کتنی صدیاں بند ہیں —- فائزہ افتخار

”ارے بنٹی بابا! آپ ادھر کیوں نکلے۔ چلو شاباش، اندر چلو یہاں بہت گرمی ہے۔”
کاشف بڑی دلچسپی سے اس دو ڈھائی سالہ گول مٹول سنہری بالوں والے بچے کو دیکھ رہا تھا جو بہت خوبصوررت رنگوں والی ٹرائی سائیکل چلاتالان میں چلاآیا تھا۔ وہ اس خوش وضع چلتے پھرتے کھلونے کو دیکھنے میں محو تھا جو اس سے قبل کبھی کتابوں رسالوں میں دیکھنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔اس نرم لہجے اور پیار بھرے لفظوں پہ یونہی گردن گھما کے بولنے والے کو دیکھنا چاہا۔اسے ایک دھچکا سا لگا تھا وہ کوئی اور نہیں، اس کا باپ بالا تھا۔اقبال دین عرف بالا۔اس وسیع و عریض کوٹھی کا گیٹ کیپر۔
جس کے دل میں نجانے کیا آئی کہ وہ کوثر کے ایک بار کہنے پہ اسے اپنے ساتھ کوٹھی لے آیا تھا۔ پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے کاشف لان میں جامن کے گھنے پیڑ کے سائے میں نرم گھاس پہ بیٹھا ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔رات کو یہاں بڑے صاحب کے پہلے پوتے بنٹی کی سالگرہ کی تقریب تھی۔انتظامات میں بالا آگے آگے تھا۔کوثر نے یہی کہہ کے کاشف کو اس کے ساتھ کیا تھا۔
”بالے! اس کو بھی ساتھ لے جا ، ذرا رونق میلہ دیکھ لے گا۔ کون سا کہیں آتا جاتا ہے اور کچھ نہیں تو کام میں تیرا ہاتھ ہی بٹا دے گا۔ بعد میں اچھی سی روٹی بھی کھانے کو مل جائے گی۔”
وہ اپنے ہوش میں پہلی بار ابے کے ساتھ باہر نکلا تھا۔اس کے ساتھ چلتے ہوئے دل عجیب احساسات کا شکار تھا۔ ایک طرف ڈر تھا کہ سارے دن کے بعد شام کو گھر آنے والا ابا اس کی ذرا سی لغزش پہ چوکنے والا نہیں تھا اور یہ تقریباً سارے دن کا ساتھ ہے۔ اماں بھی نہیں بچانے والی۔کہیں کسی بات پہ گرمی کھا کر ابا وہیں نہ پیٹنے لگ جائے۔ دوسری طرف یہ خوشی بھی تھی کہ آج پہلی بار وہ اس کے ساتھ باہر جارہا ہے۔خوب نہا دھ کے، صاف شلوار قمیض پہن کے۔ مگر اقبال دین شاید اسے یہاں لاکے بھول ہی بیٹھا تھا اور اب…
اب اس کی آواز سن کر کاشف ہکا بکا تھا۔اس نے بھلا کب اس کا اتنا نرم لہجہ اور میٹھے الفاظ سنے تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”بنٹی بابا کو گرمی لگ جائے گی، بنٹی بابا بیمار ہوجائیں گے۔” وہ مسلسل اسے پچکار رہا تھا۔
”کیا فضول بکواس کررہے ہو؟” بڑی بیگم صاحبہ جو بنٹی باباکی دادی تھیں۔پتہ نہیں کب باہر نکلیں اور ناگواری سے بالے کو جھاڑ کے رکھ دیا۔
”کیا منحوس قسم کی رٹ لگا رکھی ہے اقبال دین! تم نے”
وہ شاید خاصی وہمی قسم کی خاتون تھیں جو اس کی بات دل پہ لے گئی تھیں۔
”وہ بیگم صاحبہ! بنٹی بابا دھوپ میں باہر آگئے تھے۔ میں تو انہیں اند بھیجنے واسطے کہہ رہا تھا۔میرے منہ میں خاک، بنٹی بابا کو تو میری عمر بھی لگ جائے۔”
راجپوت نسل کا چشم و چراغ اس وقت خیرات اور صدقہ مانگنے والوں کے سے انداز میں جھولی اٹھا کے دعائیں دے رہا تھا۔
آٹھ سالہ کاشف نے آنکھیں پھاڑ کر اور منہ کھول کے بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھا۔اس کے بات بات پر کاٹ کھانے والے باپ کے لہجے میں عاجزی تھی اور وہ گھگھیا رہا تھا۔
بلا تکلف ہاتھ اٹھالینے والے کے ہاتھ اس وقت بندھے ہوئے تھے۔تیوریاں چڑھا کر کھاجانے والی نظروں سے دیکھنے والے پہ اس وقت سرتا پا انکساری ہی انکساری چھائی ہوئی تھی۔اپنی اولاد کو بھول کے بھی میٹھی نظر سے نہ دیکھنے والا اچانک ہی ایک بالکل انجان، بالکل غیر بچے کے لاڈ اٹھانے لگا۔
”چلو بنٹی بابا! اندر چلو۔ بالے چاچا کی گودی میں اندر چلو… چلو جی… بالے چاچا بنٹی بابا کو گھوڑا بن کے دکھائیں گے۔” وہ اس روتے چلّاتے بچے کو گود میں اٹھائے اند جارہا تھا۔
ابھی کاشف جی بھر کے حیران بھی نہ ہو پایا تھا کہ ایک اور منظر اس کے سامنے تھا۔ ایک چودہ پندرہ سالہ صحت مند اور خوب صورت سی لڑکی اپنی پونی ٹیل جھلاتی باہر نکلی۔اس کے بھرے بھرے جسم پہ وائٹ چست ٹراؤزر اور سلیو لیس شوخ رنگوں کی فٹنگ والی شرٹ تھی۔ میک اپ اور جیولری کا بھی مناسب استعمال کیا گیا تھا۔
”ڈرائیور… ڈرائیور…” وہ آخری سیڑھی پہ لمبی ہیل والی سینڈل ٹِکائے ادھر سے ادھر انتظامات میں مصروف ملازمین اور انٹیریئر مینجمنٹ والے اسٹاف میں سے ڈرائیوررر کو ڈھونڈ رہی تھی۔
”بے بی! گل زمان کو بڑے صاحب نے آفس بلوایا ہے۔” بالا، بنٹی بابا کو اندر آیا کے حوالے کر کے آرہا تھا۔
”اوہو۔ صفدر کو بھی مام مارکیٹ لے گئی ہیں۔ اب میں اپنی فرینڈ کی طرف کیسے جاؤں؟”
”میں لے جاتا ہوں بے بی! آپ بڑی بیگم صاحبہ سے کالی والی گاڑی کی چابی لے آؤ۔”
”شیور… تم ڈرائیو کرلوگے نا؟” وہ کچھ مشکوک تھی۔
” جی بے بی! آپ فکر ہی نہ کرو۔ اب ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہماری مومو بے بی تیار ہوکے آئیں اور اپنی سہیلی کی طرف نہ جاسکیں۔ اقبال دین کے ہوتے ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم بھلا اپنی مومو بے بی کو اداس دیکھ سکتے ہیں۔” وہ مسلسل مسکراتا ہوا کاشف کو بہت اجنبی اجنبی سا لگ رہا تھا
”یہ تمہارا بیٹا ہے اقبال دین!” گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ اپنا بیگ پھینکتے ہوئے مومو نے ایک اچٹتی ہوئی نظر کاشف پہ ڈال کے پوچھا۔
”لے لو اسے بھی ساتھ۔”
”نہیں مومو بے بی! رہنے دیں۔ بڑی بیگم صاحبہ ناراض ہوں گی۔ اسے کہاں تمیز ہے ان بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے کی۔” وہ اپنے بیٹے کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال رہا تھا۔
”ابّا کو اس فیشنی لڑکی کے رنگے ہوئے ناخن اور ہونٹ نظر نہیں آئے؟ کھلے ہوئے بال نہیں دکھائی دیے؟اس نے دوپٹہ صحیح طرح سر پہ تو کیا لینا تھا، گلے میں بھی نہ ڈالا تھا پھر بھی ابا کتنے پیار سے اس سے بات کررہا تھا۔ وہ تو کہتا ہے مجھے ہونٹ اور ناخن رنگنے والی لڑکیاں زہر لگتی ہیں۔ مروفاں باجی اور رانی مانو کو ہر وقت جھڑکتا ہے۔ وہ منہ دھوکر پاؤڈر بھی لگا لیں تو انہیں مار پڑجاتی ہے۔”
گھر واپسی پہ وہ یہ ساری باتیں ماں کو بتائے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کا خیال تھا اس کی زبانی اپنے غصیلے شوہر کی نرم مزاجی اور پرائے بچوں سے لاڈ کی بات سن کر وہ بھی اتنی ہی حیران اور اداس ہوگی جتنا کہ وہ… مگر کوثر نے سنی ان سنی کرتے ہوئے پوچھا۔
”تو نے روٹی تو پیٹ بھر کے کھائی؟ کیا کچھ تھا کھانے میں؟ ٹھنڈی بوتل ملی؟”
”ہاں ملی… پر اماں! میں کیا کہہ رہا تھا…وہ ابا…”
” ہاں تو کیا ہوا تیرے ابے کو؟” اسے خاص دلچسپی نہ تھی۔
”وہ ابا… گھر والے جیسا نہ تھا… وہ تو دوسرا ہی تھا، بالکل دوسرا… جیسے کوئی اور۔”
” ہاں تو وہ کوئی اور ہی تو تھا۔ وہ تیرا ابا تھوڑا ہی تھا۔”
”کیا مطلب؟” وہ ٹھٹھکا
”پاگل!ابا تو وہ تیرا ہے نا! ان کوٹھی والوں کا تو نہیں۔ وہاں تو وہ اقبال دین چوکیدار ہے۔ان کے درجن بھر نوکروں میں سے ایک۔ ان کے دو چوکیداروں میں سے دن کے ٹیم نوکری کرنے والا۔وہاں اس نے کس کو ابا بن کے دکھانا تھا، وہاں تو وہ چاکری کرنے گیا تھا۔”
”نوکر بننے کے لیے بدلنا ضروری ہوتا ہے؟” بہت سوچنے کے بعد اس نے سوال کیا جو اس کی عمر اور ذہن کے لحاظ سے خاصا وزنی تھا۔ اس کے سر میں کڑوا تیل لگاتی کوثر کے ہاتھ تھم سے گئے۔ چند سیکنڈ اسے کوئی جواب نہ سوجھا۔
”بس پتر…!” اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔
”نوکری کی تے نخرہ کیہ…؟”
یہ محاورہ کاشف کو ہضم نہ ہوا لیکن اس نے مزید کوئی سوال نہ کیا۔اگرچہ اس کے سوالات کی ابھی تک بھرمار تھی دل و دماغ میں۔
٭٭٭٭٭
”آج تو پھر بڑی سڑک پہ پڑنے لگا ہے۔”
اس کا رخ دوسری جانب دیکھ کر زاہد نے اس کا ارادہ بھانپ لیا ۔
”باز آجا یار! اتنی گاڑیاں ہیں اور تُو منہ اٹھا کے اس باندر(بندر) کی شکل والے کو دیکھے جاتا ہے اور چلتا جاتا ہے۔کسی دن بس کے نیچے آجائے گا۔ وہ تجھے کون سا گولیاں ٹافی دے دیتا ہے جو تُو اس پہ اتنا مرتا ہے۔”
”بس وہ مجھے اچھا لگتا ہے، وہ ہے ہی اچھا۔” کاشف نے زبردستی اسے اپنے ساتھ گھسیٹا۔
”پاگلے، تجھے بتایا تو ہے وہ اس کی اصل شکل نہیں ہے… ہوسکتا ہے اس کی اصلی شکل اتنی ڈراؤنی ہو کہ تُو اسے دیکھ کے ہی ڈرجائے، ہونہہ…اچھا لگتا ہے۔”
”میں نے کب کہا کہ مجھے اس کی شکل اچھی لگتی ہے۔ایسی بنی بنائی شکلیں تو بازار میں مل جاتی ہیں۔ کوئی بھی منہ پہ لگالے مگر کوئی اتنا پیار کرنے والا نہیں ہوسکتا، جتنا وہ ہے۔ دیکھا نہیں سارا سارا دن بھی بچوں کو پیار کرتے نہیں تھکتا۔ پتہ ہے زاہد میرا دل کرتا ہے، میں بھی بڑا ہو کے ایسا ہی جوکر بنوں، اسی طرح بچوں کو پیار کروں، اور دیکھنا میں ایسا ہی کروں گا۔”
”اوئے تُو جوکر بنے گا؟” زاہد کھلکھلا کے ہنس پڑا مگر اب کاشف نہ اسے سن رہا تھا، نہ دیکھ رہا تھا۔ اس کی ساری توجہ جوکر کی جانب تھی۔وہ گاڑی میں سے سال ڈیڑھ سال کی ایک بچی کو نکال رہا تھاجو بری طرح رورہی تھی۔ جوکر نے اسے اپنی گود میں اٹھا کے اچھلنا،ناچنا شروع کردیا۔ساتھ ساتھ وہ کوئی گیت بھی گنگنا رہا تھا۔ روتی ہوئی بچی چپ ہوگئی۔آنسو اس کے گالوں پہ تھم چکے تھے اور اب وہ اپنی بڑی بڑی حیران آنکھوں میں دلچسپی سمیٹے اس کی حرکتیں دیکھ رہی تھی پھر اچانک اس کے معصوم چہرے پہ مسکراہٹ ایک کرن کی طرح پھوٹی۔
”دیکھا؟”کاشف نے یوں فاتحانہ اور جتانے والے انداز میں زاہد کو دیکھا جیسے یہ کارنامہ اسی کا ہو۔
”وہ تیرا جوکر تو اندر جارہا ہے۔” زاہد کے کہنے پہ کاشف نے بے چینی سے سروس اسٹیشن کے عقب میں بنے واش روم کی جانب دیکھا۔ کاشف کے دل میں ایک بار پھر شدت سے اس کی اصل شکل دیکھنے کی تمنا جاگی۔وہ زاہد کے روکنے کے باوجود دیوار کے ساتھ لگتا وہاں جا پہنچا اور ایک بڑی گاڑی کی اوٹ میں کھڑے ہوکر اس کا انتظار کرنے لگا۔چند منٹ بعد ایک دبلا پتلا زردرو، آدھے گنجے سر والا آدمی واش روم کا دروازہ کھول کے نکلا۔اس کے ایک ہاتھ میں مکی ماؤس والا ماسک تھا اور بازو پر جوکر والا لباس۔ زمین سے شاپر اٹھا کے اس نے یہ چیزیں اس میں ڈالیں۔گملے کے پیچھے سے سلور اسٹیل کا ٹفن نکالا اور تھکے تھکے قدموں سے چل پڑا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

عام سی عورت — مریم جہانگیر

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!