”بہت روپ و رنگ دیکھے زندگی کے۔ اب وہاں ایک معیاری قسم کا ایجوکیشنل ٹرسٹ بناوؑں گا بس”۔ پھر کتنا ہی عرصہ دبے پاوؑں بیت گیا۔ وہ پاکستان آئی تو اماں سے دانش کے بیٹے کی موت کی خبر ملی۔ وہ اماں کے ساتھ تعزیت کے ارادے سے ڈسکہ چلی آئی۔ دانش کی بیٹی بی۔ اے فائنل میں تھی۔ ذکیہ آپا کے بیٹے سے اُس کا رشتہ طے کر دیا گیا تھا۔
”سال تک شادی کریں گے۔” ذکیہ آپا نے اُسے بتایا۔ سب کچھ بدل گیا تھا۔ البتہ دانش کی بیوی سے مل کر اب بھی اُسے اُسی ناپختگی کااحساس ہوا تھا وہ بالکل نہیں بدلی تھی۔ذکیہ آپا سے اُسے دانش کی زندگی کی کئی اذیتوں کا پتا چلا۔ جھگڑے، مسائل، بچوں کی بے راہ روی۔ وہ لاہور آکر کئی دن تک افسردہ سی رہی اور پھر جدہ پہنچ کر اپنی روٹین پہ آگئی۔ بچوں کی اسکولنگ شروع ہو چکی تھی لہٰذا اُس کی مصروفیت بھی بڑھ گئی تھی۔ وہ پوری جان سے گھر گرہستی سنبھال رہی تھی۔ اُسے گھرداری میں اُلجھے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی انٹلکچوئل اور آئیڈیل سی لڑکی ہے۔ طاہر علی نے زمانے کی ہر خوشی اور ہر سہولت اُسے مہیا کی تھی۔ اس لیے وہ ذہنی طور پر بہت آسودہ تھی۔ انہی گزرتے ہوئے سُبک سُبک دنوں میں اُسے فون پر دانش کی بیوی کی موت کی اطلاع ملی۔ وہ چکراتے دماغ کے ساتھ بیڈ پر آبیٹھی۔
”پہلے بیٹے کی ناگہانی موت اب بیوی کا انتقال۔ میرے خدا یہ کیسی آزمائش سے تیرے بندوں کی۔” اُس کا دل تڑپ اٹھا تھا۔
پھر اُسے اماں سے مریم کی موت کی تفصیل معلوم ہوئی تو وہ چکرا گئی۔ ”نہیں اماں ایسا ناممکن ہے”۔ وہ بے یقینی میں تھی۔
”نہیں بیٹا یہ سچ ہے۔ صبا کارشتہ کچھ غیر مناسب باتوں کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ وہ اپنے میٹرک کے دنوں سے ہی گلی کے کسی لڑکے کے ساتھاانوالو تھی۔ چکر بہت سنجیدہ تھا۔ مریم کو سب پتا تھا۔دانش نے مریم کا رشتہ بچانے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود۔ صبا کے کرتوت ہر شخص دیکھ رہا تھا۔ دانش اپنے ٹرسٹ کی مصروفیات میں گم تھا۔ اُسے اپنی بیوی اور بیٹی کی سازباز کی کوئی خبر نہ تھی اور پھر ایک رات صبا گھر سے کہیں چلی گئی۔
دانش پاگل ہو گیا۔ ہر جگہ چھان ماری۔ پولیس کو خبر کی۔ اُسے اپنا کھانا پینا سکول سب کچھ بھول گیا۔ صرف صبا کی تلاش زندگی کا مقصد رہ گیا تھا۔ ایک مہینہ اسی تلاش میں گزر گیا۔ پولیس اپنی کارروائی کر رہی تھی پھر ایک روز دانش نے فون پر اپنی بیٹی اور بیوی کی خفیہ گفت گو سن لی۔ وہ صدمے کے مارے اپناذہنی توازن کھو بیٹھا اُس کی بیوی صبا کے بارے سب کچھ جانتی تھی۔ صبا نے اُس لڑکے سے نکاح کر لیا تھا۔ ساری حقیقت کھلی تو دانش نے اپنی بیوی سے باز پرس کی۔ لیکن اُس کی ایک ہی رَٹ تھی کہ اُسے کیا معلوم۔ دانش کا بڑا بیٹا منصور اور بیٹی فروا بھی ماں کی حمایت میں بول رہے تھے جب کہ راز کھل چکا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
غیظ و غضب کے عالم میں دانش نے مریم کو شوٹ کر دیا۔ جنوں کا وہ آخری لمحہ تھا شاید اُس کا بیٹااور بیٹی اپنے ماموں کوبلانے نکلے تھے تاکہ جھگڑا ختم ہو اور واپسی تک ماںختم ہو چکی تھی۔ بیٹا اور بیٹی چیخنے لگے۔ چھوٹا بیٹا پتھرایا ہوادیکھ رہا تھا۔ ماں اُس کے سامنے خون میں لت پت پڑی تھی۔ دانش نے تھانے جا کر اقبال جرم کر لیا”۔ اماں نے اُسے فون پر تفصیل بتا رہی تھیں۔
”تمہارے برسوں پرانے وہم سچ ثابت ہو گئے۔ تمہیں یہی دھڑکا تھا صبا کی طرف سے… تم نے ہمیشہ غلط قدم اٹھائے دانش”۔وہ کئی دِن تک ذہنی طورپر اَپ سیٹ رہی۔ کبھی کبھار طاہر علی بھی دانش کے موضوع پر بات کرتے ہوئے حیران جاتے ” وہ مذہبی سا شریف سا آدمی اور اتنا بڑا جرم”۔ ”حالات انسان کو اُس مقام تک لے جاتے ہیں جب اچھائی برائی، اونچ نیچ کی تفریق سے بے نیاز ہوکربندہ انتہائی قدم اُٹھا لیتا ہے اور کسی دیوانے کی طرح انجام سے غافل ہو جاتا ہے”۔ سات، آٹھ ماہ بعد بچوں کوچھٹیاں ہوئیں تو اُس نے پاکستان جانے کا ارادہ طاہر کیا۔
”عید پر چلیں گے حجاب… اب میں نہ جا سکوں گا”۔
”ایک مہینے کا تو پتا ہی نہیں چلتا میں زیادہ وقت وہاں گزارنا چاہتی ہوں۔ طاہراُس کی خواہش پوری کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اس لیے اُن کی ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست کرنے لگے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی تیاریوں میں لگ گئی۔ تین بچوں کو لے کر جانا تھا۔ اس لیے پیکنگ کا کافی کام تھا۔ میکے اور سسرالی عزیزوں کے لیے ڈھیروں شاپنگ بھی کرنا تھی۔ سو وہ پوری تندہی سے درجہ بہ درجہ سارے امور نبٹانے میں مصروف ہو گئی۔
”انسان اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بیسیوں خطائیں کرتا ہے اور خدا ہر لمحہ ہر گھڑی انسان کی بخشش کے لئے آمادہ رہتا ہے۔ ایک آپ ہیں کہ بیس پچیس سال پرانی خطاوؑں کو دل سے لگائے بیٹھے ہیں۔ ایک کم عقل، مجبور اورجذباتی انسان کی پرانی خطا کو معاف کرنے کاحوصلہ نہیں رکھتے”۔ کچھ دن پہلے ہی وہ پاکستان آئی تھی۔ سسرال میں دو چار دن رہنے کے بعد وہ اماں کے پاس آگئی تھی اور اب ہر لمحہ اماں اور پاپا سے دانش کے موضوع پر سرکھپاتی رہتی۔ ”مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ تم دانش کا مقدمہ میرے پاس بیٹھ کر کیوں لڑ رہی ہو؟”
”تو کہاں جاوؑں۔ ابھی آپ کو سارے نکات و حقائق سمجھا رہی ہوں۔ آپ نہیں سمجھے تو کورٹ کیا سپریم کورٹ تک جاوؑں گی۔ بلکہ کوئی بڑا کو وکیل کروں گی جو ہر ایسا کیس لڑنے کا حوصلہ رکھے جس میں ملزم مجبور بھی ہو اور کمزور و بے بس بھی لیکن حق پر ہو”۔
”تم نے ایل۔ ایل۔بی بھی اسی لیے کیا تھا؟” ”ماسٹرز اور ایل۔ ایل۔بی تو کسی اور ارادے سے کیا تھا آپ نے سارا فیوچرتباہ کر دیا”۔ وہ شرارت سے کہہ رہی تھی۔ وہ اُس کی اس بات سے آگاہ تھے کہ جب وہ کسی بات پر ڈٹ جاتی تھی تو پھر آسانی سے نہ مانتی تھی۔
”میری بچی، ساری عمروہ لڑکامن مانی کرتا رہا۔ تھرڈ کلاس فیملی میں لو میرج کرلی۔ اپنا روشن مستقبل داوؑ پر لگا دیا۔ سعودیہ گیا اور پھر مذہبی تنظیم میں شامل ہو گیا۔ وہاں سے آیا بچوں کو بھی اپنی لائن میں لگا لیا اور آخری اور سب سے بڑی حماقت بیوی کا قتل”۔وہ اس کی ہسٹری دہرا رہے تھے۔
”پاپا جانی اُس کے حالات میں اُس کی قسمت کا بھی بہت دخل رہا ہے۔ میں نے سارا کیس سٹڈی کیا ہے میں اُس کے وکیلوں سے ملی ہوں۔ مجھے صرف آپ کا تعاون چاہیے پاپا۔”
”بیٹا ایسا سیدھا سادا کیسے بری ہو جائے گا وہ۔” پاپا بے توجہی سے بولے وہ اُس کی باتیں سن سن کر اُکتا رہے تھے۔
”میں جانتی ہوں پاپا غیرت کا فائدہ دے کر دانش کی سزا ختم ہو جائے گی۔ لیکن اس میں ٹائم لگے گا۔ ”
”وہ تو ظاہر ہے۔”
”پاپا آپ نے میری ماہ نور کو دیکھا ہے دانش بھائی کا چھوٹا بیٹا اسی کے برابر ہے۔ اُس کا جرم کیا ہے جو وہ ماں کے بعد باپ کو بھی کھو دے یا باپ کے جرم کی سزا بھگتے اورسوسائٹی میں ایک شرمندہ زندگی گزارے ”۔ وہ جذباتی ہو رہی تھی۔
”بیٹا یہ سوال اُس کے باپ سے کرو”۔
”کیا تھا پاپا… پہلی ملاقات میں ہی کیا تھا”۔ وہ دھیرے سے بولی۔
”تم اس سے ملنے جیل گئی تھیں؟” وہ حیران تھے۔
”میں نے ایک وکیل کی حیثیت سے کورٹ میں اُن سے ملاقات کی تھی۔ انہیں جیل میں دیکھنے کاحوصلہ مجھ میں کہاں ہے پایا”۔ وہ رنجورسی ہو گئی تھی۔ اُس کی مضطرب سی حالت دیکھ کر وہ خاموش رہے۔ اتنا احساس انہیں تھا کہ اُسے شروع ہی سے دانش سے لگاوؑ تھا۔
”وہ بے وقوف اقبالِ جرم کر چکاہے”۔ وہ بھی تھوڑا اُداس ہوئے۔
”پاپا گھرمیں پالے ہوئے جانور سے بھی محبت ہو جاتی ہے۔ آپ کو اُن کی بربادی کا دُکھ نہیں۔ آپ حالات و واقعات کو اُس طرح نہیں جانچ رہے، جس طرح میں دیکھ رہی ہوں۔ دانش بھائی کو تباہ کرنے کی سازش بڑی کامیابی سے کی گئی تھی”۔
”ویسے دلائل بڑے اچھے دیتی ہو پریکٹس نہ کرنے کے باوجودکامیاب وکیل لگ رہی ہو۔”
”پاپا بات ایسے نہ ٹالیے۔ آپ کی ہزار کوششیں ناکام ہوئیں۔ آپ نے دانش بھائی کو دس سال اپنے پاس رکھا۔ آفیسر بنانا چاہا، شادی کی بھی مخالفت کی لیکن ہوا وہی جو صابر حسین کے خاندان نے چاہا۔ صبا کی غلط تربیت، مریم کی ساز باز، بچوں کی آوارگی، ماں کی پردہ داری، صبا کا گھر سے فرار اور کورٹ میرج یہ سب کس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
”آپ کو اذیت دینے کے لیے ایک کچے ذہن کو ٹریپ کیا گیا”۔ وہ بولتے بولتے تھک گئی تھی۔ وہ کہیں سوچوں میں کھو گئے تھے۔ وہ مایوس ہو کر روشان کی طرف متوجہ ہو گئی جو پاس ہی بیٹھا کھیل رہا تھا۔
”کاش حجاب میں تمہیں پریکٹس کرنے دیتا تو یقینا میرے وطن کو ایک بہترین وکیل نصیب ہوتا”۔ انہوں نے پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
”پاپا آپ کو پتا ہے میں جس دن سے دانش بھائی سے مل کر آئی ہوں میں راتوں کو سو نہیں سکی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا سفا ک کام کیوں کیا؟ اُن کا جواب رات کے سناٹوں میں میرے کانوں میں گونجتا ہے پاپا ۔
”مجھے اپنے ماں باپ کے ساتھ ہی مر جانا چاہیے تھا یا یہ جرأت پچیس سال پہلے ہی کر لینی چاہیے تھی۔ میرے جیسی زندگی، جیسی میں جیا کس کام کی۔ میں ہر پَل اپنے آپ سے لڑتا رہا”۔ شدتِ جذبات سے اُس کی آواز رندھ گئی۔ اماں بھی وہیں آکر بیٹھ گئی تھیں۔ وہ دانش کے لیے رو رہی تھیں۔
”اچھا اب مجھے مزید ٹینشن نہ دو۔ ایموشنل بلیک میلنگ بند کرو۔ میں اپنے سارے وسائل لڑا دوں گا۔ اُس کی تنظیم بھی کوشش کر ہی ہے اللہ بہتر کرے گا”۔
”بس آپ اُسے جیل سے آزادی دلایے”۔ اماں جلدی سے بولیں۔
”صرف آزادی نہیں پاپا نئی زندگی۔ ورنہ پاپا میں کڑھ کڑھ کر ختم ہو جاوؑں گی”۔ انہوں نے ایک نظر دِل گرفتہ سی حجاب کو دیکھا۔ ”ارے بیٹا بہادری سے جیتے ہیں یہ نشیب و فراز تو زندگی کا حصہ ہیں۔ وہ لڑکا ہمیشہ عجلت میں فیصلے کر کے مجھے پریشان کرتا رہا ہے۔ بہرحال دیکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے۔ ” وہ دل گرفتہ ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});