کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے اصل رنگ دکھا دیا۔
”امی میں ان دونوں کی ملازمہ ہوں کیا؟…” بھابھیوں کی کام چوری پر وہ چڑ کر کہتی…
”آہستہ بولو سن لیں گی… پھر دو کی چار بنا کر تمہارے بھائیوں کے آگے کہیں گی… گھر کا ماحول خراب ہو گا۔”
امی کی اس مصلحت پسند طبیعت پر وہ جھنجھلا جاتی…
امی نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ اس کی شادی کر دیں۔
وہ نہیں ہو گی تو بھابھیوں کی کام چوری کی عادت ختم ہو جائے گی۔
پھر اس کے لیے احمر کا رشتہ آیا… رشتہ لانے والی خاتون نے احمر اور اس کے خاندان کی تعریفوں میں زمین آسمان کی قلابے ملا ڈالے…اور یقین دلایا کہ احمر کے گھر ہادیہ راج کرے گی…
انہوںنے کسی پہنچے ہوئے پیر کی طرح اس کے مستقبل کی پیش گوئی کی تھی۔
راج… ہنہ وہ تو اس کے مقدر میں تھا ہی نہیں…
منظر بدلا تھا
اس کی چھوٹی نند کو اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنے کی عادت تھی۔
اس دن بھی ہمیشہ کی طرح اس کے پکائے کھانے پر طرح طرح کے منہ بنا رہی تھی۔ وہ چڑ گئی تھی۔
” کل سے تم خود کھانا پکا لینا…”
بات چھوٹی سی تھی اسے نہیں پتا تھا کہ اتنی بڑھ جائے گی۔
ساس اور نند نے نہ صرف اسے خوب سنائیں بلکہ احمر کے سامنے جانے کیا کچھ کہا تھا کہ وہ غصے سے لال پیلا ہوتا کمرے میں داخل ہوا ۔
”تم نے ماہ نور کو کیا کہا ہے؟” اس کا انداز کسی تفتیشی افسر جیسا تھا۔
”کچھ نہیں… بس وہ …کھانا…” احمر کو یوں غصے میں دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی۔ لفظ گڈ مڈ ہونے لگے…
”ایک کھانا کیا پکانا پڑ جاتا ہے… اس پر تم سو باتیں سناتی ہو… وہ کب سے بیٹھی رو رہی ہے…”
”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا…”
”بکواس مت کرو… جائو معافی مانگو اس سے… منائو اسے…”
”پر میں کیوں معافی مانگوں… جب میں نے ایسا کچھ …”
اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے احمر نے اس کا بازو پکڑا اور اسے کھینچتے ہوئے ماہ نور کے پاس لے آیا تھا۔
”معافی مانگو اس سے…” ہادیہ نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے ایک نظر اسے اور ماہ نور کو دیکھا جو مگرمچھ کے آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
”آپ اس سے پوچھ لیں… میں نے ایسا کچھ …”
”تم سے جو کہا ہے وہ کرو…” احمر اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا اور پھر اسے معافی مانگنی پڑی۔
اس کے بعد ماہ نور تو اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی تھی… اور پھر جھگڑوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو احمر کے سامنے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا۔
اسے یاد آیا کہ احمر نے جب پہلی مرتبہ غصے میں اسے مارا تھا۔ وہ ناراض ہو کر میکے آگئی تھی۔
”کیا ضرورت تھی بات کو بڑھانے کی… خاموشی سے سن لیتیں توبات اتنی نہ بڑھتی… ایک چپ سو لوگوں کو ہراتی ہے…” ابھی تو اس نے اپنے دکھ کہنا ہی شروع کیے تھے کہ امی اُلٹا اسے سمجھانے لگیں…
ان کے نزدیک ”چپ” ہر مسئلے کا حل تھی۔
”ایک چپ سو سکھ…”
ماں سے دکھ کہنے کی حسرت دل میں ہی رہ گئی تھی وہ اس کی سن ہی نہیں رہی تھیں۔
انہوں نے احمر کو فون کیا اور آنے کو کہا تھا۔ وہ شام میں آیا تھا۔ امی داماد کے سامنے بچھی بچھی جا رہی تھیں۔
”تم سمجھ دار ہو بیٹا… اگر اس سے کوئی غلطی ہو جایا کرے تو درگزر کر دیا کرو…” ہادیہ حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
وہ تو سوچے بیٹھی تھی ماں اس کی وکالت کرے گی… اس کے حق میں بولے گی مگر…
وہ تو اسے ہی سمجھائے جا رہی تھیں۔
”چپ” رہنے سے زندگی اچھی بلکہ بہت اچھی گزرتی ہے۔
ہزاروں نصیحتوں کے ساتھ انہوں نے اسے احمر کے ساتھ واپس بھیج دیا تھا۔
جھگڑے کی کی وجہ اس بار بھی ماہ نور ہی تھی تو گھر میں داخل ہوتے ہی اسے ماہ نور سے معافی مانگنی تھی۔
اس دن کے بعد سے ان نے چپ سادھ لی تھی۔
وہ اس چپ سے سو سکھ پا ناچاہ رہی تھی۔
اسے سو سکھ تو نہ ملے البتہ ٹھیک تین ماہ بعد احمر نے اسے طلاق دے دی تھی وہ دوسری شادی کر رہا تھا۔
کسی امیر کبیرآدمی کی بیٹی سے… جو کاروبار میں اس کی مالی مدد کرتے۔
”یہ عورت انتہائی منحوس ہے۔ جب تک میری زندگی میں رہے گی نحوست پھیلائے رکھے گی…”
اس کی ”خاموشی” اس گھر میں کسی کو خوش نہ کر سکی تھی۔
ابھی اسے واپس اپنے گھر جانا تھا، امی کو بتانا تھا کہ آپ کے کہے پر عمل کرنے کے باوجود میرے ہاتھ کیا آیا…
آپ نے ہمیشہ خاموشی اور چپ کا درس دیا… مجھے کیا ملا…؟
مگر وہ یہ صدمہ سہہ ہی نہ سکیں…
بیٹی کا گھر اُجڑ گیا تھا… وہ اس غم کو لے کر زندہ نہیں رہ سکتی تھیں۔ وہ دنیا سے چلی گئیں…
اس کے دکھ سنے بغیر…
”ماں کو کھا گئی منحوس…” خواتین فضیلہ بیگم کی موت پر افسوس کم کر رہی تھیں اور اس ”منحوس” کی زیارت زیادہ کر رہی تھیں۔
بھابھی ہر آنے جانے والی خاتون کو بڑی تفصیل سے بتا رہی تھیں کہ کیسے طلاق کا سنتے ہی فضیلہ بیگم کو دل کا دورہ پڑ گیا تھا۔
بولنا تو وہ کب کا بھول چکی تھی … بس خاموشی سے سرجھکائے بیٹھی رہتی اور پھر بھابھیوں کے ہاتھ مفت کی ملازمہ آگئی تھی۔
ایک ایسی ملازمہ جو چپ چاپ کام کرتی ہے بغیر کسی معاوضے کے۔
”جلدی ناشتہ بنائو… ہاتھ ٹوٹے ہیں کیا…” بچے ہوں یا بڑے، سب اس سے اسی انداز میں بات کرتے تھے۔
بھائی اجنبی بنے رہتے…
اسے آج تک سمجھ نہیں آئی تھی وقت بدل جاتا ہے یا لوگ…
گاڑی کے ہارن کی آواز پر وہ حال میں لوٹی تھی۔
ماضی کی وہ پھٹی پرانی بوسیدہ کتاب فوراً بند ہو گئی تھی۔
بتیس سالہ زندگی کی جمع تفریق کے بعد اس کے حصے میں سوائے ”چپ” کے اور کچھ نہیں آیا تھا۔