کتنی صدیاں بند ہیں —- فائزہ افتخار

”کاشی…او کاشی…!” ابھی اسے کھیلنے میں مزہ ہی آنے لگا تھا کہ کوثر کی آواز سنائی دی۔
”کیا ہے امی؟” اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے منہ اوپر کر کے جواب دیا۔
”تیرے ابے کے آنے کا ٹیم ہوگیا ہے۔چل واپس آ۔” اس نے چھت کی ٹوٹی منڈیر سے جھانک کر تاکید کی۔وہ گھر سے چند قدم آگے کچی گلی کے بیچوں بیچ اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ بیٹھا کنچے کھیل رہا تھا۔
”سنا نہیں! کانوں میں روئی دی ہوئی ہے کیا؟جلدی آ… منہ ہاتھ دھو کے صاف کپڑے پہن لے،ابھی تک اسکولے(سکول) والی وردی میں پھر رہا ہے۔”
کوثر نے بھی صرف ایک بار آواز دینے پر اکتفا نہ کیا۔ آخر اس کے مسلسل واویلا پہ کاشف جھنجھلا کے اٹھا۔غصے کے اظہار کے طور پر اس نے چپل سے بے نیاز پیروں کو زور سے کیچڑ میں مار کر اور بھی غلیظ کیا۔میلے کف سے بہتی ہوئی ناک کو رگڑ کے صاف کرنے کی اپنی سی کوشش کی اور لکڑی کے رنگ اُڑے کواڑ کو دھکیل کے اپنے گھر کی تاریک متعفن ڈیوڑھی میں داخل ہوا۔ روشنی سے ایک دم اندھیرے میں آجانے سے کتنی ہی دیر وہ آنکھیں چندھی کیے کھڑا رہا۔
”وے کاشی…!”اوپر سے کوثر اب تک اسے آوازیں دے رہی تھی۔
”آگیا ہوں۔” وہ ایسے چِلّایا جیسے آکر کوئی بہت بڑا احسان کیاہو۔ اب آنکھیں گھر کی نیم تاریکی سے ذرا مانوس ہورہی تھیں۔صرف چار فٹ لمبی اور ڈیڑھ فٹ چوڑی۔اس لال اینٹوں والے فرش کی ڈیوڑھی میں سے گزر کے جانا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔صرف وہی باآسانی گزرسکتے تھے جو اس سے آنے جانے کے عادی ہوں۔ورنہ اور کوئی ہو تو اس کا تو حشر ہی خراب ہوجائے۔اس قدر بدبو سے… دروازے کے بالکل ساتھ جس اونچے سے ڈربے پہ بدرنگ پردہ لٹک رہا تھا،وہ اس گھر کا واحد ”باتھ روم” تھا جہاں باتھ… یعنی غسل کرنے والا صاف تو کیا ہوتا، الٹا ناپاک ہوکر ہی نکلتا۔ذرا سی جگہ میں نلکا،نلکے کے نیچے ٹوٹی ہوئی غلیظ پلاسٹک کی بالٹی اور اس میں تیرتا تانبے کا ٹیڑھا میڑھا ڈبہ… چھت پہ ٹین کی چادر، دیواروں میں جا بہ جا اینٹیں اکھڑی ہوئیں اور ان کو بھرنے کے لیے یا بے پردگی سے بچنے کے لیے پرانے کپڑے گول مول کر کے ٹھونسے گئے تھے جو بدبو چھوڑ رہے تھے۔ ہر طرح کے کیڑے مکوڑے نالی کے راستے یہاں با آسانی پائے جاتے تھے۔ یہاں سے نکلنے والی نالی ڈیوڑھی سے ہوتی ہوئی گلی میں جاتی تھی اور یہی اس جگہ کی بدبو کا راز تھا اور جو رہی سہی کسر تھی وہ یہاں کوڑے کے ڈھیر سے پوری ہوجاتی تھی۔ کوثر گھر گھر صفائی کا کام کرتی تھی، واپسی پہ بچا کھچا کھانالے آتی، گرمیوں کے موسم میں اکثر راستے میں ہی یہ کھانا خراب ہوجاتا جو کھانے کے قابل نکلتا کھالیا جاتا، باقی اسی ڈھیر کی زینت بنتا۔پہلے سے گلے سڑے پھلوں کے مزید گلے ہوئے چھلکے، بوٹیاں، بچی ہوئی ہڈیاں…وغیرہ، وغیرہ…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اپنے ماں باپ اور بہنوں کی طرح کاشف بھی اس بدبودار ماحول کا عادی تھا، مگر ہمیشہ کی طرح باہر سے آنے پہ آج بھی اسے بدبو کا احساس ہوا جو تھوڑی دیر تک تو رہنا ہی تھا رفتہ رفتہ اس کا احساس کم ہوتا جاتا۔ وہ اپنے کچے صحن میں بچھی بان کی چارپائی پہ آبیٹھا۔ اس صحن میں دو ہی چارپائیوں کی گنجائش تھی۔اس صحن میں رکھی بانس کی سیڑھی اوپر جاتی تھی۔ گھر کے واحد کمرے کے اوپر کی جگہ چھت کا کام دیتی جہاں کوثر فارغ وقت میں پائی جاتی، اس وقت بھی وہ سبزی کی ٹوکری اٹھائے نیچے اتررہی تھی۔
”کیا پک رہا ہے۔” اس نے چھلکوں کا ڈھیر دیکھ کر پوچھا۔
”ٹینڈے… یہ پھلیاں تو ملکانی جی کی ہیں، چھیلنے کے واسطے لائی تھی۔نی کڑیو! تم بھی ذرا ہاتھ ہلا لیا کرو۔ میں باہر کے بھی سیاپے کروں،گھر کے بھی نمٹاؤں۔ یہ ذرا سی رہ گئی ہیں، دونوں مل کے منٹوں میں بنا لو۔”
”فیدہ…؟” سب سے بڑی پندرہ سالہ تنک مزاج اور تیکھے نقش والی مروفاں نے اپنے کوکے والی ناک چڑھا کر کہا۔
”ایک کلو پھلیاں بنانے میں بیس پچیس منٹ لگتے ہیں اور ایک کلو کی بنوائی یہ مالکن بس دوروپے دیتی ہے۔ کیا فیدہ! دو گھنٹے لگا کے دس روپے بھی نہ ہاتھ لگیں۔ پتا نہیں تو کیا کیا کام پکڑ لاتی ہے، کبھی گھٹڑ ساگ کا، کبھ بھرے چنے نکالنے واسطے۔کبھی لہسن چھیلنے واسطے تو کبھی پھلیاں۔ اتنا شوق ہے ان لوگوں کو مشکل مشکل سبزیاں کھانے کا تو آپ بنا لیا کریں۔بڑا احسان کرتی ہیں کلو کے پیچھے دو روپے دے کے۔”
”تیرے لیے دس روپے کوئی چیز نہیں ہوں گے۔گھر بیٹھی ہے نا اوروہ بھی ماں پیو کے گھر۔ میرے سے پوچھ، دس روپے میں آدھا کلو دودھ آجاتا ہے سارے دن کی چائے کے لیے، دس روپے میں پاؤ بھر دال آجاتی ہے۔ایک وقت پکانے کے لئے اور دس روپے میں…”
”ہاں ہاں ،بڑا کچھ آجاتا ہے دس روپے میں۔” مروفاں نے ہاتھ ہلا کر کہا اور صحن میں رکھے چولہے کو جلانے لگی۔
”دس روپے میں تین کیلے آجاتے ہیں جو آدھے آدھے کاٹ کے ہمارا سارا ٹبر کھاتا ہے۔دس روپے میں ابا کے سگریٹ کی آدھی ڈبی آجاتی ہے جو اس نے سارے دن میں لازمی پھونکنی ہوتی ہے۔ٹھیک ہے بھئی اماں! کما دس روپے۔” وہ زور زور سے سلور کی پرات میں حساب سے نکالا آٹا گوندھنے لگی۔ٹینڈے کا شوربے والا سالن وہ پہلے ہی چڑھا چکی تھی۔بہن کے دل جلے تبصروں پہ ہمیشہ کی طرح کاشف دانت نکال رہا تھا۔
”وے بیڑہ غرق… کیسا مٹّی میں رُل کے آرہا ہے۔دفع ہو’ جا کے منہ ہاتھ دھو۔ پیو آنے والا ہے۔” کوثر کا دھیان پھر اس کی جانب گیا۔
”ہاں ہاں، ہاتھ منہ دھو۔ ابا آنے والا ہے۔ اس نے آتے ہی تیرا منہ چومنا چاٹنا ہے۔”
مروفاں نے پھر سے زہر اگلا۔ کاشف کے لب عادتاً پھیلے مگر ساتھ ہی سکڑ بھی گئے۔اس کا چہرہ اترسا گیا اور وہ ڈھیلے قدموں کے ساتھ منہ دھونے چل پڑا۔ اور یہ سچ بھی تھا کہ بالے نے تین بیٹیوں کے بعد منّتوں مرادوں سے پیدا ہونے والے اکلوتے بیٹے کو کبھی بانہوں میں بھر کر پیار نہ کیا تھا کبھی اس کا ماتھا چوم کے لاڈ نہ کیا تھا۔ جب وہ بہت چھوٹا ہوگا تب شاید کبھی گود میں اٹھا کے پھرا ہو۔ کاشف کو تو ایسا کوئی واقعہ یاد نہ تھا۔ ایسا نہ تھا کہ وہ بیٹے کی جانب سے لاپروا تھا یا کبھی اس کی جانب نظر نہ اٹھا کے دیکھتا تھا۔دیکھتا تھا، گھر آتے ہی دیکھتا تھا مگر کھاجانے والی نظروں سے۔
پوچھتا تھا مگر مارنے کے بہانے کسی کام کی خاطر۔
اسی لیے اس کے آنے سے پہلے کوثر اسے نہلا دھلا، صاف کپڑے پہنا کر، گڈا سا بنا کے چارپائی پہ کتابیں دے کر بٹھا دیتی مگر اقبال دین عرف بالے کو کوئی نہ کوئی بہنا مل جاتا اس کی کھنچائی کرنے کا۔
لال صابن سے رگڑ کے منہ دھونے کے بعد وہ تختی لے کر لکھنے بیٹھ گیا۔
”مانو نے آج فیر تیری گاچی کھائی تھی۔” اس کی تختی دیکھ کے منجھلی والی رانی کو سب سے چھوٹی کی حرکت یاد آئی تو اس نے شکایت لگانے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔مانو کو مٹی کھانے کی عادت تھی۔کبھی کبھی وہ کاشف کی تختی پہ پھیرنے والی ”گاچی” بھی ہضم کرجاتی۔
”ماں… مانو نے میری گاچی کھائی ہے۔ ابھی پرسوں ہی ڈھیلا لیا تھا۔” وہ چلّایا اور کوثر نے نزدیک رکھی جھاڑو اٹھائی اور دھڑا دھڑ مانو پہ برسانی شروع کردی۔اس نے سن رکھا تھا کہ جسے جھاڑو سے مار پڑے وہ تنکے کی طرح سوکھنا شروع ہوجاتا ہے،اس لیے ہر بار ہی مانو کی پٹائی کرنے کے لیے وہ بڑے اہتمام سے جھاڑو اٹھاتی تھی تاکہ اسی بہانے مٹی، ریت اور گارا کھا کھا کے پلنے والی موٹی کپّا اس کی گیارہ سالہ تیسرے نمبر کی لڑکی کچھ دبلی ہی ہوجائے مگر جس طرح مٹی اور گاچی اسے وٹامن اور کیلشیم کی طرح لگتے تھے،اسی طرح جھاڑو بھی شاید کسی ٹانک کا کام دیتا تھا۔ وہ اور بھی پھولتی جارہی تھی۔البتہ تیرہ سالہ کالی کلوٹی بھینگی آنکھوں والی رانی کے چہرے پہ اطمینان بھری مسکراہٹ کھیلنے لگتی تھی۔اپنی شکایت کے اس بھرپور اور تسلی بخش رد عمل پہ۔
”اماں! بتّی جلا دے، اندھیرا ہوگیا ہے۔” کاشف نے اس مار کٹائی کے عمل میں دخل دیا۔گرمیوں میں سات بجے تک اس گھر میں بتی نہیں جلتی تھی۔حالانکہ وہ کمرہ جو اچھی بھلی کوٹھری تھا، وہاں دن کو بھی بغیر بتی جلائے کچھ نظر نہ آتا تھا، اسی لیے یہ واحد کوٹھری کم ہی استعمال میں آتی۔سارا دن اس مختصر سے صحن میں گزرجاتا، جہاں قدرتی روشنی سے تب تک کام چلانے کی کوشش کی جاتی، جب تک رات کے اندھیرے گہرے نہ ہوجائے۔
”ابھی مغرب نہیں ہوئی، تیرا پیو آگیا تو میری ماں بہن ایک کردے گا کہ بجلی ضائع کررہی ہوں۔”
”تُو ادھر آکے تختی لکھ لے کاشی! ادھر چولہے کے بالن کی بڑی روشنی ہے۔” مروفاں نے اسے اپنے نزدیک بلایا۔
”ناں… میں نئیں آتا، ہانڈی پکنے کی بو بڑی زہر لگتی ہے مجھے۔” اس نے ناک پہ ہاتھ رکھا۔
”لے… تُو تو دوجے جی سے ہونے والی زنانیوں کی طرح نخرے دکھا رہا ہے۔”
کوثر نے ٹھٹھا مار کے ایک بے جھجھک مذاق کیا، جس میں اس کے قہقہے کا ساتھ اس کی کم عمر کنواری بیٹیاں بڑی بے باکی سے دے رہی تھیں۔
منہ پھلا کے بیٹھے کاشف کی نظر یونہی دروازے کی جانب چلی گئی۔ لکڑی کے کواڑ میں بے شمار درزیں اور سوراخ تھے۔جن سے باہر کی روشنی اور دھوپ چھن چھن کے راستہ بناتی باریک لکیروں کی صورت نیم تاریک ڈیوڑھی میں نظر آتی رہتی تھی۔مغرب کا وقت بس ہوا ہی چاہتا تھا، لیکن روشنی کی یہ لکیریں اب تک واضح تھیں۔جیسے ہی کاشف کی نظر دروازے پہ گئی، اچانک اسی وقت یہ لکیریں غائب ہوگئیں۔ جیسے کسی نے ان سوراخوں کا منہ بند کردیا ہو، ساری درزیں بھردی ہوں۔
”ابا…!” اس نے پھنکارتی ہوئی سرگوشی کی۔کوثر کے قہقہے، مروفاں کی کھی کھی، رانی کی شوخی اور مانو کی ریں ریں… سب کچھ تھم گیا۔ جیسے کسی نے جادوکی چھڑی گھما کے اس ڈیڑھ مرلے کے نیم کچے مکان کو سوئے ہوئے محل میں تبدیل کردیا ہو۔ اگلے ہی لمحے بالے کے کھنکھارنے کی آواز نے گویا پھر کسی منتر کا کام دیا، سب بُتوں میں جان پڑگئی۔کوثر نے سبزی کی ٹوکری اس چارپائی کے نیچے سرکائی جہاں کاشف اب ہل ہل کر زیرِ لب اپنا سبق دوہرا رہا تھا۔خود وہ اٹھ کے کنڈے کھولنے چلی گئی۔ مروفاں نے پیڑھی پہ پڑا دوپٹہ اٹھا کے سر پہ رکھا اور انگلیوں میں پہنے رنگ برنگے چھلے سرعت سے اتار کے چولہے کے پیچھے چھپائے اور بڑے انہماک کے ساتھ سلور کی پچکی ہوئی دیگچی میں ڈوئی ہلانے لگی۔ مانو اپنا آنسوؤں سے تر اور مٹّی سے لتھڑا چہرہ لے کر اندر چُھپ چکی تھی اور رانی ستّو کا شربت بنانے کے لیے شکر گھولنے لگی تھی۔
”یہ ہنسی ٹھٹھول کس خوشی میں ہورہا تھا؟” اس نے آتے ہی اپنی کھوجی آنکھیں ایک ایک کے چہرے پہ گاڑتے ہوئے تفتیش شروع کردی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

عام سی عورت — مریم جہانگیر

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!