”خیر تم انجوائے کرو۔ باپ کے گھر آئی ہو ہفتہ دس دن میں کیا حالت بنا لی ہے”۔ وہ اُسے تسلی دے کر اٹھ گئے اور پھر چند دنوں کی محنت کے بعد کیس کی باقاعدہ سماعت شروع ہو گئی۔ دانش کی تباہی کا انہیں بھی دُکھ تھا۔ انہوں نے اپنے گاوؑں ڈسکہ میں جا کر لوگوں سے مل ملا کر دانش کے سسرال والوں سے راضی نامہ کروایا۔ دانش کا بڑا بیٹا منصور غصے میں پاگل ہو رہا تھا۔ سب ہی بچے اب ننھیال کے رحم و کرم پر تھے۔ نانا کے بعد اُن کا ماموں اور دوسرے رشتہ دار پیش پیش تھے۔ صابر حسین خود تو مر چکا تھا لیکن گھر کے حالات اب بھی نہ سدھرے تھے۔ صلح اور راضی نامہ کی پہلی شرط انہوں نے بلا چون و چرا مان لی اور گھر دانش کے بیٹے منصور کے نام کر دیا پھر انہوں نے اس کی چھوٹی بیٹی فروا کو بڑی کوششوں اور تدبیروں سے منصورہ کے پاس بھجوایا اور منصورہ کو اُس کا رشتہ بیٹے سے طے کرنے پر قائل کیا۔
”اس وقت تم دونوں بہنوں کو اپنے خاندان کی بکھری ہوئی عزت کو سمیٹنا ہے اور اپنے دشمن کی خوشی کے مواقع کم کرنے ہیں”۔ فروا میٹرک کا امتحان پاس کر کے گھر بیٹھ گئی تھی۔ ماں کی موت، باپ کی جیل نے اُسے کالج میں ایڈمیشن نہ لینے دیا تھا۔ اُس دن انہیں یوں لگا جیسے انہوں نے دشمن کے محاذ پر نقب لگا کر اپنی فتح کا جھنڈا لہرا دیا تھا۔ جب منصور نے اُن کے بہت سمجھانے اور منانے کے بعد اپنے ماموں سے اپنا رشتہ توڑ دینے کو کہا۔ وہ حیرت زدہ تھے کہ یہ معرکہ اتنی آسانی سے کیسے سر ہو گیا۔
”میں سمجھ گیا ہوں تایا جی کہ آپ کبھی ہمارا بُرا نہیں چاہ سکتے۔ یقینا ہماری ماں کے خاندان سے نفرت کی کوئی خاص وجہ ہو گی۔ میں نے آپ کی طرح اپنے ننھیال کے سب دروازے بند کر دیے ہیں۔ آپ منصورہ خالہ سے کہیں مجھے پاکستان سے باہر بھجوا دیں، میں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔”
اُس جذباتی اور جوشیلے سے لڑکے پہ انہیں بے ساختہ پیار آگیا۔ ”بیٹا اپنے باپ کی طرح فوری قدم نہ اٹھاوؑ۔ خدا بہتر کرے گا۔ بس اپنے دماغ سے اِردگرد دیکھو میں تمہاری راہ کا ہر پتھر دور کرنے کی کوشش کروں گا”۔ انہیں پتا تھا کہ دانش کی رہائی تک منصور کا پاکستان رہنا ضروری تھا۔ اصل مسئلہ فروا کا تھا کہ دانش کی بیٹی کی زندگی اور عزت محفوظ رہے۔ انہوں نے ایک ہفتے کا ٹائم منصورہ کو دیا اور پھر فروا کا نکاح ٹیلی فون پر منصورہ کے بیٹے سے کروا دیا۔ اب فروا آرام سے وہاں رہ سکتی تھی اور پیپرز بننے ویزا لگنے تک یہاں کے حالات سدھر جاتے ۔پھر وہ اُسے منصورہ کے بیٹے اور میاں کے پاس شارجہ بھجوا دیتے۔
وہ بڑی ترتیب اور دانش مندی کے ساتھ پلاننگ کر کے ہر قدم اٹھا رہے تھے۔ دانش کے چھوٹے بیٹے کو وہ لاہور لے آئے وہ چند ہی دنوں میں حجاب کے بچوں سے گھل مل گیا۔ اُس کے چہرے سے وحشت اور خوف کے سائے کم ہو گئے تھے۔ ان سارے معاملات کو سلجھاتے سلجھاتے حجاب کے جانے کے دن قریب آگئے۔
زارا اُس کی مصروفیت اور جنون کو دیکھ کر حیران ہو گئی۔ ”آپی… آپ تو بہت ہی حساس ہیں دانش بھائی کے مسئلے پر۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ بجھے دل سے ہنس پڑی۔ ”کیا تمہیں دُکھ نہیں ہے”؟
”ہے آپی… پر آپ تو ایسا لگتا ہے اس دفعہ یہی ٹارگٹ لے کر آئی ہیں۔ کسی اور سے ملنے ملانے کا آنے جانے کا ہوش نہیں… ڈسکہ سے لاہور سے کورٹ سے وکیل بس یہی زندگی رہ گئی ہے۔” زارا کا شکوہ بالکل بجا تھا۔ واقعی آج کل اسی مسئلے میں گم تھی اس کی زندگی۔
”ہماری بیٹی ہماری طرح ہے جس مشن کا بیڑہ اٹھا لے اُسے نامکمل نہیں چھوڑتی۔” پاپا دونوں کو محبت سے دیکھ رہے تھے۔ وصی تحریم کے ساتھ شادی کے بعد یورپ سیٹ ہو گیا تھا۔ دو تین سال بعد مہینے ڈیڑھ کے لیے آجاتا فیملی لے کر اور وہ پھر سے بہل جاتے۔ وہ اُن دونوں کو اپنے پاس بلانے کا آرزو مند تھا لیکن اُن کا ایک ہی اصول بن چکا تھا ”صرف اور صرف پاکستان” تم تینوں جہاں مرضی آوؑ جاوؑ۔ رہو۔ لیکن میرا جینا مرنا صرف میرا وطن ہے۔ وہ اکثر اپنے بچوں سے یہی کہتے تھے۔
”حجاب ایک بات میری سمجھ میں نہیں آرہی”۔ وہ حجاب کی طرف متوجہ ہوئے۔ ”میں نے پچھلی ملاقات میں دانش سے کہا کہ غیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ تم بیٹی کو ڈھونڈتے۔ چاہے تمہیں دس سال لگ جاتے پھر اُسے مارتے تاکہ تمہیں لوگ غیرت مند کہتے تم نے بیوی کو خواہ مخواہ مشتعل ہو کر مار دیا”۔ وہ سانس لینے کو رُکے سب بہ غور انہیں سن رہے تھے۔ کہنے لگے کہ میری بات سن کر وہ بڑے عجیب سے لہجے میں بولا: ”چھوڑوں گا اُسے بھی نہیں۔ لیکن مجھے فروا کو بھی تو اُس ڈائن سے بچانا تھا۔ ورنہ وہ بھی یہی کچھ سیکھتی اور اسی طرح خوار ہوتی”۔ وہ اُلجھے اُلجھے سے بیٹھے تھے۔
”پاپا بات صاف ہے۔ سسرالیوں سے اُن کی بنی نہیں تھی۔ جوشِ جوانی میں وہ بہت سے حقیقتوں کو نہیں سمجھ پائے تھے۔ لیکن جب اصل بھیڑ چال کو سمجھے تو بہت وقت گزر چکا تھا۔ وہ جان گئے تھے کہ اُن کی بیوی اپنے میکے والوں کے ساتھ مل کر ساز باز کر رہی تھی۔
”لیکن بیٹا اپنے بچوں کی ماں تو تھی ناں وہ”۔ اماں کو یقین نہیں آتا تھا کہ ممتا ایسی بھی ہو سکتی ہے۔
”اماں اُن عورتوں کو آپ کیا کہیں گی، جوبچے چھوڑ کر آشنا کے ساتھ فرار ہو جاتی ہیں اک ماں تو وہ بھی ہوتی ہے”۔ حجاب کی دلیل نے سب کو چُپ کروا دیا۔
”یا اللہ ان دو مہینوں میں جب بھی آئی ہوں یہاں عدالت چل رہی ہوتی ہے”۔ زارا بے بس ہو کر بولی۔
”کیا کیا جائے زارا بی بی عدالتیں تو اب ہڑتال اور جسٹس کے چکر میں سڑکوں پر آگئی ہیں ریلی اور لانگ مارچ کی باتیں کرتی ہیں۔ تو پھر گھروں میں عدالت تو لگے گی ناں”۔ حجاب نے بات کو موڑ دیا تھا۔
”پاپا میرا پروگرام تو یہ ہے کہ میں یہاں تب تک رکوں جب تک دانش کی رہائی عمل میں نہ آجائے لیکن اب طاہر دو ماہ اکیلے رہ کر اُکتا گئے ہیں لہٰذا مجھے واپسی کا سوچنا ہے اب”۔
”ظاہر ہے بیٹا اپنے گھر تو جانا ہے”۔
”لیکن پاپا جی میرا دھیان تو اِدھر رہے گا”۔ اُس کے دل کی زبان پر آگئی تھی۔
”کیا تمہیں مجھ پر یقین نہیں اور اب ایک دو پیشیوں کے بعد تو فیصلہ ہو جائے گا۔ ویسے بھی کمزور کیس ہے۔ اب بچے بھی باپ کے حق میں گواہی دیں گے۔ اُس کی جماعت بھی ساتھ ہے اور سچی بات تو یہ ہے حجاب وہ بندہ بھی حق پر ہے”۔ وہ حیران سی انہیں دیکھنے لگی۔ ”جیل میں اُس کے حسن اخلاق کی بہت تعریف ہے کہ وہ وہاں بھی قیدیوں اور دوسرے عملے کو قرآن پڑھا رہا ہے۔ لکھنا پڑھنا سکھا رہا ہے”۔
”بے چارہ دانش سدا سے اُس کا ستارہ گردش میں ہے” اماں کو دکھ ہو رہا تھا ساری باتوں سے۔
”بس بیگم کچھ تو اُس کا نصیب تھا۔ کچھ اُس سے کوتاہیاں ہوئیں۔ کچھ اُسے دوسروں کی غلطیوں کی سزا بھی ملی اور میں نے اُسے زندگی کے میدان میں تنہا چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔ وہ بچہ تھا۔ رستہ بھول گیا اور میں نے انگلی پکڑ کر دوبارہ رستہ نہ دکھایا۔ میں بھی اپنی اَنا میں آگیا۔ مجھے اُس کی مشکلات کو سمجھنا چاہیے تھا۔” وہ جانے کن کن باتوں کو سوچ کر کہے چلے جا رہے تھے اور دانش کا چھوٹا بیٹا اپنی کھیل کود چھوڑ کر انہیں یک ٹک دیکھتا جا رہا تھا۔ حجاب حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
”میرا خیال ہے بلکہ آئی ایم شیور کہ میں اب سکون سے واپس جا سکتی ہوں۔” وہ اُٹھ کر اُن کے قریب آئی اور دھیرے سے اُن کے شانے پر ہاتھ رکھ دیے۔
”حجاب تم نے میرے اندر کے جمود کو توڑ دیا۔ مجھے میرا فرض اولین یاد کروا دیا۔ میں بھلا بیٹھا تھا کہ میری اپنی زندگی بھی دانش کی دادی کی محبت، ایثار اور شفقت کا ثبوت ہے اور محبتوں کا قرض تو صرف محبتوں سے چکایا جاتا ہے۔ اَنا، بُغض، اکٹر اور اصول یہ سب تو اس سودے میں آتے ہی نہیں ہیں”۔ وہ کہیں کھو سے گئے تھے۔ حجاب نے اُن کی سفید بالوں بھری کنپٹیوں پر اپنے ملائم سے ہاتھ رکھے ”پاپا جانی یو آر گریٹ”۔ وہ ہلکا سا مسکرا دیے۔
”میری کوشش تو یہی ہو گی حجاب کہ رہائی کے بعد دانش کو کچھ عرصہ وصی کے پاس بھیج دوں۔ تاکہ اُس کی فرسٹریشن کم ہو۔ پھر آکر وہ اپنا ٹرسٹ چلائے جو مرضی کرے۔ تھوڑا عرصہ اُس کا اِس ماحول سے الگ رہنا ضروری ہے پھر باپ بیٹا دونوں آرام سے رہیں گے”۔ انہوں نے چند قدم دور بیٹھے دانش کے بیٹے کو دیکھا۔ ”نہیں نانا ابو مجھے اپنے بابا کے پاس نہیں جانا۔” وہ حجاب کے بچوں کو دیکھا دیکھی انہیں اکثر مانا ابو کہہ دیتا۔
”لیکن بیٹا وہ تو اب بالکل اکیلے ہیں”۔ وہ اُس کی طرف متوجہ ہوئے۔ ”ویسے بھی تمہاری حجاب آنٹی تو کچھ دن تک واپس چلی جائیں گی”۔
”بابا کو آپ اکیلے رہنے دیں۔ انہیں بھی اپنی غلطی کا پتا چلے”۔ چھوٹے سے بچے کے منہ سے اتنی بڑی بات سُن کر وہ حیران ہوئے۔
”تو بیٹا پھر آپ کہاں رہنا پسند کریں گے؟” حجاب نے اُس کو اپنے پاس بلایا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا پاپا کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
”آپ کے پاس۔ مجھے بس آپ کے پاس رہنا ہے اور کہیں نہیں جانا۔ نہ بابا کے پاس نہ ماموں کے پاس نہ اپنے گھر”۔ اُس کی سپاٹ سی آنکھیں جانے کیا سوچ رہی تھی۔
”ہاں بیٹا ضرور رہو میرے پاس۔ عالیان، روشان اور ماہ نور چلے جائیں گے تو میں آپ کے ساتھ کھیلوں گا اور یہ زارا آنٹی تو اپنے بچوں بہت کم کو لاتی ہے”۔ انہوں نے پیار سے اُس کا ہاتھ پکڑا۔
”نانا ابو آپ جب بابا کے پاس جائیں تو انہیں بتا دیں کہ بس مجھے اِدھر رہنا ہے اور آپ جیسا بننا ہے”۔ اُس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑی اُن کی یونیفارم والی تصویر اٹھائی۔ ”نانا ابو ایسا”۔ بچے کی یہ ایک اضطراری سی حرکت تھی۔ لیکن وہ اسی ایک ادا پر نثار ہو اُٹھے تھے۔
”میں تمہیں ایسا ہی بناوؑں گا میرے بچے۔ ہاں ایسا ہی”۔ انہوں نے خلوص دل سے اُسے بانہوں میں لے کر شفقت سے چوم لیا اور اماں، زارا، حجاب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ معصوم سے بچے نے اپنا فیصلہ آپ کر لیا تھا۔
”میرا خیال ہے پاپا سب مسئلے حل ہو گئے ہیں۔ یہی سب سے مشکل مرحلہ تھا، جو زوہیب نے خود ہی طے کر لیا ہے”۔
”اس معصوم بچے کی معصومیت نے میرے اندر اُمنگ پیدا کر دی ہے حجاب۔ میرا خیال ہے کہ میری جوانی لوٹ آئی ہے”۔ وہ کئی دنوں کے بعد خوش دلی سے مسکرا دیے تھے۔
”اور اب یہ عدالت برخاست کی جاتی ہے۔ چائے کے لیے تشریف لایے”۔ زارا نے چائے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ سب ٹیبل کی طرف آگئے۔ ”تمہاری زندگی کی بکھری مالا کے موتی اپنے ٹھکانوں پر پہنچ گئے ہیں دانش۔ میں صبا کو علاقہ غیر سے نہیں لا سکتی۔ لیکن تمہارا زوہیب جن محفوظ ہاتھوں میں آگیا ہے۔ وہ ہاتھ پتھر کو ہیرا بنا دینے والے ہیں۔ تمہاری فروا اور منصور تمہارے اپنے رشتوں میں رَچ بس گئے ہیں۔ میں نے جتنی میری بساط تھی اُتنی تگ و دَو ضرور کی ہے۔ اس سے زیادہ میرے اختیار میں نہیں۔ تمہاری کہانی کے سب ہی کرداروں سے انصاف کرنا اور انہیں اپنی جگہ فٹ رکھنا میرے بس میں کہاں کہ آخری فیصلہ تو کاتبِ تقدیر کرتا ہے۔ ہم تو صرف ایک قدم اٹھانے کا اختیار رکھتے ہیں۔قادرِ مطلق تو وہ ہے”۔ اپنے چائے کے مگ سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھتی ہوئی وہ سوچے جا رہی تھی۔
”حجاب چائے پیو۔ کیا سوچ رہی ہو؟”۔ اماں نے اُسے متوجہ کیا۔
”بس اماں جانی سوچ رہی ہوں کہ پیکنگ کر لوں۔ تین چار دن تو رہ گئے ہیں”۔
”مما ابھی سات دِن باقی ہیں”۔ عالیان نے آہستہ سے اُس کی تصحیح کی۔
”لو بیٹا تمہیں ابھی سے جانے کی لگ گئی”۔ اماں نے شکوہ کیا۔
”اب آپ دو دن میری طرف آکر رہیں اسد اتنا شکوہ کرتے ہیں”۔
”ہاں بھئی ایک دن تمہارے لیے دو دن سسرال کے اور باقی اپنے پاپا کے لیے۔” اُس نے بڑی محبت سے اپنے پاپا کو دیکھا، جو چائے پیتے ہوئے زوہیب، عالیان اور روشان سے باتیں کر رہے تھے۔
”میں جانتی ہوں پاپا کہ آپ نے دانش کو اپنی لائن میں لے جانا چاہا۔ دانش نے آپ کی مرضی کے خلاف کیا۔ وصی کو شروع ہی سے آپ کی ڈیپارٹمنٹ سے الرجی تھی۔ وہ مورچوں، زمینوں اور سخت چٹانوں پر زندگی گزارنے سے گریزاں تھا۔ اب آپ کو قدرت نے اپنے خواب میں رنگ بھرنے کا ایک موقعہ دیا ہے اور آپ اس موقعے کو کبھی نہیں گنوائیں گے”۔ دِل کی کسک ختم ہوتے ہی ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ روح پر چھایا غبار چھٹ گیا تھا اور وہ آنے والے خوبصورت دنوں کی اُجلی نکھری تصویر کو واضح انداز میں دیکھ سکتی تھی اور کہانی کے منطقی انجام کو سمجھ سکتی تھی۔
٭٭٭٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});