کسک — حسنین انجم

”تم سڑ کیوں رہی ہو۔ گھر کی حالت درست کرو۔ بچوں کو دیکھو۔ اتنے کام ہیں جو خراب ہو رہے ہیں اُن کی طرف دھیان دو”…
”کام… کام۔ بس کام ہی تو رہ گئے ہیں اورکیا ہے؟”وہ بڑ بڑا رہی تھی۔
”اور کیا چاہتی ہو تم… بولو…” وہ پین بند کر کے اُس کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”میں چاہتی ہوں کہ بس تمہارے ساتھ گھوموں پھروں عیش کرو… شاپنگ کروں…”۔ وہ کہتی جا رہی تھی۔ ”وہی عام عورتوں والی باتیں …” وہ بے زار سا ہوا…
” ہاں میں عام عورت ہوں میری فرمائشیں بھی عام ہی ہیں۔ تم کون سی پروا کرتے ہو”۔ وہ روٹھ گئی تھی۔
”پروا… سارا وقت تمہاری فکرمیں رہتا ہوں۔ اتنی محنت کس کے لیے کرتا ہوں۔ سارے زمانے سے لڑ کر تمہیں حاصل کیا ہے۔ لیکن تم وہی ناشکری، بے وقوف عورت”۔
”زیادہ دعوے مت کرو دانی۔ میں نے جنگ کی ہے سب سے تمہارے لئے اور اب مصیبتیں بھی میں ہی جھیل رہی ہوں”۔
”مصیبتیں کون سی؟” اُس کا موڈ بگڑ گیا تھا۔
”گھر داری۔ بچے۔ اتنا کام۔ ”تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ کہیں سیر ہی کروا دو”۔
”اتنے چھوٹے بچے ہیں ابھی انہیں بڑا ہونے دو پھر”۔ وہ اُسے سمجھا رہا تھا۔
”کیوں میری بہن سمیرا بھی تو بچوں سمیت ہی مری ہے نا”۔
”اوہ”… وہ ساری بحث کا پس منظر سمجھ گیا تھا۔ ”پتا نہیں بے وقوف عورت تمہیں کب عقل آئے گی۔ دوسروں کی نقل کا سوچتی رہتی ہو سدا”۔اُس نے اُسے ڈانٹ دیا۔
”نقل… تم یہ کہو کہ تم میں شوق نہیں، حوصلہ نہیں مجھے عیش کروانے کا۔ میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی”۔ بحث بڑھتی بڑھتی جھگڑے کا رُوپ اختیارکر گئی۔ اُس نے غصے میں آکر اُسے تین چار تھپڑ لگا دیے، ”اتنے سال ہو گئے ہیں شادی کو اور آج بھی الہڑ نار بننے کی سوجھی رہتی ہے۔ پہلے اپنی ذمہ داریاں تو پوری کرو”۔ وہ دیر تک اُسے ڈانٹتا رہا۔ وہ ڈانٹ کے جواب میں بڑ بڑ کرتی اُٹھی صبا کو پکڑا: ”سنبھالو اپنے بچے میں چلی۔ تمہیں پتا چلے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

بات اتنی بگڑ جائے گی اُسے اندازہ ہی نہ تھی۔ وہ اُسے دھمکی دے کر اپنے باپ کے گھر جا بیٹھی۔ چھوٹے شیر خوار بچوں کو پالنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اُس کے لئے دو چار دِن بھی مصیبت بن گئے تھے۔ وہ اپنی ضد میں تھی کہ منا کر لے جاوؑ اور یہ اپنی جگہ قائم تھا کہ خود گئی ہو خود ہی آوؑ۔ سب رشتہ دار اُن کے آئے دن کی لڑائی جھگڑے کو اب معمول سمجھنے لگے تھے۔ ہر لڑائی کے بعد وہ خود ہی جھک جاتا کہ بچے اُس کی اکڑاور انا کو مضروب کر دیتے تھے۔ اب بھی وہ اُس کی ضد کے آگے ہار گیا اور ہفتے بعد اُسے منا کر لے آیا۔
”دیکھا میرے بغیر نہیں رہ سکتے ناں”۔ وہ فتح مندانہ انداز میں مسکرا رہی تھی۔
”اسی طرح تم آئے دن ڈرامے کرتی رہیں تو ایک دن ڈراپ سین ہو ہی جائے گا”۔ وہ اپنے فیصلے کی آنچ میں خود ہی جل رہا تھا۔
”میں تمہیں دو دن میں درست کر دوں۔ مگر کیا کروں۔ بچوں کی زندگی داوؑ پر نہیں لگائی جا سکتی”۔ وہ کسی نہ کسی طرح وقت کو گزارنے کی کوشش کر رہا تھا۔
عید کی تیسری شام لائٹ گرین لہنگے میں وہ طاہر علی کے پہلو میں گھبرائی گھبرائی سی بیٹھی تھی۔ طاہر علی کے بے حد اصرار کے بعد منگنی کی بہ جائے نکاح کی تقریب ہو رہی تھی۔
”کتنی اچھی لگ رہی ہے تمہاری جوڑی، خدا تمہیں نظرِ بد سے بچائے”۔ سب اپنے اُس کے لئے دُعا گو تھے۔ بریگیڈیر جعفر اس وقت خود کو بہت پُر سکون محسوس کر رہے تھے کہ بیٹی کا فرض بہ احسن طریق پورا ہو رہا تھا۔ طاہر کے گھر والوں کے فیصلے کے مطابق رخصتی محرم کے بعد طے پائی تھی۔ طاہر اُسے وقتا فوقتاً فون کرتے وہ گھبرا اٹھتی۔
” اکیسوی صدی ہے اور تم تو معلوم نہیں کوئی سترہویں صدی کی چیز ہو”۔ روحہ اُسے چھیڑ تی اُن دنوں وہ اپنے شعری مجموعہ شائع کروانے کے چکر میں تھی۔ دِن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔ وہ ایل۔ایل۔بی کے پیپرز کی پریشانی بھی تھی اور رُخصتی کا وقت بھی قریب آرہا تھا۔ اماں جانی اور زارا بازار کے چکر پہ چکر لگا رہے تھے۔ اُسے اپنے پیپرز اور کتاب نے پریشان کر رکھا تھا۔ رُخصتی والے دِن بھی وہ لاشعوری طور پر اُلجھی اُلجھی سی تھی۔ طاہر سے فون پر کافی انڈرسٹینڈنگ ہونے کے باوجود اجنبیت کا احساس سا لگتا تھا۔ فیروزی اور آف وائٹ کامبینیشن والے عروسی لہنگے میں وہ دلکش لگ رہی تھی۔ زارا اور روحہ اُسے برائیڈل روم میں لے کر آئیں اور جبھی وصی تیزی سے اندر آیا۔ ”آپی” وصی کی آواز پر اُس کی پلکیں اٹھیں اورجھکنا بھول گئیں۔ وہ کتنے جتن سے، کتنے تردد سے جس کی ذات کے سحر سے باہر آرہی تھی وہ نیوی بلیو سوٹ میں ملبوس سامنے کھڑا تھا۔ پھول اور گفٹ پکڑے۔ ”دانش بھائی ابھی ابھی پہنچے ہیں آپ سے ملنا چاہ رہا تھے”۔ روحہ نے نظر بھر کر دانش کو دیکھا۔ واقعی اور امپریس کر دینے والا ڈیسنٹ سا آدمی تھا۔
”آپ یقینا روحہ ہیں” بغیر تعارف کے پہچان لینے پر روحہ حیران ہو گئی۔ زارا اپنے بیٹے کو بہلاتی بہلاتی ہال کی طرف چلی گئی۔
”حجاب یہ حقیر سا تحفہ ہے۔ مجھے تو چند دِن پہلے تمہاری شادی کا پتا چلا۔ اچھے دوستوں کی طرح وِش کرنے آیا ہوں۔ گو کہ میں انوائٹیڈ نہیں ہوں لیکن تمہارے معاملے میں میں نے اَنا یا ضد کو کبھی بیچ میں نہیں آنے دیا۔ خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کبھی نہیں بھولیں گے”۔ وہ پلکیں جھکائے بیٹھی تھی۔ دل دھڑکتا جا رہا تھا۔
”دانش بھائی آپ بیٹھیں تو سہی۔”
”میرے پاس وقت کم ہے۔ دو گھنٹے تک میری فلائٹ ہے۔ میں صرف حجاب کے لئے آیا ہوں کہ جانے پھر کب ملیں۔ ویسے حجاب ہم زندگی میں زیادہ مل بھی نہیں سکے اور بچھڑ بھی نہیں سکے”۔ گھمبیر سے لہجے نے حجاب کا دل چیر دیا۔ وہ بے اختیار اُسے تکتی رہ گئی۔
”اللہ حافظ حجاب… میں کچھ دیر تایا اور تائی جی کے پاس بیٹھ کر چلا جاوؑں گا”۔ وہ اپنی مخصوص پُر وقار چال چلتا باہر نکل گیا اور حجاب پھول تھامے اٹھتے قدموں کو دیکھتی رہ گئی۔
”حجاب اب رونے نہ لگ جانا سارا میک اَپ خراب ہو جائے گا”۔ روحہ نے اُس کی پلکوں پر ٹکے آنسو کو ٹشو پیپر میں جذب کیا اور دانش کا گفٹ کو کھولا۔ خوب صورت سا گولڈ کا نیکلس اور ساتھ چھوٹا سا کارڈ اٹیچ تھا۔
تجھ سے ملے بچھڑ گئے، تجھ سے بچھڑ کے مل گئے
ایسی بھی قربتیں رہیں، ایسے بھی فاصلے رہے
تو بھی نہ مل سکا ہمیں عمر بھی رائیگاں رہی
تجھ سے تو خیر عشق تھا، خود سے بڑے گلے رہے
شعرپڑھ کر روحہ کی آنکھوں میں نمی سے لہرائی۔ ”حجاب میری دوست تم اس لحاظ سے خوش قسمت ہو کہ تمہارے اچھوتے احساسات ایک اچھے شخص کے لیے تھے اور اب بھی تمہیں بڑا اچھا ساتھی ملا ہے۔ آنسو بہا کر خوب صورت جذبوں اور لمحوں کی توہین نہ کرو”۔ روحہ نے اُس کو اپنی باتوں سے بہلا دیا تھا۔ سو وہ آنے والے لمحوں کے لئے دُعا گو ہو گئی۔پاپا جانی نے اس کے فنکشن میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ہر شخص اُن کے حسنِ انتظام کو سراہنے پر مجبور تھا۔ اُن کی جوڑی نے لوگوں کی نگاہوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے جب وہ طاہر علی کے ساتھ سجی ہوئی گاڑی میں بیٹھی پیا دیس روانہ ہو گئی۔
٭٭٭٭
آج کتنے ہی دنوں بعد وہ یونی ورسٹی آئی تھی۔ اپنی رول نمبر سلپ لینے کے بعد انگلش ڈیپارٹمنٹ میں آگئی۔ لائٹ کریم کلر ساڑھی میں طاہر علی کے ہمراہ چلتی ہوئی وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ ”شکر ہے تمہاری شکل تو دیکھی۔” روحہ نے شکوہ کیا۔
”پیپرز کے بعد میری سعودیہ روانگی ہے۔ یہ میری کتاب۔ تمہارے لیے تحفۂ خاص۔” اس نے اپنی کتاب روحہ کی طرف بڑھائی۔
”حجاب تمہارا سامان جو میرے پاس پڑا ہے اُس کا کیا کرنا ہے”؟ طاہر روحہ کے منہ سے اُس کا سامان کا سن کر حیران ہوئے۔ وہ یونیورسٹی کیفے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور اپنی سٹوڈنٹ لائف کو یاد کر رہے تھے۔ ”آپ کو پا کر یہ سب کچھ بھول گئی ہے۔ ہاسٹل، سامان۔ حتیٰ کہ مجھے بھی”۔ روحہ نے محبت سے گلہ کیا۔
”تمہیں تو نہیں بھلا سکتی ہوں سب سے پیاری ہو مجھے”۔
”حجاب میں تو سمجھتا ہوں کہ میں سب سے پیارا ہوں اور آپ روحہ سے کہہ رہی ہیں”۔ طاہر علی کی شرارت پر حجاب کے چہرے پر رنگ ہی رنگ پھیل گئے۔ روحہ اُسے خوش باش دیکھ کر مطمئن سی ہو گئی تھی۔ کچھ عرصے بعد وہ سعودیہ چلی گئی۔طاہر کے ساتھ زندگی پھولوں کی سیج بن گئی تھی۔ اُسے وقت گزرنے کا احساس تب ہوا جب عالیان اُس کی گود میں آیا۔ اُسی سال اُسے روحہ کی شادی کا کارڈ ملالیکن بچے کی وجہ سے وہ نہ آسکی۔ دو تین سال بعد وہ ایک ماہ کے لیے آتی اور دِن جیسے چٹکیوں میں گزر جاتے تھے۔ ملنے ملانے میں وقت گزار کر وہ واپس چلی جاتی۔ زارا اپنے گھر خوش باش تھی۔ وصی یورپ سیٹ ہو چکا تھا اور پاپا ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی کیڈٹ اکیڈمی چلا رہے تھے۔ روحہ نیویارک سے کبھی کبھار لمبے لمبے فون کرتی۔ دس سال بیت گئے تھے۔ وہ تین پیارے پیارے بچوں کی ماں بن گئی۔
”اب پریکٹس نہیں کرنی وکیل صاحبہ”۔ طاہر علی اُسے اکثر چھیڑ دیتے۔
”اب یہ جو پریکٹس آپ کروا رہے ہیں یہ سب عدالتوں سے ماورا ہے”۔ وہ ہنستی مسکراتی اپنے معمولات نبھائے جا رہی تھی۔ اس پوری مدت میں ایک دفعہ اُن کی ملاقات عمرے کے دوران دانش سے ہوئی۔ لمبی سی ڈاڑھی کی وجہ سے وہ تو دانش کو پہچان نہ پائی تھی البتہ دانش نے اُسے پہچان لیا تھا۔ تب ہی اُسے پتا چلا کہ دانش ایک مذہبی تنظیم میں شامل ہو چکا ہے اور اب ہمیشہ پاکستان میں رہنے کے ارادے سے جا رہا ہے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

وہ راحت جاں — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!