چڑیا جیسی عورت — روحی طاہر

عام سے گھر کے عام سے کمرے میں دوپلنگ ساتھ ساتھ بچھے ہوئے تھے۔ ایک پر چھے سالہ گڈی اور پانچ سالہ ننھی لیٹی ہوئی تھیں۔ پپو امی کے ساتھ چپک کر چھوٹے چھوٹے سوال کئے جا رہا تھا۔ چھوٹی پنگھوڑے پر سوئی ہوئی تھی۔ صبح کا وقت تھا۔ ننھی پکی نیند مگر گڈی آنکھ موندے پڑی تھی۔ سرکاری گھرکے اونچے چھتوں والے کمرے میں روشن دان تھا اور اُس روشن دان میں چڑیوں نے گھونسلا بنا یا ہوا تھا۔ یہ چڑیا نما فاختہ صبح سویرے اُٹھا نے آجاتی تھیں۔ اپنی بولی میں نجانے کیا پوچھ رہی تھیں ایک دوسرے سے۔ پپونے اپنی مدہم سی آواز میں پوچھا:
’’امی یہ کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ امی کی ایک ہی حسرت ہوتی: ’’پپو یہ تیری بیویاں ہیں اور تجھ سے خرچہ مانگ رہی ہیں۔‘‘
امی سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر تھیں۔ سیدھا سادہ زمانہ سیدھے اور حلال کھانے والے لوگ صبح آٹھ بجے سے جو شام تک امی کو فرصت نہیں تھی۔ بچوں کے ساتھ یہی صبح کے چند لمحے یا پھر رات کے چند پل پپو لاڈلا کیوں کہ اکلوتا لڑکا تھا ویسے بھی کہاوت ہے ’’ایک بیٹے کی ماں اندھی۔‘‘ اسے بیٹے کے علاوہ کوئی بھی نظر نہیں آتا۔ صبح کے یہ کچھ لمحات امی پپو کے ساتھ گزارہ کرتی تھیںاس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا جواب، اس کے اندر سے اُٹھتے ہوئے سوال کی اٹھان پر خوش ہونے والی امی کو گڈی اور ننھی سے بھی پیار تھا مگر ننھی کی کم زور صحت اور بڑی آنکھیں انہیں ہمیشہ تشویش میں مبتلا رکھتی تھیں۔ ہاں بینا ابھی چھوٹی تھی آیا کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اپنا پورا وقت لے جاتی تھی۔ گڈی بڑی تھی اور چھے سالہ گڈی سے امی کو بڑی اُمید تھی کہ وہ ان کی جاں نشین بنے گی۔ انہی کی طرح سے تمام ذمہ داریاں اُٹھائے گی۔ ابا کی زندگی لااُبالی تھی وہ بھی اپنی ماں کے اکلوتے تھے اور اکلوتوں والی تمام بیماریاں ان میں موجود تھیں۔ وکیل ہوکر بھی وہ امی کی عدالت میں اپنا مقدمہ ہار جاتے تھے اس لئے اپنی اماں کے مرنے کے بعد انہوں نے بیوی میں ماں ڈھونڈنا شروع کر دی تھی۔ تقسیم کے خرابات سے متاثر یہ کنبہ صرف اماں کی ذمہ داری تھی۔ والد اور بڑے بہنوئی بٹوارے میں پیارے ہوگئے تھے اور ان دونوں خاندانوں کی واحد کفیل امی بن کر رہ گئی تھیں، تیسرا خاندان ان کا اپنا انہوں نے کزن سے شادی کی کہ وہ دکھ ہٹائیں گی اور ان کا ساتھ دیں گے۔ مگر اکلوتے ابا نے امی جوکہ ان سے ایک سال بڑی تھیں میں اپنی مرحوم والدہ ڈھونڈلی اور ایک تیسرا خاندان بھی امی کے حوالے کر دیا۔ گڈی کو امی بالکل روشن دان والی چڑیا نظر آتی تھیں۔ ہر وقت منہ میں دانا لئے کسی نہ کسی کے منہ میں ڈالنے کو تیار۔
نماز کے وقت آنکھ امی کی لسّی بلونے کی آواز سے ہوتی تھی۔ گھر میں امی نے بھینس پالی ہوئی تھی گو کہ نوکر بھینس کا خیال رکھتے تھے مگر نوکر سرکاری اور بھینس گھر کی، اکثر کوتاہی ہوجاتی اور رات کے وقت گڈی کو بھوکی بھینس کو چرانے جانا پڑتا۔ صبح صبح ہسپتال کا ساراعملہ لسی کی لالچ میں آجاتا اور اماں ڈول بھر بھر کے انہیں دیے جاتیں۔ یہ بھی ان کا صدقہ ہوتا۔ چڑیا اپنے پروں کے نیچے بچوں کو بچانے کے لئے خدا سے دعا کئے جاتی اور صدقہ دیے جاتی۔ نانی کا گھر قریب تھا، صُبح صُبح خالص دودھ دینا گڈی کی ذمہ داری تھی کیوں کہ وہاں بھی چڑیا کے کچھ بچے رہتے تھے، بیوہ بہن کے بچے، نانی کے بچے۔ پھر تمام دن امی ہسپتال اور گھر کے درمیان گھن چکربنی رہتیں۔ چھوٹا شہر، صحت کی سہولتیں کم اور ہسپتال، ایک تمام دن کبھی زچہ بچہ، کبھی کھانسی نزلہ کی دوائی لکھ کر دیتی ہوئی امی۔ گڈی اسکول سے آکر چپکے سے امی کے ہسپتال چلی جاتی، کھڑکی سے لگی دیکھتی رہتی کب اماں کیا کرتی ہیں؟ اماںوہ پرچیاں لکھتیں، عورتوں کے دکھ درد سنتیں اور دلاسے دیتیں امی اسے فرشتہ سی لگتیں۔ کبھی کبھی اسے یہ بھی دکھائی دیتا کہ امی اپنا بڑا سا پرس کھول کر چند نوٹ نکال کر بھی کسی غریب مریض کو دیتیںکہ دودھ پی لینا۔ گڈی کو عجیب سا لگتا کہ دودھ سے کیا ہوگا۔ امی اسے دوائی کیوں نہیں دیتیںیا پھل کھانے کا کیوں کہتی ہیں؟ مگر وہ چڑیا جیسی عورت ہر ایک کا پیٹ بھرنے کی فکر میں رہتی تھی خود ان کی خوراک اتنی سادہ تھی کہ اس سادگی کی عادت بچوں کو بھی ہوگئی۔ یاد ہے وہ بچوں کو چوری بنا کر ایک ایک کے منہ میں نوالادیتی تھیں، خود لسی سے روٹی کھا کر رات کو ابا کے لئے دال چاول یا کوئی اور کھانا بنا کر سو جاتی تھیں۔ گڈی چولہے کے پاس بیٹھی ہوم ورک کرتی ابا کا انتظار کئے جاتی تھی اور جب ابا گھر اتے تو ان کو کھانا دینے کا کام گڈی کے سپرد تھا۔ رات کو ابا اکثر اپنے دفتر سے آتے تھے مگر کام تو تھا ان کے پاس مگر اماں کے لئے پیسے نہیں تھے۔ وہ جب بھی فیس لیتے اس کی فیس امی سے چھپاجاتے اس کے لئے تین خاندان والی عورت کو رات کو دیر تک کام کرنا پڑتا تھا۔ کسی قریب کے گاوُں میں بچے کی پیدائش پر جاتیں، کبھی کسی گاؤں میں اپنی چونچ میں فیس کے ساتھ اصلی گھی کا کنستر اور آموں یا کھجوروں کے ٹوکرے بھی ٹانگوں پر لدے ہوتے۔ ایک بار کنستر گر گیا اور سارا گھی زمین پر گر گیا۔ امی نے توڑی مل کے گھی کو بھینس کے چارے کے لئے رکھ لیا، بچے ساراسال گھی کانشان دیکھتے رہے اور بھینس اصلی گھی والا چارہ کھاتی رہی۔
امی کی دوسرے شہر تبدیلی ہوگئی، ابا پرانے شہر رہ گئے اور وہ بچوں کی زندگی میں صرف عید تک محدودہوگئے۔ اماں نے تین خاندانوں کے بچے پال لئے۔ ننھی حسن میںیکتاتھی جو بڑی بڑی آنکھیں جو بچپن میں ترس کھانے پر مجبور کرتی تھیں دو آتشہ ہوگئیں۔ دوانشہ شراب ہوگیں۔ اماں نے بیاہ دیا۔ حسبِ معمول ابا نے بہت نخروں سے شرکت کی کہ کہیں اکلوتے کو ذمہ داری کا احساس نہ ہو۔ اس دن اماں نے اپنا زیور نکال کر ننھی کے آگے رکھ دیا۔ حسن کو اماں کے زیور نے چار چاند لگا دئیے دنیا نے اتنی خوب صورت دلہن کہا ںدیکھی تھی؟ جلنے والوں نے سولہ سالہ دلہن کی زندگی میں انگارے
بھر دیئے اورچڑیا نے بے چین ہوکر یہ داغ لے لیا۔
چہکنا بند ہوگئی۔ گڈی کواماں میں اپنا آپ نظر آتا تھا حالاں کہ اماں کہا کرتی تھیں کہ تو بالکل باپ جیسی ہے۔ گڈی کی شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد اس نے بھی نوکری کرلی اور اپنی زندگی کے رنگ میں مصروف ہوگئی۔ اماں نے سارے ارمان نکال کر بیناکوبیاہا، اسے سسرال سے وہ لاڈ نہ ملا تو دوبارہ سے اماں کے گھر واپس آگئی، ایک داغ اور امی کے لئے۔ پھر پپو کوبیاہا لاڈلا اور اکلوتا ہونے نے اس کے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا کہ وہ امی کو خوشی دیتا امی بیمار رہنا شروع ہوگئیں گڈی اپنی بھابھی سے مایوس ہوکر امی کو اپنے پاس لے آئی۔ زندگی نے گڈی کوبھی چڑیا بنا دیا تھا، چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اس نے امی کو بھی اپنے پروں میں چھپالیا۔ آخری داغ اس چڑیا کے دل پر اس وقت لگا جب ننھی ایک دن اچانک سات بچے چھوڑکر اﷲکوپیاری ہوگئی۔ چڑیا چُپ ہو گئی۔ اس کے بعد چڑیا کو بولتے کسی نے نہیں سنا، بس گڈی تھی جس سے وہ بات کیا کرتی تھیں دل کی۔ ایک دن گڈی ان کو دوائی کھلا رہی تھی تین چار گولیاں دیکھ کر بولیں:
’’ائے ساریاں میں کھانیا ں نے؟‘‘ گڈی نے کہا:
’’آپ تو سب کو دواکھلاتی تھیں یہ شائد اس کی بددعا لگ گئی۔‘‘
اماں مسکرا کر بولیں۔ ’’تو مجھے اپنے جیسی لگتی ہے گڈی کے لئے یہ ایک اعزاز تھا۔ اس کی آئیڈیل امی جوکہ ہمیشہ ان کی پڑھنے اور لکھنے کی عادت کے باعث اسے ابا سے تشبیہ دیتی تھیں۔ اسے اپنے جیسی کہہ رہی تھیں۔ اس نے ماں کے ہاتھ اور ماتھا چوم لیا، کافی دیران سے بیٹھ کر باتیں کرتی رہی اگلے دن وہ دفتر سے جلدی اُٹھ گئی کہ گھر کچھ پھل لیتی ہوئی جاؤ گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے۔ امی کی وجہ سے گھر میں سب لوگ ان سے ملنے آتے تھے پھل لے کر وہ گھر پہنچی تو کہرام برپا تھا، بیٹی نے بتایا نانو فوت ہوگئی ہیں۔ اس کا دل ایک دم چھن سے ٹوٹا ہاتھ میں پھل کے تھیلے کو اس نے زمین پر رکھا اور سوچنے لگی ہر عورت چڑیا جیسی کیوں ہوتی ہے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

Read Next

اے ابنِ آدم — طیبہ عنصر مغل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!