کتنی صدیاں بند ہیں —- فائزہ افتخار

|
”دماغ خراب ہے کیا؟پتہ نہیں وہ کتنی دور رہتا ہو۔”
”دور رہتا ہوگا تو ویگن یا بس پہ چڑھے گا پھر ہم اپنے راستے پر آجائیں گے اور اگر پیدل چلتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا گھر نزدیک ہے۔”کاشف نے پتے کی بات کی۔اس کا اندازہ درست تھا۔ وہ اسی پتلی گلی میں مڑگیا جس کے راستے وہ اپنے محلے کی طرف نکلتے تھے۔ان کے محلے کو جانے والی گلی سے پہلے والی گلی میں وہ مڑا تو زاہد کے منع کرنے کے باوجود کاشف بھی پیچھے پیچھے چل پڑا۔ چند قدم چل کے وہ ایک ایسے دروازے پہ رک گیا جو بالکل اس کے گھر کے دروازے جیسا تھا۔ ویسا ہی چیں چیں کرنے والا…اتنا ہی بدرنگ اور اتنا ہی پرانا۔گھر بھی کاشف کے گھر کی طرح آدھا کچا اور آدھا پکا تھا۔
”چل گھر دیکھ لیا… اب آ، واپس چلیں۔” مگر کاشف ہاتھ چھڑا کے آگے بڑھ گیا۔ ٹاٹ کا پردہ ذرا سا ہٹا کر اس نے اندر جھانکنا چاہا۔
”بے غیرتو…آوارہ کُتّو…دو گھڑی آرام نہیں لینے دیتے۔ آتے ہی چخ چخ لگادی ہے۔”
وہ اس کی عمر کے دو لڑکوں کو کالر سے پکڑے جھٹکے دے رہا تھا ،اپنے بازوؤں میں اٹھا کے روتے بچوں کو چپ کرادینے والے شخص کے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں دو کم سن بچے تھے جن کے چہرے دہشت سے سفید پڑچکے تھے۔ اب اس نے ان کے گریبان چھوڑ کر ان کے چہروں پہ دو دو تھپڑ رسید کیے۔
”کتنی بار کہا ہے میرے آنے سے پہلے ان کمینوں کو باہر گولی ماردیا کر۔ زمانے بھر کے بچے گلیوں میں رُلتے پھرتے ہیں۔ ایک یہ ہیںجن کو چین نہیں۔ میری جان عذاب میں ڈالنے کو اس ڈیڑھ فٹ کی کوٹھری میں سارا دن ریں ریں لگائے رکھتے ہیں۔” اس بار اس نے اپنی بیوی کو گالیاں دیتے ہوئے کہا۔
”جاؤ باہر گلی میں مرو۔ آرام کرنے دو مجھے۔” اس نے انہیں باقاعدہ دھکے دے کر اور لات رسید کر کے باہر نکالا۔اتنے میں اس کی نظر پردے کی اوٹ سے اندر جھانکتے کاشف پہ پڑی۔
”اوئے کون ہے؟” لپک کے وہ باہر نکلا اور کاشف کے بھاگنے سے پہلے اس کی گردن دبوچ لی۔
”تیرا یار ہے؟” اس نے اپنے لڑکوں میں سے ایک سے پوچھا۔نفی میں جواب ملنے پہ اس نے کاشف کو تھپڑ ماردیا۔
”چور لگتا ہے شکل سے… بتا، کیوں اندر جھانک رہا تھا؟”
کاشف بے چارہ کیا بولتا، وہ تو تب بھی اتنا حیران نہ ہوا تھا جب اپنے ہر وقت غصے میں رہنے والے باپ کو بنٹی بابا اور مومو بے بی کے ناز نخرے اٹھاتے دیکھا تھا۔
تب بھی حیرت ہوئی تھی مگر نہ تو اس کا دورانیہ اس قدر طویل تھا نہ ہی اثرات اتنے دیر پا۔ اس وقت تو گویا وہ گنگ بنا کھڑا تھا۔
”آئے ہائے رب نواز! ہمارے ویہڑے کسی نے کیا چوری کرنے آنا ہے۔جانے دے،کسی غریب کا بال(بچہ) ہے۔” اس کی بیوی نے سفارش کی۔
” چل بھاگ جا یہاں سے، آج کے بعد اس گلی میں نظر نہ آنا۔ ” اس نے تاکید کے طور پہ ایک اور دھموکا اس کی کمر پر دے مارا۔ وہ لڑکھڑا کے دور گرا اور پھر زاہد کے سہارا دینے پر کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

آج کتنے سالوں کے بعد وہ سوال کاشف کے سامنے تھا جو بچپن میں کبھی اس نے اپنی ماں سے کیا تھا۔اس سوال کا جواب اس کی ماں نے دیا تھا مگر اس کی تسلی نہ ہوسکی تھی۔
اس سوال کا جواب قدرت نے اسے رب نواز… اس مکی ماؤس والے آدمی کے اصل رویے کی صورت بھی دیا تھا۔ مگر وہ جان نہ سکا۔ سمجھنا اور جان لینا وہ بالکل الگ کیفیات ہیں۔
یہ تو وہ سمجھ گیا تھا کہ رب نواز بچوں سے پیار نہیں کرتا بلکہ لوگوں کے بچے اٹھانا، انہیں پیار کرنا اس کے پیشے کا تقاضا تھا۔اس کام کے اسے پیسے ملتے تھے۔
یہ بات بھی سمجھ میں آگئی تھی کہ گھر میں ہر بات میں اپنی چلانے والا، اس کا حاکمیت پسند اور سخت گیر باپ اگر اپنے مالکوں کے بچوں کی بدتمیزیاں ہنس کے سہہ جاتاہے تو صرف اس لیے کہ اسے اپنی نوکری پیاری تھی۔
مگر وہ یہ نہ جان سکا کہ… ابھی ابھی مانو کے گِلے نے اسے آگہی کے اس موڑ پہ اچانک لا کھڑا کیا۔
مروفاں کی شادی آج سے دل سال پہلے ہوچکی تھی… اب تو اسے بیوہ ہوکر دوبارہ میکے آئے بھی چار سال ہورہے تھے۔جیسا شوہر اقبال دین نے بیٹی کے لیے ڈھونڈا تھا،اس کا چھے سال زندہ رہنا بھی تو بڑی بات تھی۔
رانی، جس کی شکل و صورت سب سے کم تر تھی اور جس کا گھر بسنے کی امید بھی نہیں تھی، وہ حیرت انگیز طور پہ ایک اچھے گھر کی بہو اور ایک محنتی شخص کی بیوی بن چکی تھی اور پچھلے ڈھائی سال سے اپنے گھر میں مطمئن زندگی گزاررہی تھی۔
اقبال دین مروفاں کے بیوہ ہونے کے چندمہینے بعد ہی مرگیا تھا اور اپنی تمام تر ذمہ داریاں اور چڑ چڑاپن کاشف کو سونپ گیا تھا۔وہ اب گھرانے کا واحد کفیل ہی نہیں بلکہ واحد مر دبھی تھا۔
کوثر اب عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے کام کاج کرنے کے قابل نہ رہی تھی۔ہوتی بھی توکاشف کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس کی ماں گھر گھر برتن دھونے اور صفائیوں کا کام کرتی۔آخر وہ میٹرک پاس تھا، اس کی بھی چار لوگوں میں عزت تھی اور دوسری بات… بالے کی طرح اسے بھی اپنے خالص راجپوتی خون ہونے کا پورا پورا احساس تھا۔ مروفاں اجڑ کے اکیلی میکے نہیں آئی تھی، اس کے ساتھ تین بچیاں بھی تھیں۔ چار افراد…ایک بوڑھی ماں، ایک جوان بہن اور ساتواں وہ خود۔
وہ بے غیرت نہیں تھا کہ جوان بہن یا کم سن بھانجیوں کو کمانے سڑک پہ لے آتا۔بزدل بھی نہ تھا کہ گلے میں پھندا ڈال کے مر کھپ جاتا۔ بے ضمیر بھی نہ تھا کہ ان ذمہ داریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر کہیں فرار ہوجاتا، اور چھڑی چھانٹ بے فکر زندگی گزارتا۔لیکن وہ کوئی اوتار بھی نہ تھا۔
ایک عام انسان تھا۔
ایسا ہی عام انسان جیسا کہ اس کا باپ اقبال دین تھا۔کم حوصلہ، کم ظرف، کم ہمت۔
یہ چھے نفوس جو اس کے رحم و کرم پہ تھے، اس کی چڑ بن چکے تھے۔ان کے پیٹ کی دوزخ بھرنے کے لیے اسے دن رات اپنا وجود مشقت کی بھٹی میں جھونکنا پڑتا تھا۔ان کی خاطر اسے اپنی معمولی سے معمولی خواہش بھی بے دردی سے کچلنا پڑتی تھی۔
یہ چھے نفوس اس کو خار کی طرح کھٹکتے تھے۔شاید ویسے ہی جیسے کبھی اس کے ابے کو کھٹکتے تھے بہت کم عمری میں عملی میدان میں آجانے کے باعث وہ اپنا بچپن فراموش کرچکا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی بچپن کی ساری یادیں، سارے محسوسات بھی۔
آج انجانے میں مانو کے ایک ہلکے سے گِلے نے اسے وہ سب کچھ یاد دلادیا۔وہ روز صبح دوپہر کا کھانا ساتھ باندھ کے لاتا تھا۔مانو اس وقت سارے گھر کی صفائی کررہی ہوتی جبکہ مروفاں ناشتے کے ساتھ ساتھ دوپہر کے لیے سالن بھی تیار کرلیتی اور کاشف کا ٹفن باند دیتی لیکن رات اس کی چھوٹی لڑکی بخار میں تپتی رہی تھی۔صبح تک و ہ اس کے پٹیاں کرتی رہی جس کی وجہ سے کھانا تیار ہونے میں دیر ہوگئی۔
”کسی کو احساس نہیں، میں سارا دن گرمی میں اپنے آپ کو پگھلالیتا ہوں اور یہاں احسان ماننا تو ایک طرف، لحاظ تک رکھنا نہیں آتا۔اب میں دوپہر کے کھانے میں بازار کے نان پکوڑے یا چنے کھا کے بیمار ہوجاؤں گا تو کسی کا کیا جائے گا۔”
”بس دس منٹ کی بات ہے میں ابھی…”
”رہنے دے، رہنے دے… تُو لاڈ اٹھا اپنے بچوں کے۔ میں تو بیگار ڈھونے والا خچر ہوں۔ بھلا ڈنگروں کی بھی کوئی پروا کرتا ہے۔” اس نے چائے کا مگ دیوار پہ دے مارا۔
”دس منٹ اور بیٹھ گیا تیرے ان آلو مٹروں کے لیے تو ادھر دکان کا مالک مجھے فارغ کردے گا۔ پھر رونا مجھے سارا ٹبر بیٹھ کے رونا میرا سیاپا۔” وہ بکتا جھکتا وہاں سے نکل گیا جس کپڑے کی دکان میں وہ کام کرتا تھا، وہ اس کے گھر سے نزدیک بازار میں ہی تھی۔پیدل کا راستہ دس بارہ منٹ کا تھا۔دوپہر کو مانو دسترخوان میں کھانا لپیٹ کے اسے دینے آئی۔خاصا رش والاوقت تھا۔دکان میں درجن بھر عورتیں ان تین لڑکوں کا سر کھارہی تھیں جو انہیں نئے سے نیا پرنٹ نکال کے دکھا رہے تھے اور ان چرب زبانوں میں سے ایک کاشف بھی تھا۔
” میری باجی جان! اپنے بھائی کی مانیں، یہ پرنٹ آپ پہ بہت اچھا لگے گا۔” وہ کسی گاہک کو قائل کررہا تھا۔ مانو چادر کی بکل میں لپٹی وہیں کونے میں اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے بیٹھ گئی۔
”آنٹی جی! زیادہ نہ سوچیں، اپنے اس بیٹے پہ اعتماد کریں، بالکل پکے رنگ ہیں۔”
”پیاری آپا! یہ رنگ تو بنا ہی آپ کے لیے ہے۔”
”یہ کیا میری بہنا… صرف ایک سوٹ، کم از کم دو تو لیں، پلیز۔”
وہ بڑے مہذب اور نپے تلے لہجے میں اپنی گاہک خواتین کو گھیر رہا تھا۔ ذرا سا رش چھٹا تو اس کی نظر مانو پہ پڑگئی۔وہ چونک سا گیا۔اس کی آنکھوں میں اسے ایک جانا پہچانا سا کرب ہلکورے لیتا نظر آیا۔
”کیا ہے؟”اس نے اکھڑ لہجے میں گویا پتھر کھینچ مارا۔
”یہ کھانا…” ٹفن آگے بڑھا کر وہ تذبذب کے عالم میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ کاشف نے سوالیہ نظروں سے اسے جانچا۔
”کاشی…تُو… تُو ایسے بھی بول سکتا ہے،اس طرح بھی بات کرسکتا ہے؟”
”کیا مطلب؟” اس نے تیوری چڑھائی۔
”اس طرح پیار سے بات کرتے ہوئے تُو بڑا اچھا لگا اور بھی اچھا لگتا اگر ان پرائی بہنوں کے بجائے اپنی سگی بہنوں سے پیار سے بات کرتا۔”اس نے اپنی محروم نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”اونہہ …پیار سے…”اس نے سر ہلایا۔
”میری کیا لگتی ہیں جو میں پیار سے بات کروں۔ یہ تو میرا کام…” شاید منہ میں کنکر آگیا تھا یا شاید زبان دانتوں تلے آگئی تھی، وہ رک سا گیا تھا۔
ایک مانوس سا درد اس کے چہرے پہ پھیل گیا تھا۔
اس بچپن کا درد…
جو بچپن وہ عرصہ ہوا بھلا چکا تھا۔

٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

عام سی عورت — مریم جہانگیر

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!