کسک — حسنین انجم

”چلو بیٹا صحن میں کھیلو مجھے تمہاری آنٹی سے ضروری بات کرنی ہے”۔ بچے اپنی چیزیں سمیٹ کر باہر چل دے۔ انہیں بھی کام سے جان چھڑانے کا موقع ملا تھا۔
”حجاب میں نے جو کیا یا قسمت نے میرے ساتھ جو کیا۔ تم سب جانتی ہے۔ لیکن میں خوش نہیں ہوں۔”اپنے اس فیصلے سے”۔ اُس نے پوری توجہ سے دیکھا۔
”فیصلوں سے، ساتھی سے، زندگی سے۔ بس پریشانی ہی مول لے لی ہے”۔ اُس کے ماتھے پر سوچ کی لکیریں پھیلی تھیں۔
”حیرت ہے زندگی کے آغاز میں ہی آپ پچھتاووؑں میں گھر گئے۔ آئندہ کیا کریں گے”۔ وہ کہئے بغیرنہ رہ سکی۔
”مذاق اُڑ ا رہی ہو۔ خوب ہنسو۔ میرے جیسوں پر زمانہ ہنستا آیا ہے۔ میں نے اپنے دست و پا خود ہی تو کاٹے ہیں۔” اُس کے لہجے کی گھمبیرتا سے وہ چونک گئی۔ دانش کی گہری سیاہ آنکھوں میں نمی آنسووؑں کی تھی یا کیا تھا وہ سمجھ نہ پائی۔ لیکن اُس کے نازک احساسات کو چوٹ لگی تھی۔ وہ تو بچپن سے اُس کی خیر خواہ تھی۔ جب اُسے ٹو کلاس میں پتا چلا تھا کہ دانش کے ماں باپ نہیں ہیں تو وہ کتنے ہی دن کڑھتی رہی تھی۔ اپنا لنچ، چاکلیٹ، سٹوری بکس، سب اُسے دے دیتی۔ جب دانش ٹینس کلب یا کہیں اور گھومنے جاتا تو وہ پاپا کے آگے بہانہ بنا کر اُسے ڈانٹ سے بچا لیتی تھی۔ آج وہ اُسے اپنے سامنے رنجور و افسردہ دیکھ رہی تھی۔
”میرا د چاہتا ہے حجاب کہ صبا تمہارے جیسی ہو۔ صبا کی ذمہ داری اٹھا سکو گی”؟ یہ کیسا عجیب سا سوال تھا۔ جس کانہ سر تھا نہ پیر۔ وہ متعجب ہو کر دیکھنے لگی۔ ”میں زندگی کی راہ پر دیر تک مریم کے ساتھ کے ساتھ نہ چل سکوں گا۔ اپنے اس غلط فیصلے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا میں”۔
”آپ کے ہوش درست ہیں کیا؟ کیا سمجھتے ہیں آپ زندگی کو اُسے اپنا نا اگر آپ کی حماقت تھی تو چھوڑنا بھی بے وقوفی اور جلد بازی ہے”۔ وہ غصے میں ہتھے سے اکھڑ گئی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”بہت مشکل وقت آن پڑا ہے حجاب تم نہیں جانتیں۔ میں اُسے بدلنا چاہ رہا ہوں اپنی مرضی اور ڈھب پہ لانا چاہتا ہوں لیکن وہ عجیب عورت ہے اثر ہی نہیں لیتی۔ میں تھک گیا ہوں حجاب”۔ دانش نے سست سا ہو کر کرسی کی پشت سے سر لگا لیا اور تب وہ اُس کی بند آنکھوں کے کنارے سے ٹپکتے آنسو کو دکھ کر گھبرا گئی۔
”دانش بھائی پلیز زندگی کا مقابلہ ہمت سے کیجئے”۔ اُس نے ہاتھ میں تھاما ٹشو پیپر دانش کو تھما دیا۔
”حجاب میرا درد بانٹ لو”۔ دانش کے ٹوٹتے ہوئے لہجے نے اُس کا معصوم دل لرزا دیا۔
”میں ہمیشہ آپ کے ساتھ مخلص رہی ہوں۔ آپ جانتے ہیں”۔
”ہاں۔ مجھے یقین ہے تمہارے خلوص کا”۔ دانش کی گہری سی نگاہوں سے گھبرا کر اُس نے اپنا زاویۂ نگاہ بدل لیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
”حجاب تم شروع سے ہی مجھے بہت عزیز ہو۔ تم میری دوست ہو۔ مجھ سے عمر میں چھوٹی لیکن جذبوں میں بہت بڑی اور عالی ظرف ہو۔” دانش کی بات پر وہ پھیکے انداز میں مسکرا دی۔
”تو کیا عزیزوں کو ایسی سزا دیتے ہیں کہ اپنے دکھوں کی گٹھڑی اُن کے کمزور شانوں پہ رکھ دیں۔” ایک بے ساختہ سا شکوہ زبان پر مچل گیا تھا۔
”صرف چار پانچ سال کی بات ہے۔ میں سعودیہ جا رہا ہوں دو تین ماہ تک”۔
”کیوں”؟ ”یہاں رہنا مشکل ہے”۔ ویسے آپ انتہائی متلون مزاج آدمی ہیں۔ ایسے آدمی کے ساتھ رہنا بڑا مشکل کام ہے۔ اِسی لیے مریم کی بھی آپ سے نہیں بنتی”۔وہ ہمیشہ سے صاف گو تھی۔
”تم بھی ایسا سمجھتی ہو حجاب۔” اُس نے شکوہ بھرے انداز سے اُسے دیکھا۔ تب ہی اماں اور ذکیہ آپا واپس آگئیں اور حال احوال پوچھنے لگیں۔ اُس نے شکر کیا کہ دانش کی مبہم باتوں سے جان چھٹی۔
”تمہارے سر پر کوئی بڑا نہیں اس لیے اُلٹ پلٹ فیصلے کرتے پھرتے ہو”۔ اماں جانی کو اُس کی سعودیہ جانے کے پروگرام پر کوفت ہوئی۔
”جوان بیوی، اکیلی بچی۔ عقل سے کام لو”۔
”تائی جی بہت سوچاہے۔ شاید اس طرح اُسے ذمہ داریوں کا احساس ہو سکے اور میں بھی گھریلو بک بک سے بچ کر صبا کے لیے کچھ بہتر کر سکوں”۔ دانش کی نگاہیں بے اختیار حجاب پر آٹکی تھیں اور وہ خود کو مجرم سا محسوس کرنے لگی۔
”خواہ مخواہ کسی اورخیال میں اپنی بیوی کے ساتھ زیادتی نہ کریں”۔
”میں تمہاری بات سے متفق ہوں۔ خواہ مخواہ زیادتی و ظلم کا قائل نہیں۔ لیکن جب پانی سر سے گزر جائے تو حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے۔تمہیں کبھی پریشان نہیں کروں گا۔ میرے لیے دُعا کرتی رہنا اور اپنے دِل میں میرے دُکھ سُکھ شیئر کرنے کا جذبہ زندہ رکھنا”۔ اپنی بائیک سٹارٹ کرے ہوئے دانش نے حجاب پر الوداعی نظر ڈالی اور وہ سو طرح کی سوچوں میں الجھی اندر چلی آئی۔ جہاں آپا اور اماں باتوں میں مصروف تھیں۔ لاہور واپس آکر بھی کتنے ہی دِن وہ بے چین سی رہی۔ دو گہری بولتی آنکھیں اُس کے تصور میں موجود رہتیں، گھمبیر سا لہجہ اُسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا اور وہ گھبرا کر کتابیں کھول کر پڑھنے بیٹھ جاتی اور اِرد گرد اُبھرتی آوازوں سے بے نیا زہو جاتی۔
کتنے ہی مہینے چپ چاپ بیت گئے۔ اُس نے یونی ورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا۔ تب ہی ایک بار ذکیہ آپا کے ذریعے اُسے دانش کے جڑواں بچوں کی خبر ملی۔ ”دانش بھائی آپ بھی روایتی مرد ہیں۔ بیوی سے الرجک ہیں اور بچوں کی لائن لگا رہے ہیں۔ لیکن مجھے کیوں پابند کر رہے ہیں۔ شاید بے وقوف بنا رہے ہیں”۔ وہ سوچتی رہی لیکن دل پاگل ایسا تھا کہ خود پر لکھا نام مٹانا نہ چاہ رہا تھا۔ نوعمری کا جذبہ اُس کے ساتھ ساتھ پروان چڑھ کر ایک گھنی بیل کی طرح اُسے لپیٹ میں لے چکا تھا۔ وہ اپنی معصوم سوچوں میں اُس مقام تک آپہنچی تھی جہاں اور کوئی جچتا ہی نہ تھا اور تب اُسے اپنا آپ کسی گم گشتہ مسافر کی قیمتی پونچی کی طرح لگتا۔ دل کی شوریدگی جب زیادہ سر اٹھاتی تو وہ کچھ نہ کچھ کرنے لگتی۔ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مصروف کرتی جاتی۔ کبھی کوئی تحقیقی آرٹیکل لکھتی، کبھی چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھ کر مطمئن ہو جاتی۔ اکثر اوقات وہ پروگرام کرنے ریڈیو اسٹیشن چلی جاتی۔ پاپا چوںکہ بہت روشن خیال اور شخصی آزادی کے قائل تھے لہٰذا اس پہ کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ ویسے بھی وہ پہلی بیٹی ہونے کے ناطے لاڈلی سی تھی۔ زارا اُس سے ڈھائی تین برس چھوٹی تھی اور اب گریجوایشن کر رہی تھی۔ جب گھر میں ایک نئے پروپوزل کا شور ااُٹھا۔
”اماں جانی۔ مجھے نہیں اچھے لگتے نظم و ضبط کے اتنے پابند اور سخت آدمی۔ بس آپ زارا کی کردیں کیپٹن اسد سے”۔ وہ دو دِن سے انہیں بتا رہی تھی اور اماں کا موڈ بگڑ رہا تھا۔
”ویسے آپی کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ ماسٹرز ہو گیا آپ کا، اب کیا کرنا ہے۔” اور وصی کو اُس کا انکار برا لگ رہا تھا۔
”دیکھو وصی مجھے پتہ ہے تم ماموں کی تحریم سے انگیج ہو۔ زارا کا نکاح اسد کے ساتھ ہو جائے۔ بس پھر تمہاری باری آجائے گی۔ میں ذرا اس بک بک سے آزاد رہنا چاہتی ہوں”۔ اُس نے بگڑ کر بات ختم کر دی اور کچھ دنوں بعد ایل۔ ایل ۔بی کے لیے لاء کالج میں ایڈمیشن لے لیا۔
”حجاب! مجھے فائنل پروگرام بتاوؑ”۔ پاپا نے اُسے گھیر لیا تھا۔ وہ ابھی ابھی ریڈیو پروگرام کر کے لوٹی تھی۔
”پاپا! مجھے روٹین سے ہٹ کر بھی کچھ کرنے دیں۔ تعلیم، شادی، بچے۔ آخریہ ٹرائی اینگل کیوں اتنا ضروری ہے؟” وہ چڑ گئی تھی۔
”اسد بہت اچھالڑکا ہے۔ بہت آگے جائے گا۔”
”تو پاپا آپ زارا کا کر دیں اُس کا تو کوئی ایسا لمبا چوڑا پروگرام بھی نہیں پڑھائی کا”۔ اور تب اماں پاپا نے بھی یہی مناسب سمجھا اور پھر زارا کی شادی طے پا گئی۔ وہ بڑھ چڑھ کر تیاریاں کرتی رہی۔ زارا کی شادی نے سب کو بہت حیران کیا۔ لیکن اُسے کوئی پروانہ تھی۔
”آخر تمہیں اور کتنا پڑھتے جانا ہے’۔ ہر نظر میں سوال تھا۔ ”پتا نہیں”۔ ”اب پڑھائی کی آخری حد کا مجھے کیا معلوم یہ تو ایک سفرِ مسلسل ہے”۔ وہ ہر بات سے بے نیاز سی سب کو نبٹا رہی تھی۔ زارا کی شادی کے بعد اُس نے سکون کا سانس لیا کہ اب کچھ عرصہ خاموشی رہے گی۔ یہ وقت کا ضیاع تھا یا معصوم جذبات کی شدت وہ اس جمع تفریق سے نکل گئی تھی۔
آج وہ ایک مشاعرہ اٹینڈ کر کے لوٹی تھی۔ بہت دِن کے بعد اُسے صحیح معنوں میں لطف آیا تھا۔ وہ لاونج میں بیٹھی اپنی نظم کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جب فون کی بیل پر وہ چونکی۔ لاوؑنج میں اور کوئی نہ تھا سو مجبوراً اُسے فون اٹینڈ کرنا پڑا۔
”ہیلو۔ کون؟”۔ وہ ہولے سے بولی۔
”حجاب کیسی ہو”؟
”جی کون؟” وہ بھاری مردانہ آواز پہچان نہ پائی تھی۔
”کمال ہے بھئی اب اپنا تعارف بھی کروانا پڑے گا۔” بے تکلف اور شوخ سا لہجہ تھا۔
”جناب آپ کی وڈیو تو ساتھ آ نہیں رہی جو میں پہچان لوں”۔ اُس کاموڈ آف ہو گیا۔ وہ ریسیور رکھنے کو تھی۔
”دانش بول رہا ہوں حجاب۔” اُسے یوں لگا جیسے دل دھڑ دھڑ کرتا باہر آجائے گا۔
”آپ پاکستان کب آئے”؟
”تقریباً ایک ماہ ہو رہا ہے۔ تایا جی نے مجھے انوٹیشن کیوں نہ دیا زارا کی شادی کا” وہ گلہ کر رہا تھا۔
”آپ تایا جی سے پوچھیں، میں کیا کہہ سکتی ہوں۔”
”تم نے تو کبھی یاد ہی نہیں کیا۔ میں نے ذکیہ آپا سے تمہارا نمبر لیا ہے”۔
”یاد تو انہیں کیا جاتا ہے جنہیں بھلا دیا جائے اور جو بھلائے نہ جائیں انہیں کیا یاد کرنا وہ تو یاد رہتے ہیں ہمیشہ۔” بے خودی میں الفاظ لبوں تک چلے آئے تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

وہ راحت جاں — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!