چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

”تو تم نے اس لڑکی کا آٹو گراف بھی لے لیا۔“
سوہا نے ذرا حیران ہوکر ہنستے ہوئے کہا۔
یہ ایک ناقابل یقین اور بڑی دلچسپ بات تھی۔
بھلا کہاں زوار اور کہاں ٹین ایج والی سرگرمیاں اور دلچسپیاں!
وہ اس بات پر محض مسکرایا۔
”تم اب تک بے شمار ایکٹرز، سنگرز اور نامور شخصیات سے ملے ہو مگر تم نے آج تک کبھی کسی کا آٹوگراف نہیں لیا زوار۔“
سوہا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ زوار لوگوں کو اتنی اہمیت دینے کا عادی نہیں ہے۔
”اُن میں اور کوئین میں بہت فرق ہے۔“
وہ اس کی بات پر محظوظ ہوتے ہوئے ذرا سا مسکرا کر بولا۔
سوہا کچھ دیر دلچسپی سے اُسے دیکھتی رہی۔ وہ اُسے پہلے سے کہیں بہتر محسوس ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک تھی۔ آج اس کے چہرے پر وہ تاثر نہیں تھا جس سے سوہا کو خوف آتا تھا۔
”زوار!بعض دفعہ ہم اپنے interestsکو خود دریافت نہیں کرپاتے۔ ہمیں خود علم نہیں ہوپاتا کہ ہماری دلچسپی کن چیزوں میں ہے، یا یوں کہہ لو کہ بعض دفعہ انسان خود کو پہچان نہیں پاتا۔ اسی طرح تمہیں بھی اب ہی پتا چلا ہے کہ تمہاری دلچسپی دراصل تھیٹر میں ہے۔ چلو تم نے اپنے ایک انٹرسٹ کو توکھوجا۔“
سوہا نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”مجھے تھیٹر میں کوئی دلچسپی نہیں ہے سوہا۔ مجھے وہ لڑکی اچھی لگی اس لئے میں نے اُس سے آٹوگراف لے لیا۔“
وہ چند لمحے رُکا پھر کھڑکی سے باہر نظر آتے سرسبز کو دیکھتے ہوئے صاف گوئی سے بولا۔
سوہا نے اس کی بات سنتے ہوئے اس کی فائل کھولی اور بال پوائنٹ کا کیپ اُتارا۔
”دراصل تم اس لڑکی سے نہیں بلکہ کوئین کے کردار سے متاثر ہوگئے ہو، تمہیں رائل کہانیاں fascinate کرتی ہیں، ہر انسان کے کچھ پسندیدہ کردار ہوتے ہیں۔ جیسے شیکسپیئر نے زیادہ تر ملکہ، بادشاہ شہزادے اور شہزادیوں پر لکھا۔ورڈزورتھ نے ٹیچر پر لکھا، جان کیٹس نے محبت اور جدائی پر لکھا، اسی طرح ہر لکھنے اور پڑھنے والے کے مخصو ص interests ہوتے ہیں۔کچھ کردار کسی کے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ اور 95پرسنٹ لوگ تمہاری طرح کے کرداروں کو پسند کرتے ہیں۔“
سوہانے تجزیہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ صرف مسکرایا اس نے جواب نہیں دیا،نہ تردید کی، نہ تائید کی۔
”خیر تم اب کیا چاہتے ہو؟“
سوہا نے اس کی فائل میں نوٹس لکھتے ہوئے پوچھا۔
”اس سے ملنا چاہتا ہوں دوبارہ۔“
وہ مدھم مگر بھاری آواز میں بولا۔
”تو جاؤ، اس سے ملو…… اس سے بات کرو۔“
سوہا نے اسے مشورہ دیا۔
زوار نے گہرا سانس لیتے ہوئے کرسی سے ٹیک لگالی۔
”ہاں جاؤں گا…… میں نے اُس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر مجھے وہ ذرا مغرور سی لڑکی لگتی ہے۔“
اس نے کہا۔
”اچھا واقعی؟“
وہ چونکی۔
”ہاں …… کوئین والی ساری خصوصیات ہیں اس میں۔“
وہ مسکرایا۔
”ہوسکتا ہے کہ تم بھی اُسے مغرور آدمی لگے ہو۔“
وہ مسکرائی۔
”ہاں …… شاید اس نے مجھ سے بات تو کی مگر مجھے کوئی اہمیت نہیں دی۔وہ شاید زوار آفندی کو جانتی نہیں ہے۔ اس کے لئے تو میں صرف اس کا عام سا فین ہوں جو اس کا تھیٹر ڈرامہ دیکھنے آیا اور اُس کے آٹوگراف پر ہی خوش ہوگیا۔“
اس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”زوار!پہلی ملاقات میں لوگ ذرا محتاط ہوکر ہی ملتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ لوگ مغرور ہیں۔ دو چار بار اس سے ملوگے تو وہ تمہیں مغرور نہیں لگے گی۔“
سوہا نے کہا۔
وہ اس کی بات غور سے سن رہا تھا۔
”پتا نہیں کیوں، اس لڑکی نے مجھے بہت ایٹریکٹ کیا ہے۔ میں اُسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پاتا۔ سوچتا رہتا ہوں اس کے بارے میں۔“
وہ اپنے دل کی بات اس کے ساتھ شیئر کررہا تھا۔
”تو دوستی کرلو اُ س سے۔“
اس نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”کوشش کروں گا۔“
وہ مسکرایا تھا۔
”زوار! جو چیزیں ہم سے دور ہوتی ہیں وہ ہمیں اٹریکٹ کرتی ہیں۔ پاس آنے پر ان کی وہ اہمیت نہیں رہتی اور وہ بہت عام سی لگنے لگتی ہیں۔ یہ جو چارم ہوتا ہے نا! یہ فاصلوں میں ہوتا ہے، چیزوں یا لوگوں میں نہیں ہوتا۔ اگر تم اُس کی facination سے نکلنا چاہتے ہو تو اس کے قریب ہوجاؤ۔“
سوہا نے کہا۔
زوار بغور ا س کی بات سن رہا تھا مگر خاموش رہا۔
سوہا نے توقف کے بعد اپنی بات جاری رکھی۔
”اس لڑکی سے مل کر تم میں بڑا پوزیٹو چینج آیا ہے زوار…… اب تمہاری activities کا دائرہ وسیع ہورہا ہے، اور تم آہستہ آہستہ سوشل ہورہے ہو۔ تمہاری شخصیت میں بڑی زبردست تبدیلی آئی ہے۔Positive اچھا سائن ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ انسان نارمل زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا ہے اور وہ خوش رہنا چاہتا ہے۔ تم نئے دوست بناؤ، دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گزارو۔ اپنے دل میں منفی جذبات کو جگہ نہ دو۔ اُن چیزوں کے بارے میں نہ سوچو جو تمہارے ڈپریشن میں اضافہ کرتی ہیں، اور لوگوں کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا کرو، لوگوں کو معاف کردیا کرو۔“
سوہا نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
وہ اس کے آخری جملے پر چونکا۔
”ماہم کی بات کررہی ہو؟“
اس نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
سوہا کے آخری جملے میں اس کے لئے ایک واضح پیغام تھا۔
سوہا کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئی۔
پھر اُس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”نہیں …… میں ستارہ آنٹی کی بات کررہی ہوں، تمہاری ممی کی……“
اس کی آواز مدھم ہوگئی۔
زوار کے چہرے کے تاثرات یکلخت بدل گئے۔ آہستہ آہستہ وہ اسے اسی پوائنٹ پر لے آئی تھی جس پر وہ آنا نہیں چاہتا تھا۔
زوار کے چہرے کے تاثرات سے لگتا تھا جیسے اسے یہ جملہ بہت برا لگا ہے۔
وہ کچھ نہیں بولا۔
ایک جھٹکے سے اٹھا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
سوہا اسے روک نہ پائی۔ اس نے گہرا سانس لے کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی۔
وہ اس کے ردعمل کے بارے میں پہلے سے جانتی تھی۔
اور اس کے باوجود اس نے یہ جملہ کہاتھا۔
٭……٭……٭
امی عشنا کے کمرے میں آئیں تو بے حد سنجیدہ اور قدرے خفا سی تھیں۔
عشنا بیڈ پر بیٹھی لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف تھی۔
امی اُس کے کمرے میں آئی تھیں جس کامطلب تھا کہ کوئی بہت ہی ضروری بات تھی۔
امی اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ گئیں۔
”عشنا! تم اس لڑکی سارہ سے دوستی ختم کردو۔“
انہوں نے مدھم مگر حکمیہ انداز میں کہا۔
حالانکہ وہ لوگ جس معاشرے میں رہتے تھے وہ بچوں کوروکنے ٹوکنے والا معاشرہ نہیں تھا۔ عشنا ان کی اس بات پر انہیں تحیر سے دیکھنے لگی۔
”کیوں ممی؟“
یہ کیسی عجیب بات کہی تھی ممی نے۔
وہ تو اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ سارہ اس کی بیسٹ فرینڈ تھی۔
”کیونکہ وہ ناصرہ تسکین کی بیٹی ہے۔“ امی نے سرد انداز میں کہا۔
عشنا! ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔
”تو کیا ہوا امی!“
اُسے ان کی بات سمجھ ہی نہیں آئی۔ اس معاشرے کے بچے چپ چاپ بڑوں کی بات مان جانے والے نہیں تھے۔
”ناصرہ تسکین کالج کی بدنام ترین لڑکی تھی…… اُس زمانے میں اس نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔ سارے کالج میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی۔ اس کے غریب ماں باپ شرمندگی سے اپنا منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ اس نے نہ اپنے والدین کی عزت کا خیال کیا تھا اور نہ کالج کی ساکھ کا…… وہ اس قابل ہی نہیں کہ اس کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ بھی رکھا جائے۔“
انہوں نے سنجیدہ مگر سرد انداز میں کہا۔
عشنا حیرانی سے یہ انکشاف سن رہی تھی۔
”کس کے ساتھ شادی کی تھی انہوں نے؟“اس نے بے ساختہ پوچھا۔
”کوئی بہت رئیس اور امیر کبیر آدمی تھا۔ ناصرہ کے والدین تو بے چارے غریب تھے۔ باپ سبزی بیچتا تھا…… ہاں خود وہ خوبصورت تھی، لڑکوں سے دوستی کرکے ان سے خوب پیسے بٹورتی تھی، نہ اس کی شہرت اچھی تھی اور نہ ہی کوئی اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ پھر جیسے ہی اُسے ایک رئیس آدمی ملا، اس نے گھر سے بھاگ کر اس کے ساتھ شادی کرلی…… تو دیکھ لو نتیجہ…… وہ آدمی بھی اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ ہوتا ہے ماں باپ کو دکھ دینے کا انجام!“
امی کے انداز میں ناصرہ کے لئے نفرت تھی۔
یہ انکشافات عشنا کے لئے بڑے سنسنی خیز تھے۔ وہ جس مشن ایڈونچر پر کام کررہی تھی وہ اسے بہت جلد مکمل ہوتا نظر آرہا تھا۔
وہ ایک ٹین ایجر لڑکی تھی جسے ہارر موویز دیکھنے کا شوق تھا اور ایڈونچرز کا کریز تھا۔
”امی! سارہ کی ممی نے جو کچھ بھی کیا اس میں سارہ کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ اُسے تو اِن سب باتوں کا علم بھی نہیں ہوگا۔۔“
عشنا نے سوچتے ہوئے کہا۔
”عشنا جو میں کہہ رہی ہوں اس پر عمل کرو۔ناصرہ کی بیٹی بھی ناصرہ جیسی ہی ہوگی۔ تم اس لڑکی سے دور رہو۔“
امی نے اُسے ہلکا سا ڈانٹا۔
عشنا کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اس کا امی کی بات پر عمل کرے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
”امی! اگر سارہ کی ممی اپنی مرضی سے شادی کرہی رہی تھیں تو ان کے پیرنٹس کو چاہیے تھا کہ وہ انہیں معاف کردیتے۔ ایک لڑکی کے پاس یہright ہے کہ وہ اپنی پسند سے شادی کرسکے۔ اس میں بھلا ایسی کون سی بڑی بات ہوگئی۔ بے چاری ناصرہ آنٹی کو خواہ مخواہ لوگوں نے اتنا برا بھلا کہا…… آخر انہوں نے شادی ہی تو کی تھی۔“
عشنا نے سارہ کی امی سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
امی کو اس پر غصہ آیا۔
”عشنا تم یہ باتیں نہیں سمجھ سکتی…… پاکستان میں لوگ ایسے نہیں سوچتے…… لڑکیوں کی غلطیوں کو معاف نہیں کرتے۔“
امی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”جاہل لوگ ایسا کرتے ہوں گے…… میں تو اس بات سے بالکل بھی ایگری نہیں کرتی۔سارہ میری بیسٹ فرینڈ ہے اور ایک بہت اچھی لڑکی ہے۔ میں اس سے دوستی ختم نہیں کرسکتی۔ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس کی بیٹی ہے۔“
عشنا نے حتمی انداز میں کہا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے لگتا تھا کہ اس نے امی کی بات کا بے حد برا مانا ہے۔
امی نے اپنا سرتھام لیا۔
”کاش ناصرہ تسکین کی بیٹی میری بیٹی کا پیچھا چھوڑ دے۔“
امی عاجز آکر بڑبڑائی۔
عشنا کسی سو چ میں گم ہوگئی۔ ان سب واقعات اور انکشافات کو جوڑنے میں مصروف ہوگئی۔
مشن ایڈونچر…… ناصرہ تسکین……
اُسے اب بہت سارے کام کرنے تھے۔
اور وہ بھی اپنی امی سے چھپ کر……
٭……٭……٭
تھیٹر ڈرامے کے ختم ہونے کے بعد رانیہ اور اس کے کولیگز نے کچھ دنوں کا بریک لیا اور اب ان لوگوں نے کافی دنوں بعد ڈرامے کی کامیابی کی خوش کو سلیبریٹ کرنے کے لئے تھیٹر میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔
اسی دوران اُسے فارس کا میسج آیا کہ وہ اس سے ملنے تھیٹر آرہا ہے۔
یہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔ بھلا فارس اور تھیٹر! وہ تو کبھی اس کا ڈرامہ دیکھنے بھی نہیں آیا تھا۔
فارس اس کا تایا زاد اور منگیتر تھا۔
وہ آج کی نسل کا روشن خیال لڑکا تھا جس نے رانیہ پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی تھی۔
رانیہ کو پرفارمنگ آرٹس اور تھیٹر کا شوق تھا سو اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ فارس کو خود تھیٹر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر ا س نے رانیہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کبھی اسے منع نہیں کیا تھا۔
اس کے لئے رانیہ کی خوشی اہم تھی۔
فارس اور رانیہ بچپن کے دوست تھے، کزنز بھی تھے اور وقت کے ساتھ یہ دوستی محبت میں بدل گئی اور اس محبت کو انہوں نے رشتے کا نام دے دیا۔
قریبی رشتہ داری کے باوجود رانیہ کے گھر والوں کو فارس کے رشتے پر بہت سارے اعتراضات تھے۔ مگر انہیں رانیہ کی ضد اور خواہش کی وجہ سے اس منگنی کے لئے ماننا ہی پڑا۔
فارس رانیہ سے دو سال چھوٹا تھا۔
اس کے گھر کے حالات نے کچھ ایسا رخ پلٹا کہ وہ گریجویشن سے آگے نہیں پڑھ پایا۔
جیمو ماموں کو اعتراض یہ تھا کہ فارس ہمیشہ سے ایک نالائق اسٹوڈنٹ رہا تھا۔ بچپن میں وہ سکول سے بھاگ جاتا تھا۔ کالج میں جاکر بھی ا س نے پڑھنے لکھنے میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ بمشکل اس نے تھرڈ ڈویژن میں بی اے کلیئر کیا تھا۔ اب تھرڈ ڈویژن میں بی اے پاس کرکے وہ بھلا کیا نوکری کرتا۔
امی کو اعتراض تھا کہ وہ رانیہ سے دو سال چھوٹا ہے اور امیچور ہے، غصے کا تیز ہے۔ اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنالیتا ہے۔ رانیہ کی امی کی کبھی فارس کی ماں سے بھی نہیں بنی تھی۔ قریبی رشتہ داری کے باوجود دونوں خاندانوں کا ایک دوسرے کے گھر اتنا آنا جانا بھی نہیں تھا۔ رانیہ کی امی کے خیال میں فارس کی امی تنک مزاج خاتون تھیں اور ان کے دل میں ان لوگوں کے لئے رنجشیں تھیں اور وہ لوگ کبھی ان کے خیرخواہ نہیں بن سکتے۔
عنایا، ثمن اور ٹیپو بھی فارس کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ فارس نے کبھی ان کے ساتھ اپنائیت سے بات نہیں کی تھی۔
ان کے خیال میں وہ ایک بداخلاق اور بدمزاج بندہ تھا،لیکن رانیہ فارس سے بے حد محبت کرتی تھی۔ اتنی محبت کہ اسے فارس کی خامیاں نظر ہی نہیں آتی تھیں۔
اس کے نزدیک یہ سارے اعتراضات بے بنیاد تھے۔ فارس کو برا بھلا کہنے والا ہر بندہ اسے اپنا دشمن لگتا تھا۔
اس منگنی سے پہلے ہر بندے نے اسے سمجھایا مگر بے سود، سب گھر والوں کی نظر میں یہ ایک بے جوڑ رشتہ تھا۔ ماموں سمجھاتے رہے، امی نے سختی کی مگر رانیہ کی تو ایک ہی ضد تھی۔ اسے اپنے گھر والوں سے گلہ تھا کہ وہ لوگ فارس کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی عزت کرتے ہیں۔
دراصل رانیہ اور فارس کی محبت کی کہانی بڑی عجیب و غریب کہانی تھی۔ محبت سے زیادہ مفادات اہم تھے۔ خوشیوں سے زیادہ شرائط کا عمل دخل تھا۔ مگر رانیہ کو ابھی ان مسائل کا احساس نہیں تھا۔
فارس اس سے ملنے آیا تو بے حد سنجیدہ تھا۔ ماتھے پربل تھے اور موڈ آف سا لگتا تھا۔
بلوجینز، گرے شرٹ کے ساتھ اس نے جوگرز پہن رکھے تھے۔ اس کا قد درمیانہ تھا اور وہ قبول صورت کا مالک تھا۔
وہ دونوں ہال کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔
”اتنا تو میں جانتی ہوں کہ تم کوئی اہم بات کرنے کے لئے آئے ہو!“
رانیہ نے اپنا پرس پیروں کے پاس رکھتے ہوئے خوشگوار انداز میں کہا۔
فارس کی سنجیدگی برقرار رہی۔
”ہاں تمہارا اندازہ صحیح ہے۔ میں اپنی اور تمہاری شادی کی بات کرنے آیا ہوں۔“
وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
”یہاں؟…… میرا مطلب ہے کہ یہ بات تو گھر پر کرنے والی ہے۔“
وہ حیران ہوتے ہوئے بولی۔
”مجھے یہی مناسب لگا کہ یہ بات یہاں آکر کرلوں۔ تمہارے گھر والے کہاں کسی بات کو آسانی سے سمجھتے ہیں! اور ہماری تو ہر بات میں انہیں اعتراض کرنے کی عادت ہے۔ میں پھر بھی تمہاری فیملی کی عزت کرتا ہوں۔ اور لحاظ کی وجہ سے ان کے سامنے خاموش ہوجاتا ہوں۔ اس لئے میں نے سوچا کہ پہلے تم سے بات کرلوں۔“
اس نے اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ انداز میں کہا۔ رانیہ نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
”ہاں …… کہو۔“
وہ ا س کی طرف متوجہ تھی اور غور سے اس کی بات سن رہی تھی۔
”میں اب شادی میں دیر نہیں کرنا چاہتا ہوں مگر……“
وہ کہتے ہوئے ذرا رُکا اور کچھ سوچتے ہوئے ٹھہر کر رانیہ کو دیکھنے لگا۔
وہ بات مکمل ہونے کی منتظر تھی کہ دفعتاً کوئی ان کے قریب آکر رکا تھا۔
وہ دونوں جو باتوں میں محوتھے، آہٹ پر ذرا چونکے۔
”ایکسکیوزمی۔“
کوئی ان سے چند قدم کے فاصلے پر آکھڑا ہوا۔ رانیہ اور فارس نے ایک ساتھ آنے والے کی طرف دیکھا۔
وہ کوئی بہت شاندار سا بندہ تھا۔
اونچا لمبا، گھنی مونچھوں والا، سیاہ پینٹ اور سیاہ شرٹ میں ملبوس، کلائی میں قیمتی گھڑی پہنے ہوئے، اس کے پرفیوم کی مہک دور تک پھیل گئی تھی۔
اتنا شاندار بارعب اور مقناطیسی کشش کا حامل بندہ کہ دیکھنے والا بے ساختہ چونک جاتا۔
”آپ۔“
رانیہ نے اُسے پہچان لیا تھا۔
وہ رانیہ کی آنکھوں میں پہچان کے رنگ دیکھ کر مسکرایا۔
”جی…… میں آپ کا تھیٹر ڈرامہ دیکھنے آیا تھا اور آپ سے آٹوگراف بھی لیاتھا۔“
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”جی ہاں۔“
اسے یاد تھا اور وہ مروتاًمسکرائی۔
میں دو چار بار تھیٹر آیا ہوں مگر پھر آپ سے ملاقات ہی نہیں ہوپائی۔“
اس نے اُسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ اُسے بتا نہیں پایا کہ وہ تو یہاں روز آتا رہا تھا۔ مگر رانیہ اُسے یہاں پھر نظر ہی نہیں آئی تھی۔
”ڈرامے کے بعد میں نے کچھ دنوں کا بریک لیا تھا۔ آپ بتائیں …… آپ کس سلسلے میں مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں!“
اس نے مروتاً کہا۔
”میں ایک تھیٹر پلے کے سلسلے میں آ پ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔“
اس نے شائستہ انداز میں کہا۔
وہ آج پھر اُسے ایک مغرور لڑکی لگی تھی۔ وہ آج کوئین والے حلیے میں نہیں تھی مگر کسی ملکہ کی طرح ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔ لمبے بال آدھے بندھے، آدھے کھلے ہوئے تھے۔ گلابی رنگ کی شلوار قمیض پر اس نے سرخ دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔ کلائی میں ہلکا سا بریسلیٹ اور ہاتھ میں بس ایک انگوٹھی تھی۔ اس نے سنہری چل پہن رکھی تھی۔پیروں کے پاس اس کا پرس پڑا تھا۔ وہ ایک سادہ مگر خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پارہا تھا۔
”تو پھر آپ اس سلسلے میں آرگنائزر سے بات کریں۔“ اس نے فارمل انداز میں جواب دیا۔
اُسے اس بندے کے دیکھنے کے انداز اور اس کی گہری نظروں سے خوف محسوس ہورہا تھا۔
”اوکے…… شیور۔“
وہ اسی انداز میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ساتھ ساتھ اس کی توجہ رانیہ کے ساتھ بیٹھے فارس پر بھی تھی۔
”یہ شاید آپ کے Co-star ہیں۔ مگر انہیں تو میں نے ڈرامے میں نہیں دیکھا تھا۔“
وہ خود بھی نہیں جانتا کہ اس نے یہ جملہ کیوں کہا۔
فارس اور رانیہ دونوں چونکے۔
پھر رانیہ نے مسکرا کر فارس کا تعارف کروایا۔
”ارے نہیں …… ان کا تھیٹر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تو میرے منگیتر ہیں۔“
زوار کے چہرے پر سایہ سالہرایا۔
”منگیتر!“
اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”جی۔“
وہ مسکرائی۔
اس کی مسکراہٹ یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ اس منگنی سے بہت خوش تھی۔
”اوہ اچھا!“
وہ بمشکل مسکرایا۔
تو ملکہ کی زندگی میں ایک بادشاہ بھی تھا۔
”چلیں …… میں آ پ کے آرگنائزر سے مل لیتا ہوں۔“
وہ فارس کو چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں بولا۔ وہ رانیہ کو یہاں دیکھ کر کتنا خوش ہوا تھا اور اس کی منگنی کے بارے میں سن کر یہ خوشی تتلی بن کر اُڑ چکی تھی۔
”جی ٹھیک ہے۔“
رانیہ نے فارمل اندازمیں کہا۔
زوار واپس پلٹ گیا اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
اُس کے وہاں سے جاتے ہی رانیہ فارس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”ہاں …… تم بتاؤ…… تم کیا کہہ رہے تھے؟“
”کون تھا یہ آدمی؟“
فارس نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا۔
رانیہ نے لاعلمی سے کندھے اُچکا دیئے۔
”پتا نہیں کون ہے…… تھیٹر ڈرامے دیکھنے آتا رہتا ہے۔“
”مجھے یہ آدمی کچھ عجیب لگاہے۔“
فارس نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ہمیں کیا فارس…… عجیب ہو یا غریب ہو تم وہ بات بتاؤ جو بتانے آئے ہو۔“
رانیہ نے ا س آدمی کے ذکر میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔
فارس کچھ دیر سوچتا رہا۔
پھر اس نے سنجیدگی سے اپنی بات شروع کی۔
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

ماں کا آکاش

Read Next

چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!