کلپٹومینیا ۔ ناولٹ

اس سال ایسٹر پر ان دونوں کا شادی کرنے کا ارادہ تھا اور ابھی ایسٹر آنے میں پورے دو ماہ باقی تھے۔اس دوران وہ قریباً روزانہ ہی ملتے رہے تھے۔ ایزا کو رات کی شفٹ میں اپارٹمنٹ سے ایک قریبی بار میں نوکری مل گئی تھی جسے اس نے بخوبی قبول کیا تھا۔ مذکر اس کی اس دہری نوکر ی خاص کر بار میں کام کرنے کو سخت ناپسند کر رہا تھا اور اس کا اس نے ایزا سے برملا اظہار بھی کیا تھا۔
”آخر تمہیں ضرورت بھی کیا ہے یوں ڈبل شفٹ کرنے کی۔ اگر تم اتنا کام کرو گی تو آرام کب کرو گی؟“
”میں بار سے رات کے تین بجے تک فارغ ہو جاتی ہوں اور جا کر سو جاتی ہوں۔ صبح کیفے جانے سے پہلے میں خاصی فریش ہو تی ہوں۔“ وہ اسے نہیں بتا سکتی تھی کہ آخر اسے ضرورت ہی کیا تھی یوں خوار ہو نے کی۔ اس کی ذات کا غرور اسے کام کرنے کی ترغیب دیتا تھا، کسی کے سامنے جھک کر ہاتھ پھیلانے کی نہیں۔
”جتنی تم فریش ہو وہ تمہارے اس ایک ہفتے کی نوکری میں ہی نظر آنے لگا ہے۔“ وہ ا س کی آنکھوں کے گرد بنے حلقوں کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ وہ جانتی تھی لیکن وہ اس ڈبل شفٹ سے کسی طور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔ اسی لیے مذکر نے اسے کہنا چھوڑ دیا تھا ۔ اس کا ارادہ تھا کہ شادی تک وہ اتنا تو کما لے کہ اپنے لیے کوئی ڈھنگ کے کپڑے بنا سکے ۔مذکر کو دینے کے لیے کوئی تحفہ خرید سکے اور اپنے دیگر اخراجات پورے کر سکے۔ یہ سب کام اسے خود کے لیے کرنا تھے کیوں کہ انہیں کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی رشتہ موجود نہیں تھا ۔
مذکر ایک انڈین مسلمان تھا اور اس کے والدین اس کے بچپن ہی میں انتقال کر چکے تھے ۔ اسے اس کی دادی نے پالا تھا جن کی وفات اس کے اٹلی آنے سے قریباً پانچ ماہ قبل ہوئی تھی۔ یہاں وہ پچھلے ڈھائی سال سے ایک کمپنی میں بطور سافٹ ویئر انجینئر کام کررہا تھا۔ ایزا کے متعلق بس وہ اتنا ہی جانتا تھا کہ اس کے والدین حیات نہیں اور وہ ایک عرصے تک ایسی فیملی میں رہی تھی جو بے اولاد تھی۔ اب وہ اکیلی کیوں رہ رہی تھی اس کا جواب ایزا نے خاموشی کی صورت دیا تھا۔ یہ اس کا ماضی تھا جس میں مذکر نے بہت زیادہ دل چسپی ظاہر نہیں کی تھی اور یہی اس کی پہلی بےپروائی اور پہلی غلطی تھی۔



٭….٭….٭
”ایک ریستوران میں کام کرنے والی لڑکی سے شادی کر نے کا فائدہ یہ تو ہوا کہ مجھے اب بہت اچھا کھانا گھرمیںکھانے کو ملتا ہے۔نہ مجھے خود بنانا پڑتا ہے اور نہ کھانے کے لیے کہیں جانا پڑتا ہے۔“ اس روز وہ پیزا کھاتے ہوئے محظوظ ہوتا ہنسا تھا ۔ جواباً وہ بھی مسکرائی تھی۔
”تم ضرورت سے زیادہ تعریف کرڈالتے ہو کیوں کہ میں بطورویٹرس یا ریسپشنسٹ کے کام کرتی رہی ہوں نہ کہ بطور کُک کے۔“ شادی کے بعد وہ سونال کے ساتھ رہنے کے بجائے ایک الگ اپارٹمنٹ میں منتقل ہو چکا تھا۔ وہ دونوں اپنی زندگی کو بھر پور طریقے سے انجوائے کر رہے تھے۔ اسے لگتا تھا کہ ایزا پہلے کی نسبت زیادہ خوش رہنے لگی ہے ، زندگی کو بہتر طور سے جینے لگی ہے اور اس کے اپنے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ ایک سلجھی ہوئی لڑکی تھی جس نے اس کے گھر کو بہت اچھے طریقے سے سنبھال لیا تھا۔ جب سے ایزا اس کی زندگی میں آئی تھی مذکر کو اس میں کوئی اخلاقی برائی نہیں دکھی تھی جیسا کہ عموما ًوہاں کے ماحول اور لڑکیوں میں پائی جاتی تھیں۔ وہ اخلاقی اقدار کا پاس رکھنے والی لڑکی تھی۔ واحد عادت جس سے مذکر کو شادی کے ایک ماہ بعد الجھن ہونے لگی وہ اس کا کبھی کبھار کا عجیب برتاو ¿ تھا۔
”کمرے میں ایک کرسٹل کا گلدان پڑا ہے۔ غالباً یہ وہی گلدان ہے جو ہم نے مسز میری کے ہاں دیکھا تھا اور تمہیں بہت پسند آیا تھا۔ تم نے اتنی جلدی اسے ڈھونڈ نکالا اور خرید بھی لائیں، کمال ہے۔۔“ اس کی بات پہ ایزا کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
”مجھے بہت کم چیزیں اچھی لگتی ہیں اور جب کوئی چیز اچھی لگ جائے تو وہ میں کسی بھی طرح محنت کر کے حاصل کر لیتی ہوں۔“ اس نے یہ جواب جیسے کہیں کھوئے کھوئے دیا تھا ۔ وہ اکثر بات کرتے ہوئے ایسے ہو جاتی تھی جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو۔ جیسے کسی غیر مرئی دنیا سے اس کا تعلق جڑ گیا ہو اور وہ اس دنیا سے بالکل کٹ گئی ہو ۔مذکر نے ایک آدھ بار اس سے اس رویے کی شکایت بھی کی تھی، لیکن جواباً وہ خاموش رہی تھی۔
”اور مجھے زندگی میں بس ایک تم ہی بے حد اچھی لگی ہو جسے میں نے بغیر محنت کے حاصل کر لیا۔“
وہ حال میں لوٹ آئی تھی اور مذکر کو بہت دیر یوں دیکھتی رہی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہے، لیکن پھر وہ سر جھکائے خاموشی سے پیزا کھانے لگ گئی۔
شادی کے بعد وہ اپنی کیفے کی نوکری مذکر کے کہنے پر چھوڑچکی تھی۔کیفے اس کے اپارٹمنٹ سے خاصا دور تھا اورمذکر کی آمدنی اتنی تھی کہ اسے اس معمولی نوکری کے لیے خوار ہونے کی اب کوئی ضرورت نہیں تھی تاہم ایزا خود کو مصروف رکھنے کے لیے نوکری کرتے رہنا چاہتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ ایک ماہ گھر میں گزار لینا سال گزار لینے جیسا تھا ۔
”تم گھر کے اور میرے کاموں میں دل لگاو ¿۔“
”میں تمہارے اور گھر کے سارے کام کرنے کے باوجود بھی دن کا آدھا حصہ فارغ رہتی ہوں۔ کیا بہتر نہیں کہ میں اس فارغ حصے کو کارآمد بناتے ہوئے کوئی کام کرلوں۔“
”تم کوئی مصروفیت ڈھونڈو۔ گھر پر رہتے کوئی کام شروع کر دو۔“ وہ اسے پہلے جیسی زندگی سے بچانا چاہتا تھا جو وہ اتنے سالوں سے گزار رہی تھی ۔
”میرے پاس گھر میں رہتے ہوئے کوئی مصروفیت نہیں ہے ۔“
”تم پڑھائی کیوں نہیں شروع کر دیتی، جو تم پہلے نہیں کر سکیں اب کرلو۔ تعلیم کے لیے وقت کی کون سی قید ہے ؟“
”تعلیم حاصل کر کے مجھے اب کیا کرنا ہے؟ اتنے سال پڑھائی سے دور رہ کر اب پھر سے یہ سلسلہ شروع کرنے کا میراقطعاً دل نہیں کرتا ۔“ ایک اُداسی نے اسے گھیر لیا تھا ۔



”کرنا تو اب تمہیں نوکری کرکے بھی کچھ نہیں ہے ایزا۔“
”کیا میں سمجھوں کہ تم ایک روایتی شوہروں کی طرح مجھے گھر میں قید کر رہے ہو؟“
”کیا میں سمجھوں کہ تم اس بات کو اب اپنی انا اور ضد بنا رہی ہو؟“
”تم نہیں سمجھتے کہ نوکری کرنا میرے ذہن کو مصروف رکھنے کے لیے کتنا اہم ہے۔ میں فارغ رہ کر شیطان بن جاتی ہوں۔“ اس کی بات پہ مذکر بہت دیر تک ہنسا تھا جبکہ ایزا سنجیدگی اور کچھ بے بسی سے اسے دیکھتی رہی تھی۔
”اس کیفے جیسی نوکریاں تمہیں انسان بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہیں تو میں تمہیں نہیں روکوں گا لیکن بہتر ہے کہ تم کوئی ایسی نوکری تلاش کرو جو یہاں قریبی علاقے میں ہو اور ہمارے اوقات ملتے جلتے ہوں تاکہ نہ مجھے تمہارا انتظار کرنا پڑے نہ تمہیں میرااور جب تم سمجھو کہ اب تم اس نوکری سے تھک گئی ہو، تو بغیر کسی بھی بارے میں سوچتے ہوئے نوکری چھوڑ دینا۔ یہ جو میرا وائلٹ ہے یہ تمہارا ہی ہے بالکل ویسے جیسے تم میری ہو۔“ اس نے نرمی سے اس کے ماتھے پہ بوسا دیتے ہوئے اس کی خواہش مان لی تھی۔
ایزا نے اس بالواسطہ اجازت پر پھر سے قریبی علاقے میں نوکری ڈھونڈنا شروع کر دی تھی ۔
٭….٭….٭



Loading

Read Previous

اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

Read Next

سلیم ناصر ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!