ارے واہ! یہ تو غالب کے واقف ہیں، کچھ اچھا ہی بتائیں گے”
ان کا اپنے استاد کا حوالہ دینے پر ہم ایک دم پرجوش، ہمہ تن گوش اور خرگوش سب ہی گوش ہوگئے۔
“تو ہم اپنے زمانے کے حساب سے سوچیں تو یہ سمجھو کہ ایک شمالی علاقہ جات کی حسین دوشیزہ یہ ہمارے سدا کے گرما گرم کراچی میں آگئی اور شاعر صاحب تو دیکھتے ہی ان کے عشق میں گرفتار، اب ملن کی کیا صورت ہو؟ انہوں نے وہ ٹھنڈی آہیں بھر بھر کر دوستوں سے نیّا پار لگانے کی بات کی، کہ دوستوں میں ٹھنڈ کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ٹھنڈی آہوں کے ساتھ ساتھ وجہ ان دوشیزہ کے بھائی بھی ہو سکتے ہیں جو ہمہ وقت اسلحے سے لیس رہتے تھے۔ وجہ جو بھی بنی، لیکن دوستوں نے مل کر دشمنی کے فرائض نبھائے اور ایکا کر لیا کہ ان کا مسئلہ حل نہ ہو ورنہ ماحول کی یہ تھوڑی بہت ٹھنڈک بھی گرما گرمی میں بدل جائے گی۔ لیکن دوشیزہ تو آئی تھی پہاڑی علاقوں سے، اسے تو برف باری کی عادت تھی۔ یہ چھوٹی موٹی ٹھنڈی آہیں اس کا کیا بگاڑتیں تو اس نے اپنے عاشقِ زار کو پیغام بھجوایا کہ تم عمر بھر ایسے آہیں بھر کر بھی مجھے کراچی کی گرمی سے نجات نہیں دلا سکتے، سو پہلی فرصت میں اسپلٹ کا انتظام کرو، وہ بھی انورٹر والے ورنہ ہماری راہیں جدا۔
“اب حضرت عاشق نے عشق کیا تھا، کوئی عقل تھوڑی بیچی تھی، اگر بیچ بھی دیتے تو عاشق کی عقل کے پکوڑے خریدنے جتنے پیسے مل جائیں تو بڑی بات ہے اسپلٹ کہاں سے آتا؟”
انہوں نے اپنی جیب اور اسپلٹ کی قیمت کا، موازنہ کیا تو یاد آیا کہ جیب تو محض ہاتھ والے پنکھے کی اجازت دیتی ہے اب اگر گردہ بیچ کر اسے اسپلٹ دلا بھی دوں تو میں نے تو گرمی میں ہی مرنا ہے، گرمی سے بچ بھی جاؤں تو دل، دماغ، گردے کے بغیر عاشقی کیسے ممکن ہے؟ اس لئے انہوں نے عقل سے کام لیا اور
“کون جیتا ہے اسپلٹ آنے تک”
کہہ کر ساری عاشقی پر لعنت بھیجی اور دھندے سے لگے۔”
“واہ !!!”
“اعلیٰ ہو گیا یہ تو”
” یہ کی ناں عقل مندی کی بات ”
اتنی داد تو غالب کو شعر کہنے پر نہ ملی ہو گی جتنی تشریح کرنے والے کو ملی۔ سچ تو یہ ہے کہ کراچی کی سڑی گرمی اور لوڈ شیڈنگ میں ہم جیسے غربا کے لئے اسپلٹ کا تصور ہی اتنا فرحت بخش تھا کہ تھوڑی دیر کو تو ہم بھی چچا کو بھول گئے اور عاشق کے قائل ہو گئے۔
“ویسے ایک بات ہے یار! کہنا تو نہیں چاہیے آخر ہمارے بزرگ تھے لیکن چچا غالب تھے بڑے شکی اور ڈھیٹ۔”
کسی اور نے غالب کے کردار پر روشنی ڈالی تو ہم تو ہم، خود ان کے احباب بھی اس انکشاف پر دنگ رہ گئے اور وضاحت چاہی.
اب یہ شعر ہی دیکھ لو
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
“یعنی اعمال ان کے سب کو پتا ہیں، شراب خانے میں بیٹھتے تھے، واعظ سے لڑتے تھے اور پھر شرمندہ ہونے کی بہ جائے اللہ تعالی کے سامنے فرشتوں کی کریڈیبلیٹی خراب کرتے تھے۔ حد ہوتی ہے ڈھٹائی کی بھی۔”
یہ نکتہ ور صاحب غالب سے بہت خفا، ناراض لہجے میں بولے تھے۔
ان کے کسی دوست نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی
“ٹھیک کہہ رہا ہے یار تو، صرف ڈھیٹ اور شکی ہی نہیں، نا شکرے بھی تھے۔ چلو مانا کہ ہوں گے بڑے شاعر لیکن یہ کیا طریقہ ہے کہ امیروں کے ضدی بچوں کو مات دے دو؟
دیکھ ذرا حضرت فرماتے ہیں
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
” چھوڑ یار، انسان خطا کا پتلا ہے اور یہ شاعر واعر تو یوں بھی کچھ خبطی ٹائپ ہوتے ہیں۔ جانے دے اب تو یہ دیکھ غالب نے اس دور میں بھی ہمارے لئے ایک شعر کہا”
کسی کوبلآخر ان کی طرف داری کا خیال آیا
“کون سا؟ کون سا؟ دکھا، سنا ”
ایک دم مچنے والے شور پر شعر دریافت کرنے والا فخریہ مسکرایا اور گویا ہوا
موت کا ایک دن معین ہے لیکن
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
“اب دیکھو ناں یہ شعر ہمارے لئے ہی ہے۔ غالب کے لئے تو رات بھر جاگنے کی وجوہات اور تھیں۔ مچھر رات بھر تنگ کرتے، قرض خواہ تقاضہ کرتے، کام دھام کچھ تھا نہیں انہیں، بادشاہ کے وظیفے کے انتظار میں بیٹھے رہتے جو کہ بادشاہ آخر بادشاہ ہے، اتنے آرام سے نہ دیتا، لیکن ہم بھی تو آج کل کے پر آسائش دور میں رات بھر جاگتے ہیں، یعنی سو مر کر نہیں پڑے رہتے، موت نے تو جب آنا ہے سو آنا ہے اس لئے اس کی فکر میں پریشان نہیں ہوتے”
” ہاں یار اللہ بہت رحیم ہے پہلے سے کیا موت کی ٹینشن لینی؟”
کسی اور نے بھی بڑی دلسوزی سے ٹکرا لگایا۔
اور عمل کی اہمیت کو سرے سے نظر انداز کیا۔
ہم ان کے یقین پر اَش اَش کر اٹھے اور اوپر عرش پر چچا غالب اگر اپنے شعروں کی یہ تشریح سن سکتے، تو یقینا، اُف اُف کر اٹھتے بلکہ غش کھا کر جو گرتے تو ان کی موت کی وجہ بھی سب کو معلوم ہو جاتی۔ ہمیں بھی چوں کہ ابھی مزید زندگی کی خواہش تھی اس لئے اپنے اعصاب بحال کرتے، علم کے یہ گراں قدر خزانے سنبھالتے وہاں سے اٹھ گئے۔