چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

سارہ اور عشنا سارہ کے گھر کے قریبی پارک کے کونے والے بینچ پر بیٹھی مشن ایڈونچر کی تیاری کررہی تھیں۔یہ مشن ایڈونچر سارہ کی ممی ناصرہ تسکین کے ماضی سے جڑا ہوا تھا جس کا آغاز عشنا نے کیا تھا۔
سارہ اپنی ممی کے ساتھ پہلے Ontarioمیں رہتی تھی اور کچھ عرصہ پہلے ہی وہ Ontario سے Montrealشفٹ ہوئی تھی اور اُس نے عشنا کے سکول میں ایڈمیشن لے لیا۔سارہ اور عشنا کی دوستی اتنی پرانی نہیں تھی مگر بے حد گہری ہوگئی تھی۔
سارہ ایک ذہین لڑکی تھی، اپنے کام سے کام رکھنے والی، معصوم،خوبصورت، باقی لڑکیوں سے بہت مختلف……گوری رنگت اور سیاہ بالوں والی لڑکی جس کی آنکھیں بے حد اداس تھیں۔ وہ عشنا کو بہت اچھی لگی تھی۔ اسے دیکھ کر اسے محسوس ہوتا تھا کہ وہایک ڈسٹر ب لڑکی ہے۔ اس معاشرے میں جہاں لڑکے لڑکیاں اپنی مرضی کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ زندگی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں، پابندیوں اور روک ٹوک کے بغیر…… اس معاشرے میں کسی اداس یا ڈسٹرب لڑکی کا ہونا بڑی ہی حیرت انگیز سی بات تھی۔
عشنا نے سارہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور بہت کم عرصے میں یہ دوستی بہت گہری ہوگئی۔ سارہ نے اپنی زندگی کے بارے میں عشنا کو بتایا۔
وہ اپنی ممی کے ساتھ آٹھویں فلور کے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتی تھیں۔
اس کی ممی اسے ایک عجیب و غریب سی خاتون لگیں۔ بہت کم بات کرتیں۔ ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہتیں۔
وہ ایک خاموش اور سنجیدہ خاتون تھیں۔ جو صبح ایک سٹور میں جاب کرتیں اور گھر آکر رات کو antidepressent کھا کر سوجاتیں۔ ذمہ داریوں اور کام کے بوجھ نے انہیں تھکا دیا تھا۔
ممی نے اپنے ماضی کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی اور نہ وہ اپنے ماضی کے بارے میں کوئی بات کرنا پسند کرتی تھیں۔ سارہ ان سے کچھ پوچھتی تو وہ اسے ڈانٹ دیتیں۔
انہیں ذرا ذرا سی بات پر غصہ آجاتا۔ وہ stress میں رہتی تھیں۔
سارہ کو عشنا کی صورت میں ایک اچھی دوست مل گئی جس کے ساتھ وہ اپنے دکھ سکھ بانٹ لیا کرتی۔
سکول سے آنے کے بعد وہ اکیلے اپارٹمنٹ میں رہتے رہتے تھک چکی تھی۔ ممی تو اپنی دوائیاں کھا کر سوجاتیں پھر صبح کام پر چلی جاتیں۔ گھر کے تمام کاموں کی ذمہ داری بھی سارہ کے سپرد ہی تھی۔
کبھی وہ سارے کام کرلیتی، کبھی کچھ رہ جاتے، کبھی مو ڈ ہوتا تو گھر اور کچن بھی صاف کرلیتی، ورنہ یونہی ہر چیز بکھری پڑی ہوتی۔
کچن میں تجربات کرتے کرتے تھوڑا بہت کھانا پکانا تو وہ سیکھ ہی چکی تھی۔
سبزیاں، چاول، نوڈلز، جو چیز آسان لگتی وہ بنالیتی۔ پھر کبھی ٹی وی دیکھ لیتی، کبھی لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف ہوجاتی۔ کبھی اپارٹمنٹ کے ساتھ بنے پارک میں آکر بیٹھ جاتی۔
کبھی کبھی اُسے لگتا کہ ممی کے ساتھ وہ بھی بوڑھی ہوچکی ہے۔
اس کے پاپا ان لوگوں کو چھوڑ کر جاچکے تھے۔ ان کے جانے کے بہت عرصے بعد تک بھی ممی ان کا انتظار کرتی تھیں۔ مگر وہ پھر پلٹ کر نہیں آئے۔ ممی کو ان سے بہت محبت تھی۔ اتنی محبت کہ وہ ان کی جدائی کے غم کو بھلا نہیں پائیں۔
سارہ نے بہت بار ممی سے کہا۔ وہ لوگ پاکستان چلے جاتے ہیں۔ ممی کا جواب صرف خاموشی ہوتا۔
پاکستان جانے کے ذکر پر وہ کھوجاتیں۔
”کس منہ سے پاکستان جاؤں گی میں!“
وہ اداسی سے بڑبڑاتیں۔
”پرانی باتیں تو لوگ بھول چکے ہوں گے ممی۔“
سارہ کہتی۔
ممی خاموش رہتیں۔
اور یہ خاموشی طویل ہوجاتی۔ اتنی طویل کہ سارہ کو خوف آنے لگتا۔
وہ عشنا کے ساتھ اپنے مسائل اور احساسات شیئر کرنے لگی تھی۔
عشنا زندگی سے بھرپور لڑکی تھی۔ اسے تھرل اور ایڈونچرز کا شوق تھا۔ اسے زندگی میں بڑی ایکسائٹمنٹ کی خواہش تھی۔ اسے جاسوسی فلمیں دیکھنے اور جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق تھا۔
سارہ پاکستان جانا چاہتی تھی۔ اسے ممی کے ماضی کے بارے میں بہت سی باتیں جاننے کا شوق تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ ممی اس خوف سے باہر آجائیں کہ وہ پاکستان جائیں گی تو نجانے وہاں کیا ہوگا۔ اور سارہ کی مدد کرنے کے لئے ہی عشنا نے اس کی ممی کے ماضی کے بارے میں جاننے کے لئے مشن ایڈونچر کا آغاز کیا تھا۔ دن بدن اسے اس کام میں مزید دلچسپی پیدا ہوتی جارہی تھی۔ مگر امی کے منہ سے سارہ کی ممی کے بارے میں وہ سب کچھ سن کر اُسے بہت افسوس ہوا تھا۔
وہ سارہ کے ساتھ اس کی ممی کے ماضی کے متعلق وہ سب باتیں شیئر نہیں کرسکتی تھی۔
عشنا کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے سارہ نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے رازدارانہ انداز میں پوچھا۔
”تمہاری امی نے ممی کے بارے میں اور کیا بتایا؟“
اس کی آواز میں تجسس تھا جیسے وہ ممی کے بارے میں اور بہت سی باتیں جاننا چاہتی ہو۔
اسے یقین تھا کہ عشنا کی امی نے ممی کے متعلق کچھ اور باتیں بھی ضرور بتائی ہوں گی۔
اس کی بات کے جواب میں عشنا پھیکے سے انداز میں مسکرادی۔
وہ سارہ کو وہ سب کچھ تو نہیں بتاسکتی تھی۔ جو کچھ امی نے اُسے بتایا تھا۔
وہ اسے کبھی بھی ایسی کوئی بات بتانا بھی نہیں چاہتی تھی جس سے اُسے دکھ ہوتا۔
”بس وہی کچھ بتایا جو انہوں نے تمہارے سامنے بتایا تھا۔ کیونکہ تمہاری ممی امی سے سینئر تھیں اور وہ اتنا ہی ان کے متعلق جانتی تھیں۔ کوئی بات نہیں سارہ…… ہم تمہارے پاکستانی رشتہ داروں کے بارے میں بہت جلد پتا کرلیں گے کہ وہ کون ہیں، کہاں رہتے ہیں۔ اور اگر تم پاکستان واپس جانا چاہتی ہو تو، تو دیکھنا تمہارے رشتہ دار تمہیں اور تمہاری ممی کو قبول کرلیں گے اور اپنی فیملی میں وہی statusدیں گے جو تم لوگوں کا حق ہے۔“
عشنا نے اسے تسلی دی اور غیر محسوس انداز میں بات کا رخ ہی بدل دیا۔
سارہ اُس کی بات سنتے ہوئے پارک میں واک کرتے لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔
”مجھے یقین ہے اتنے سال گزر جانے کے بعد ممی کی فیملی نے انہیں معاف تو کردیا ہوگا مگر ممی اس خوف سے نکلنا ہی نہیں چاہتیں کہ اگر ہم پاکستان جائیں گے تو پتا نہیں کیا ہوگا۔ ممی کی فیملی اتنی بھی کنرروٹیو نہیں ہوگی مگر پتا نہیں ممی کو یہ خوف کیوں ہے۔“
سارہ نے سنجیدہ بھری اُداسی سے کہا۔
عشنا نے بہت غور سے ا س کے اُترے ہوئے چہرے کو دیکھا۔
”تم کیا چاہتی ہو سارہ؟“
”میں پاکستان جانا چاہتی ہوں۔“
سارہ نے جواباً کہا۔
”تم پاکستان ضرو رجاؤگی۔“
عشنا نے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اُسے تسلی دی۔
”پاکستان میں ممی کی پوری فیملی ہے۔ یہاں تو اُن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ کب تک خود کو یونہی کام کرکے تھکاتی رہیں گی۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنی فیملی پر اعتبار نہیں کرتیں …… انہیں اور پتا نہیں وہ کس خوف کا شکار ہیں …… اپنی باتیں بھی وہ میرے ساتھ شیئر نہیں کرتیں۔ اگر میں اُن سے کوئی بھی بات پوچھوں تو وہ مجھے جواب ہی نہیں دیتیں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ اس خوف سے باہر آجائیں۔“
سارہ نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
عشنا کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ اس نے بے اختیار نظریں چرالیں۔
وہ سارہ کی ممی کے بارے میں اتنا کچھ جان چکی تھی کہ اب اُسے افسوس ہورہا تھا۔
”تمہاری ممی ڈسٹر ب ہیں۔ انہیں خود بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں۔“
عشنا نے سارہ سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
سارہ نے اس کی بات پر اثبات میں سرہلادیا۔
”ہاں …… پاپا کے جانے کا انہیں بے حد صدمہ ہے۔ وہ پاپا سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ انہیں پانے کے لئے انہوں نے بہت قربانیاں دیں۔ بہت عرصہ تک تو انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔انہوں نے ان کا بہت انتظار کیا مگر وہ واپس ہی نہیں آئے۔“
سارہ نے اداسی سے کہا۔
عشناکو اچانک ایک خیال آیا۔
”پہلے تمہارے پاپا کے بارے میں معلوم کرتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔“
اُس کی آواز پرجوش ہوگئی۔
سارہ نے اُداسی سے اس کی طرف دیکھا اور پھر نرمی سے اُسے ٹوک دیا۔
”پاپا کے بارے میں کچھ بھی پتا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں کہ وہ کہاں ہیں۔ وہ وہیں Ontario میں رہتے ہیں اور انہوں نے ایک انگریز عورت سے شادی کرلی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں خوش ہیں۔ وہ اب ہماری زندگی سے جاچکے ہیں اور میں جانتی ہوں کہ وہ ہماری زندگی میں دوبارہ کبھی واپس نہیں آسکیں گے۔۔“
سارہ نے مدھم مگر سنجیدہ آواز میں کہا۔
عشنا ذرا حیران ہوئی۔ کبھی کبھار سارہ کی گفتگو اکثر عشنا کو چونکا دیا کرتی تھی۔
”تم کو کیسے پتہ؟ہوسکتا ہے کہ تمہارے پاپا واپس آجائیں۔“
سارہ نے عجیب سے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔
”وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔“
”کیوں؟“
وہ حیران ہوئی۔
سارہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئی پھر اُس نے بہت دھیمی آواز میں عشنا کو وہ جواب دیا جسے سن کر عشنا شاکڈ رہ گئی۔ اور ششدر ہ انداز میں پلکیں جھپکائے بغیر اُسے دیکھتی رہی۔
اُسے قطعاً بھی یہ جواب سننے کی توقع نہیں تھی۔
(باقی آئندہ)

Loading

Read Previous

ماں کا آکاش

Read Next

چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!