کتنا شوق تھا اُسے کہ اُس کی کہانی بھی لکھی جائے۔ پتا نہیں وہ اپنے آپ کوایسا اہم یا الف لیلوی کردار کیوں سمجھتی تھی۔ یہ اُس کی عجیب سی خواہش تھی۔ جہاں کسی لکھنے والے سے میل ملاقات ہوتی، کہانیوں کے سُراغ میں لگ جاتی اور اپنی تشنہ خواہش کو ہونٹوں پر لے آتی۔ قلم کار اُسے یہ کہہ کر چُپ کروا دیتے کہ وہی پرانی باتیں، رشتوں کاکرب، رویوں کی منافقت، نمود و نمائش، خود غرضی و بے حسی، خود فریبی، پچھتاوے اور فلمی اختتام۔ ایسی کہانی کی کیا اہمیت ہو گی۔ کوئی نیا پن ہو تو نئی کہانی بنے۔ بار بار کا دہرایا ہوا قصہ اور کتنی بار دہرایا جا سکتا ہے۔ مگر اُسے اِن باتوں کی سمجھ ہی نہ آتی تھی، لیکن آج وہ بہت سوں کو قلم اُٹھانے پر مجبور کر گئی تھی۔ اُس کی کہانی گاؤں سے نکل کر شہر شہر پہنچ چکی تھی۔ وہ اپنے محبوب شوہر کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہو کر زبانِ زدِ خاص و عام ہو گئی تھی۔ اُس کا سراپا، اُس کا عام سا کردار، سطحی سی باتیں ذہنوں سے اس طرح لپٹی تھیں کہ قلم اٹھائے بغیر رہا نہیں جا سکتا تھا۔
اِرد گرد سے بے خبر دوپٹہ گلے میں ڈالے وہ نیل پالش لگانے میں محو تھی۔ سرخ سرخ ناخن دیکھ کر آپ ہی آپ اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی کتنے اچھے لگ رہے ہیں میرے ہاتھ۔ اُس نے بہ غور اپنے ہاتھ دیکھے اور پھر اپنے پیروں کے ناخن سنوارنے لگے۔
”مریم تم ہر وقت خود کو سنوارتی نہ رہا کرو۔ کچھ کام بھی کر لیا کرو”۔شمع پھوپھو نے تار پر کپڑے پھیلاتے ہوئے اُسے آواز دی۔ ”لو… اور کیا تمہاری طرح ہو جاؤں بڈھی روح۔”وہ ہر نصیحت کو سن کر سر جھٹک دینے کی عادی تھی۔ ”نہیں بیٹا !کم تو اپنے وقتوں میں میں بھی نہ تھی۔ بس اپنے اپنے نصیب کی بات ہے”۔ شمع پھوپھو کہیں کھو سی گئیں۔ ”اپنی بزدلی کو نصیب کا نام نہ دو پھوپھی۔ میں ایسا حل نکالوں گی کہ کہ تم حیران ہو جاؤ گی۔ زمین و آسماں ایک نہ کر دیے تو پھر کہنا۔”
وہ سدا سے ہی جوشیلی تھی۔ دِن رات خیالوں کی دُنیا میں کھوئی رہتی۔ برائے نام سا کام کرتی، پڑھنا پڑھانا سب ختم ہو چکا تھا۔ دِن میں دو چار گھروں کی خیر خبر لینا، بار بار بال سنوارتے رہنا اور باقی وقت میں رومانی قسم کے ڈائجسٹ پڑھنا اُس کا معمول تھا۔
”مریاں مجھے تیری حرکتوں سے کبھی کبھار بڑا ڈر لگتا ہے۔” شمع پھوپھو اُس کے پاس آبیٹھیں۔ ”ڈر” وہ زیر لب دہرا کر ہنس پڑی ”جب پیار کیا تو ڈرنا کیا” اُس کی گنگناہٹ بڑھ گئی۔ ”مریم تو میری ذات سے نصیحت پکڑ، میری ساری عمر باپ اور بھائی کی دہلیز پر بیٹھے گزر گئی ہے۔ خواہش، حسرت بن گئی۔ رنگ رُوپ بجھ گیا، دل مر گیا۔ برسوں بیت گئے پر آج بھی باہر نکلوں تو کئی اُنگلیاں میری طرف اُٹھتی ہیں۔ لوگ سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہیں۔” شمع کی باتوں میں ادھورے خوابوں کا کرب پھیلا ہوا تھا۔
”یہی تو حماقت تھی آپ کی۔ بزدل تھیں آپ۔ میں آپ کی جگہ ہوتی تو حشر کر دیتی”۔ وہ جواباً جوش سے بولی۔
”حشر تو میں نے بھی اٹھایا تھا جب میں بپھری ہوئی شیرنی کی طرح پنڈال میں جاپہنچی تھی” وہ نیل پالش کا ایک اور کوٹ کرتے کرتے شمع کی باتیں غور سے سننے لگی۔ جو اکثر اوقات ہی اپنے تلخ ماضی کو دہراتی رہتی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
صابر حسین نے اپنی سوزوکی وین باہر روکی۔ اور پاؤں جھٹک کر اندر داخل ہوا۔ یہ اُس کی پرانی عادت تھی کہ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ ایک زور دار قدم رکھتا تھا۔ وہ آج بھی اپنی لوگوں کی روایت کو لے کر چل رہا تھا کہ کھانس کر یا قدم جما کر گھر والوں کو آنے کی خبر دی جائے اور آج تو اُسے غصہ بھی بہت تھا۔ اسلم کریانے والے کے پاس وہ سگریٹ لینے رُکا تو دو چار منٹ میں ہی اماں رحمتے نے اُسے دو چار کھری کھری سُنا دی تھیں۔ ”اماں اپنا تمباکو اور پتی لو اور جاؤ میری دکان داری خراب نہ کرو”۔ اسلم نے اماں کو چلتا کر دیا تھاورنہ جانے وہ کیا کیا کہہ دیتی۔
”مریاں کی ماں اسے کسی کال کوٹھری میں بند کر دے یا رسی سے باندھ دے۔ مجھ سے یہ بکواس برداشت نہیں ہوتی۔” مریاں کی ماں آٹا گوندھتی گوندھتی لُتھڑے ہوئے ہاتھوں سے ہی صحن میں چلی آئی۔ ”کیا ہوا خیر تو ہے”؟
”ابھی تو خیر ہے لیکن جلدی ختم ہو جائے گی”۔ وہ حیرت سے صابر حسین کو دیکھ رہی تھی جس کا سانولارنگ غصے سے تپ کرسیاہ ہو گیا تھا۔ ”وقت نے جو راکھ دبا دی ہے مجھے لگتا ہے وہ اُڑ کرپھر میرے سر پر پڑے گی۔ مریاں کو گھر سے باہر نہ جانے دیا کر۔ اور میں کہتا ہوں اس کا رشتہ ڈھونڈ اور بس”۔ ”سیدھی طرح بات کہو۔ کیا اِدھر اُدھر کی سُنا رہے ہو”۔
”اری بھلی مانس اس کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں لوگ گلی گلی کھڑے ہو کر میری شرافت کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ اس کا کوئی چکر ہے اُن کے لڑکے سے جس سے ہماری سالوں پرانی عداوت ہے”۔
صابر حسین بیوی کو اُن باتوں کی تفصیل بتا رہا تھاجو کئی دنوں سے وہ سن رہا تھا۔ جبھی وہ ٹِک ٹک کرتی چلی آئی اور باہر دروازے کی طرف بڑھی۔ ”کدھرجا رہی ہو مریم؟” صابر حسین کی بارعب آوازنے اُس کے بڑھتے قدم روک لیے۔ ”حنا سے ڈیزائن ٹریس کروانا ہے اُدھر جاری رہی ہو”۔
”کوئی ضرورت نہیں۔ بہانے کرتی ہو۔ کبھی حنا، کبھی چندا اور کبھی ڈولی۔ چارجماعتیں پڑھ کر دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا”۔
”باباچار نہیں۔ دس جماعتیں، میٹرک پاس ہوں” وہ بات ہنسی میں اُڑا کر منہ بنائے گھر کے پچھواڑے بنے باغیچے میں چلی گئی۔ صابر حسین پریشان تھا۔ اس لیے مریم کی ماں بھی سوچوں میں گھرگئی تھی کہ بات یقینا کچھ ہے۔ ”یا اللہ عزت رکھنا گھر بیٹیوں سے بھرا پڑا ہے۔ سویا ہوا فتنہ پھر سے جاگنے لگا ہے، شمع نے کیا کسر چھوڑی تھی جو اس نے پر پُرزے نکال لیے”۔
اپنی سوچوں میں گم صم وہ آٹا گوندھنے لگی۔ صابر حسین دِل کا غبارنکال کر سگریٹ کے کش لے رہا تھا اور مریاں اپنے ماں باپ کی فکروں سے بے نیاز شمع کے ساتھ رازو نیاز میں مصروف تھی۔ ”شمع پھوپھی، دانی نے آج پکا وعدہ کیا ہے کہ اپنی آپا کو ہمارے گھر بھیجے گا”۔
”خدا تیرے حال پہ رحم کرے مریاں، تو کن گورکھ دھندوں میں پڑ گئی ہے۔ یہ تو بڑی لمبی منزل ہے۔ میلوں سے خاک اُڑ اُڑ کر سروں پر پڑتی ہے اور خواب پھر بھی ادھورے رہ جاتے ہیں”۔
”دیکھ پھوپھی تو ایسی حسرت زدہ باتیں کر کے میرے رنگ میں بھنگ نہ ڈالا کر۔ تو بزدل تھی جو ڈر گئی۔ پیار محبت تو سب کا حق ہے کوئی گناہ تھوڑی ہے”۔ وہ عشق میں سر شار ڈائیلاگ بول رہی تھی۔
”ہرہفتے سینما میں لیڈیز شو دیکھ دیکھ کر تجھے ڈائیلاگ بازی خوب آگئی ہے”۔ شمع نے اُسے ٹوک دیا ”ایک یہی تو تفریح ہے ہم غریبوں کی۔ اب یہ بھی نہ کریں۔ ویسے بابا سے بہانہ کرتے ہوئے ڈر تو لگتا ہے پر مزا بھی بہت آتا ہے”۔ وہ مست مست سی لگ رہی تھی۔ ”جس دن پول کھل گیا تب سارا مزا نکل جائے گا”۔ پھوپھی نے اُسے ڈرانا چاہا۔ ”تم کس لیے ہو پھوپھی۔ بچا لینا مجھے”۔ شمع پھوپھو سے اُس کی شروع سے دوستی تھی۔ پھوپھو انہی کے پاس تو رہتی تھی۔ اُن دونوں کی گاڑھی چھنتی تھی۔
سلائی مشین سرکا کر انہوں نے ایک طرف کی اور بکھرے کپڑے کو تہ کر کے رکھ دیا۔ پھر ڈبہ کھول کر سوئی نکالی اور دھاگا ڈالنے کی کوشش کرنے لگیں۔
”یہ سب چھوڑیے اور میری بات سنیے آپا”۔ ”سُن رہی ہوں۔ ساتھ ساتھ کام کرنے دو۔ یہ قمیص آج مکمل کر کے زینو کو دینی ہے اُس سے سلائی لی ہے ناں۔”دانتوں سے دھاگا کاٹتے ہوئے وہ دانش کی طرف متوجہ ہوئیں جو کافی دیر سے بیٹھاانہیں اپنی پریشانی بتا رہا تھا۔ وہ بڑی بہن ہونے کے ناطے اُسے سختی سے روک بھی نہ سکتی تھیں کہ اُس کے باغی ہو جانے کا ڈر تھا۔ ”دیکھو دانی ہمارے ماں باپ سر پہ نہیں ہیں، جو تمہیں برا بھلا بتائیں اِس قصے کو یہیں چھوڑ دو”۔ انہوں نے بڑی محبت سے سمجھایا۔ ”لیکن ذکیہ آپا۔ اب بات بڑھ گئی ہے۔ سمیٹناتو ہے ناں قصہ”۔ ”تم تایا جی کے پاس چلے جاوؑ۔ وہ سب کچھ سنبھال لیں گے”۔ وہ مسئلے کا حل بتا رہی تھیں۔ ”ہرگز نہیں”۔ ”تھوڑے دنوں کی بات ہے جب معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا تم آجانا”۔
”آپا وہ میرا بچپن تھا جو اِدھر اُدھر کھیل کود کر بیت گیا۔ اب میں وہاں جا کر رہ نہیں سکتا”۔ اُسے تایا ابا کا بارعب چہرہ یا د آگیا۔ ”تمہیں اس مقام تک لانے میں اُن کا کتنا ہاتھ ہے یہ بھول گئے تم۔ اتنی محبت دی انہوں نے ہمیں، کوئی سگا بھی کیا دیتا”۔ ”آپا وہ اُن کی مجبوری تھی۔ بڑے لوگوں کی باتیں بڑی ہی ہوتی ہیں۔ ہماری دادی کا دودھ پیا تھا انہوں نے جب اُن کی اپنی ماں بیمار تھی۔ دُنیا داری نبھاتے ہیں لوگ۔ بچپن میں بے سہاروں کو ترس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن ہوش سنبھالنے کے بعد اندازِنگاہ بدل جاتا ہے۔” اُس کے لہجے کی تلخی سے ذکیہ آپا کو غصہ سا آگیا تھا۔
”تم خواہ مخواہ بکواس نہ کرو”۔ ”یہ حقیقت ہے آپا۔ میں نے اُن کے مزاج کوبہت قریب سے دیکھا ہے۔ پچھلے سال گاوؑں آئے تو مجھ سے ملنے نہیں آئے۔ میں خود گیا تھا حویلی ملنے اور وہ حجاب جو مجھ سے کئی سال چھوٹی ہونے کے باوجود سکول میں مجھے کمپنی دیتی تھی۔ باقاعدہ لنچ لاتی تھی میرا۔ بریک میرے ساتھ گزارتی تھی۔ اب میں لاہورجاؤں تو میری ہیلو ہائے پر ہی تایا جی منہ بنالیتے ہیں”۔ وہ بے زار سابول رہا تھا۔ ”چلو خیر میں خود تایا جی کے پاس جاتی ہوں کسی دِن۔”
اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق ذکیہ کچھ دنوں بعد تایا جی کی طرف پہنچ گئیں اور سارا قصہ گوش گزارکر دیا۔ وہ سنتے ہی آگ بگولا ہو گئے۔ سِلے ہوئے زخم پھر سے کھل گئے تھے۔
اُن دنوں وہ آرمی میں میجر تھے، جب اُن کے بھائی کا گاؤں میں افیئرشروع ہوا تھا۔جب معاملہ اُن تک پہنچا تو انہوں نے چند ہی دنوں میں بھائی کی مرضی کے برعکس اپنے ماموں کے گھر بات ٹھہرا دی۔ بھائی نے انہیں بہت دھمکیاں دیں۔ گھر سے بھاگ جانے اور کورٹ میرج کے دعوے بھی کئے لیکن وہ ڈٹ گئے تھے۔ ”صابر حسین تانگے والے کی بہن کے ساتھ کبھی بھی تعلق نہیں بن سکتا۔ دُنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});