”وہ انگوٹھی کتنی خوبصورت تھی مذکر جو ہم نے اس مال میں دیکھی تھی۔ یوں جیسے اس میں جنت کے یاقوت اور زمرد جڑے ہوں۔“ وہ دونوں سٹنگ روم میں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ جب ایزا ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں بولی ۔ مذکر نے اسے بہ غور دیکھا ۔ وہ جیسے اپنے حواسوں میں نہیں تھی ۔
وہ کس انگوٹھی کی بات کر رہی تھی وہ نہیں جانتا تھا ۔ سارا دن مالز میں گھومتے ہوئے مذکر کے بہت کہنے کے باوجود بھی اس نے کسی چیز پر ہاتھ رکھتے یہ نہیں بتایا تھا کہ اسے کیا پسند آیا تھا۔ وہ معمول کے مطابق چیزیں دیکھتی گزرتی رہی۔ اس نے کوئی چیز بھی نہیں خریدی تھی۔
”تم کہو تو کل ہی خرید کر لا دوں تمہیں ؟“
”قیمتی تھی۔“ اس نے نہیں پوچھا کہ کتنی قیمتی۔ وہ ایک لمحہ بھی ضائع کئے بنا بولا تھا۔
”تم سے قیمتی نہیں تھی۔“ ایزا اس بات پہ اسے کوئی پانچ منٹ پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتی رہی تھی۔
”نہ میں قیمتی ہو ں نہ مجھے قیمتی چیزیں خریدنے کی عادت ہے۔ “وہ کافی کا مگ وہیں ادھورا پیئے بنا اٹھ کر چلی گئی تھی۔ مذکر کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوا تھا۔ وہ اس کی یک دم بدلتی کیفیت سے تھکنے لگا تھا۔
وہ دونوں جب کبھی باہر گھوم کر آتے تو ایزا کے منہ سے کسی نہ کسی شے کی تعریف ضرور نکلتی تھی۔ مذکر اسے ہر وہ شے دلوانے کی پیشکش کرتا جو شاپنگ کے دوران پسند آجانے کے باوجود اس نے کبھی اس سے خرید کر لے دینے کی فرمائش نہیں کی تھی، اب گھر آتے ہی اسے یاد آنے لگتی تھی ۔وہ اس پیشکش پر سوائے خاموشی اختیار کرنے کے اور کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتی تھی ۔
”تمہیں جو اچھا لگتا ہے تم کبھی مجھے وہیں کھڑے کھڑے کیوں نہیں بتاتی؟ مجھے وہیں بتا دیا کرو تاکہ میں تمہیں خرید کر دے سکوں؟“ وہ کبھی سمجھ نہیں پایا تھا کہ وہ ایسا کیوں کرتی تھی۔ وہ ایک عام بیوی کی طرح اپنے شوہر سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کیوں نہیں بتاتی تھی کہ اسے کیا پسند آ رہا ہے اور وہ کیا خریدنا چاہتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان اتنے ماہ گزر جانے کے باوجود بھی ایک اجنبیت سی موجود تھی جسے مذکر چاہ کر بھی ختم نہیں کر پا رہا تھا ۔
”کیوں کہ مجھے فرمائشیں کرنے کی عادت ہے نہ ہی چیزیں خریدنے کی۔“
”تو پھر تمہیں کس چیز کی عادت ہے ؟“ اس نے مذکرکی اس بات پر لب بھینچ کر اسے دیکھا اور وہاں سے اٹھ جانا بہتر جانا ۔
٭….٭….٭
”آج میں اسی شاپ پر گیا تھا جہاں پچھلے ہفتے تمہیں وہ گلوبند پسند آیا تھا۔ وہی لال موتیوں والا جسے دیکھنے کے باوجود تم نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ وہ تمہیں اچھا لگا ہے۔“ اس رات کھانے کے دوران مذکر نے اس سے تذکرہ کیا، تو اس کے کھانا کھاتے ہاتھ وہیں ٹھہر گئے تھے۔ شاید وہ اس بات پر حیران تھی کہ وہ اس دکان تک کیسے پہنچ گیا کیوں کہ اسے کون سا گلوبند کہاں پسند آیا تھاوہ یہ بات تب تک نہیں جان سکتا تھا جب تک وہ اسے دکان کا نام نہ بتاتی۔
”تمہارے چونکنے کے انداز نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ اس میں کچھ غیر معمولی ضرور تھا، لیکن اپنی فطرت سے مجبور ہو کر تم اظہار نہیں کر پا ئی تھیں۔“ وہ اس کا ذہن جیسے پڑھ سکتا تھا تبھی کہہ رہا تھا۔
”پھر….؟ کیا تم نے وہ میرے لیے خرید لیا؟“ مذکر نے اس کے پوچھنے پہ نفی میں سر ہلایا تھا۔
”وہ پرسوں رات ہی چوری ہو گیا تھا۔“
”چوری…. ؟ “ وہ سکتے کی سی کیفیت میں تھی۔
”مگر کیسے….؟“
”یہی تو معلوم نہیں ہو سکا کہ کیسے۔ خیر دکاندارجلد ہی ویسا منگوا دے گا مجھے تمہارے لیے۔“ وہ اب پھر سے کھانا کھا رہا تھا۔ ایزا کا چہرہ کسی بھی قسم کے تاثر سے عاری تھا۔
”لیکن مجھے اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ “ اس نے کھانا اسی طرح ادھورا چھوڑ دیا اور اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی۔ مذکر ایک بار پھر سے اس کے اچانک بدلتے رویے پر جی بھر کر حیران ہوا تھا۔
”تمہیں کیا ہوجا تا ہے ایزا؟ تم کیوں ایسا برتاو ¿ کرتی ہو؟“ وہ اس رات اسے اپنے ساتھ لگائے پوچھ رہا تھا ۔
”کیا ہو جاتا ہے مجھے؟ کیسا برتاو ¿کرتی ہوں؟“ ایزا یوں انجان سا بن کر بولی جیسے وہ لاعلم تھی کہ وہ کس بارے میں پوچھ رہا ہے ۔
”ایک دم بدلی بدلی ۔ جیسے تم ایزا ہو ہی نہیں ۔میں تمہیں نہیں سمجھ پاتا کہ تمہیں کیا ہو جاتا ہے۔“ مذکر کی بات پر وہ عام سے انداز میں ہنس دی جیسے وہ مذاق کر رہا ہو۔ اس نے بات کا رخ بدل ڈالا اور اسی رات وہ مذکر کے سونے سے پہلے ہی سو چکی تھی، لیکن آدھی رات کو آنکھ کھلنے پر وہ اپنے بستر پہ نہیں تھی اور اب وہ اسے یہاں اسٹور روم میں پتھرائی نظروں سے فرش پر بیٹھی ان چیزوں کو سامنے بکھرائے دیکھتی ملی تھی۔ مختلف رنگوں اور ہیئت کی انگوٹھیاں ، نیکلس، بریسلٹ، کرسٹل کے ڈیکوریشن پیس، کلچ، ہیر بینڈز اور اس قسم کی دیگر اشیائ۔ اسے یاد تھاوہ نیلے نگوں والا بریسلٹ جو ایک ڈبے میں سجا پڑا تھا اس نے ” گولڈی گولڈ “ نام کی دکان پر دیکھا تھا۔ وہ سرخ موتیوں والا گلوبند جو اس نے ایزا کے لیے خریدنے کا اراد ہ کیا تھا اور اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ چوری ہو چکا، وہ بھی وہیں ایک کونے میں پڑا تھا۔ وہ کرسٹل کا کینڈل اسٹینڈجو اس نے ایبک کے ہاں دیکھا اور سراہاتھا، لکڑی کا وہ ڈبا جس پر عدیم کی بیوی نے بڑے شوق سے اپنا نام کھدوایا تھا جو عدیم نے اسے اس کی سالگرہ پر دیا تھا۔ باقی تمام اشیا وہ نہیں پہچان پایا تھا کیوں کہ وہ اس کے حافظے میں محفوظ نہیں رہی تھیں ۔ وہ سانس روکے ایک ایک چیز کو دیکھتا رہا اور ذہن جو سمجھ رہا تھا اس کی نفی کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
ایزا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر ایک شکستہ انسان کے مانند سر جھکا لیا۔ وہ جوصدیوں کی بیمار لگ رہی تھی، اب اپنے دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے سر جھکائے بیٹھی تھی ۔
”یہ سب کیا ہے ایزا؟ یہ سب تو…. یہ سب تمہارے پاس کیسے آیا؟“ وہ شاکڈ سا وہیں اس کے قریب بیٹھ گیا۔ وہ سمجھ بھی رہا تھا پھر بھی پوچھ رہا تھا۔ اس امید پر کہ شاید وہ اس کی سوچ اور سمجھ کو جھٹلا دے ، شاید کہ اس کے پاس بتانے کو ، کہنے کو کچھ اور ہو۔
”یہ سب مجھے اچھا لگا تھا ۔“ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھے بغیر اور چیزوں کو تاسف سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
”تمہیں اچھا لگا اور تم نے انہیں چرا لیا؟“ اب کی بار وہ چلا یا تھا، لیکن ایزا اسی طرح بیٹھی رہی۔ مذکر نے اسے جھنجھوڑ کر ہوش میں لانے کی کوشش کی، تو اس نے اپنا سر اس کے شانے سے ٹکا دیا تھا ۔
”میںنے انہیں جان بوجھ کرنہیں چرایا…. میں نہیں جانتی کیوں، لیکن میں یہ سب نہ چاہتے ہوئے بھی کر دیتی ہوں۔ “ وہ رو رہی تھی ۔
”تم چور ہو؟ “ اس کا لہجہ ہنوز بے یقین تھا۔
اس کی بات پہ وہ تڑپ کر پیچھے ہٹی تھی ۔
”میں چور نہیں ہوں ….“ وہ چلائی تھی۔
”یہ چوری نہیں تو اور کیا ہے؟ تم نے نجانے کہاں کہاں سے یہ سب سمیٹا ہے اور تم کہہ رہی ہو میں چور نہیں ہوں۔ اسی لیے تم مجھے نہیں بتاتی تھی کہ تمہیں کیا پسند آیا کیوں کہ تم اسے خریدنے کی بجائے چرانے پر یقین رکھتی تھی۔ تمہیں مجھ سے فرمائش کرنے کی ضرورت اسی لیے پیش نہیں آتی تھی کیوں کہ تم خاموش رہ کر بھی اس شے کو حاصل کر لیا کرتی تھی۔ دکانوں اور مالز سے تو چلو چھوڑو تم نے تو میرے دوستوں کے گھروں سے بھی چیزیں اٹھا لیں اور وہ کیا سوچتے ہوں گے کہ ہمارے وہاں جانے کی دیر ہوتی ہے کہ ان کی کوئی قیمتی چیز غائب ہو جاتی ہے۔ “ وہ بھی جواباً چلایا تھا۔
”مگر میں یہ جان بوجھ کر نہیں کرتی۔ میں یہ سب نہ کروں، اسی لیے میں نے لوگوں سے ملنا ملانا چھوڑ دیا، کہیں آنا جانا چھوڑ دیا ۔ اپنا ذہن مصروف رکھنے کے لیے دو دونوکریاں کیں ۔ تمہارے دوستوں کے گھروں میں اسی لیے نہیں جاتی تھی کہ تم میری وجہ سے کبھی شرمندگی نہ اٹھا و ¿۔ پھر بھی تم مجھے لے جانے کی ضد کرتے رہتے اور میں انکار کرتی رہتی تھی۔ نجانے وہ کون سی قوت ہے جو مجھے اس سب پر اکساتی ہے۔ میں ایسا کرنا نہیں چاہتی مگر میں کرتی ہوں، میںایسا بننا نہیں چاہتی مگر میں بن گئی ہوں ۔ کم از کم تم تو سمجھنے کی کوشش کرو کہ میں چور نہیں ہوں۔ میں اس عادت سے چھٹکارا پاناچاہتی ہوں مگر ایسا نہیں کر پارہی۔ ہر بار مجھے چیز اٹھا لینے پہ پچھتاوا ہوتا ہے، لیکن اگلی بار میں پھر سے کوئی بھی چیز پسند آنے پر اٹھا لیتی ہوں۔ میں یہ سب جان بوجھ کر نہیں کرتی بس مجھ سے ہوتا چلا جاتا ہے۔ سمجھنے کی کوشش کرو مذکر…. مجھے چور مت کہو ، بھلے مجھے کوئی اور گالی دے لو مگر مجھے چور مت کہو ۔“ وہ بچوں کی طرح روتے ہوئے بے بسی سے کہہ رہی تھی ۔
”تمہیں ان چیزوں کی ضرورت تھی تو مجھے کہتی، میں لے دیتا تمہیں لیکن اس طرح …. “ وہ کچھ نرم پڑاگیا۔
”لیکن مجھے ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگرضرورت ہوتی تو میں ان کو استعمال میں لاتی، یوں ایک طرف لا کر پھینک نہ دیتی ۔“
مذکر ناقابل ِیقین کیفیت میں وہیں یخ بستہ فرش پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا جو روئے جارہی تھی۔ اب اس کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ ریستوران کے مالک نے کیوں اس کی اتنی اچھی کارکردگی کے باوجود اسے نکالا تھا ۔یہ اس کی کوئی ورکر نہیں تھی جس نے منیجر کو اس کے خلاف کیا تھا بلکہ یہ وہ خود تھی جس نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا ۔
اسے یاد آیا کہ میگراتھ نے اسے ایک بار ایزا سے متعلق کچھ بتانے کی کوشش کرتے اسے اس سے دور رہنے کی تلقین کی تھی، لیکن تب وہ اسی سے لڑنے کھڑا ہو گیا تھا ۔ اس نے وجہ جاننے اور اس کی بات سننے کی قطعاً کسی قسم کی کوشش نہیں کی تھی البتہ اس نے میگراتھ سے ملنا اور اس کے کیفے جانا چھوڑ دیا تھا ۔ وہ ایزا سے لنچ بریک میں کہیں باہر ملنے لگ گیا تھا۔
اتنے عرصہ اس کے ساتھ رہنے کے باوجود وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ وہ جو ہر لحاظ سے اچھی عادات کی مالک لڑکی تھی، ایسی بری عادت میںکیسے مبتلا ہو سکتی تھی ۔
”کیا میں چور ہوں مذکر؟ کیا تمہیں بھی سب کی طرح میرے ساتھ اتنا وقت بتا دینے کے باوجود لگتا ہے کہ میں چور ہوسکتی ہوں؟ جیسے سب مجھ سے قطع تعلق کرتے رہے یہ جان کر کہ میں ان کی چیزیں اٹھا لیتی ہوں تم بھی کر لو گے؟ مجھے چھوڑ دو گے؟ ا س گھر سے، اپنے دل سے نکال دو گے؟ میں پھر سے اکیلی ہو جاو ¿ں گی۔ یہ واحد رشتہ کھو دوں گی۔ پھر سے تنہا زندگی گزاروں گی؟ یا تم مجھے مسٹر ایڈم کی طرح مارو گے ۔ قید رکھو گے ، مجھ سے نفرت کرو گے کیوں کہ میں چیزیں اٹھا لینے کی بری عادت میں مبتلا ہوں۔ بغیر یہ جانے کہ میں ایسا کیوں کرتی ہوں۔ بولو مذکر تم کیا کرو گے؟ “ وہ سر اٹھائے اسی طرح بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے، روتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ مذکر نے اس کی جانب دیکھا۔ اس کی معصومیت اور سچائی اب بھی اس کی آنکھوں سے روزِ اوّل کی طرح چھلکتی تھی ۔ وہ آج بھی وہی ایزاتھی جو پہلے تھی۔ کہیں کچھ بھی نہیںبدلا تھا۔
”میں ایساکچھ نہیں کروں گا۔“
”تم کیا کرو گے یہ جان کر کہ تمہاری بیوی چور ہے؟“ وہ اس کا گریبان پکڑے اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔
”میں تمہارا علاج کراو ¿ں گا ایزا کیوں کہ تم چور نہیںہو ، بیمار ہو…. اور تمہیں ایک اچھے ڈاکٹر کی ضرورت ہے ۔“ اس نے ایزا کو اپنے ساتھ لگاتے ، کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ وہ اب اس کے سینے سے لگی ہولے ہولے لرزتے سسک رہی تھی ۔
٭….٭….٭