چچا غالب طلبا کی نظر سے — عائشہ تنویر

چچا غالب کو کون نہیں جانتا؟ ادب کا ذوق تو ہر ایک کو نہیں ہوتا، لیکن اردو لازمی پڑھنے والوں کے لئے بھی غالب وہ چچا ہیں جو ہر وقت بھتیجے، بھتیجیوں کی جان کے درپے رہتے ہیں۔
میٹرک میں ان کے خطوط، اسلوب، شاعری کی تشریح پر جان کھپائی تو، اور آگے جا کر ان کی شاعری کے حسنِ بیان و خواص کو بھی سراہا۔ یہ غالب ہی ہیں جنہوں نے کتنے فیل ہونے والوں کو بچایا ہے اور پاس ہونے والوں کو فیل کرایا ہے۔




سچ تو یہ ہے کہ طلبا تو پھر طلبا ہی ہوتے ہیں، لیکن اردو ادب کے نقاد بھی غالب کے لئے متضاد آرار رکھتے ہیں۔ کوئی ان کی نثر کا قائل ہے، تو کوئی ان کی شاعری کا دلدادہ ہے۔ نیرنگ خیال کے تو کیا ہی کہنے مگر کوئی ہم سے پوچھے تو ہم تو غالب کی پسند کو پسند کرتے ہیں۔ جی ہاں! آم جن کے بارے میں غالب اور ہماری رائے یکساں ہے کہ “آم ہوں اور بے حد ہوں”
عموماً سائنس کے طلبا جو محض کسی خاص پیشے میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، چچا غالب ان کے لئے کسی خوف سے کم نہیں، قصور اس میں چچا کا بھی نہیں کہ طلبا ہی دھیان سارا اپنے ان مضامین پر دیتے ہیں جن کا امتحان ہونا ہو اور لازمی مضامین میں دلچسپی نہیں رکھتے اور یہاں غالب کی انا کے کیا کہنے، بے توجہی تو انہیں گوارا نہیں۔ اپنی ذات کا غرور تو ان کا خاصہ ہے کہ خود فرماتے ہیں:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
جب خود شناسی کا یہ عالم ہو تو طلبا پر وہ کیوں کر رحم کریں گے؟ سو نمبر کم کروا کر طلبا کا دل دکھاتے ہیں۔ اسی لئے طلبا غالب سے خائف ہی رہتے ہیں۔
ویسے یہ بات تو ہمارے والدین اور اساتذہ کے سوچنے کی ہے کہ ایک طرف ہمیں عاجزی کا سبق دیتے ہیں، عشق معشوقی سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں تو دوسری جانب غالب پڑھاتے ہیں جو خود فرماتے ہیں:
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
سو اگر ہماری نئی نسل کا پسندیدہ مشغلہ عشق و عاشقی ہو، تو ان سے کیا شکوہ؟ ابھی تو یہ شکر ہے کہ غالب کے اشعار طلبہ کو من و عن سمجھ ہی نہیں آتے اور بہت سے معنی و مفہوم کے مبہم رہ جانے کے سبب وہ محبوب کے پیچھے غالب کی طرح خوار نہیں ہوتے، بلکہ “ایک جائے گا تو دوسرا آئے گا” کے قائل ہیں۔
کچھ دن پہلے ہمارا ایک محفل میں جانا ہوا۔ وہاں چند طلبا بیٹھے خدا جانے غالب کے اشعار کی گہرائی میں اترنا چاہتے تھے یا اس سے انتقام لینا چاہتے تھے، ہم جان نہ سکے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی تشریحات اتنی “گہری” تھی کہ شعر خود اس میں ڈوب کر مر گیا۔
چند تشریحات آپ کو بھی سناتے ہیں، کیا معلوم آپ کو امتحان میں ضرورت پڑ جائے۔
شعر عرض کیا:
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا




اب خوب صحت کے حامل ایک طالب علم کے، جن کی جسامت دیکھ کر قتل تو دور کی بات انہیں گھورتے بھی ڈر لگے، بولنا شروع ہوئے.
” دراصل شاعر اس شعر میں اس بلی جیسے قاتل کی حالتِ زار پر روشنی ڈال رہے ہیں، جو نو سو چوہے کھا کر حج کو چلی تھی۔ اب قاتل صاحب بھی جب ایک بندے کو قتل کرنے پہنچے تو وہ باتوں میں ماہر تھا۔ اس نے قاتل کو سیدھی راہ دکھانے کو یوں دل پذیر تقریر کی کہ قاتل کو بھی اپنی عاقبت سنوارنے کا خیال آیا لیکن اس نے اپنے آخری شکار کو کہا:
“جناب باتیں آپ کی ساری درست ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں تو آپ کے قتل کا ایڈوانس لے کر رنگ والے کو دے بھی چکا، نیا گھر بس تیار ہے، تھوڑی بہت آرائش باقی ہے.اب ایڈوانس واپس تو کر نہیں سکتا تو آپ کو تو مرنا پڑے گا۔ آئندہ کے لئے میں توبہ کرتا ہوں۔ پکا وعدہ کہ آپ کی آخری خواہش کا احترام کیا جائے گا۔”
اب مقتول میاں اپنی حالت زار پر خوب روئے کہ کیا ہوتا اگر قاتل نے ایڈوانس نہ کھایا ہوتا، یا ان کے محبوب نے ہی یہ کام اس قاتل کا گھر مکمل ہونے کے بعد اسے سونپا ہوتا۔ کچھ تو بچت کی راہ نکل آتی۔ اب تو مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ساری محنت اور تقریر رائیگاں گئی۔
ہائے تیری پشیمانی میرے کسی کام کی نہیں۔
ابھی ہم ان پہلوان کی تشریح کی تشریح ہی کر رہے تھے کہ ان کا دوسرا ساتھی بولا:
“میں تو یہ کہتا ہوں کہ آخر لوگ اس طور تحقیق کیوں نہیں کرتے کہ غالب کی موت طبعی نہ تھی۔ دھمکیاں تو عرصے سے مل رہی تھیں۔ آخر ایک دن ایک با ذوق نے عقیدت رکھنے کے باوجود پاپی پیٹ کے لئے ان کی جان لے لی۔”
ان صاحب کا تعلق یقینا کراچی سے تھا اور ارادہ بھی پولیس میں جانے کا تھا، تب ہی تو شعر سے تفتیش کا آغاز کیا۔
ان کی بات سُن کر ہم غالب کے دور کے امن و امان کے مسائل کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ کسی ٹی وی پروگرام کے شوقین نے بروقت مداخلت کی۔
“ارے چھوڑو یار، تم شبیر سے پوچھ لو، کوئی جانے نہ جانے شبیر تو جانتا ہو گا ناں، اس کی معلومات غضب کی ہیں، تم ذرا مجھے اس دوسرے شعر کے معنی سمجھاؤ۔
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
“ہممم!!!”
بہت دیر سوچ بچار کے بعد ایک عاشق گویا ہوئے:
“دراصل تم اس بات کو یوں لو کہ اب دلی وِلّی کو تو ہم جانتے نہیں، لیکن سر نے کہا تھا غالب کی شاعری زمان ومکان سے آزاد ہے۔”




Loading

Read Previous

ہڑپہ اور موہنجو دڑو کی کہانی

Read Next

عکس — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!