”میرے والدین کون تھے۔ کہاں تھے اور ان کی کیا مجبوری رہی ہو گی یہ میں نہیں جانتی ۔یتیم خانے میں جہاں میری پرورش ہوئی تھی یہی ریکارڈ موجود تھاکہ میں تب وہاں لائی گئی جب میںمحض چار ماہ کی تھی۔ میرے شعور میں جو بھی پہلی اور ہلکی سی جھلک ہے وہ اسی یتیم خانے کی ہے جہاں میں رہتی تھی اور جہاں سے میں ایک ایسے بے اولاد جوڑے کے حوالے کر دی گئی جس نے مجھے اپنے ساتھ سالوں رکھا۔ مسٹر اور مسزایڈم ہارورڈ …. جب میں ان کے حوالے کی گئی تو میں بہت چھوٹی تھی، اتنی کہ مجھے ٹھیک سے کچھ یاد بھی نہیں ہے۔شاید چار برس کی یا پھر پانچ…. بس اتنا یاد ہے کہ اس گھر میں میرے علاوہ بارہ بچے بچیاں تھے۔ ہم سب لگ بھگ ایک سی عمر کے تھے۔ تین سے لے کر سات سال کی عمر کے ہم تیرہ جن میںنو لڑکیاں اور چار لڑکے شامل تھے۔ہم سب مختلف یتیم خانوں سے لائے گئے تھے ، کیوں لائے گئے تھے یہ شاید ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
وہ دونوں میاں بیوی کبھی کسی سے ملتے جلتے نہیں تھے۔ نہ ان کے ہاں کوئی آتا جاتا تھا ۔ نہ وہ زیادہ گھر سے باہر نکلتے تھے۔ ان کی آمدن ایک چھوٹے سے فارم ہاو ¿س کے ذریعے ہوتی تھی جو ان کا پرانا خدمت گارایمی چلاتا تھا۔ مسٹر ایڈم ہفتے میں صرف ایک روز گھر سے باہرچند گھنٹے کے لیے نکلتے تھے۔ فارم ہاو ¿س جانے اور گھر کی چند ضروری اشیا خریدنے اورکبھی تو وہ بھی نہیں۔ میں اسکول تب جاتی تھی جب میں یتیم خانے میں تھی۔ اس گھر میں آنے کے بعد میں کچھ عرصہ اسکول گئی اس کے بعد مجھے اسکول سے اٹھوا کر گھر پر پڑھایا جانے لگا۔ باقی بچوں کی طرح جو سب ڈرے سہمے اور چپ چاپ رہتے تھے اور اب میرا شمار بھی انہی میںہونے لگا تھا۔
ہمارہر روزا ایک سا ہوتا تھا۔ صبح اٹھ کر ایک بدمزہ ناشتا کرنا، پھرسارے گھر کی صفائی کرنا، کپڑے دھونا اور کھانا پکانے میں مسز ایڈم کی مدد کرنا۔ باقی کا سارا وقت ہم پڑھنے اور خاموشی سے ایک طرف بیٹھے رہنے میں گزارتے تھے۔ ہمیں کھیلنے کی اجازت ہفتے میں دو بار محض دو گھنٹے کے لیے ملتی تھی جس کی پہلی شرط خاموشی تھی اور اس دوران ہم سارا وقت یہ سوچتے گزارتے تھے کہ ہم بغیر شور کے کون سا کھیل کھیلیں؟ ہمارے جسموں پر میلے اور بدبودار کپڑے ہوتے تھے جن کی حالت دھو دھو کر خاصی ابتر ہوچلی تھی۔ پاو ¿ں میں پہننے والی چپلیں گھس گھس کر پھٹ چکی تھیں اور انہیں پہن کر چلنے سے تکلیف ہوتی تھی پھر بھی ہم ایسے کپڑے اور ایسی چپلیں پہننے پر مجبور تھے کیوں کہ مسٹر ایڈم ہمیں نئے کپڑے جوڑے دلاکر اپنا خرچا نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ وہ ہم پر خرچ کرنے ہمیں وہاں نہیں لائے تھے۔ سخت سردی میں بھی ہمارے پاس پہننے کے لیے وہی لباس ہوتا جو ہم گرمیوں میں پہنا کرتے سوائے اس ایک فراق کے ساتھ کہ اس لباس پر پہننے کے لیے ہمارے پاس ایک اونی سویٹر ہوتا تھا۔ پاو ¿ں میں پہننے کے لیے جگہ جگہ سے پھٹی جرابیں اور ہاتھ میں پہننے کے لیے دستانے جس کا ایک جوڑی دار دوسرے بچے کے پاس پایا جاتا تھا۔
ہم میں سے جس کسی سے بھی تفویض کیے گئے کام میں ذرا سی بھی غلطی ہو جاتی مسٹر ایڈم ہمیں روئی کے گالے کی طرح دھنک کر رکھ دیتے تھے۔ کبھی موٹے ڈنڈے اور کبھی بیلٹ سے ہماری پٹائی لگائی جاتی۔ تب تک جب تک ہمارے جسم سے خون بہنا نہ شروع ہو جاتایا ہماری کھال نہ ادھڑجاتی یا پھر پٹنے والابچہ بے ہوش ہو کر گر نہ پڑتا۔ ا س سے باقی بچے اپنا سارا دھیان کام میں لگاتے کیوں کہ ہم میں سے کوئی بھی اگلی بار اس ڈنڈے اور بیلٹ کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا جو مسٹر ایڈم ہاتھ میںلیے پورے گھر میں پھرتے، ہماری رکھوالی کرتے تھے۔
مسٹر ایڈم کا گھر جس علاقے میں تھاوہ ایک دور دراز کا قصبہ تھا اور وہاں ارد گرد خاصے فاصلے تک کوئی دوسرا گھر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوا جب میں اتنی بڑی ہو گئی کہ اوپری منزل پر بنی صدیوں کی جامد کھڑکیوں کے آگے پڑے پردوں کو ہٹا کر دیکھ سکوں۔ دور دور تک صرف لہلہاتے کھیت اور درخت دکھائی دیتے تھے۔ سڑک گھر سے خاصے فاصلے پر تھی جہاں خاصی دیر بعد کسی گاڑی کا گزر ہوا کرتا تھا اور میں نے ایک برس تک وہاں اس گھر کے مکینوں کے سوا کسی ذی روح کو آتے جاتے نہیں دیکھا تھا ۔
میں پڑھائی اور ذہانت کے اعتبار سے باقی بچوں کے مقابلے میںخاصی ہوشیار تھی۔ میرے ہر روز کے سوالات سے تنگ آکر مسٹر ایڈم نے میری پڑھائی چھڑوانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے مطابق انسان کو اتنا ہی پڑھا لکھا ہونا چاہیے کہ ضرورت پڑنے پر وہ حساب کتاب کر سکے اورچوں کہ میری پڑھائی مجھے شعور دے رہی تھی سو اسے ترک کرنا ہی بہتر سمجھا گیا۔
جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی اس ماحول اور اس کے مکینوں کے خلاف میرے اندر نفرت بڑھتی گئی اور جلد ہی میں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ ہم تیرہ جو اب ایک نئے بچے کے آنے سے چودہ ہو گئے تھے دراصل وہاں قیدی ہیں۔ وہ چھوٹا سا پرانے طرز کا بوسیدہ گھر ہماری جیل اور مسٹراینڈ مسز ایڈم وہاں کے جیلر۔ جب کبھی مسٹر ایڈم باہر سے غصے میں بھرے آتے ہم تمام بچے گھر کے کونے کھدروں میں چھپ جاتے کیوں کہ ایسے میں جو بھی ان کے سامنے آتا وہ اسے مار مار کر اپنا سارا غصہ اتار لیتے۔ مسز ایڈم کو بھی اس قسم کے دورے بیٹھے بیٹھے ہی پڑتے تھے۔ وہ یک دم پاگلوں کی طرح چلانے لگتیں اور کسی بھی بچے سے سامنا ہو جانے کی صورت میں اس پہ تشدد کر کے اپنا سارا پاگل پن نکال لیتیں۔ ہماری ذہنی اور جسمانی اذیت ہی ان دونوں کی ذہنی اذیت کو کم کرتی تھی۔ وہ ایک عرصہ بے اولاد رہے تھے جس کے نتیجے میں دونوں ہی نفسیاتی مرض کا شکار ہو چکے تھے اور اسی بیماری کے نتیجے میں ہم بچے وہاں اکٹھے کیے گئے تھے۔ مسٹر اور مسزایڈم کو بچے گود لینے کے بجائے انہیں قید میں رکھ کر اذیت دینے کا خبط تھا۔ ایسا کر کے وہ ذہنی سکون پاتے تھے۔ ہم بچوں کی صورت انہیں مفت میں غلام مل گئے تھے جن سے وہ سارے گھر کاکام لیتے اور ان پر حکومت کرتے ۔ اس بات کا ادراک مجھے شعور کی ابتدائی منازل طے کرتے ہی ہوا تھا ۔
یوں تو اس گھر میں کوئی شے بھی نایاب نہیں تھی جسے چرایا جاتا، لیکن جس روز کسی بچے کی شامت آتی میں اندر ہی اندر اس کا بدلا لینے کی ٹھانتے ہوئے مسٹر یا مسز ایڈم کی کوئی چیز چرا لیتی۔ اس چیز کو میں کبھی استعمال میں نہیں لائی تھی۔ میرا مقصد صرف انہیں معمولی نقصان پہنچا کردلی سکون حاصل کرنا تھا اور شاید میرا یہی اقدام مجھے اس بری عادت میں مبتلا کرنے کا سبب بنا تھا ۔
”دنیا میں کتنا کچھ ہوتا ہو گا نا ، کتنی سہولیات اور آسائشات۔“ مسز ایڈم کی ایک پرفیوم چرا کر سونگھتے میں نے اس کی مہک کو اپنے اندر اتارتے ہوئے سوچا تھا اور پھر ان کی مختلف چیزیں چراتے، چھپاتے میں یہی سوچا کرتی تھی کہ ہم کس کس نعمت سے محروم ہیں، لیکن ہم کس کس نعمت سے محروم رکھے گئے تھے۔ اس بات کا ادراک تو ہم سب کو اس قید سے رہائی حاصل کرنے کے بعد ہوا تھا ۔
میں ایک ایسی جگہ جہاں ہمیں زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جاتاتھا، اپنے رہنے کا مقصد ڈھونڈتی رہتی تھی اور عنقریب تھا کہ میں وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتی۔ ایسی ایک کوشش تھامس نے مجھ سے پہلے ہی کر ڈالی تھی۔ وہ ہم سب میں سب سے بڑا اور مضبوط جسم کا مالک تھا جو گھر کے سب سے مشکل کام انجام دیا کرتا تھا ۔ اسے وہاں رہتے ہوئے نو سال ہو چلے تھے۔ اسی لیے وہ مسٹر ایڈم کی فطرت اور ان کے گھر کے چپے چپے سے واقف تھا۔ دوپہر میں جب مسٹر اور مسز ایڈم سو جاتے اور ہم بچے اپنے اپنے کام ختم کرکے کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے، توتھامس ایک ایسی ہی دوپہر کچن میں بنے دروازے سے بھاگنے کی کوشش میں کامیاب ہو گیا۔ وہ گھر سے بھاگ کر سڑک تک پہنچ کر کسی گاڑی کے وہاں سے گزرنے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اس کے ذریعے شہر جا سکے ۔ اس روز مسٹر ایڈم وقت سے پہلے جاگ گئے یا یہ تھامس کی بد قسمتی تھی کہ جس نے انہیں جگایا تھا۔ مسٹر ایڈم نے ہم سب میں تھامس کو نہ پا کر اسے پورے گھر میں ڈھونڈا اور پھر اس کی تلا ش میں اپنی کھٹا را گاڑی نکال کر سڑک تک جا پہنچے جہاں کم عقل تھامس ان کے ہتھے چڑ ھ گیا تھا۔ اس روز پہلی بار ہم نے بغاوت کی سزا کو تھامس کی ٹوٹی ٹانگوں کی صورت میں جانا تھا ۔ وہ ساری عمر بیساکھیوں کے سہارے پر آ گیا تھا ۔
تھامس کا حال دیکھ کر میں مزید وہاں سے باغی ہوتے بھاگنے کے منصوبے بنانے لگی۔ مجھے کوئی منصوبہ بھی تھامس کی طر ح ناقص اور بودا نہیں بنا نا تھا کہ میں پکڑے جانے کی صورت ساری عمر ٹوٹی ٹانگوں پر چلنے میں گزار دیتی ۔ اسی لیے میں دن رات مختلف پہلوو ¿ں پر غور کرتی رہتی ۔ خود ہی کوئی منصوبہ تشکیل دیتی اور خود ہی اسے بے کار سمجھ کر رد کر دیتی۔ نجانے کتنے ماہ میں نے ایسے ہی گزار دیے یا شاید کتنے سال۔ اس گھر میں وقت ہم سب کے لیے ساکن تھا۔ پھر ایک روز مجھے رہائی کا ایک نیا پہلو دکھائی دیا تھا۔ مہینے میں ایک آدھ بار مسٹر ایڈم کے لیے بنک، یتیم خانوں یا ان کے پرانے محکمے جہاں وہ کام کرتے تھے سے ڈاک آیا کرتی تھی۔ میں نے اکثر دروازے پر ڈاکیے کو آتے دیکھا تھا۔ تبھی میرے ذہن نے ایک نیا منصوبہ ترتیب دیا کہ میں ڈاکیے کی مدد سے ایک چھٹی پولیس تک پہنچا کر انہیں مدد کے لیے بلا سکتی ہوں۔ اس مقصد کے لئے میں نے ایک کاغذ پر تمام حالات و واقعات لکھ کر ا سے اپنی پینٹ کے اندرونی حصے میں سی لیا تھا۔ میرا کام اوپری منزل کی صفائی کا تھا، لیکن اگر مجھے ڈاکیے سے ملنا اور اس کے حوالے وہ خط کرنا تھا، تو مجھے ہر دم باہر رہنے کی ضرورت تھی اور باہر وہی بچہ جا سکتا تھا جو باغیچے کی حفاظت کاکام کر تا تھا۔ میں نے مسز ایڈم سے درخواست کی کہ وہ باغیچے کا کام میرے سپرد کر دیں۔ مسز ایڈم کو مجھ پر کسی قسم کا شک نہ ہو اسی لیے میں نے پہلے سے نیتی کو ساتھ ملا لیا تھا جو ان دنوں باغیچے کا کام کرتی تھی اور اسے پھولوں سے الرجی کی شکایت تھی۔ نیتی کی خراب حالت کے پیشِ نظر مسز ایڈم نے مسٹر ایڈم کو بتائے بغیر ہم دونوں کی ڈیوٹی کا تبادلہ کر دیا۔ اس روز کے بعد ہم دونوں ہی ڈاکیے کی آمد کے منتظر رہنے لگی تھیں۔ میں سارا دن باغیچے کے پھولوں پودوں کی دیکھ بھال کرتے دن گنتی رہتی۔ اس ماہ ڈاکیا نہیں آیا اور نیتی یک دم مایوس ہو چلی تھی۔
”مجھے نہیں لگتا کہ ڈاکیا آئے گا یا تم اس سے مل پاو ¿ گی اور اگر ایسا ہو بھی گیا، تو بھی وہ تمہاری چٹھی نہیں لے کر جائے گا۔ میںنے ایک جگہ پڑھا تھا کہ ڈاکیا وہی ڈاک لے کر جاتا ہے جو ڈاک خانے والے اس کے حوالے کرتے ہیں۔“