشی سے اچھلتے ہوئے اسے بتا رہی تھی اور اس کا یہ انداز بھی مذکر کے لیے نیا تھا۔
”تمہیں پتا ہے پچھلے تین ماہ سے میں نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگا یا۔“ اس روز وہ مال میں گھومتے چیزیں دیکھتے اسے بتا رہی تھی ۔ وہ خوش تھی اور مذکر اس سے کہیں زیادہ خوش تھا ۔
”اور اس سب میں ڈاکٹر نیل سے زیادہ تمہارا دخل ہے جو تم نے مجھ جیسی لڑکی کا پاگل پن برداشت کرتے ہوئے میرے ٹھیک ہونے میں مدد کی ۔ میرے ذہن اور دل پر زیادہ بوجھ اس بات کا تھا کہ میں اپنی ذات کی اس کمی کے متعلق کسی کو کھل کر بتا سکوں ۔ میرے اندر کااحساسِ ندامت میرے اس گناہ سے کہیں بڑھ کرتھا جو مجھے بے چین رکھے ہوئے تھا ۔تم نے میری ایک ایک داستان سنتے ہوئے میرے اندر کی اس گھٹن کو کم کیا ہے۔ یہ سب آسان نہیں تھا، لیکن تم نے اسے کس قدرآسان بنا ڈالا۔“ وہ اپنی بہتری میں سارا عمل دخل مذکر کا گردانتی تھی ۔
”تم میری بیوی ہو اور بیوی ایک مرد کے وجود کا حصہ ہوتی ہے۔ تم ذہنی کرب سے گزر رہی تھی، تو مجھے لگتا تھا میں روحانی طور سے اذیت میں ہوں ۔اب تم ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہے۔“ ایک مان سے اس نے ایزا کو گلے لگا لیا تھا ۔
٭….٭….٭



Loading

Read Previous

اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

Read Next

سلیم ناصر ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!