”کوئی نئیں… ” کوثر نے صاف مُکر جانے میں ہی عافیت جانی۔
”ادھر کسے فرصت ہے ہنسنے کی۔ ہاں وہ مانو گرگئی تھی، وہ ہی گلا پھاڑ کے بھیں بھیں کررہی تھی۔بالے! تیرے کو اب رونے اور ہنسنے میں فرق ہی نہیں لگتا۔”
”زیادہ بکواس نہ کر، سارا زمانہ کونے میں لگا کے آتا ہوں، یہ چلی ہے مجھے کونے میں لگانے۔بتا کیوں ہنسی اُبلی پڑرہی تھی ا ن کڑیوں کی… کہاں سے ہو کے آئی ہیں؟” اس نے کوثر کا بازو زور سے ہلایا۔سارے دن کی محنت مزدوری اور پھر پچھلے ایک گھنٹے سے سبزی بنانے کے بعد اس کے پٹھے ویسے ہی اکڑے ہوئے تھے۔اب تو جیسے ہل کے رہ گئے۔اس کی چیخ نکل گئی۔
”مکر نہ کر۔ چھری نہیں پھیر دی تیری گردن پہ۔ سچ سچ بتا کہیں آج پھر ہلکا کام کرنے کے لیے کسی کُڑی کو تو اپنے ساتھ کوٹھی پہ نہیں لے گئی۔اپنا کام ہلکا کرانے کی خاطر میری عزت تو ہلکی نہیں کر آئی۔”
”بالے! وہ میری بھی بیٹیاں ہیں۔تُو تو ایسے پچھ پریت(تفتیش) کرتا ہے جیسے میں ان کی ماں نہیں، کوئی لڑکیاں بیچنے والی کٹنی ہوں۔ اگر کسی دن ساتھ بھی لے گئی تو اپنے پلّو میں چُھپا کے لے جاؤں گی۔جیسے مرغی اپنے پر میں چوزوں کو لے جاتی ہے۔آخر آنڈی گوانڈی(آس پاس) کی کتنی زنانیاں کڑیا ں ساتھ لے کے جاتی ہیں۔”
”لے جاتی ہوں گی۔اچھی طرح جانتا ہوں میں ان زنانیوں کو بھی، ان کی کڑیوں کو بھی… اور ان کے گھروں کے بے غیرت مردوں کو بھی… میں اقبال دین راجپوت ہوں۔ ان کی طرح چوڑا چمار نہیں… یہ تو غربت نے یہ دن دکھا دیے، ورنہ راجپوتوں کی عورت کا کبھی ساتھ والے گھر کی عورت تک نے منہ نہ دیکھا تھا۔ کہاں وہ گھر گھر کام کرنے جاتی۔ وہ تو اور بات ہے کہ تُو راجپوت نسل کی نہیں مگر میری کڑیاں راجپوت نسل کی ہیں۔وہ لوگوں کے فرش پہ پوچا لگانے یا کسی کی گندی نظروں میں تماشا بننے والی نہیں۔”
اس نے وہ تقریر کی جو وہ ہفتے میں دو تین بار تو ضرور ہی کرتا تھا۔ مروفاں نے اپنی ناگواری چھپانے کے لیے منہ تقریباًسارا ہی گھٹنوں میں دے رکھا تھا۔ رانی کے منہ کے زاویے بھی ٹیڑھے ہورہے تھے، بالے نے اس کے ہاتھ سے ستّو کا گلاس پکڑتے ہوئے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ مروفاں کی نسبت وہ بھرے بھرے جسم کی مالک تھی۔اس کی اٹھان بھی اچھی تھی۔ مروفاں کے تو بڑے ہونے کا اسے پتہ ہی نہ چلا مگر رج کے کالی توے سے زیادہ سیاہ رانی آج کل بری طرح آنکھوں میں کھٹک رہی تھی۔
”یہ سرمہ کیوں ڈوئی بھر کے دیدوں میں ڈال رکھا ہے۔” اس نے بڑا سا گھونٹ بھرنے کے بعد سوال کیا۔
”آنکھوں میں رڑک(خارش) ہورہی تھی ابا!” اصل وجہ یہ تھی کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اسے اپنی سیاہ رنگت اور بھینگی آنکھیں بری لگنے لگی تھیں۔اور وہ اُن کو چھپانے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی تدبیر کرتی رہتی تھی۔ یہ سلائیاں بھر بھر سرمہ اسی لیے بھرا تھا کہ ان کی سیاہی میں الجھ کر آنکھوں کا بھینگا پن کسی کو نمایاں طور پہ محسوس نہ ہو۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”تیری رڑک تو میں نکالتا ہوں۔” اس نے گلاس خالی کر کے اس کی جانب پوری طاقت سے پھینکا۔ بچتے بچتے بھی اس کی کہنی تانبے کے بھاری گلاس کی زد میں آگئی۔ وہ درد سے دوہری ہوتی، لب دبا کے چیخ روکتی وہیں کچی مٹی کے صحن میں بیٹھ گئی۔
”گھر آکے بھی تیرا سارا دھیان ان ہی کوٹھیوں اور ان کے صاحبوں میں ہی اٹکا رہتا ہے، اپنے بال بچوں کی فکر رہی نہیں۔کیسے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں۔ایک یہ بڑی ہے۔” اب سے نے کوثر کو طعنہ دینے کے ساتھ ساتھ خاموش بیٹھی مروفاں کو بھی گھسیٹ لیا۔
” گوڈوں میں سر دے کے نجانے کیا منصوبے بناتی رہتی ہے۔ دیکھنا ایک دن سویرے اس کی منجی خالی ملے گی۔”
”انشا اللہ۔” مروفاں نے دل ہی دل میں پورے جذبے سے کہا اور توے سے پھولی ہوئی روٹی اتار کے چنگیر میں رکھی۔کٹورے میں سالن نکال کر ماں کو لے جانے کا اشارہ کردیا۔ اس نے آج ہی بالوں میں مہندی لگائی تھی جو سر ڈھکا ہونے کی وجہ سے شاید چھپی رہتی مگر بال رنگنے میں مہندی سے انگلیاں جو لال ہوگئی تھیں، وہ بالے سے اوجھل نہ رہتیں، اس لیے اس نے خود کھاناآگے رکھنے سے گریز ہی کیا۔
کاشف تختی لکھنے کے دوران گاہ بہ گاہ کن اکھیوں سے دائیں جانب دوسری چارپائی پہ آلتی پالتی مار کے بیٹھے باپ کو بھی دیکھ لیتا تھا جو روٹی کے بڑے بڑے لقمے منہ میں ڈال رہا تھا۔ گویا یہ بھی کسی کی ذات پہ کوئی جتا کے کیا جانے والا احسان ہو۔ تین لقموں میں روٹی برابر ہوجاتی اور کوثر لپک کے مروفاں کے ہاتھ سے دوسری روٹی چنگیر میں ڈال دیتی۔ گرم گرم تازہ روٹی کی مہک کاشف کی بھوک کو بے چین کرنے لگ۔مانو کی بھوک سب سے کچی تھی ، وہ اگر پیٹ بھر کر بھی بیٹھی ہو تو کسی کو کھاتے دیکھ کے رال ٹپکانے لگتی تھی۔اب بھی رونا دھونا اور جھاڑو کی مار بھول کے کوٹھری کے کواڑ سے اپنا تیل میں ڈوبا اور جوؤں سے بھرا سر نکال کے دیکھ رہی تھی۔
”کچے ٹنڈے۔” کھا پی کر چنگیر پرے کرتے ہوئے بالے نے تبصرہ کیا اور لمبی سی ڈکار لیتے ہوئے دودھ پتی کا آرڈر دیا۔
”الائچی ڈال دینا تاکہ کچے ٹنڈے کھانے سے پیٹ میں درد نہ شروع ہوجائے۔”
چولہا ایک ہی تھا۔ توا اتار کے چائے کی دیگچی چڑھانی پڑی۔ دروازے کے اس پار مانو مایوس ہوکر واپس کوٹھری کے اندھیرے میں گم ہوگئی۔کاشف بھی جھنجھلائی نظروں سے ماں کو دیکھنے لگا۔ وہ نظریں جو ”بھوک… بھوک…” چلّا رہی تھیں۔کوثر نے نظریں چُرالیں اور کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کے ایک پڑیا برآمد کی جس میں چار الائچیاں بند تھیں۔
”کب سے دیکھ رہا ہوں تو چار لفظ لکھ کے بیٹھا ہے۔ پڑھنے میں دل نہیں لگتا کیا؟” آخر کاشف پہ بھی نظرِ کرم ہو ہی گئی۔اس کا دل جیسے زور کا دھکا کھا کر آگے کی طرف گرا۔
”ابا! اتنا ہی کام ملا تھا۔” منمناتی آواز میں اس نے جواب دیا۔
”تو کرنے کیا جاتا ہے اسکول؟اتنی فیس لے کے یہ دو لائنیں لکھنے کا کام دیتے ہیں۔ ایسے تو تُو کرچکا دسویں پاس، بلکہ پہلی جماعت سے ہی آگے نکل جائے تو بڑی بات ہے۔”
”ابا اس سال میں دوسری جماعت کا امتحان دینے والا ہوں۔ تیسری جماعت میں جاؤں…” اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی بالے نے اپنی پشاوری چپل گھماکر اسے دے ماری وہ بے خبری میں اپنا بچاؤ اس کامیابی سے نہ کرسکا جیسا کہ رانی نے کیا تھا۔ چپل ٹھیک اس کے منہ پہ لگی۔چائے میں چینی ڈالتی کوثر کا ہاتھ کانپ سا گیا۔آٹھ سالہ کاشی میں اس کی جان تھی۔ وہ زبان سے کچھ بھی کہہ لیتی مگر اس کے بھولے بھالے معصوم چہرے پہ ہلکا سا تھپڑ مارنے کی بھی ہمت نہ ہوتی تھی کبھی اور بالے کو یہ ستم ڈھاتے دیکھ کر وہ سوائے دل ہی دل میں صلواتیں سنانے کے اور کیا کرسکتی تھی۔اب بھی وہ یہی کررہی تھی۔
”مویا… ہاتھ ٹوٹیں کم بخت کے جو سامنے نظر آتا ہے ، کھینچ مارتا ہے۔ کڑی بازو پکڑے بیٹھی ہے۔اچھا بھلا وزنی گلاس دے مارا لڑکی ذات کو۔ کوئی نقص ہوگیا تو کس نے پوچھنا ہے، پہلے ہی وچاری شکل کی ماڑی ہے۔اب اتنی موٹی جوتی ذرا سے لونڈے کو دے ماری۔ڈر کے مارے وچارہ رو بھی نہیں پارہا۔اللہ کرے تجھے بھی کسی کی جوتی لگے، موئے… میری اولاد کو دکھ دینے والے۔” وہ اندر ہی اندر غصے سے کھول رہی تھی یہ اس کا روز کا کام تھا۔
”تیسری میں جائے گا… تُو رعب کس بات کا ڈال رہا ہے۔آج میں پڑھانا ختم کردوں تو کیسے جائے گا تیری میں۔ہیں؟؟ تیری ماں کے یار آکے تیری فیس نہیں بھرجاتے، نہ ہی تیرے مامے یا نانا تیری کتابیں دے جاتے ہیں۔ تیرے نانکوں کی سات نسلوں میں کسی نے کتاب کی شکل نہیں دیکھی۔ یہ میرا احسان ہے کہ تجھے پڑھا رہا ہوں، ورنہ بیٹھا ہوتا تُو بھی کسی پنکچروں والی دکان پہ کام سیکھنے یا پھر کسی تنور پہ گاہکوں کو گرم روٹی اور سالن پکڑانے کے لیے۔ سیدھی طراں پڑھنا ہے تو بتا۔ یہ گڈیاں اڑانا، کنچے کھیلنا، یاروں دوستوں کے ساتھ پھرنا بند۔ آج کے بعد تجھے گلی میں دیکھا تو خیر نہیں تیری، سمجھا؟”
اس نے خالی خولی زبانی سمجھانے کو کافی نہ جانتے ہوئے اپنا ہتھوڑے جیسا ہاتھ اس کی گدّی پہ رسید کیا۔کاشف بلبلا کے رہ گیا۔
”کڑیوں کی طرح ”ہائے۔ اوئی” کیوں کرتا ہے؟ راجپوتوں کے گھر زنخے نہیں پیدا ہوتے۔”
بالے نے اس احتجاج پہ طیش میں آکر اس کا منحنی سا بازو مروڑ ڈالا۔اس بار اگرچہ کاشف نے چیخنے کی غلطی نہیں کی تھی مگر آٹھ سالہ بچے کے ضبط کی انتہا کیا ہوسکتی ہے۔اس کا اندازہ کوثر اس کے درد سے پیلے پڑتے چہرے اور باہر کو ابلتی آنکھوں کو دیکھ کے کرسکتی تھی۔اس کی پلکیں نم ہوکر بھاری ہوگئیں۔
آج پھر وہ لمبا چکر کاٹ کر اس راستے سے گزررہا تھا۔ کتنے ہی دن پہلے وہ مجبوراً بڑی سڑک سے اس لیے گزرا تھا کہ اسکول سے اس کے گھر کی طرف جانے والا مختصر مگر کچا راستہ رات بھر مسلسل بارش کے بعد کیچذ اور گارے سے لت پت تھا۔ کئی گڑھوں میں تو پانی کھڑا تھا۔کوثر نے اسے سختی سے کہا تھا۔
”بڑی والی سڑک پہ پڑجانا اور واپسی پہ بھی وہیں۔”
ناچار اسے بڑی سڑک سے آنا پڑا۔ حالانکہ وہاں کی ٹریفک اسے خاصا ہولاتی تھی۔سڑک پار کر کے پتلی گلی تک جانا محال لگتا لیکن ایک چیز تھی وہاں جس کی کشش نے اسے مجبور کیا کہ وہ دوسرے دن پھر وہاں سے گزررہا تھا۔حالانکہ دو دن کڑکے کی دھوپ نکلی تھی جس نے سارا کیچڑ سُکھا کے خشک کردیا تھا۔
راستے میں آنے والے بڑے سے پیٹرول پمپ میں رنگ برنگے عجیب سے جوکروں والے لباس میں ملبوس اور چہرے پہ مکی ماؤس کا ماسک لگائے وہ ناچتا گاتا، بچوں میں ٹافیاں بانٹتا شخص…
اس شخص نے فوراً ہی اس کی توجہ کھینچ لی تھی۔ خاصی معروف شاہراہ تھی یہ اور اس پہ بنا یہ پیٹرول پمپ بھی اتنا ہی رش لیتا تھا۔ دوپہر کے اس وقت بھی ایک گاڑی جاتی تھی تو تین آتی تھیں۔زیادہ تر لوگ بچوں کو ہی اسکول سے لارہے تھے۔جتنی دیر تک وہ پیٹرول فل کرواتے، جوکروں جیسے لباس اور مکی ماؤس کے ہنستے مسکراتے ماسک والا یہ شخص گاڑی میں بیٹھے بچوں کے ساتھ چہلیں اور اٹھکیلیاں کرتا، کبھی ان کے بال لاڈ سے سہلاتا۔ زیادہ چھوٹے بچوں کو گود میں لے کر گدگداتا۔ کسی کے گال پہ پیار سے ہاتھ پھیرتا، کسی بچی کی پونی ٹیل ہولے سے کھینچتا۔ اپنے بلیک ڈاٹس والے ریڈ کلر کے کھلے سے پاجامے کو چٹکیوں میں اٹھا کے چابی والے کھلونے کی طرح ناچ کے انہیں ہنساتا ۔بڑے بڑے پیلے کالروں، لال جھالر والی سبز قمیض کی بڑی سی نیلی جیب میں سے میٹھی گولیاں بھی نکال کے تھماتا۔
وہ کتنی ہی دیر کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
ایک کے بعد ایک گاڑی آتی تھی۔وہ درجنوں بچوں کا دل بہلاتا رہا مگر نہ تھکا۔ کاشف اسے دیکھ دیکھ کے تھک گیا تھا مگر وہ نہ تھک۔ کتنی بار اسے سستانے کے لیے بیٹھتا دیکھ کر کاشف سوچتا۔ اب یہ جو گاڑی آتی ہے اس بچے کو یہ پیار کرنے بالکل نہ اٹھے گا جو شکل سے ہی اتنا بدتمیز لگ رہا ہے مگر وہ حیران رہ جاتا جب جوکر ڈھنگ سے سُستا بھی نہ پاتا اور فوراً کھڑا ہوجاتا۔ نئے جوش و خروش سے ناچنے اور ہنسانے کے لیے۔
”دن میں کتنے بچوں کو پیار کرتا ہوگا یہ مکی ماؤس مگر نہ اس کا دل بھرتا ہے نہ تنگ پڑتا ہے، نہ ہی یہ تھکتا ہے۔کتنا اچھا ہے نا مکّی ماؤس!”
اس نے اپنے ساتھی زاہد سے کہا جو اس کے برابر والے گھر میں رہتا تھا اور اس کے ساتھ ہی اسکول جاتا تھا۔
”پاگل یہ کوئی سچ مچ والا مکی ماؤس تھوڑا ہی ہے۔اصلی والا بندہ ہے۔ منہ پہ کچھ چڑھایا ہوا ہے۔” اس نے اپنی قابلیت جھاڑی۔
”جو بھی ہے۔ لیکن ہے تو اچھا نا۔اتنا پیار کرنے والا، کاش یہ میرا دوست ہوتا۔”
”لے… یہ کوئی تیری عمر کا ہے۔ پتا نہیں کتنی عمر کا ہو۔ بیس سال کا… تیس سال کا… یا پھر پچاس سال کا۔ تیرا دوست کیسے ہوسکتا ہے؟”
”ہاں واقعی، پتا نہیں یہ کتنا بڑا ہو، دیکھنے میں کیسا لگتا ہو۔” اچانک اس کے دل میں اس کا اصل چہرہ دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔
”لیکن ایک بات ہے زاہد! یہ چاہے میرا دوست نہ بن سکتا ہو مگر میرا دل چاہتا ہے کہ یہ میرا کچھ نہ کچھ ضرور بنے۔ یہ بچے اس کے کچھ نہیں لگتے پھر بھی انہیں کتنا پیار کرتاہے۔اگر میں اس کا کچھ لگتا تو پھر یہ مجھے کتنا پیار کرتا۔”
”پاگل ہے تُو بھی۔ چل اب ہل یہاں سے، دیر ہورہی ہے۔” زاہد نے اسے کھینچا۔
اس دن کے بعد بھی وہ کئی بار صرف اسے دیکھنے کی خاطر وہاں آتا رہا، وہ اسی دلجمعی سے بچوں میں محبتیں بانٹنے میں مصروف نظر آتا۔
اسے دیکھتے ہی کاشف کی آنکھوں میں حسرتیں یہاں سے وہاں تک پھیلنے لگتیں۔
٭٭٭٭٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});